ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
6 ۔ ہر وقت اپنے اوپر حق تعالٰی کی رحمت دیکھتا ہے کہ ایسے نالائق کو ایسی نعمتیں عطا فرماتے ہیں ۔ 7 ۔ اس حدیث کے معنی برائے العین دیکھتا ہے کہ مغفرت عبد کی عمل سے نہ ہوگی رحمت حق سے ہوگی وغیرہ ذالک مما لایحصی ٰ ۔ 8 ۔ فرمایا کہ سالک کو خطرات منکرہ سے پریشان نہ ہونا چاہیے نہ ان کی بناء پر اپنے کو مردود سمجھنا چاہیے ۔ اکثر عادۃ اللہ یہی ہے کہ بعد وصول تام خطرات فنا ہوجاتے ہیں ۔ اگر بمقتضائے اسباب ومصالح خاصہ پھر بھی فنا نہ ہوں تب بھی کچھ غم نہ کرے کیونکہ خطرات غیر اختیار یہ پ رمطلق مواخذہ نہیں ۔ نہ وہ معصیت ہیں ، البتہ اذیت و کلفت ضرور ہوتی ہے مگر اس پر بھی اجر ملتا ہے اور درجے بڑھتے ہیں ۔ 9 فرمایا کہ خطرات کی خاصیت بجلی کے تار کی سی ہے کہ اگر اسکو اپنی طرف کھینچنے کی نیت سے ہاتھ لگایا جائے تب بھی وہ لپٹتا ہے اور اگر ہٹانے کی نیت سے ہاتھ لگایا جائے تو بھی وہ لپٹتا ہی ہے ۔ بس خیرت اسی میں ہے کہ اس کو ہاتھ ہی نہ لگایا جائے نہ جلبا نہ سلبا ۔ اسی طرح خطرات دوساوس سے امن کی صورت یہی ہے کہ ان کی طرف التفات ہی نہ کیا جائے نہ جلبا نہ دفعا ۔ 10 ۔ فرمایا کہ قلب کی مثال شاہی سڑک کی سی ہے ۔ جس پر میرا ، غریب شریف رذیل سب چلتے ہیں کسی کو حق نہیں کہ ایک دوسرے کو روکے ۔ اگر چمار اور بھنگی بھی چل رہے ہیں تو حرج ہی کیا ہے وہ اپنے راستے جا رہے ہیں یہ اپنے راستے چلتا ہے ۔ اسی طرح قلب کی ساخت ہی من جانب اللہ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اس میں اچھے برے سبھی قسم کے خیالات کا وردود ہوتا ہے ۔ کسی کو اس مطالبہ کا حق نہیں کہ میرے قلب میں اچھے ہی اچھے خیالات آیا کریں برے خیالات بالکل آئے ہی نہیں ۔ اگر بلا اختیار برے خیالات آتے ہیں تو کیا ڈر ہے ۔ ہاں قصدا برے خیالات نہ لائے نہ قصدا ان کوباقی رکھے اور پھر اطمینان وسکون کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہے خطرات منکرہ کی طرف التفات ہی نہ کرے ۔ خطرات پر مغموم ہونا اس سے قلب میں ضعف عارض ہوتا ہے اور خطرات کا زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور سخت اذیت پہنچتی ہے اس لئے کہ ان کی طرف التفات ہی نہ کیا جائے ۔ کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ یہ سواء اعتقاد سے ناشی نہیں بلکہ اس کو ذالک صریح الایمان فرمایا ہے پس بجائے مغموم ہونے کے خطرات کو علامت ایمان