Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

7 - 16
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

کیا کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ابوظہبی میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں اور یہاں کے بینک اچھی ملازمت والوں کو کریڈٹ کارڈ دیتے ہیں جن کی سالانہ فیس ہوتی ہے اور بعض بالکل مفت بھی، کریڈٹ کارڈ میں موجود رقم بینک کی ہوتی ہے او رکارڈ ہولڈر کا اس رقم میں کوئی حق نہیں ہوتا، بس کارڈ ہولڈر اس کارڈ کو خریداری کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور بینک کسی بھی وقت اس کارڈ کو کینسل کر سکتا ہے لیکن اکثر کیسنل کرتا نہیں بہرحال بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو یہ پیش کش ہوتی ہے کہ اس کارڈ کے ذریعے خریداری کرلو اور تقریباً ایک ماہ سے لے کر چالیس دن تک وقت دے دیا جاتا ہے کہ اس مدت کے اندر لگائی ہوئی رقم واپس کردو تو اس استعمال پر کوئی سود یا منافع نہیں ہو گا۔ البتہ اگر اس دی ہوئی مدت میں استعمال شدہ رقم واپس نہیں کی گئی تو پھر اس ساری استعمال شدہ رقم پر سود لگایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی وقت پر ادا کردے تو کچھ اضافی چارج یا سود نہیں ہوتا، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسلمان اس قسم کے کارڈ رکھ سکتے ہیں؟

جواب… واضح رہے کہجس کریڈٹ کارڈ کا آپ نے ذکرکیا ہے ، اس میں صارف اور بینک کے درمیان سود کی بنیاد پر معاہدہ ہوتا ہے، یعنی اصل مقصود سود ہی ہوتاہے گو ایک متعینہ مدت کے اندر اند ررقم کی ادائیگی کرنے کی صورت میں سود نہیں لگتا لیکن اس متعینہ مدت کے گزرنے کے بعد ساری رقم پر سود لگ جاتا ہے ، اور سود کا لینا اور دینا حرام ہے ۔ لہٰذا مذکورہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہے۔

والد کو گھر سے باہر نکال کر گھر پر قبضہ کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والدین کی رضا مندی کے بغیر بیٹا اگر والدین کی غیر موجودگی میں میری جائیداد ایک مکان جس کے کرایہ کی آمدنی سے میرا گزر بسر ہوتا ہے، مکان ہذا کے تالے توڑ کر زبردستی داخل ہو جائے اور منع کرنے پر بیٹا دولت اور جائیداد کی ہوس میں اپنے بوڑھے باپ کو دھکے دے کر اپنے ہی مکان سے بے دخل کر دے۔

ایسے میں علمائے کرام قرآن او راحادیث کی روشنی میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب… واضح رہے کہ بیٹے کا اپنے بوڑھے باپ کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکالنا بہت ہی نازیبا حرکت او رگھٹیا فعل ہے ، کلام الله نے تو والدین کے احترام کے بارے میں یہاں تک فرمایا ہے کہ ان کو ”اُف“ تک نہ کہو چہ جائے کہ ان کو دھکے دے کر باہر نکالا جائے، ایک حدیث میں وارد ہے کہ جس نے اپنے والد کو صرف تیز نظروں سے دیکھاتو اس نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا والدین کی نافرمانی کرنا او ران کو ستانا ایسا عظیم گناہ ہے کہ اس کی سزا انسان کو موت سے پہلے بھگتنی پڑتی ہے اور ایسے شخص سے الله تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ، اس لیے الله کی ناراضگی او رغضب سے بچتے ہوئے مذکورہ بیٹا اپنے والد محترم کو راضی کرے اور الله کے سامنے خوب گڑ گڑا کر روئے اور دوبارہ ایسی ناپسندیدہ حرکت کرنے سے مکمل اجتناب کرے۔

اور اسی طرح جو گھر اس نے اپنے والدکی رضا مندی کے بغیر غصب کیا ہے وہ اپنے والدکو فوراً واپس کر دے ، ورنہ سخت گناہ گار ہو گا۔

والد کو بھی چاہیے کہ اپنے بیٹے کو دل سے معاف کر دے اور صلح صفائی کرکے اس معزز رشتہ کی لاج رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی معاونت کرتے رہیں۔

لڑکیوں کو حق میراث سے محروم کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن وراثت کی تقسیم صرف اور صرف لڑکوں میں کرتے ہیں اور لڑکیوں سے نہ پوچھتے ہیں اورنہ اس کے حصے کی زمین کی قیمت دیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو بھائیوں کے لیے زمینہبہ کرنے میں پر مجبور کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس سلسلے میں کئی امور غور طلب ہیں:
1...وراثت کا سارا عمل چوں کہ اضطراری ہے اس لیے ہر ایک بھائی کے ساتھ ہر بہن شریک اور حصہ دار ہو گی یا نہیں؟
2...کیا اس صورت میں ہر ایک بھائی اپنے حصے کا شرعی مالک بن سکتا ہے؟
3...کیا شریعت محمدی کی رُوسے ہر بھائی جس کے ساتھ بہنوں کا حصہ ہے اپنوں اپنے حصوں میں تصّرف کر سکتا ہے یا یہ غاصب تصور ہو گا؟۔
4...اگر بہن معاف کر دیتی ہے ہر ایک بھائی کو یعنی اپنا حصہ ہبہ کر دیتی ہے تو کیا یہ ہبة المشاع نہ ہو گا؟ تو یہ کیسے ہبہ تصور ہو گا؟ بڑی وضاحت کی طلب ہے

جواب…جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔
1...واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے جس طرح اصل ترکہ میں مذکر ورثاء (لڑکوں) کے حصص مقرر کیے ہیں ، اسی طرح مؤنث ورثاء (لڑکیوں) کے بھی حصے بیان کیے ہیں۔
2...پھر میراث کی تقسیم میں لوگوں کی لغزشوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے رب ذوالجلال نے اپنے پاک کلام میں میراث کے اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ جزئیات تک بیان فرما دیں اور اس کے لیے ایک قانون اور ضابطہ مقرر کیا۔
3...میراث کو شرعی اصول وضوابط کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں اور ان حدود پر گامزن نہ رہنے والوں کو جہنم کے دائمی عذاب سے متنبہ کیا ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق بیان فرمایا ”جس نے اپنے وارث کا حق مارا، قیامت کے روز الله تعالیٰ اس کو جنت سے ، اس کے حصہ سے محروم کر دیں گے “ اور آپ نے فرمایا کہ ” جس شخص نے کسی کی زمین سے ظلماً ایک بالشت جگہ لی تو اس کو قیامت کے روز سات زمینوں کا طوق پہنا یا جائے گا۔“
4...وارثت میں سے اپنی بہنوں کو محروم کرنا زمانہ جاہلیت کی بُری رسم ہے ، جوکہ شریعت سے متصادم ہے، اس کا ترک ہمارے ذمہ فرض اور ضروری ہے ۔

مندرجہ بالا تمہید کے بعد صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ آپ کے علاقے میں میراث کی تقسیم کا مروجہ طریقہ ( میراث میں سے لڑکیوں کو چھوڑ کر لڑکوں کو دینا) دوسروں کی حق تلفی اور الله کے احکامات سے کھلم کھلا بغاوت ہے ، جو کہ ناجائزو مذموم ہے۔
4،1 ….حق میراث ایک لازمی او رجبری حق ہے ، جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا ، لہٰذا ان کا اپنا حق معاف کرنے کے باوجود بھی بھائی بری الذمہ نہ ہوں گے او رمیراث میں لڑکیوں کا حق بدستور باقی رہے گا اوراسی طرح اپنا حق ہبہ کرنا بھی شرعاً شرائط ہبہ کے نہ پائے جانے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔
3،2 .… صورت مسئولہ میں ہر بھائی اپنے حصہ کا تو شرعی مالک بن جائے گا ، البتہ بہنوں کے حصہ میں تصر ف کرنے کی وجہ سے غاصب شمار ہو گا۔

بیوی، بچوں کے نان ونفقہ سے متعلق مختلف سوالات
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:2005 میں میری شادی ہوئی اور ہماری اچھی زندگی گزر رہی تھی اوراب میرے تین بچے ہیں اب میرا بچہ پیدا ہوا تو میرے بچے کے چالیس دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ ان کی والدہ نے مجھے فون کیا کہ ہماری بیٹی کومیکے بھیج دو ! میں نے کہا کہ ابھی تو وہ ایام نفاس میں ہیں جب دن اختتام کو پہنچے گے تو میں خود ہی اس کو لے آؤں گا تو اس بات پر ان کے بڑے بیٹے نے مجھے فون کیا اور گالیاں دیں تو گالیاں میری اہلیہ نے سن لی تو مجھ سے فون لے کر والدین سے خود بات کی کہ میں یہاں خوش ہوں اور آپ لوگ مجھے یہاں سے نہ لے کر جائیں تو وہ لوگ ہمارے گھر آکر ہم سے لڑنے لگے حتی کہ میرے ضعیف والد کو زخمی کیا جس سے ہمیں تکلیف ہوئی پھر ہمارا یہ معاملہ تھانے چلا گیا وہاں فریقین میں صلح ہوکر گھر واپس آکر اپنی اہلیہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔

لیکن اس دن سے لے کر آج تک میرے بچوں کو انہوں نے واپس آنے نہیں دیا حالاں کہ میر ی بیوی ان سے میرے ہاں آنے کا کہہ رہی ہے اور آنے پر راضی ہے لیکن والدان کو اجازت نہیں دے رہے ہیں اور آج تک میں سات جرگے بھی کر چکا ہوں جس میں میں نے ان سے معافی مانگی لیکن مانا نہیں پھرمیں نے عدالت میں فیصلہ درج کروایا لیکن پھر انہوں نے میری اہلیہ کو چھوڑنے کے لیے کچھ شرائط لگائی اور شرائط حقیقت میں ان کے والد کی طرف سے ہیں لیکن نام میری بیوی کا دیا۔ وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1...لڑکی کا مہر باپ کو دیا جائے گا اور باپ جیسے بھی استعمال کرے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
2...لڑکی کو الگ مکان میں رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ میرے بہن بھائیوں کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
3...لڑکی کو موبائل فون دیا جائے گا کہ والدین کے ساتھ بات کرسکے اور ہم جب چاہیں اپنی بچی کو اپنے گھر بلائیں گے، نیز لانا اور لے جانا شوہر کی ذمہ داری ہو گی اور ہر مہینے میں دو دن گزارے گی۔
4...اور لڑکے کے والد اور بہن بھائی سب ہم سے معافی مانگیں!
5...اور لڑکا اپنی بیوی اور تین بچوں کا خرچہ بھی دے گا جتنا عرصہ انہوں نے والدین کے گھر گزارا ہے ایک ماہ کے چھ ہزار روپے دے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ جولائی2012ء سے اب تک اپنی ماں کے گھر میں ہیں تو کیا وہ اببھی میرے نکاح میں ہیں یا نہیں اور میں اپنے بچوں کو لے سکتا ہوں یا نہیں؟

میں نے الگ مکان کی شرط کو قبول کیا، حق مہر لڑکی کو دینے کے لیے تیار ہوں نہ کہ اس کے باپ کواور جہاں تک معافی کی بات ہے تو میں اپنی ذات کے اعتبار سے اب بھی تیار ہوں لیکن میں اپنے بڑے بھائی او روالد کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ بھی معافی مانگیں۔

نیز جو مہر مانگنے کی بات ہے تو وہ میرا سسر لالچ کی وجہ سے مانگ رہا ہے اس لیے کہ اسی طرح اس نے بڑی بیٹی کو بھی خلع دلوا کر گھر میں بٹھا دیا ہے اورمجھے اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ اگر میں نے مہر دیاتو وہ میری بیوی کا مجھ سے کورٹ کے ذریعہ خلع کروالے گا اور میرے گھر والے میری دوسری شادی کروارہے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ پہلی بیوی ہی کو واپس گھر لے آؤں لیکن مجھ سے بھی اب اور برداشت نہیں ہو سکتا اگر میں نے دوسری شادی کی تو پھر میں دونوں کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا اور وہاں میرے بچوں کا مستقبل بھی خراب ہو رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے مجھے واپس کر دے لیکن وہ لوگ بضد ہیں اس بات سے کہ وہ مجھے بچے دیں اور ان کا خرچہ بھی مانگ رہے ہیں اور وہاں میری بچی کو بھی پڑھنے نہیں دیتے۔

لہٰذا مہربانی فرماکر اس مسئلہ میں میری راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

جواب… صورت مسئولہ میں اگر آپ نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تو آپ کا نکاح برقرار ہے، جاننا چاہیے کہ طلاق یاتفریق کی صورت میں سات سال سے کم عمر بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے البتہ جس بچے کی عمر سات سال سے زیادہ ہو جائے تو باپ اس کو اپنے پاس رکھ کر اس کی تعلیم وتربیت کرے ، لیکن بچی کی پروش کرنے اور خانہ داری کے امور کی تربیت دینے کے لیے نو سال تک ماں اپنے پاس رکھے ، اس کے بعد باپ اس کو اپنی تربیت میں رکھے۔

اب ذیل میں ان شرائط کا حکم ذکر کیا جاتا ہے ، جو سوال میں مذکور ہیں:
1...لڑکی کے باپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مہر کامطالبہ کرے، کیوں کہ شریعت نے مہر کے مطالے کا حق صرف لڑکی کو ہی دیا ہے ۔
2... بیوی کے لیے شوہر سے ایسی رہائش گاہ کا مطالبہ کرنا جائز ہے ، جہاں شوہر کے کسی رشتہ دار ، مثلاً: ماں، باپ، بہن، بھائی وغیرہم کا دخل نہ ہو۔ ( اگرچہ وہ گھر کا ایک علیحدہ حصہ یا کمرہ ہی کیوں نہ ہو ، جس میں تمام ضروریات زندگی مثلاً: باورچی خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ موجود ہوں) تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ حقوقِ زوجیت نبھا سکے۔
3... شوہر پر یہ لازم نہیں کہ بیو ی کو موبائل فون لے کر دے ،رہی والدین سے ملنے ملانے کی بات ، تو اگر لڑکی کے والدین ہر جمعے ( یا ہفتے میں کسی ایک دن ) لڑکی سے ملنے آئیں تو شرعاً ان کو اجازت ہے ، شوہر ان کو ملنے سے نہیں روک سکتا لیکن اگر لڑکی کے والدین ضعیف ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے خود آنے کی طاقت نہیں رکھتے تو متعارف طور پر لڑکی کو بھی والدین کے گھر جانے کی اجازت ہے۔
4... سوال میں آپ نے ذکر نہیں کیا کہ آ پ سے بھی کوئی قصور ہوا ہے جس کی معافی مانگنے پر آپ کو مجبور کیا جارہا ہے ،بہرحال آپ کا جو بھی قصور ہے ، اس کی معافی مانگنے میں کوئی عار محسو س نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آپ کے بہن بھائی اور والد کا بھی قصور ہے تو ان کو بھی معافی مانگنی چاہیے ، ورنہ نہیں۔
5...جتنی مدت کے لیے آپ کے بچے آپ سے جدا رہے ، اس مدت میں بچوں کا خرچ آپ پر لازم تھا، لیکن اگر آپ نے ادا نہیں کیا تو وہ ساقط ہو گیا ، اب اس کی ادائیگی آپ کے ذمے لازم نہیں ہے ، لیکن آئندہ کے لیے بچوں کے خرچ کی ادائیگی آپ کے ذمے لازم ہے ، جب تک وہ کمانے کے قابل نہ ہو جائیں۔

البتہ بیوی کا خرچ ( جدائی کی مدت کے دوران) آپ پر لازم نہیں تھا اور نہ ہی اب اس کا خرچ آپ پر لازم ہے ( جب تک وہ آپ کے گھر نہیں آجاتی)

ملازمت کے لیے داڑھی کٹوانا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے متعلق کہ: میں کراچی میں ملازمت کررہا ہوں لیکن یہ تنخواہ کافی نہیں ہے چند دن پہلے ابوظہبی سے کچھ آفیسر آئے ہوئے تھے ملازموں کو تلاش کرنے میں نے بھی وہاں انٹرویو دیا جس میں مجھے ( سلیکٹ) کر لیا گیا لیکن ان افسروں نے بتایا کہ ہمارا جو کام ہے اس میں تیل زمین سے نکالنا پڑتا ہے ، لہٰذا اس میں گیس بھی ہوتی ہے اس کے لیے ماسک پہننا پڑتا ہے ، لیکن جن لوگوں کی داڑھی ہوتی ہے وہ ماسک صحیح طور پر نہیں پہن سکتے، اس لیے آپ کو داڑھی باریک کرنی پڑی گی او رمیں نے خود بھی ساتھیوں سے ( جو وہاں پر کام کررہے ہیں ) پوچھا، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ داڑھی باریک کرنی پڑے گی۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے لیے یہ نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں کیوں کہ بغیر ماسک پہنے ہوئے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے او رماسک کے لیے داڑھی باریک کرنی پڑتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ کمپنی بھی مسلمانوں کی ہے۔

برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ ایک مشت کے بقدر داڑھی رکھنا واجب ہے ، جب کہ مذکورہ ملازمت میں اس کو کاٹنا پڑتا ہے جو کہ حرام ہے ، لہٰذا آپ کے لیے یہ ملازمت کرنا جائز نہیں، کوئی اور جائز ذریعہ معاش اختیار کیا جائے، ان شاء الله تعالیٰ آپ کو اس سے بہتر پاکیزہ برکت والی روزی ملے گی الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو تقوی اختیار کرتا ہے ، تو ہم اس کے لیے راستہ نکالتے ہیں اورایسی جگہ سے اسے روزی عطاء فرماتے ہیں جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور کمپنی والوں پر بھی لازم ہے کہ ایسا ماسک مزدوروں کے لیے تیار کریں جو داڑھی والے بھی پہن سکیں۔

غیر قانونی طریقے سے شناختی کارڈ بنوانا اور اجرت لینا
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ بعض لوگ ( خواہ وہ پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی) مثلاً خالد اور بکر غیر پاکستانی لوگوں کو پاکستان کے راستے سے حج پر بھیجتے ہیں او ران کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں ہوتے اب خالداو ربکر ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے ہیں وہ اس طرح سے کہ دونوں ایک ایجنٹ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور یہ ایجنٹ نادرا افسر اور پاسپورٹ آفس کے افسر کے ساتھ ملا ہوا ہے اب یہ مذکورہ افراد حکومت کی پابندی کے باوجود ( خواہ حکومت کو اس کا پتہ ہو یا نہ ہو ) غیر قانونی طور پر غیر پاکستانی لوگوں سے روپے لے کر ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے ہیں۔ مثلاً: خالداو ربکر فی بندے سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے بنوانے پر اسی ہزار روپے لیتے ہیں اور اس سے دس بیس ہزار پنا کمیشن لیتے ہیں او رباقی روپے ایجنٹ او رافسر کو دیتے ہیں مذکورہ کارروائی کے بعد ان لوگوں کو حج پر بھیجتے ہیں اور حج کی رقم سے بھی اپنا کمیشن لیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ خالد او ربکر کا یہ مذکورہ کاروبار شرعاجائز ہے یا نہیں؟ یعنی :1... غیر قانونی طور پر حکومت کے اجازت کی بغیر مذکورہطریقے سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانا اور بنوانا اور ان لوگوں کی رقم سے ان کو بتائے بغیر کمیشن لینا جائز ہے۔ یا نہیں؟
2... اسی طرح شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کے بعد قانونی طور پر ان لوگوں کو حج پر بھیجنا اور ان کی رقم سے اپنے لیے کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ خالد اوربکر یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ کام ان ہی لوگوں کی منفعت اور فائدے اور ان کی مدد کرنے کے لیے کرتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ کام ہم نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ ، غیر پاکستانیوں سے زیادہ روپے لیتے ہیں او ران کو ہر جگہ پر لوٹتے بھی ہیں اور ان بیچاروں کو ہر جگہ مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
3... کیا اگر یہ کاروبار ان کے لیے ناجائز ہے ۔تو مذکورہ شرائط کے ساتھ ان کے لیے ایسا کاروبار کرنا جائز ہے ؟

مذکورہ مسئلہ کی تفصیل شریعت کی روشنی میں وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں! وفقکم الله تعالیٰ․

جواب… واضح رہے اگر حکومت وقت کسی مباح کام پر کسی مصلحت عامہ کی بنیاد پر پابندی لگائے ، تو اس میں حکومت کی اطاعت واجب ہے ، اور اس کام کا کرنا جائز نہیں ہے ، لہٰذا اگر حکومت نے یہ قانون بنایا ہے ، کہ کوئی غیر پاکستانی ، پاکستانی شناختی کارڈ کا حامل نہیں بن سکتا، تو جو لوگ اس ممانعت کے باوجود کسی غیر ملکی کے لیے شناختی کارڈ بناتے ہیں ان کا یہ کام جائز نہیں ، جہاں تک کمیشن وغیر کا تعلق ہے تو وہ اسی غلط اور ناجائز کام پر مبنی ہے، اس لیے کمیشن لینا بھی ناجائز ہے ، نیز خلاف قانون شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کرخالد اور بکر کا غیر ملکی لوگوں کو حج کے لیے بھیجنا بھی جائز نہیں۔

لہٰذا خالد اور بکر کو چاہیے کہ اپنے لیے کوئی جائز ذریعہٴ معاش تلاش کریں ، باقی لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے منفعت پہنچانا اور اپنی آمدنی کو مشکوک یا مشتبہ بنانا کوئی دانش مندی نہیں۔ 
Flag Counter