ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
کے مقتضا پر عمل نہیں یعنی زباں سے اپنی تفضیل اور دوسرے کی تنقیص نہ کرے نیز دوسرے کے ساھ برتاؤ تحقیر کا نہ کرے ۔ اور اگر قصدا ایسا سمجھتا ہے یا سمجھنا تو بلا قصدا ہوا لیکن اس کے مقتضاء مذکور پر بقصد عمل کرتا ہے تو مرتکب کبر کا اور مستحق ملامت اور عقوبت ہے اور اگر اس علاج کے ساتھ زبان سے بھی اس کی مدح وثنا کرے اور برتاؤ میں اس کی تعظیم کرے تو یہ اعون فی العلاج ہے ۔ زیادہ عمل کی توفیق سے غوائل عجب کا اندیشہ ہے تحقیق : ایک صاحب علم نے عرض کیا کہ حضرت دنیاوی ارادے کبھی اکثر ٹوٹتے رہتے ہیں ۔ اور دینی تو کوئی مشکل سے پور ہوتا ہے ۔ پانچ کی الٹی سیدھی نماز کے علاوہ جماعت وتہجد تک کا التزام نہیں قائم رہتا برسوں سے ہی حال ہے اب ہمت بالکل ٹوٹتی جارہی ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی حکیم ورحٰیم ہیں بندوں کی مصلحت کو ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے ۔ زیادہ عمل کی توفیق سے دیگر غوائل کا اندیشہ ہوسکتا تھا مثلا عجب کا پھر اسی میں اللہ تعالٰی کے تصرف و قدرت اور اپنے عجز و عبدیت کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے ۔ اذکار واشغال اور تمام فضائل کی بڑی غایت مشاہدہ حق واستحضار ہے الحمد اللہ وہ اس طرح بھی حاصل ہے ۔ تحقیق : انہیں صاحب علم نے لکھا کہ دینی امور میں اردوں کے اس ٹوٹتے رہنے سے کبھی کبھی اپنی زندگی کا خیال آتا ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ یہ خیال صحیح نہیں ۔ بعد اور راندگی کی علامت غفلت و بے پروائی ہے جیسا کہ اس قسم کے لوگوں میں مشاہدہ رہتا ہے نہ کہ کوتاہیوں کا احساس اور صدمہ وقلق ۔ ارادہ اور نیت پر بھی اجر ملتا ہے تحقیق : ان ہی صاحب علم نے عرض کیا کہ ارادوں کی اس بے بسی سے بعض اوقات جی چاہتا ہے کہ بس ارادہ کیا ہی نہ کروں لیکن پھر بھی قدرت نہیں ۔ ارشاد فرمایا ارادہ و نیت کا اجر تو بہرحال حاصل ہوتا ہے اس کو مفت کیون ضائع کیا جائے عمل کی کوتاہیوں پر استغفار کرتے رہنا چاہیے لیکن استغفار کے بعد پھرکام میں لگ جانا چاہیے ۔ہر وقت کوتاہیوں کا مراقبہ مضر ہے ۔ مایوسی وپست ہمتی پیدا ہوتی ہے ۔ حضرت شیخ اکبر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ توبہ اور استغفار کے بعد ماصی کا ذہول قبول توبہ کی علامت ہے ۔ اس زمانہ میں خاص کر رجاء کا غلبہ بھی مفید ہے ۔ میں تو احیاء العلوم میں کتاب الخوف کا حو حصہ ہے اس کے مطالعہ منع کرتا ہوں ۔