پسند ونا پسند کا پیمانہ یکساں ہونا چاہیے
مولانا محمد جمال الدین
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرے وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے بھی پسند کرے، اپنے لیے جس طرح عزت، مال، علم، حزم واحتیاط اور دیگر خوبیاں پسند کرتا ہے اسی طرح ان امور کی خواہش دیگر مسلم بھائیوں کے لیے بھی ہو، حضرت علی رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب ملاقات ہو تو سلام کرے، جب دعوت دے تو قبول کرے، جب اسے چھینک آئے تو الحمد للہ کہے، جب بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرے، جب انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلے اور اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرے۔ (ترمذی حدیث نمبر: 2736 باب ما جاء فی تشمیت العاطس)
بہتر ایمان والا
جو شخص اس صفت کو اپنالے، اور اس کی یہ طبیعت ثانیہ ہوجائے کہ جو ہم اپنے لیے پسند کریں گے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی پسند کریں گے تو ایسے شخص کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے افضل ایمان والا شخص قرار دیا ہے، حضرت معاذ بن جبل رضي الله عنه نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کسی انسان کے ایمان کو افضل وبہتر کب قرار دیا جائے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کسی سے محبت ہو تو اللہ کے لیے، تم کسی سے بغض رکھو تو اللہ کے واسطے اورتمہاری زبان اللہ کے ذکر میں مشغول رہے، حضرت معاذ رضي الله عنه نے عرض کیا اور کیا باتیں افضل ایمان کے قبیل سے ہیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”وأن تحب للناس ما تحب لنفسک، وتکرہ لہم ما تکرہ لنفسک“․ (مسند احمد حدیث نمبر: 22130، حدیث معاذ بن جبل)
تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور ان کے لیے وہی نا پسند کرو جو اپنے لیے نا پسند کرتے ہو۔
ایمان کامل رکھنے والا
جو شخص اپنے دل میں ایسا نیک اور حسین جذبہ رکھے تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس کے متعلق مومن کامل ہونے کی بشارت دی ہے، حضرت ابوہریرة رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مجھے چند چیزوں کی وصیت فرمائی، جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اہل ایمان اور مسلمانوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے اور اپنے گھروالوں کے لیے پسند کرتے ہو، اور ان کے لیے انہی چیزوں کو نا پسند کرو جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے نا پسند کرتے ہو، اگر یہ صفت تمہارے اندر پیدا ہوگئی تو تم مومن کامل بن جاوٴ گے۔(شعب الایمان حدیث نمبر: 10615، فصل قال: و اذا کان اصلاح ذات البین الخ)
کامل مسلمان ہونے کی علامت
مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کی خیر خواہی کرنے والے کے لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کامل مسلمان ہونے کی بھی خوش خبری سنائی ہے، حضرت ابوہریرة رضي الله عنه راوی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ حضو اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کون مجھ سے پانچ باتیں حاصل کرے گا اور اس کا جذبہ یہ ہو کہ وہ اس پر عمل کرے گا یا کم از کم ایسے لوگوں کو بتائے جو ان پر عمل کرے؟ ابوہریرة رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوں، چناں چہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلمنے میرا ہاتھ پکڑا، اور یکے بعد دیگرے پانچ باتیں گنائیں، جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ: ”واحب للناس ما تحب لنفسک تکن مسلما“․ (ترمذی حدیث نمبر: 2305، باب من اتقی المحارم)
اور لوگوں کے لیے ان چیزوں کو پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو تو تم کامل مسلمان بن جاوٴ گے۔
جنت سے قریب او رجہنم سے دور رکھنے والا عمل
یہ عمل اور جذبہ اسلام کی نگاہ میں اتنا عظیم ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بدولت تم جنت سے قریب ہوجاوٴ گے اور جہنم سے تمہاری دوری بڑھ جائے گی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں ایک ایسے صاحب کے پاس پہنچا جو لوگوں کے سامنے حدیث بیان کررہے تھے،میں ان کی مجلس میں بیٹھ گیا، انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ بیان کیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھے ہوا نہیں تھا، میں منٰی سے عرفات کی طرف جارہا تھا، جب بھی میرے پاس سے کوئی جماعت گذرتی تو میں غور سے دیکھتا کہ ان میں حضور صلی الله علیہ وسلم ہیں یا نہیں؟ گذرنے والی کئی جماعتوں کو غور سے دیکھا؛ لیکن بیان کردہ حلیہ کے مطابق کسی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں پایا، بالآخر ایک جماعت گذری تو میں حسب عادت پھر ان کے افراد کو دیکھنے کے لیے جا گھسا، چناں چہ میری نگاہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر پڑی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو میں نے اس حلیہ کے بالکل مطابق پایا، جب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو کچھ لوگوں نے مجھے ہٹانے کی کوشش کی، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اسے ضرورت در پیش ہے، ان کا کہنا تھا کہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا اور لگام کو پکڑ لیا اور میں نے عرض کیا: حضور ! مجھے آپ ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب کردے اور جہنم سے دور رکھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز قائم کرو، زکوٰةادا کرو، خانہٴ کعبہ کا حج کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور ان کے لیے وہی باتیں نا پسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو یہ جواب دے کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب اونٹنی کی لگام چھوڑ دو۔ (شعب الایمان حدیث نمبر: 10621، ان یحب الرجل لاخیہ المسلم ما یحب لنفسہ الخ)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے بارے میں اچھی سوچ، اس کے متعلق بھلائی کرنے کا جذبہ اسلام میں کتنا قابل قدر ہے کہ فرائض کے ساتھ اس کو بھی شمار کیا گیا ہے۔
حضرت آدم عليه السلام کو وصیت
جب حضرت آدم عليه السلام کی توبہ قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خوش خبری سنائی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وصیت کرنے کی درخواست کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! میں تم کو چند ایسے امور کی وصیت کرتا ہوں جو ساری خیر کا سر چشمہ ہیں، ایک کا تعلق مجھ سے ہے اور ایک کا تعلق تجھ سے ہے اور ایک کا تعلق میرے اور تمہارے درمیان ہے اور ایک تمہارے اور لوگوں کے درمیان ہے، جس کاتعلق مجھ سے ہے وہ یہ ہے کہ تم میری عبادت کرنا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اور جس کا تعلق تجھ سے ہے وہ یہ ہے کہ تم جو بھی عمل کرو گے ہم اس کا پورا پورا اجر دیں گے اور جو میرے اور تمہارے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ تم دعا کرو گے تو میں اسے قبول کروں گا اور جو تمہارے اور لوگوں کے درمیان ہے وہ یہ ہے: ”تحب لہم ما تحب لنفسک وتکرہ لہم ما تکرہ لنفسک․“ (العظمة لابی الشیخ الاصبہانی5/1571)
لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور ان کے لیے وہی نا پسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو۔
حضرت موسی عليه السلام کو وصیت
حضرت موسی عليه السلام نے اللہ تعالیٰ سے وصیت کرنے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، دوسری مرتبہ پھر درخواست کی تو یہی جواب ملا، تیسری مرتبہ پھر حضرت موسی عليه السلام نے درخواست کی تو بھی وہی جواب ملا، چوتھی مرتبہ پھر درخواست کی تو والد کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی، پانچویں مرتبہ پھر حضرت موسی عليه السلام نے اللہ تعالیٰ سے وصیت کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرو، حضرت موسی عليه السلام نے عرض کیا : بار الہا! میں ان کے ساتھ کس طرح اچھا برتاوٴ کروں؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تحب لہم ما تحب لنفسک، وتکرہ لہم ما تکرہ لنفسک․“ (الجامع لابن وھب حدیث نمبر: 132)
لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو خود کے لیے پسند کرتے ہو اور ان کے لیے وہی نا پسند کرو جو خود کے لیے نا پسند کرتے ہو۔
ایمان کامل کا جز
اس صفت کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے ہی اسے ایمان کامل کا جزء قرار دیا گیا ہے، حضرت انس رضي الله عنه حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری حدیث نمبر: 13، باب من الایمان ان یحب الخ) اور حضرت انس رضي الله عنه ہی سے نسائی میں روایت ہے، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھا ئی کے لیے وہی خیر پسند نہ کرے جواپنے لیے پسند کیا کرتا ہے۔ (نسائی حدیث نمبر: 5017، علامة الایمان) اور حضرت عبد اللہ بن ضمیرہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، ہمارے بڑوں کا حق ادا نہ کرے اور جو مسلمانوں کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور کوئی مومن کامل ایمان والا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ دوسرے مومنین کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر: 8154، ضمیرہ بن ابی ضمیرہ الخ) اور صحیح ابن حبان میں حضرت انس بن مالک رضي الله عنه سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد یوں منقول ہے:”لا یبلغ عبد حقیقة الإیمان حتی یحب للناس ما یحب لنفسہ من الخیر․“(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: 235، ذکر البیان بان نفی الایمان عمن لا یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ الخ)
کوئی بندہ حقیقت ایمان کو اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک کہ لوگوں کے لیے وہی خیر پسند کرنا شروع نہ کردے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث سننے کے بعد حضرت انس کہتے ہیں کہ میں اور ایک اور صاحب بازار گئے، دیکھا کہ ایک سامان فروخت ہورہا تھا، اس نے اس کی قیمت دریافت کی تو مالک نے تیس درہم بتایا، اس نے سامان کو غور سے دیکھا اور کہا کہ میں یہ سامان چالیس درہم میں خریدتا ہوں، مالک نے کہا کہ میں تم کو کم قیمت پر دے رہا ہوں اور تم اس پر اور اضافہ کررہے ہو؟ اس نے پھر اس سامان کو غور سے دیکھا او رکہا کہ میں اسے پچاس درہم میں لیتا ہوں، مالک نے پھر وہی بات کہی کہ میں تو تم کو اس سے کم قیمت پر دینے پر راضی ہوں اور تم زیادہ قیمت ادا کررہے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور میں تمہارے سامان کو پچاس درہم کے لائق سمجھتا ہوں؛ اس لیے میں اس کی قیمت پچاس درہم ادا کرکے لینا چاہتا ہوں۔(مسند بزار حدیث نمبر: 7548، مسند ابی حمزہ انس بن مالک)
جوتا رکھنے میں احتیاط
جوتااتار کر رکھنے میں بھی اس بات کی احتیاط ہو کہ اس سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو، حضرت ابوہریرة رضي الله عنه سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کا ارادہ کرے اور اپنے جوتے اتارے تو اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اسے اپنے دونوں پاوٴں کے درمیان رکھے، یا پھر وہ پاک وصاف ہوں تو پہن کر ہی نماز پڑھے۔(ابوداوٴد حدیث نمبر: 655، باب المصلی اذا خلع نعلیہ)
علامہ طیبی رحمة اللہ لکھتے ہیں کہ دائیں بائیں یا آگے پیچھے رکھنے میں یہ احتمال ہے کہ دوسروں کوتکلیف پہنچ جائے اور جس کی طرف جوتا رکھا جائے گا وہ اپنی سُبکی محسوس کرے گا، حالاں کہ ایک مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے پسند یدگی اور ناپسندیدگی میں اپنی پسند وناپسند کو معیار بنائے۔ (عون المعبود وحاشیہ ابن قیم 2/251)
حضرت عمرفاروق رضي الله عنه کو وصیت
حضرت سعید بن عامر جمحی رضي الله عنه نے حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کو جن چند باتوں کی وصیت کی تھی اور جس سے ان پر گریہ طاری ہوگیا تھا ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ لوگوں کے لیے وہی پسند کیا کریں جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے وہی امور نا پسند کریں جو اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے نا پسند کرتے ہیں۔(الزہد لابی داوٴد، حدیث نمبر: 356، من اخبار سعید بن عامر)
دینی فضیلت اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے
ابن رجب حنبلی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو دینی یا دنیوی فضیلت حاصل ہوتو اس کی دلی خواہش یہ ہونی چاہیے کہ یہ فضیلت دوسروں کو بھی حاصل ہوجائے ، حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے تھے کہ جب میں قرآن پاک کی کسی آیت پر سے گذر تا ہوں اور کوئی نکتہ مجھے معلوم ہوتا ہے تو میری دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کو یہ بات معلوم ہوجائے اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میری یہ خواہش ہے کہ سارے حضرات یہ تفقہ حاصل کرلیں اور میری طرف کوئی بات منسوب نہ ہو۔ (فتح الباری لابن رجب الحنبلی 1/46 ، امور الایمان)
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ کو نصیحت
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ رحمة اللہ علیہ نے حضرت سالم بن عبد اللہ، محمد بن کعب قرظیاور رجاء بن حیوہ کو بلا بھیجا، تینوں تشریف لائے تو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے ان سے فرمایا کہ مجھ پر خلافت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، مجھے تم لوگ مشورہ دو۔ حضرت سالم ومحمد نے اپنا اپنا مشورہ دیا، آخر میں حضرت رجاء بن حیوہ نے یہ مشورہ دیا کہ اے امیر المومنین! اگر آپ کل قیامت کے عذاب سے نجات چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے وہی پسند کیجیے، جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے وہی ناپسند کیجیے جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، پھر آپ کا انتقال جب بھی ہو کوئی حرج نہیں ہے۔(حلیة الاولیاء 8/105، الفضیل بن عیاض، ومنہم الراحل من المفاوز)
یونس بن عبید کی خصوصی صفت
حضرت جعفر بن برقان کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن عبید کے فضل وکمال اور تعلق باللہ کی حالت کا علم ہوا تو میں نے ان کو خط لکھا کہ آپ کے بڑے اونچے احوال کا علم مجھے ہوا ہے، آپ ان اونچے احوال اور مقامات سے کیسے سرفراز ہوئے ؟ مجھے بھی بتائیے، تا کہ اسے اپنا کر ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکیں، اس خط کے جواب میں انہوں نے یہ لکھا کہ بڑے غوروخوض کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں وہی لوگوں کے لیے پسند کرتا ہوں اور جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں وہی لوگوں کے لیے بھی ناپسند کرتا ہوں، بس یہی ایک بات میرے اندر پائی جاتی ہے۔(حلیة الاولیاء 3/18، یونس بن عبید)
گھر میں بلی پالنے سے انکار
ایک بزرگ کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہوگئی تو لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ بلی پال لیں، سارے چوہے بھاگ جائیں گے، انہوں نے جواب دیا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ چوہے بلی کی آواز سن کر ہمارے پڑوسیوں کے گھر نہ بھا گ جائیں، ایسی صورت میں جو میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ پڑوسیوں کے لیے پسند کرنا لازم آئے گا، جوایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں ، لہٰذا میں ایسا نہیں کرسکتا۔ (احیاء العلوم 2/213، کتاب آداب الالفہ)
ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کا یہی شیوہ ہونا چاہیے کہ جو اپنے لیے پسند کرے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرے وہ مسلمان بھائیوں کے لیے بھی نا پسند کرے، اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے آمین!