ملاقات کیسے کریں؟
مفتی ثناء الله خان
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا کامل دین نصیب فرمایا ہے، جس میں مہد سے لے کر لحد تک انسان کو انفرادی واجتماعی زندگی گزارنے کے اصول،قوانین،آداب بیان کیے گئے ہیں ،انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں،جس کی راہ نمائی کے لیے آداب دین موجود نہ ہوں،یہ الگ بات ہے، کہ آج مسلم معاشرہ ان آداب کو پس پشت ڈالے ہوئے ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے:”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الاِیمان، باب المسلم من سلم المسلمون …،رقم الحدیث :10) یعنی کامل مسلمان وہ ہے،جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔فرما کر انسان کو زندگی گزارنے کا ایک ایسا اہم اصول بیان فرما دیا کہ اگر معاشرہ اس کو حرز جان بنالے ،تو یہ معاشرہ جو آج کانٹوں کا آنگن بنا ہوا ہے ،پھولوں کی سیج بن جائے۔
آج معاشرے میں ہر فرد کی سوچ صرف اس بات میں منحصر ہے کہ اس کو کسی سے تکلیف ،نقصان نہ پہنچ جائے ،کوئی اس کا حق تلف نہ کرلے ،خود چاہے کتنوں کو تکلیف دیتا رہے، اس سے اس کو کچھ سروکار نہیں، اور نہ اس طرف دھیان دیتاہے۔
ان آداب زندگی میں سے ایک ادب استیذان (اجازت لینا ہے)یعنی جب آپ کسی دوسرے سے ملاقات کرنا چاہ رہے ہیں ،تو آپ کس طرح ملیں گے؟
افسوس ہے کہ شریعت اسلام نے جس قدر اس معاملے کا اہتمام فرمایاکہ قرآن کریم میں اس کے مفصل احکام نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے اس کی بڑی تاکید فرمائی ،اتنا ہی آج کل مسلمان اس سے غافل ہو گئے ہیں،لکھے پڑھے نیک لوگ بھی نہ اس کو کوئی گناہ سمجھتے ہیں،نہ اس پر عمل کی فکر کرتے ہیں،دنیا کی دوسری مہذب قوموں نے اس کو اختیار کر کے اپنے معاشرہ کو درست کر لیا ،مگر مسلمان ہی اس میں سب سے پیچھے نظر آتے ہیں،ااور اب تو لوگوں نے واقعی ان احکام کو ایسا نظر انداز کر دیا ہے کہ گویا ان کے نزدیک یہ قرآن کے احکام ہی نہیں۔
استیذان (اجازت طلب کرنے)کی حکمتیں
حق تعالیٰ شانہ نے ہر انسان کو جو اس کے رہنے کی جگہ عطا فرمائی ہے ،خواہ وہ مالکانہ ہو یا کرایہ وغیرہ پر،بہر حال اس کا گھر اس کا مسکن ہے اور مسکن کی اصل غرض سکون وراحت ہے، قرآن کریم نے جہاں اپنی اس نعمت گراں مایہ کا ذکر فرمایا ہے، اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے۔چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے۔﴿جَعَلَ لَکُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ سَکَنًا﴾․(النحل:80)یعنی اللہ نے تمہارے گھروں سے تمہارے لیے راحت وسکون کا سامان دیا۔اور یہ سکون وراحت جب ہی باقی رہ سکتا ہے کہ انسان دوسرے کسی شخص کی مداخلت کے بغیر اپنے گھر میں، اپنی ضرورت کے مطابق، آزادی سے کام اور آرام کر سکے،اس کی آزادی میں خلل ڈالنا گھر کی اصل مصلحت کو فوت کرنا ہے،جو بڑی ایذا اور تکلیف ہے۔
دوسری مصلحت خود اس شخص کی ہے، جو کسی کی ملاقات کے لیے اس کے پاس گیا ہے کہ جب وہ اجازت لے کر شائستہ انسان کی طرح ملے گا،تو مخاطب بھی اس کی بات قدرو منزلت سے سنے گااور اگر اس کی کوئی حاجت ہے تو اس کے پورا کرنے کا داعیہ اس کے دل میں پیدا ہو گا،بخلاف اس کے کہ وحشیانہ طرز سے کسی شخص پر بغیر اس کی اجازت کے مسلط ہو جائے ،تو مخاطب اس کو ایک بلائے ناگہانی سمجھ کر دفع الوقتی سے کام لے گا،خیر خواہی کا داعیہ اگر ہوا بھی تو مضمحل ہو جائے گااور اس کو ایذائے مسلم کا گناہ الگ ہو گا۔
استیذان کا حکم
قرآن کریم کی آیت ہے۔﴿یٰایُھَاالَّذِیْنَ امَنُوا لَاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَانِسُوْا اوَتُسَلِّمُوْا عَلیٰ أَھْلِھَا﴾․(سورةالنور :27)
اے ایمان والو !مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھر کے سو ا ئے ، جب تک کہ بول چال نہ کرلواور سلام کر لو ان گھر والوں پر۔
اس آیت کے عموم سے معلوم ہواکہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں جانے سے پہلے استیذان کا حکم عام ہے،مرد،عورت ،محرم غیر محرم سب کو شامل ہے ،عورت کسی عورت کے پاس جائے یا مر د ، مر د کے پاس ،سب کو استیذان کرناواجب ہے۔(روح المعانی،سورةالنور :27،18/450، داراحیاء التراث العربی)
چناں چہ حضرت ام ایاس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتی تھیں اور گھر میں جانے سے پہلے ان سے استیذان (اجازت طلب) کرتی تھیں،جب وہ اجازت دے دیتیں تو اندر جاتی تھیں۔ (روح المعانی،سورةالنور:27، 81/450،دارا حیاء التراث العربی)
استیذان کا طریقہ
آیت کریمہ میں جو استیذان کا طریقہ بتلایا گیا ہے،وہ ہے،﴿حَتّٰی تَسْتَأنِسُوْ اوَتُسَلِّمُوْ اعَلیٰ أَھْلِھَا﴾ یعنی کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو،جب تک کہ دو کام نہ کر لو ،اول استیناس، اس کے لفظی معنی طلب انس کے ہیں۔ مراد اس سے جمہور مفسرین کے نزدیک استیذان یعنی اجازت حاصل کرنا ہے۔ دوسرا کا یہ ہے کہ گھر والوں کو سلام کرو۔ ( فتح الباری ،کتاب استیذان،8/14 ،دارالکتب)
اس کا مفہوم بعض حضرات مفسرین نے تو یہ لیا ہے کہ پہلے اجازت حاصل کر واور جب گھرمیں جاؤ تو سلام کرو ۔ علامہ قرطبی رحمہ الله علیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ( الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة النور :27، 214/12 دارالفکر)
لیکن عام روایات حدیث سے جو طریقہ مسنون معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ پہلے باہر سے سلام کرے ، السلام علیکم اور پھر استیذان کیا جائے ۔
چناں چہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس طرح استیذان کیا، کہ باہر سے کہا أأ لج؟ کیا میں گھس جاؤں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے خادم سے فرمایا کہ یہ شخص استیذان کا طریقہ نہیں جانتا، باہر جاکر اس کو طریقہ سکھلاؤ کہ یوں کہے ”السلام علیکم أأدخل؟“ یعنی کیا میں داخل ہو سکتا ہوں؟ ( سنن ابی داؤدکتاب الأدب، باب کیف الاستیذان ؟ رقم الحدیث : 5177)
اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لاتاذنوا لمن لم یبدا بالسلام“․ (شعب الایمان للبیہقی، باب فی مقاربة وموادة أھل الدین، رقم الحدیث:441/6,8816، دارالفکر)
یعنی جو شخص پہلے سلام نہ کرے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دو
ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ آیت قرآن میں جو سلام کرنے کا ارشاد ہے یہ سلام استیذان ہے ، جو اجازت حاصل کر نے کے لیے باہر سے کیا جاتا ہے ، تاکہ اندر جو شخص ہے ، وہ متوجہ ہو جائے اور جو الفاظ اجازت طلب کرنے کے لیے کہے گا وہ سن لے گا گھر میں داخل ہونے کے وقت حسب معمول دوبارہ سلام کرے ۔ (الدر مع الرد، کتاب الحظر والا باحة ، فصل فی البیع،293/5 ،رشیدیہ)
اجازت لیتے وقت اپنا نام بتا دینا چاہیے
جب انسان اجازت لے تو بہتر یہ ہے کہ اگر اجازت لینے والے کی آواز باہر سے پہنچ سکتی ہے تو اپنا نام بھی ساتھ بتادے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی الله عنہ ، حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس گئے تو استیذان کے لیے یہ الفاظ فرمائے ”السلام علیکم․ ھذا ابو موسی السلام علیکم․ ھذا الاشعری․ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الأدب، باب الاستیذان ، رقم الحدیث:5633)
اس روایت میں پہلے اپنا نام ”ابوموسی“ بتلایا، پھر مزید وضاحت کے لیے ” الاشعری“ کا ذکر کیا اور یہ اس لیے کہ جب تک آدمی اجازت لینے والے کو پہچانے نہیں تو جواب دینے میں تشویش ہو گی، اس تشویش سے بھی مخاطب کو بچانا چاہیے
اور اگرابتدا میں اپنا نام نہیں بتایا، صرف اجازت طلب کی اور اندر سے پوچھا گیا کہ کون ہیں ؟ تو جواب میں اپنا پورا نام بتانا چاہیے۔
چناں چہ ایک مرتبہ حضرت جابر رضی الله عنہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے او راجازت لینے کے لیے دروازے پر دستک دی ، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اندر سے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ تو حضرت جابر رضی الله عنہ نے یہ لفظ کہہ دیا ”أنا“ یعنی ”میں“ ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور تنبیہ کے فرمایا انا انا یعنی انا انا کہنے سے کیا حاصل ہے؟ اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا۔ (الجامع الصحیح للبخاری ، کتاب الاستیذان، باب اذا قال من ذا؟ رقم الحدیث:625 )
دستک دے کر اجازت طلب کرنا
روایت مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ استیذان کا یہ طریقہ بھی جائز ہے کہ دروازہ پر دستک دے دی جائے ، بشرطیکہ ساتھ ہی اپنا نام بھی ظاہر کرکے بتلا دیا جائے کہ فلاں شخص ملنا چاہتاہے ، یا جب اندر سے پوچھا جائے تو اپنا پورا نام بتا دے ۔
لیکن جب دستک دے تو اتنی زور سے نہ دے کہ جس سے سننے والا گھبرا اٹھے، بلکہ متوسط انداز سے دستک دے ، جس سے اندر تک آواز چلی جائے، لیکن کوئی سختی ظاہر نہ ہو ۔
جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دروازہ پردستک دیتے تھے ، تو ان کی عادت یہ تھی کہ ناخنوں سے دروازہ پر دستک دیتے، تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔ ( الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة النور:27، 217/12 ، دارالفکر)
آج کل اکثر لوگوں کو تو استیذان کی طرف کوئی توجہ ہی باقی نہیں رہی، جو صریح ترک واجب کا گنا ہ ہے او رجو لوگ استیذان کرنا چاہیں اور مسنون طریقہ کے مطابق باہر سے پہلے سلام کریں پھر اپنا نام بتلا کر اجازت لیں ،ان کے لیے اس زمانے میں بعض دشواریاں یوں بھی پیش آتی ہیں کہ عموماً مخاطب جس سے اجازت لیتا ہے وہ دروازہ سے دور ہے ، وہاں تک سلام کی آواز اور اجازت لینے کے الفاظ پہنچنا مشکل ہیں، اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اصل واجب یہ ہے کہ بغیر اجازت کے گھر میں داخل نہ ہو، اجازت لینے کے طریقے ہر زمانے اور ہر ملک میں مختلف ہوسکتے ہیں ، ان میں سے ایک طریقہ دروازہ پر دستک دینے کا توخود حدیث سے ثابت ہے، اسی طرح گھنٹی بجا دینا بھی واجب استیذا ن کی ادائیگی کے لیے کافی ہے ۔
اجازت کتنی بار لینی چاہیے؟
اگر کسی شخص نے اجازت طلب کی ، دستک دی اور جواب نہیں آیا تو اتنی دیر رکا رہے کہ جتنی د یر میں انسان کھانے سے قضائے حاجت وغیرہ سے فارغ ہو جائے پھر دوبارہ دستک دے ا گراب بھی جواب نہیں آیا تو اب بھی اتنی دیر ٹھہر کر تیسری مرتبہ دستک دے اور تیسری مرتبہ بھی جواب نہ آئے تو اب واپس لوٹ جائے،اس سے زیادہ اجازت طلب نہ کرے۔ (الدر مع الرد، کتاب الحظر والا باحة،فصل فی البیع،5/293،رشید یہ)
اس لیے کہ ہو سکتا ہے جس سے اجازت طلب کر رہا ہے،اس کو کوئی عذر ہو،جس کی وجہ سے وہ جواب نہیں دے رہا،لہذا اس کو مجبورکر کے تکلیف نہ دے ۔(الجامع لاحکام القرآن ،سورة النور :27،12/215، دارالفکر)
چناں چہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اذا استأذن احد کم ثلاثا فلم یوٴذن لہ فلیرجع․(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستیذان، باب التسلیم والاستیذان ثلاثا، رقم الحدیث:2645)
یعنی جب کوئی آدمی تین مرتبہ اجازت طلب کر لے اور کوئی جواب نہ آئے ،تو اس کو لوٹ جانا چاہیے۔
لہٰذا سنت استیذان میں تین مرتبہ ہے اور اس پر زیادتی نہ کی جائے،البتہ اگر اجازت لینے والے کو معلوم ہو کہ جس سے اجازت طلب کر رہا ہے اس نے دستک کی آوازنہیں سنی،تو اب تین مرتبہ سے زائد بھی اجازت طلب کر سکتا ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورةالنور:27،12/215، دارالفکر)
بغیر دستک دیے دروازے پر انتظار کرنا
بغیر دستک دیے،اگر کوئی کسی عالم دین یا بزرگ کے دروازہ پر انتظار میں بیٹھا رہے کہ جب اپنی فرصت کے مطابق باہر تشریف لائیں گے،تو ملاقات ہو جائے گی ،یہ اس میں داخل نہیں، بلکہ عین ادب ہے،خود قرآن کریم نے لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم جب گھر میں ہوں ،تو ان کو آواز دیکر بلاناادب کے خلاف ہے،بلکہ لوگوں کو چاہیے کہ انتظار کریں جس وقت آپ اپنی ضرورت کے مطابق باہر تشریف لائیں اس وقت ملاقات کریں۔
چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے:﴿وَلَوْأَنَّھُمْ صَبَرُوْاحَتیّٰ تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًالَّّھُمْ﴾․(سورة الحجرات:5)
اور اگر صبر کرتے جب تک آپ ان کی طرف نکل کر آتے،تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ میں بعض اوقات کسی انصاری صحابی کے دروازے پر پورے دوپہر انتظار کرتا رہتا ہوں،کہ جب وہ باہر تشریف لائیں،تو ان سے کسی حدیث کی تحقیق کروں اور اگر میں ان سے ملنے کے لیے اجازت مانگتا تو وہ ضرور مجھے اجازت دے دیتے ،مگر میں اس کو خلاف ادب سمجھتا تھا،اس لیے انتظار کی مشقت گوارہ کرتے تھے۔(روح المعانی،سورةالنور:27،18/452،داراحیاء التراث العربی)
اجازت ملنے سے پہلے گھر،کمرے،وغیرہ میں نہیں جھانکنا چاہیے
اگر کسی کے مکان پر ملاقات کے لیے جانا ہے تو جس وقت اجازت حاصل کرنے کے لیے انسان کھڑا ہو، تو گھر کے اندر نہ جھانکے، حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کسی خاندان کے دروازے کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے ،بلکہ اس کے دائیں جانب یا بائیں جانب کھڑے ہو کر”السلام علیکم “السلام علیکم “فرماتے تھے،اس زمانہ میں دروازوں پر پردے نہیں تھے۔ (سنن أبی داوٴد،کتاب الأدب، باب کم مرة یسلم الرجل؟رقم الحدیث:5186)
اسی طرح حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دروازہ کے سوراخ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نظر ڈالی،اس وقت آپ کے ہاتھ میں کنگھی کی قسم کی ایک چیز تھی ،جس سے سر مبارک کو کھجارہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تومجھے دیکھ رہا ہے،تو اس کنگھی کرنے کی چیز سے تیری آنکھوں کو زخمی کر دیتا، اجازت تو نظر ہی کی وجہ سے رکھی گئی ہے۔(الجامع مع الصحیح للبخاری، کتاب الاستیذان، باب الاستیذان من أجل البصر، رقم الحدیث:2641)
اس سے معلوم ہواکہ جب اندر آنے کی اجازت لینے لگے تو اپنی نظر کی حفاظت کرے،تاکہ کھلے دروازہ کے اندر سے یا کواڑوں کی شگاف سے اندر نظر نہ جائے۔
اگر کسی کو ہر وقت ملنے کی اجازت دی گئی ہے تو وہ بغیر اجازت مل سکتاہے
اگر کسی استاد نے شاگرد کو یا پیرنے مرید کو یا کسی نے اپنے کسی دوست وغیرہ کو اجازت دی ہو کہ آپ فلاں وقت میں میرے پاس آجایا کریں،تو ایسی صورت میں نئی اجازت لیے،بغیر داخل ہو سکتا ہے،اس کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاکہ تمہارے لییمیرے پاس آنے کی بس یہی اجازت ہے ،کہ تمہیں میری آہستہ آواز سن کر یہ پتہ چل جائے کہ میں اندر موجود ہوں،تم پردہ اٹھاؤ اور اندر آجاؤ ،ہاں! اگر منع کردوں تو اور بات ہے۔(الجامع الصحیح لمسلم،کتاب السلام، باب جواز جعل الاذن رفع حجاب،رقم الحدیث:5666)
اگر کوئی ملاقات کے لیے آئے تو بغیر عذر کے اس سے ملاقات کو ترک نہ کرے
جیسے جو شخص ملاقات کے لیے آرہاہے کے لیے آداب ہیں،اسی طرح اس شخص کو بھی چاہیے جس سے وہ ملاقات کے لیے آئے،اس کا بھی آپ پر حق ہے ،یعنی اس کا یہ حق ہے کہ اس کو اپنے پاس بلائیں،یا باہر آکر اس سے ملیں،اسکااکرام کریں وغیرہ۔
قاصد بھیج کر بلائے گئے کے لیے استیذان کا حکم
اگر کسی نے کسی کو قاصد بھیج کر بلایا ہے تو اگر وہ اس کے قاصد کے ساتھ ہی آگیاتو اب اس کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ،قاصد کا آنا ہی اجازت ہے۔ (الدرمع الرد،کتاب الحظروالاباحة،فصل فی البیع،5/293،رشیدیہ)
ہاں! اگر اس وقت نہ آیا کچھ دیر بعد پہنچا تو اجازت لینا ضروری ہے۔
سنن أبی داود کی روایت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اذا دعی فجاء مع الرسول فان ذالک لہ اذن“۔(سنن أبی داوٴد،کتاب الأدب، باب فی الرجل یدعی أیکون ذلک اذنہ؟رقم الحدیث:5190)
یعنی جو آدمی بلایا جائے اور وہ قاصد کے ساتھ ہی آجا وے ،تو یہی اس کے لیے اندر آنے کی اجازت ہے۔
عام جگہوں میں استیذان کا حکم
اگر ایسی جگہ ہے جہاں پر ہر کسی کو آنے کی اجازت ہے۔ مثلاً خانقاہیں، دینی مدارس ،ہسپتال،رفاہ عام کے سب ادارے اسی حکم میں ہیں، وہاں ہر شخص بلا اجازت جا سکتا ہے،البتہ مدارس،خانقاہوں وغیرہ میں جو کمرے وہاں کے منتظمین یادوسرے لوگوں ،طلباء کی رہائش کے لیے مخصوص ہوں، وہاں پر بغیر اجازت داخل ہونا درست نہیں۔
اپنے گھر میں داخل ہونے کے آداب
مذکورہ احکام تو ان مواقع کے ہیں کہ جب انسان غیر کے گھر،کمرے وغیرہ میں جائے،اگر انسان اپنے گھر میں داخل ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اپنے گھر میں صرف اہلیہ رہتی ہے تواب تو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ،بلکہ جب داخل ہو تو بیوی کو سلام کرے۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی ،سورة النور:27،12/219،دارالفکر)
اور اگر گھر میں اہلیہ کے ساتھ ،ماں،بہن وغیرہ بھی رہ رہی ہوں تو اب جب گھر میں داخل ہو،تو کھنکھارے،یا پاؤں وغیرہ زمین پر مارے۔یا تسبیح وغیرہ بلند آواز سے کہہ لے،تاکہ ان کو اس کی آمد کا علم ہوجائے۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی،12/219،دارالفکر)
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جانے کے وقت بھی استیذان کروں؟آپ نے فرمایا:ہاں! استیذان کرو،اس شخص نے کہا یا رسول اللہ!میں تو اپنی والدہ ہی کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پھر بھی اجازت لیے بغیر گھر میں نہ جاؤ ،اس نے پھر عرض کیا یارسول اللہ !میں تو ہر وقت اس کی خدمت میں رہتا ہوں،آپ نے فرمایا :پھر بھی اجازت لیے بغیر گھر میں نہ جاؤ،کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اپنی والدہ کو ننگی دیکھو؟اس نے کہا کہ نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسی لیے استیذان کرنا چاہیے ۔ (الموطا للامام مالک،کتاب الجامع ،باب فی الاستیذان ،ص725،نور محمد)
یعنی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کپڑے کھولے ہوئے ہوں اور اچانک انسان داخل ہوجائے اور نظر پڑ جائے،اس لیے جب گھر میں ماں،بہنیں،بیٹیاں وغیرہ ہوں تو انسان گھر میں داخل ہونے سے پہلے کھانس لے،تاکہ ان کو اس کی آمدکی اطلاع ہوجائے۔(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی،سورة النور:27،13/219،دارالفکر)
فون سے متعلق چند اہم امور
کسی کو فون کرنا بھی گویا اس سے ملاقات کرنا ہے تو اس کے لیے بھی وہی استیذان والے احکام ہوں گے۔
چناں چہ کسی شخص کو ایسے وقت میں فون پر مخاطب کرنا جو عادة اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو،بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں،کیوں کہ اس میں بھی وہی ایذار سانی ہے،جوکسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔
جس شخص سے فون پر بات چیت اکثر کرنی ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کر لیا جائے کہ آپ کو فون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے،پھر پابندی کرے۔
فون پر اگر کوئی طویل بات کرنی ہوتو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں،کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فون کی گھنٹی آنے پر طبعا آدمی مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے؟اور اس ضرورت سے وہ کسی بھی حال میں اور اپنے ضروری کام میں ہو تو اس کو چھوڑ کر فون اٹھاتا ہے، کوئی آدمی اس وقت لمبی بات کر نے لگے،تو سخت تکلیف ہوتی ہے۔