Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 16
شیر کی زندگی
مسعود عظمت، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی

تاریخ میں ایسے لوگوں کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا جنہوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے قربانی دی اور ہر قربانی صرف اپنی جان ہی تک محدود نہ تھی، بلکہ انہوں نے اس کے لیے اپنی جان ومال،زمین وجائیداد،اہل و عیال سب کو چھوڑ دیا۔ان چیزوں کی قربانی دے کروہ کو چہ یاراں سے سرخ رو ہو کر نکلے۔یہ لوگ ہمیشہ تاریخ کیصفحات میں روشن ستاروں کی مانند چمکتے دمکتے نظر آئیں گے۔اور ان کی تاریخ ساز شخصیات امت کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتی رہیں گی۔

بارہویں صدی ہجری میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے سورما ہندوستانیوں کو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑرہے تھے تو اس وقت میسور سے ایک ایسا مرد مجاہد بہادر اور نڈر شخص اٹھا جس نے وقت کی طاقت کے ساتھ لڑائی شروع کی، اس وقت ہندوستانیوں کو ایک اپنے ہی قائدوراہ نما کی ضرورت تھی جوان کی باگ ڈورکو سنبھال سکے اور ان کے لیے ایک ایسی راہ متعین کرے جوان کو آزادی کی طرف لے جائے۔

چناں چہ ریاست میسور سے ایک بہادر اور جری شخص، جس کا نام فتح علی ٹیپو تھا، اٹھا اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالی۔سلطان ٹیپوکا خاندان عربی اور قریشی النسل تھا، جس کوحوادثا ت ز مانہ نے مکہ مکرمہ سے بغداد،افغانستان،پنجاب،دھلی اور اجمیر کے بعد گلبر گہ پہنچا دیا۔ٹیپو کے والد حیدر علی کی دو بیویاں تھیں۔ان کی پہلی شادی اُنیس سال کی عمر میں صوبہ سراکے ایک پیر زادہ سید شہباز شاہ میاں کی دُخترسے ہوئی۔دوسری شادی اس کے کچھ عرصہ بعد معین الدین خان کی لڑکی فاطمہ بیگم المعروف فخرالنساء سے ہوئی۔سلطان ٹیپوں کی پیدائش بروزسنیچر علی الصبح20ذی الحجہ 1123ھ بمطابق10نومبر1750ء کوکولار کے شمال مغرب بینگلور سے33کلو میٹر دور شمال میں دیوان املی نامی قصبہ میں ہوئی،ٹیپو نے بعد میں اس قصبہ کا نام یوسف آباد رکھا۔

سلطان ٹیپو بچپن ہی سے بہادری کے ساتھ ساتھ حلیم الطبع تھا اس کے والد حیدر علی نے اس کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ اسے تمام جنگیمہموں میں اپنے ساتھ رکھا،نتیجہ یہ ہوا کہ17/16سال کی عمر میں سلطان ایک سپاہی اور لائق افسربن گیا۔

جب حیدر علی نے دیکھا کہ اس کے لائق فرزند میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک قابل اور لائق افسر میں ہونی چاہییں تو اس نے سلطان کو پندرہ سال کی عمر میں تین ہزار فوجیوں کا دستہ دے کر پالیگاروں سے نپٹنے کے لیے بھیجا۔جس میں وہ کام یاب رہا۔اس کی جرات اور بہادری سے متاثر ہوکر حیدر علی نے اس کو اپنی ذاتی سلامتی کے لیے پانچ سو فوجیوں کا افسر مقرر کر دیا۔

انگریز آہستہ آہستہ تمام ہندوستان پر قبضہ کرتے جارہے تھے اور ایک کے بعددوسری ریاست کو وہ ہڑپ کرتے جارہے تھے۔حیدر علی ایک مدبر اورذہین آدمی تھا، وہ انگریز کی سازشوں کو سمجھ رہا تھا اور اس کے لیے اس نے اپنی مملکت کے اندر تیاری بھی کررکھی تھی کہ انگریز اس کی مملکت کے خلاف سازشیں کررہے ہیں اور کبھی کبھار ان سے جنگ بھی ہوجاتی ہے، چناں چہ1767ء میں انگریزوں نے نواب محمد علی حیدر آباد اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملا کر سلطنت خدادادکے خلاف پہلی باقاعدہ جنگ چھیڑدی جس میں حیدر علی نے ان کو واپس بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

1786ء میں حیدر علی کا انتقال ہو گیا تو اس کے لائق فرزند سلطان ٹیپو نے اقتدار سنبھالا، اس وقت اس ملک کی لمبائی چار سو میل اور مجموعی رقبہ اسی ہزار مربع میل سے بھی زائد تھا، جس میں سلطان کی حکومت تھی، پوری سلطنت کو بیس اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا۔حکومت کی سرحدیں شمال مشرق میں دریائے کر شنا اور شمال مغرب میں دھارواڑ سے جنوب مشرق میں موجود صوبہ تامل ناڈو کے شہر مدورائے اور جنوب مغرب میں کو چین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مغرب میں بحیرہ عرب کے ساحلی شہر بھٹکل اور کاروار تک جا پہنچی تھیں، ستر لاکھ نفوس پر مشتمل اس کی آبادی تھی۔

حکومت کی سالانہ آمدنی ساڑھے سات کروڑروپے سے بھی زیادہ تھی ،سلطان نے جب حکومت سنبھالی تو اس نے عوام کی فلاح وبہبود کی طرف توجہ دی،عوام کے لیے فیکٹریاں لگائیں،زراعت کے لیے زمینیں جوبنجر پڑی ہوئی تھیں ان کی سیرابی کا انتظام کیا۔تعلیم کے لیے مدرسے کھولے فوج کو ازسرِ نودرست کیا،اسلحہ کے لیے فیکٹریاں قائم کیں،سری رنگا پٹنم ہی میں جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی، جہاں بیک وقت دینی ودنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا نظام تھا۔

سلطان جہاں ایک قابل منتظم اوررعایا پرور بادشاہ تھا ،وہاں وہ ایک عبادت گزار اور شب بیدار بادشاہ بھی تھا۔1787ء میں شاہی محل سیمتصل مسجد اعلی کی تعمیر شروع ہوئی اوردو سال کے اندر مکمل ہوئی تو اس وقت سلطان نے پوری سلطنت کے علماء ومشائخ کو جمع کیا اور اس مسجد کا افتتاح کیا،یہ عیدالفطر کا دن تھا، سلطان کی خواہش تھی کہ کوئی ایسا بزرگ اس مسجدکا افتتاح کریں، جو صاحب ترتیب ہوں ان کی کوئی نمازقضا نہ ہوئی ہو۔ جب کوئی آگے نہ بڑھا تو اس وقت سلطان نے آگے بڑھ کر نمازپڑھائی۔

اِدھر سلطان اپنی سلطنت کی طرف توجہ دے رہا تھا تو اُدھر سے وہ انگریز سے بھی غافل نہ تھا، کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ انگریز ایک سازشی قوم ہے اور وہ ہندوستان کی ایک آزاد ریاست کو بھی ہڑپ کرنا چاہتے ہیں، سلطان کی پوری زندگی تقریباََ میدانِ جنگ میں گزری تھی، وہ میدان کا بھی شہ سوار تھا اور جانتا تھا کہ میدان جنگ میں دشمن کو کس طرح شکست دی جاتی ہے۔ سلطان نے پوری کوشش اور قوت سے اس آخری سلطنت کو بچا رکھا تھا۔انگریز کو یہ سلطنت ایک کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی، وہ کبھی نظام اور مرہٹوں کو ابھار کر سلطان کے خلاف میدان جنگ میں کھڑا کر دیتے اور کبھی خود براہ راست اس کی سلطنت پر حملہ کر دیتے۔

سلطان نے نظام حیدرآباد اور مرہٹوں کے پاس بار بار سفارت بھیجی کہ انگریر باہر سے آیا ہوا ایک دشمن ہے، جو ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے، ہم سب اس کا مقابلہ کریں، لیکن ان میں سے ہر ایک کو سلطنت کا ایسا چسکا لگا ہوا تھا کہ وہ سوچ رہے تھے کہ ہماری حکومت بچ جائے، بے شک دوسرے کے حصے بخرے ہوتے رہیں۔انگریز نے بالآخر آخری معر کہ لڑنے کے لیے سلطنت خدادادپر حملہ کر دیا۔

1789ء میں انگلستان کے وزیر اعظم پٹ نے لارڈویلز لی کو ہندوستان میں اپنا گورنر جنرل بنا کر بھیجا ۔اس نے آتے ہی سلطان کے خلاف محاذ قائم کر دیا،ایک طرف تو وہ سلطان سے صلح کی باتیں کر رہاتھا اور صلح کے معاہدے کیے جارہا تھا تو دوسری طرف وہ بھر پور جنگی تیاری کر رہا تھا، 1799ء فروری کا آخری ہفتہ تھا، سردیوں کا اختتام اور گرمیوں کا آغاز ہونے والا تھا۔

جنر ل ہارس کی کمان میں 21ہزار مسلح افواج، جو ویلور میں جمع تھیں، میسور کی طرف نکل پڑیں ۔آمبود کے مقام پر نظام حید ر آباد کے سولہ ہزار سپاہی بھی میر عالم کی قیادت میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔جنرل اسٹورٹ کے ماتحت سات ہزار تجربہ کار سپاہی بھر کنانور سے اسی مقصد کے لیے پہنچ چکے تھے۔کرنل براؤن اور کرنل ریڈ کی قیادت میں کمپنی کا ایک دستہ دارر لسلطنت پر حملہ کرنے کے لیے ترچنا پلی پر آگیا تھا۔ان تمام افواج کی کمان جنر ل ہارس نے سنبھال لی۔

مارچ 1799ء میں طے شدہ منصوبہ کے مطابق ٹیپو نے صلح کا جو پیغام بھیجا تھا اس کو ٹھکرانے بعد جنر ل ہارس کی افو اج نے دارالسلطنت کا محاصرہ کر لیا،سلطنت کے محاصرہ کے بعد سلطان اور انگریز کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔سلطان اپنی فوج کی کمان بذاتِ خود کررہا تھا،4مئی1799ء کو سلطان نے مسجد اعلیٰ میں نماز ادا کرنے کے بعد پھر میدان جنگ کا رخ کیا، ادھر سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا تو دوسری طرف چاروں جانب گو لیوں کی تڑ تڑاہٹ اور گولوں کی وجہ سے فضا میں گردو غبار کا ایک بادل سا تن گیا۔غدادارن ملک و ملت ،جو پہلے ہی انگریزوں سے ملے ہوئے تھے وہ ہر پل کی خبر اپنے آقا جنرل ویلزکو پہنچا رہے تھے، آج تاریخ انسانی خودداری اور آزادی کا ایک باب ختم کرکے غلامی کا ایک نیا باب شروع کرنے والی تھی، ضمیر فروش و ملت فروش اپنی انا اور خواہش کی وجہ سے عظیم سلطنت کر ختم کرنے کے درپے تھے۔اس وقت جب سلطان کو دو بڑے زخم لگ چکے تھے اور زخموں سے بدن چور چور اور نڈھال ہو گیا تھا تو اس کے نو مسلم خادم راجہ نے اس سے کہا کہ حضور! اب تو آپ اپنی جان پر رحم کیجیے اور خود کو دشمنوں کو حوالے کر دیجیے تو سلطان نے اس وقت وہ تاریخی جملہ کہا ،جو سنہری پانی سے لکھنے کے قابل ہے کہ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“۔یہ کہہ کر سلطان نے پھر انگریزوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی مغر ب کے وقت جب سورج مغرب کی جانب ڈھل رہا تھا اس وقت سلطان کا نیر اقبال بھی غروب ہو رہا تھا ،بالآخر اس مرد مجاہد نے دشمن سے لڑتے لڑتے جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا، اس لڑائی میں سلطان کے ساتھ سلطان کے 12ہزار ساتھی بھی شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہوئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون .
Flag Counter