Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

9 - 16
قدیم اور جدید معاشی نظریات
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

معاشیات کاقدیم تصوراورطرزعمل
معیشت اورتجارت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خودانسان کی، احتیاج برائے مبادلہ(Need of Exchange)کی جڑیں زمانے کے اس دورسے پیوستہ ہیں جس وقت دوانسانوں نے آپس میں دومطلوبہ چیزوں کاتبادلہ کیا،البتہ تجارت نے بحیثیت ایک پیشے اورمعاشی کاروبارکی باقاعدہ شکل حضرت سلیمان علیہ الصلاة والسلام کے زمانے میں اختیارکی، ان کے تجارتی بیڑے تھے اوران کے تجارتی ایجنٹ (Agent) مختلف شہروں میں وہاں کے تجارتی احوال سے باخبررکھنے پرمامورتھے۔ (دائرة المعارف لفریدوجدی:540/2،بیروت)

یونانیوں کی معاشی سرگرمیاں
یونانیوں نے اپنے دورحکومت میں تجارت کے پیشے کوخوب ترقی دی،یہاں تک کہ ان کوسیاسی اورمعاشی دونوں طرح کاتفوق حاصل رہا،ان کے بعدرومیوں کے حکم رانوں ”بومی“ اور”آغوست“ کے دورمیں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کومزیدعروج ملا،لیکن رومی بادشاہ” تبیر“کے زمانہ میں معاشی زوال کی ابتدا ہوئی اورآئے روزاس میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اگرچہ بعد کے کئی رومی حکم رانوں نے اسے روبہ زوال ہونے سے بچانے کی بہت کوششیں کیں،لیکن ان کی کوئی کوشش اورمحنت بارآورثابت نہ ہوسکی۔(حوالہ بالا:540/2)

قدیم عرب کامعاشی نظام
زمانہ گزرتارہااوریوں عربوں کادورشروع ہوا،ان کے معاشی حالات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ قدیم عرب کامعاشی نظام اورطرزعمل گوکہ آج کے جدیدمعاشی نظامو ں کی طرح کوئی مکمل نظام تو نہیں تھا،لیکن چوں کہ وہ بھی انسانوں کاوضع کردہ ایک نظام تھا،اس لیے اس میں ایک معاشی نظام کے تمام بنیادی عنصرپائے جاتے تھے،جن کی بنیادوں پرتہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ نئے معاشی نظاموں کی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔

یہ بات توروزروشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان نے جونظام بھی ہدایت الہیہ کی روشنی اورراہ نمائی کے بغیرمحض اپنی عقل وفہم اورذاتی تجربے کی بنیادپروضع کیا،اگرچہ ظاہربینوں کواس میں نفع ہی نفع نظرآتاہے،مگرپھربھی یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے اندر خامیاں اورنقصات کوپنہاں کیے ہوئے ہوتا ہے، جنہیں یاتواصحاب اقتدارکے ظلم وجبرنے دبایاہوتاہے،یازمانے کی چکاچوند، اغراض ومفادات کی دبیزچادرنے چھپایاہواہوتاہے؛کیوں کہ انسانی عقل ناقص ہے، کامل نہیں کہ اس کی بنیادپرکوئی بے عیب نظام وضع کیاجاسکے اوروہ خامیوں سے مبرّاہو،ایک مکمل اوربے عیب نظام کے لیے انسانی عقل وفہم کے ساتھ احکامات وہدایات الہٰیہ کی راہ نمائی بھی ناگزیرہے۔

عصرجاہلیت میں عرب کامعاشی نظام
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے معاشی حالات کاجائزہ لینے سے ان کے مندرجہ ذیل معاشی پہلوہمارے سامنے آتے ہیں:
تجارت، زراعت، صنعت وحرفت، دیگرپیشے، غارت گری، متفرقات

تجارت
عرب قوم کا دنیا کی دیگر اقوام عالم میں عمومی تعارف بحیثیت تجارت پیشہ قوم کے تھا،مکہ مکرمہ میں بیت اللہ واقع ہونے کی وجہ سے اس زمانہ میں بھی اسے تقدس واحترام حاصل تھا،اسے دنیاکامحفوظ ترین مقام جانا جاتا اور دنیا کے مختلف خطوں سے حجاج اپناتجارتی سامان لا کر یہاں فروخت کرتے اوریہاں سے خریداہواتجارتی سامان دنیاکے دیگر علاقوں میں لے جاتے تھے،اس طرح مکہ مکرمہ کوزمانہ قدیم سے دینی شرافت کے ساتھ ایک بین الاقوامی تجارتی مرکزہونے کابھی درجہ حاصل رہاہے۔ (تاریخ الاسلام ،للدکتورحسن ابراہیم، الباب الاول،العرب قبل الاسلام، التجارة فی بلاد العرب:61/1، دار إحیاء التراث العربی)

عربوں کے تجارتی بازاراورمراکز
مختلف اشیاء کی خریدوفروخت کے لیے مخصوص اورالگ تجارتی بازاراورمراکزقائم ہوتے تھے،کتب تاریخ میں ان کاتذکرہ ملتاہے:
1...سوق العطاریین‘عطرفروشوں کابازار(Perfumes Market)
2... سوق الفواکہ،پھلوں کابازار(Fruits Market)
3... سوق الرطب،کھجورمنڈی(Dates Market)
4... سوق البزازین،کپڑافروشوں کابازار(Cloth marchent's Market)
5... زقاق للحذائین،جوتوں کابازار(Center of  Shoes)
6... مکان والحلا مین والعلاقین،حجام(Hair Cutters Saloons)

اس کے علاوہ یہاں کی غلہ منڈی میں گیہوں اوراناج وغیرہ، جب کہ بازارمیں شہد،مصالحہ جات اوردیگراشیا خوردونوش بھی بکثرت ملتی تھیں۔(السیرة النبویة،للندوی)علاوہ ازیں یمن اورمدینہ منورہ سے نکالی گئی تجارت پیشہ یہود قوم اس وقت طائف میں قیام پذیر تھی۔ (فتوح البلدان، ص:65)

قریش مکہ اورتجارت
قریش مکہ ایک تجارت پیشہ قوم تھی،جیساکہ اسم قریش کے لغوی معنی (تجارت اورکسب کرنے والا)سے بھی ظاہرہوتاہے، ابن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:”سمیت قریش من التقرش: وہوالتکسب والتجارة، حکاہ ابن ہشام رحمہ اللہ“َ․ (البدایة والنہایة لابن کثیر، قریش نسبا واشتقاقا وفضلا:99/1،الحقانیة بشاور)

وہ سال میں دومرتبہ تجارتی سفرکیاکرتے،موسم سرمامیں یمن اور موسم گرمامیں شام کاتجارتی سفرکرتے تھے۔(جامع البیان فی تفسیرالقرآن للطبری ،تفسیرسورة قریش:199/12،دارالمعرفة ،بیروت)

قرآن مجیدمیں اللہ تعالی نے انہی تجارتی اسفارکاذکربطوراحسان فرمایاہے،بقول مؤرخین ان تجارتی اسفارکاآغازحضور صلی الله علیہ وسلم کے داداہاشم نے کیا، وہ ہرسال بغرض تجارت شام اورفلسطین جایاکرتے،یوں اس طرح مستقل تجارتی سفروں کی بنیادپڑگئی۔(تاریخ الطبری المعروف بتاریخ الأمم والملوک، ہاشم:12/2،مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، بیروت)

قریش کے تقریباتمام مردوعورت تجارت پیشہ تھے،ان کے ہاں یہ عام رواج تھاکہ جوتاجرنہ ہوتااس کی معاشرہ میں کوئی عزت نہ ہوتی تھی،ان کے تجارتی قواعد وضوابط نے ایک مکتب کی صورت اختیارکرلی تھی،جس نے اوزان اورحسابات کے نظام کوپروان چڑھایا۔ (تاریخ الاسلام، للدکتورحسن ابراہیم، الباب الاول، العرب قبل الاسلام، التجارة فی بلاد العرب:63/1، دارإحیاء التراث العربی)

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ اپنی معرکة الآراتصنیف ”سیرة النبی“ میں قبل ازاسلام عربوں کے حالات کے حوالے سے تحریرفرماتے ہیں:

”چاندی اورسونے کی کانیں بکثرت ہیں،علامہ ہمدانی نے ”صفة جزیرالعرب“میں ایک ایک کان کانشان دیاہے،قریش جوتجارت کیاکرتے تھے ،مؤرخین نے لکھاہے، وہ زیادہ تران کامال تجارت چاندی ہوتی تھی،برٹن صاحب نے مدین کے طلائی معادن پرخا ص ایک کتاب لکھی ہے۔(Gold Minees of Median)مکہ کے تاجرچمڑا،کھالیں اورطائف کامنقی برآمدکیاکرتے تھے“۔(سیرة النبی ‘للشبلی نعمانی،تاریخ عرب قبل اسلام، عرب:105/1،نیشنل فاؤنڈیشن اسلام آباد)

وہ جنوبی یمن،ہند اورافریقہ سے سونا،قیمتی پتھر،صندل کی لکڑی، زعفران،خوشبوئیں،گرم مصالحہ جات اورجڑی بوٹیاں درآمدکیاکرتے تھے،یہ اشیاء گووزن میں کم، مگر قیمت میں زیادہ ہوتی تھیں،یمن کے عطور اور بخور اور کپڑا بالخصوص قبولیت عام کادرجہ رکھتے تھے،چین سے ریشم، عدن سے قیمتی کپڑے،افریقہ سے غلام،کرایہ کے سپاہی مزدور،شام اور مصر سے سامان تعیش،روم کی صنعتی پیداوار خصوصاریشم ،روئی اورمخمل کے نفیس کپڑے ، شام سے ہتھیار،اناج اورتیل ،افریقہ سے ہاتھی دانت کی مصنوعات اورسونے کی مٹی وغیرہ درآمدکیاکرتے تھے۔(اسلام کے معاشی نظریے،ڈاکٹریوسف الدین،حصہ اول،ص:48،49،حیدرآباد،دکن)

زمانہ جاہلیت کے بازار
بازارتجارتی سرگرمیوں کی جائے پیدائش،مقام تربیت،نقطہ عروج اورمظہراتم ہوتے ہیں،یہاں سے ہی تجارتی سرگرمیاں پھلتی پھولتی اورپروان چڑھتی ہیں،قواعد وضوابط اورتجارتی نظریات ،جغرافیائی ضروریات کے پیش نظروجودمیں آتے ہیں،لوگ انہیں مختلف ناموں سے موسوم کرتے ہیں، دور جاہلیت میں قائم کیے گئے تجارتی بازاریہ ہیں:

(1) عکاظ (2) ذوالمجاز(3) مجنہ (4) صنعاء(5) تعز (6) رابیہ (7) شخر (8) مشقر (9) حجر (10) نطاة(11) دومة الجندل (12) صحار (13) ریا (14) عدن (15) بصری (16) دبا (17) بدر۔ (اسلام کااقتصادی نظام،مولاناحفظ الرحمن ،ص:25،دہلی)

زمانہ جاہلیت میں نظام زر مبادلہ
زمانہ جاہلیت میں سکوں کارواج تھا،دیناراوردرہم کی چلت زیادہ تھی،جب کہ ان کے ساتھ ساتھ حمیری سکے بھی لین دین میں قبول کیے جاتے تھے۔ (فتوح البلدان للبلاذری)ان سکوں کی قدروقیمت کا تعین ان کے وزن سے ہوتاتھا،نہ کہ ان کی ظاہری قدر(Face Value)سے۔ (الدینار الإسلامی فی المتحف العراقی للنقشبندی، ص:11، بغداد،بحوالہ :نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معاشی زندگی، ص:36،شیخ الہنداکیڈمی، کراچی)

اس دورمیں دونظام زرکام کررہے تھے:سوناچاندی، جن ممالک میں سونایعنی دینارکارواج تھاوہ ”اہل الذہب“ کہلاتے تھے، جیسے مصر اور شام وغیرہ، اور جن ممالک میں چاندی یعنی درہم کا رواج تھا، انہیں ”اہل الورق“کہاجاسکتاہے،جیسے:عراق اوربابل۔

زمانہ جاہلیت کی مشہورتجارتی شکلیں
قبل ازاسلام عرب بالخصوص مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اورطائف میں رائج بعض مشہورتجارتی شکلوں کاہم ذیل میں تذکرہ کرتے ہیں،لیکن یادرہے کہ اسلام نے ان تمام تجارتی شکلوں کوممنوع قراردیاہے۔

بیع منابذہ
جب بائع(فروخت کرنے والا)مشتری(خریدار)کی طرف کپڑاپھینک دیتاتوبیع لازم ہوجاتی۔(الہدایة للمرغینانی،کتاب البیوع،باب البیوع الفاسد:100/5،مکتبة البشری،کراتشی)

بیع ملامسہ
جب مشتری فروخت کی جانے والی چیز کوچھولیتاتوبیع لازم ہو جاتی۔(حوالہ بالا)

بیع حبل الحبلة
مشتری اونٹنی اس شرط پرلیتاکہ جب وہ جنے، پھراس کاجوبچہ ہووہ جنے تب اس کی قیمت ادا کروں گا۔ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع: 326/4، مکتبة رشیدیة)

بیع صفقہ
مشتری بائع کے ہاتھ پراپناہاتھ مارکریہ ثابت کرتاکہ اب بیع مکمل ہوگئی،بعض دفعہ بائع چاہے یانہ چاہے ،مشتری چالاکی سے اس کے ہاتھ پرہاتھ مارکربیع کرلیتا،جوبائع کومجبوراًقبول کرناپڑتی۔(الکفایة علی الہدایة فی ذیل فتح القدیر،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد: 55/6، رشیدیہ)

بیع محاقلة
اناج کی بالیاں پکنے سے پہلے تاجرکھیتوں کی پیداوارخریدکرقبضہ کرلیتے، تاکہ بعد میں اپنی من مانی قیمت پربیچ سکیں۔ (صحیح مسلم وشرحہ للنووی، کتاب البیوع،باب النہی عن المحاقلة:10/2،سعید)

بیع مزابنہ
پکی اورٹوٹی ہوئی کھجوروں کودرختوں پرلگی ہوئی کھجو روں کے عوض فروخت کیاجاتاتھا،جس میں نقصان اورجھگڑادونوں کے امکانات ہوتے تھے۔(حاشیة ابن عابدین ،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد:65/5،سعید)

بیع مصراة
دودھ والے جانورکوفروخت کرنے سے ایک دو دن قبل سے دوہنا چھوڑدیتے، تاکہ بیچتے وقت تھنوں میں دودھ زیادہ نظرآئے اور خریدار سے زیادہ قیمت وصول کی جاسکے۔(فتح الباری،کتاب البیوع،باب النہی أن لایحفل: 454/4،455 قدیمی)

بیع عربان
نسائی (ادھار)اوربیعانہ والے معاملہ کوکہتے ہیں کہ مشتری بائع کوکچھ رقم پیشگی بطوربیعانہ دے دیتا،اس شرط پرکہ اگرمشتری بیع کومقررہ وقت کے اندرنہ خریدسکے توبائع بیعانہ کی رقم بطورحرجانہ ضبط کرلے گااوراگربائع مطلوبہ مبیع فروخت نہ کرناچاہے توبیعانہ کے برابراوررقم بطورجرمانہ دے گا۔ (حجة اللہ البالغہ،باب البیوع المنہی عنہا:286/2،زمزم پبلشرز کراچی)

بیع نجش
ایسی بیع جس میں زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے چالاک بائع(جوعموماسرمایہ دارہوتاہے)یہ حیلہ اختیارکرتاہے کہ وہ چنداشخاص کو اس لیے مقرر کرلے کہ جب مبیع کی بولی ہو رہی ہو تو وہ صرف قیمت بڑھانے کے لیے اپنی طرف سے زیادہ دام بتاتے جائیں،تاکہ مشتری زیادہ قیمت پرخریدنے پرمجبورہوجائے۔(فتح الباری،کتاب البیوع،باب النجش: 447/4،قدیمی)

بیع مضطر
ایسے حاجت مندشخص کی بیع جواپنی سخت حاجت میں اپنامال اونے پونے داموں فروخت کرے ،یااپنی مجبوری کی وجہ سے انتہائی مہنگے داموں چیز خریدے۔(حاشیة ابن عابدین، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب بیع المضطر وشراء ہ فاسد:59/5،سعید)

بیع الکالی بالکالی
اس کوبیع الدین بالدین بھی کہتے ہیں،ایسی بیع جس میں دونوں طرف ادھارہو۔(بدائع الصنائع،کتاب البیوع،شرائط الرکن: 433/3، رشیدیہ) اس کی کئی صورتیں ہیں،موجودہ دور میں رائج سٹہ بازی (Speculation) بھی اس کی ایک صورت ہے۔

بیع غرر
ایسی بیع کوکہتے ہیں جس میں عوضین میں سے ایک کی مقدار، مدت، یاقیمت متعین اورمعلوم نہ ہو،جیسے ہوامیں اڑتے پرندوں کی بیع، جانورکے پیٹ میں بچے کی بیع وغیرہ۔(فتح الباری،کتاب البیوع،باب بیع الغرروحبل الحبلة:449/4،قدیمی)

شہری کادیہاتی کے لیے بیع کرنا
اس بیع کاطریقہ یہ تھاکہ کوئی دیہاتی اپنافروختنی مال لے کر شہر آتا کہ موجودہ قیمت پراس کوفروخت کرے،شہرکے لوگ اسے ترغیب دیتے کہ اس وقت بازاراترا ہواہے، وہ ان کوبیچنے کا مجازبنادے اورمال ان کے حوالے کرے،تاکہ گرانی بڑھنے کے بعدوہ فروخت کریں اوراسے زیادہ نفع حاصل ہو،حضور صلی الله علیہ وسلمنے اس سے منع فرمایاہے۔(صحیح مسلم وشرحہ،کتاب البیوع ،باب تحریم بیع الحاضرللبادی:4/2،سعیدکراچی)

تلقی جلب
بیرونی،تجارتی قافلوں کی شہر آمد سے قبل ہی شہرکے تاجر ان کا سرمایہ خریدلیتے تھے،تاکہ ان سے سستے داموں خریدکرسرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے لوگ مصنوعی گرانی پیداکرنے کے بعداسے مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔ (أوجزالمسالک إلی مؤطامالک،کتاب البیوع،باب ماینہی عنہ من المساومة والمبایعة:5ص15،مکتبہ امدادیہ، ملتان)

بیع سنین ومعاومہ
اس طرح بیع کی جائے کہ اس سال جوکچھ پھل اس درخت پرآئے وہ فروخت کیاجائے ۔ ناپیداورمعدوم شے کی بیع ہونے کی وجہ سے حضورصلی الله علیہ وسلم نے اس بیع سے منع فرمایاہے۔(بذل المجہودفی حل أبی داؤد، للسہارنفوری، کتاب البیوع ،باب فی بیع السنین:251/5،مکتبہ امدادیہ، ملتان)

زمانہ جاہلیت کی بیوعات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر
زمانہ جاہلیت کی مذکورہ بالاصورتوں کے درست نہ ہونے کی وجہ یاتوطرفین کی رضامندی اورخوش نودی کافقدان،دھوکہ دہی اورغررہے،یا پھرآئندہ طرفین کے درمیان نزاع پیداہونے کاامکان ہے۔اسلام نے خریدوفروخت کے سلسلہ میں نہایت متوازن اصول مقررکیے ہیں،جس میں تاجراورخریدارکی نفسیات اوران کے جذبات کاپوراپورالحاظ ہے ،جس میں اس بات کی پوری رعایت ہے کہ گراں فروشی کوروکاجائے،جس میں اس بات کاپوراپوراخیال ہے کہ آئندہ کوئی نزاع پیدانہ ہونے پائے،جس میں اس امرکاپوراپاس رکھاگیاہے کہ طرفین کی رضامندی کے بغیرکوئی معاملہ ان پرمسلط نہ کیاجائے اورجس میں قدم قدم پریہ احتیاط ملحوظ ہے کہ ایک فریق دوسرے کااستحصال نہ کرے،تجارت کے معاملے کودھوکہ دہی،فریب اور چال بازی سے محفوظ رکھاجائے اورجہاں کوئی ایساکرگزرے تواس کی تلافی کی تدابیربھی فراہم کی جائیں۔(قاموس الفقہ،مولاناخالدسیف اللہ رحمانی، (ب) بیع:350/2،زمزم پبلشرز کراچی)

ڈاکٹرنورمحمدغفاری صاحب کی تحریر
ڈاکٹرنورمحمدغفاری صاحب دورجاہلیت کی مختلف تجارتی شکلوں کو شرح وبسط سے تحریرفرمانے کے بعدلکھتے ہیں:”یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان اشکال مبادلہ کے مطالعہ سے ظاہرہوتاہے کہ ایام جاہلیت کے عرب طلب ورسدکے فطری قوانین سے بخوبی آگاہ تھے،احتکاراوراکتنازکے ذریعے مال کوروک کرمصنوعی قلت پیداکرنا اورقیمتوں کوبڑھاچڑھاکروصول کرنا ان کابھی عام فن تھا،وہ تخمین اور سٹہ بازی(Speculation)میں بھی ماہرتھے،وہ شہرکے باہرسے آنے والے تجارتی کاروانوں سے سامان تجارت اورخصوصاغلہ خریدکرتے اور بازارمیں مصنوعی قلت کی حالت پیداکرکے اپنی من مانی قیمتیں وصول کرتے، کسانوں کو (بالخصوص طائف اور مدینہ میں)سودی قرضے دیتے اور ان کی تمام فصل (پیداوار) پرقبضہ کرلیتے،گویاتاجر”زیادہ سے زیادہ نفع“ (Profit Maximization)کے استحصالی حربہ کے استعمال میں آج کے سرمایہ داروں سے ملتے جلتے تھے،جواس حقیقت کابیّن ثبوت ہے کہ سرمایہ دارکی استحصالی ذہنیت ہردورمیں ایک جیسی رہی ہے۔

(نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معاشی زندگی، ڈاکٹر نورمحمدغفاری، دور جاہلیت کی چندتجارتی شکلیں،ص:41،شیخ الہنداکیڈمی، کراچی۔ تجارت کے اسلامی اصول وضوابط،ڈاکٹر نور محمد غفاری، ص:57، شیخ الہند اکیڈمی، کراچی)

عہدقدیم میں تجارتی اورسودی قرضے
آگے آنے والے جدیدمعاشی نظریات کے عنوان کے ذیل میں ہم اس بات سے بھی بحث کریں گے کہ بینک ،تجارتی بنیادپرسودی قرضے دینااوربینکاری معاملات درحقیقت سترہویں صدی عیسوی کی ایجادنہیں،بلکہ ان کی تاریخ کم ازکم دوہزارسال قبل مسیح پرانی ہے۔(سودپرتاریخی فیصلہ ،مفتی محمدتقی عثمانی صاحب،ص:54،مکتبہ معارف القرآن کراچی)

ایسی بات سے ہرسلیم الفطرت شخص واقف ہے کہ سودکی بنیادظلم پر ہے کہ مال دارشخص غریب کی حاجت سے فائدہ اٹھاتا ہے اوراپنے لیے مقررہ نفع کی ضمانت ہرحال میں مشروط کرلیتاہے،چاہے معاملہ کی ابتدا میں ہو یاوقت ادائیگی میں مزیدمہلت دیتے وقت ہو۔(القرض المصرفی للدکتورمحمدعلی البنا،باب تمہیدی،التطورالتاریخی للقرض، المطلب الثانی، أنواع القروض عندالعرب،ص: 57،58، دارالکتب العلمیة)

آج کی دنیامیں رائج معاشی نظام درحقیقت ایک مکمل سودی نظام ہے،جس کے تانے بانے زمانہ جاہلیت کے سودی معاملات سے ملے ہوئے ہیں،سودسے بحث کرنے والے حضرات اس بات پرمتفق ہیں کہ قبل ازاسلام عصرجاہلیت میں صرفی قرضوں کے ساتھ تجارتی اورپیداواری قرضوں کابھی بھرپوررواج تھا،جن کی عمومی بنیادسودی نفع پرتھی،مذکورہ نوعیت کے قرضے اہل عرب کے لیے اجنبی نہ تھے۔(سودپرتاریخی فیصلہ،ص:54،66-60)

اسلام سے پہلے حضرت عباس اورخالدبن ولید(رضی اللہ عنہما) نے زمانہ جاہلیت میں سودی شراکت کی تھی ،بنوعمروتجارتی بنیادوں پربنومغیرہ کو قرضے دیاکرتے تھے۔ (الدرالمنثور للسیوطی: ص374، دارہجر،مصر)

علامہ سیوطی اورعلامہ ابن جریرالطبری نے اس سودی کاروبارکی نوعیت کوواضح الفاظ میں بیان کیاہے: ”کان ربا یتبایعون بہ فی الجاہلیة“․ (تفسیرالطبری:51/5،دارہجر،مصر)
(ترجمہ)یہ وہ سودتھا،جس سے دورجاہلیت میں لوگ لین دین کرتے تھے۔

بنوثقیف کے ان قبائل کے تجارتی معاملات اورقرضوں کی نوعیت کاجائزہ لیاجائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کاآپس میں سودی لین دین صرفی قرضوں(Consumption Lons)کی بنیادپرنہیں،بلکہ تجارتی قرضوں(Commercial Lons)کی بنیادپرتھااوران قبائل اور سودی قرضے دینے والوں کی حیثیت آج کی اصطلاح میں تجارتی کمپنیوں جیسی تھی۔(القرض المصرفی للدکتور محمد علی البنا،باب تمہیدی، التطورالتاریخی للقرض، المطلب الثانی، أنواع القروض عند العرب،ص:57،59، دار الکتب العلمیة)

گذشتہ تفصیل سے قدیم معاشی نظریات اور اس وقت کے رائج خرید و فروخت کے طریقے اور خد وخال واضح طور سے سامنے آجاتے ہیں، یہاں اسی قدر پراکتفا کرتے ہوئے آئندہ سطور میں جدید معاشی نظریات سے بحث کی جائے گی۔

جدیدمعاشی نظریات
آج دنیاکے مختلف خطوں میں مختلف معاشی نظام رائج ہیں،ان میں سب سے غالب اورنمایاں سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)ہے،عربی زبان میں اسے”الرأسمالیة“کہاجاتاہے،1991ء تک روس جو”سویت یونین“کے نام سے ایک عالمی قوت کادرجہ رکھتاتھا،وہاں اشتراکیت (sochilism)کے غلغلے تھے،عربی زبان میں اسے”الاشتراکیة“کہتے ہیں اوراسی کی انتہائی صورت اشتمالیت (communism)ہے، جسے عربی میں”الشیوعیة“ کہاجاتاہے، جہاد افغانستان کے نتیجے میں روس بطور ”یونین“ دنیا کے نقشے میں باقی نہ رہا،چین بھی اس شکست کے بعدعملاسوشلزم کے اصولوں سے دست بردارہوچکاتھا،ان دونوں ممالک کے مقبوضہ علاقوں میں اشتراکیت اگرچہ اب ایک معاشی نظام کے طورپرباقی نہیں،لیکن ایک سیاسی قوت اورناکام نظریہ حیات کے طورپرتاریخ کاحصہ ضرورہے۔

سرمایہ داریت اوراشتراکیت کی جائے پیدائش چوں کہ یورپ ہے،اس لیے وہاں کی تاریخ کا ایک سرسری سا جائزہ لیں گے، تاکہ ان نظاموں کاپس منظر،مزاج اورنفسیاتی محرکات کوسمجھنے میں آسانی ہو۔یورپ اوراس کے حواری آج مادی ترقی کی معراج اور تسخیرکائنات کے جتنے بلند بانگ دعوے کرتے نظرآرہے ،اتنے ہی یہ قرون وسطی یعنی 1300ء سے 1400ء تک سیاسی ،معاشی اورمذہبی اعتبارسے تاریخ کے انتہائی سیاہ اورتاریک حالات کاشکاررہے ہیں۔

اسلام جودین فطرت ہے،انہی ایام میں عرب کے پہاڑوں اور ریگ زاروں سے نکل کرچہار دانگ عالم میں پیغام الہی کے زمزمے سنارہاتھا،،مسلمان قیصروکسری کے تخت وتاج کو تاراج کرتے ہوئے مصر اور شمالی افریقہ تک جاپہنچے،یہاں تک انہوں نے 650ء میں یورپ کے عظیم الشان ملک اسپین کوبھی فتح کرنے کے بعدلوگوں کوانسان کی غلامی سے چھڑا کران پرقانونِ الہٰی نافذکردیاتھا۔

جاگیردارانہ نظام
قرون وسطی کے اس پورے عہدمیں یورپ کی معاشی زندگی کادار ومدار جاگیردارانہ نظام پرتھا،زرعی پیداوارہی واحدذریعہ معاش تھا، صنعت وتجارت نہ ہونے کے برابرتھیں،تجارت کی راہیں مسدودہونے میں ایک طرف عیسائی کیتھولک مذہب کی طرف سے تاجر پر عائد پابندیوں کا دخل تھاتودوسری طرف بیرونی دنیاسے رابطے کے تمام سمندری راستوں پر مسلمانوں کاقبضہ ہو چکاتھا،اس لیے کاروبارکوترقی دینا،یازیادہ دیرتک چلانا ممکن نہ تھا،لہذاپوری معاشی زندگی کاانحصارزراعت اورزمین کی پیداوارپرموقوف تھا۔ جاگیردارانہ نظام میں اگرچہ زمین دار، جاگیرداراورکاشت کار کا آپس میں چولی دامن کاساتھ تھا،مگرعملی طورپرکاشت کاراورجاگیردارکاتعلق بالکل غلام اورآقاوالاتھا،جاگیرداروں نے اس قدرطاقت وقوت حاصل کرلی تھی کہ وہ کسانوں کے سیاہ وسفیدکے ملک بنے ہوئے تھے،مرکزی حکومت وقت برائے نام تھی،رعایاکے حقوق اورجان ومال کی حفاظت ان کے دست قدرت سے باہرہوچکی تھی،نفاذقانون کاکام بھی جاگیرداروں کے قبضے میں آچکاتھا،رعایا(کسانوں)کے لیے ان کاظلم وستم برداشت کرنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔

 عیسائی کیتھولک کلیساکی پورے یورپ پرمذہبی اجارہ داری تھی،حکم رانوں سے زیادہ پوپ کارعب تھا،اسے خدائی اختیارات حاصل تھے،مال داراورجاگیردارغریبوں پرمظالم کے پہاڑتوڑنے کے بعدایک مقررہ قیمت اداکرکے ”مغفرت نامہ“حاصل کرلیتے،دنیاوی گرفت کے ساتھ اخروی پکڑسے بھی خودکومامون کرتے،ان تمام چیرہ دستیوں کی تان جس طبقے پرٹوٹتی وہ کسانوں کاطبقہ تھا،وہ دہرے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے،ایک طرف جاگیرداروں کاسنگ دل گروہ انتہائی بے دردی سے ان کا خون چوس رہاتھا تودوسری طرف کلیساکے مذہبی ٹھیکیدار ان کی ہڈیوں کا گودانکال رہے تھے۔ (جاری) 
Flag Counter