Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

5 - 16
ملائکہ پر آدم عليه السلام کی برتری
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

آیات
﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن، قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ﴾․(البقرة:31 تا33)
ترجمہ:اور سکھلاد یے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے، پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے، پھر فرمایا بتاؤ مجھ کو نام ان کے اگر تم سچے ہو،بولے پاک ہے تو ،ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا تونے ہم کو سکھلایا ،بے شک تو ہی ہے اصل جاننے والا، حکمت والا ۔فرمایا اے آدم! بتادے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام۔ پھر جب بتادیے اس نے ان کے نام، فرمایا کیا نہ کہا تھا میں نے تم کو کہ میں خوب جانتا ہوں چھپی ہوئی چیز یں آسمانوں کی اور زمین کی اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو؟

ربط آیت
ملائکہ اس خیال میں تھے کہ ہم خلافت و نیابت کے لیے زیادہ موزوں ہیں، اس لیے انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی تھی کہ ہماری موجودگی میں ایسی مخلوق بنانے میں کیا حکمت ہے جوشرو فساد کا عنصر لیے ہوئے ہے۔اس کا ایک جواب تو گذشتہ آیت میں دیا گیا کہ﴿ انی اعلم مالا تعلمون﴾ یعنی خلافت الٰہیہ کا فریضہ کون انجام دے سکتا ہے اس کی حقیقت ہم ہی جانتے ہیں، اب اس آیت سے دوسرا حکیمانہ جواب دیا جارہا ہے۔

تفسیر
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت اور ملائکہ پر آپ کی برتری کے اظہار کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام موجودات کے نام اوصاف اور خواص کا علم آپ کو سکھا دیا۔پھر ان چیزوں کو ملائکہ پر پیش کر کے ان سے پوچھا گیا کہ اگر تم استحقاق خلافت کے دعوے میں سچے ہو تو ان موجودات کے نام و اوصاف ہی بتادو؟ کیوں کہ جب تک ان کا نام،خاصیت اور استعمال کا طریقہ کار معلوم نہ ہو تو خلافت کی ذمہ داریاں ادا نہیں کی جاسکتیں۔ اس پرملائکہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا ﴿سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾(پاک ہیں آپ،ہم کو علم نہیں۔مگر وہی جو آپ نے عطا فرمایا،بے شک آپ بڑے علم و حکمت والے ہیں۔)یعنی ملائکہ نے اپنی درماندگی اور عاجزی کا اظہار و اعتراف کر لیا،چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے آدم! ملائکہ کو ان چیزوں کا نام بتادو آدم علیہ السلام نے جب ان کا نام بتادیا تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں زمین آسمان کی تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی جانتا ہوں۔

بعض شبہات اور ان کے جوابات
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر آدم علیہ السلام کی طرح ملائکہ کو بھی یہ علم سکھا دیا جاتا تو وہ بھی جواب دے دیتے، اس میں آدم علیہ السلام کی کیا فضیلت؟

حکیم الا ُمت حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں اسماء کی تعلیم ملائکہ کی موجودگی ہی میں دی گئی، چوں کہ ملائکہ میں ان خاص علوم کی استعداد نہ تھی، اس لیے سمجھنے سے قاصر رہے۔یہ ایسا ہے جیسے اقلیدس کا استاذ کسی دعوی پر دوطا لب علموں کے سامنے تقریر کرے تو وہی طالب علم اسے سمجھے گاجسے اقلیدس سے مناسبت ہوگی دوسرا نہیں۔

اب اگر کسی کو اشکا ل ہو کہ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْسے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں علم اسماء کے سمجھنے کی استعداد تھی۔اس کا جواب یہ ہے کہ انباء محض کسی خبر کو نقل کر دینے کو کہتے ہیں ،یہ تعلیم کے درجے میں نہیں آتی اور نہ ہی اس سے علم اسما ء کے حقائق کا حاصل ہونا لازم آتا ہے ۔

ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کہ جب ملائکہ آدم علیہ السلام کی خبر بھی نہیں سمجھے تو فرشتوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو یہ علم حاصل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تقریر کی قوت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے، اگر چہ سمجھ میں نہ آئے جیسے اقلیدس کے مبادی سے بے خبر طالب علم استاذ کی تقریر تو نہیں سمجھ سکتا، لیکن اتنا سمجھتا ہے کہ استاذ کسی موضوع پر ماہرا نہ گفتگو کر رہا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس خاص علم کی استعداد ملائکہ کو کیوں نہیں دی گئی؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکمت الٰہی کا در ہے، جس پر کسی کو دستک کی اجازت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان اور فرشتوں میں جو تفاوت رکھا ہے اسے برقرار رکھ کر انسان کو انسان اور فرشتوں کو فرشتہ ہی رہنے دیا جائے۔اگر یہ استعداد فرشتوں میں پیدا کردی جاتی تو فرشتے فرشتے نہ رہتے۔جیسے حرکت حیوان کا خاصہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ملہ سے یہ صفت جماد میں پیدا کر یں تو وہ جماد نہ رہے، بلکہ حیوان بن جائے۔(مفہوم از بیان القران، اشرف التفاسیر ،البقرہ،تحت ایة رقم:33)

﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾
ترجمہ:اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گر پڑے، مگر شیطان، اس نے نہ مانا اور وہ تھا کافروں میں کا۔

ربط:گزشتہ آیت میں ملائکہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و برتری کا مشاہدہ اور اپنی عاجزی کا اعتراف کیا تھا،اب اس آیت میں فرشتوں کو حکم دیا دیا جارہا ہے کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ،تاکہ ان کی عملی تعظیم بھی سامنے آجائے ۔

تفسیر
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی کریں تو تمام فرشتے حکم پاتے ہی سر بسجود ہوگئے۔لیکن ابلیس نے تکبر اور غرور میں آکر سجدہ کرنے سے انکار کردیااور کافر ہوگیا۔

واضح رہے کہ ابلیس کا تعلق جنات سے ہے جیسا کہ سورة کہف میں ہے ۔﴿کان من الجن فسق عن امر ربہ﴾․(الکھف:50)(تھا جن کی قسم سے سونکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے )اور سجدہ کرنے کا حکم اسے بھی دیا گیا تھا، چناں چہ قرآن کریم میں ایک مقام پر صراحتا مذکور ہے جب ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا﴿مامنعک الاتسجد اذ امرتک﴾(الاعراف:12)(تجھ کو کیا مانع تھا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا؟لہٰذا کسی کو یہ اشکال پیدا نہ ہو… سجدہ کرنے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا، پھر ابلیس کے انکار کا کیا مطلب ؟

باقی رہا یہ سوال کہ سجدہ کرنے کاحکم صرف ابلیس (جن)کو تھا یا تمام جنات کو؟
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ حکم تمام جنات کو تھا۔(تفسیرعزیزی فارسی، البقرة،تحت آیة رقم :34))حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے۔ (بیان القرآن البقرةتحت آیة رقم :34)

خوارج کے موقف کی تردید
آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ابلیس کو اس لیے کافر قرار دیاگیا کہ اس نے حکم الٰہی ماننے سے انکار کردیا تھا ۔محض ترک عمل (سجدہ)کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا ،اگرچہ گناہ گار ضرور ہوتا ہے ۔اس تصریح سے خوارج ومعتزلہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے، جو ابلیس کو محض ترک سجدہ کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔ (تفسیرمدارک البقرةتحت آیة رقم :34)

مودودی صاحب کی غلط فہمی
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے علم ازلی کی بدولت ابلیس کے کافرانہ انجام سے باخبر تھے۔

لیکن وہ کافر کب ہواتھا؟تمام مفسرین اور قرآنی آیت کی روشنی میں یہی معلوم ہو تا ہے کہسجود ملائکہ کے وقت سجدہ سے انکار کرنے کے باعث کافر قرار پایا جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ﴾ (الکھف:50)(جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو۔ تو سجدہ میں گر پڑے، مگر ابلیس، تھا جن کی قسم سے، سو نکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے۔)

یہاں ﴿فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہ﴾ سے واضح ہو رہا ہے اس نے حکم الٰہی کا انکار کر کے کفر کا ارتکاب کیاہے، لیکن مودودی صاحب کا دعوی ہے کہ ابلیس سجود ملائکہ کا معاملہ پیش آنے سے پہلے کافر تھا چناں چہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:

”دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کا فروں میں سے تھا ۔اس صورت میں مطلب ہوگا کہ جنوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش اور نافرمان تھی اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا“۔(تفہیم القرآن: البقرة،تحت آیة رقم:34)

مودودی صاحب کو یہ غلط فہمی ایک مسلمہ محذوف عبارت نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوئی۔کیوں کہ جن مفسرین نے بھی ﴿کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾ میں ” کَانَ“کا ترجمہ فعل ماضی ”تھا“سے ادا کیا ہے، انہوں نے فی علم اللہ محذوف مانا ہے۔یعنی اللہ کے علم میں تھا کہ ابلیس درحقیقت کافر ہے۔لیکن اس پر کفر کا حکم تو اس وقت نافذ ہو ا جب اس نے سجدے سے انکار کردیا۔

لیکن مودودی صاحب اپنے خود ساختہ مطلب میں ابلیس پر تب سے کفر کا حکم لگارہے ہیں جب اسے سجدہ کا حکم بھی نہیں ملا تھا۔مودودی صاحب کا مطلب نہ صرف آیت کریمہکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ کی غلط ترجمانی ہے، بلکہ دوسری آیت ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ﴾ (الکھف:50)(جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو تو سجدہ میں گر پڑے، مگر ابلیس تھا جن کی قسم سے، سو نکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے)کے مقتضی کے بھی خلاف ہے۔

سجدہ تعظیمی کا شرعی حکم
انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جبین کو خاک پر رکھ دینے کا نام سجدہ ہے ۔

یہ سجدہ اگر عبادت کی غرض سے ہو تو ”سجدہ عبادت“اور اگر محض تعظیم و تکریم کے لیے ہو تو سجدہ تعظیمی کہلاتا ہے۔

گذشتہ امتوں میں سجدہ تعظیمی کی اجازت تھی۔(احکام القرآن للجصاص:البقرہ تحت آیة رقم :34)چناں چہ قرآن کریم میں یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کی طرف سے سجدہ کرنے کا ذکر آتاہے﴿وَرَفَعَ أَبَوَیْْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَہُ سُجَّداً﴾(یوسف:100) (اور اونچا بٹھایااپنے ماں باپ کو تخت پر اور سب گرے اس کے آگے سجدہ میں۔)حضرت آدم علیہ السلام کو کیا جانے والا سجدہ بھی سجدہ تعظیمی تھا۔(تفسیر عزیزی فارسی البقرة:تحت آیہ رقم:34)لیکن شریعت محمدیہ میں ذات باری تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں، چاہے سجدہ تعظیمی یا سجدہ عبادت، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لو کنت امر احدا لامرت المراة ان تسجد لزوجھا(جامع الترمذی :باب حقوق الزوج علی المراة:رقم الحدیث:1159)یعنی اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔

لہذاقبر،پیر،یا استاد وغیرہ کو سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے۔اگر عبادت کی نیت ہو تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔

آیات
﴿وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَداً حَیْْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ، فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اہْبِطُواْ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ﴾․(البقرة:35 تا36)
ترجمہ:اور ہم نے کہا اے آدم !رہاکر تو اور تیری عورت جنت میں اور کھاؤ اس میں جو چاہو،جہاں کہیں سے چاہو اور پاس مت جانا اس درخت کے، پھر تم ہو جاؤ گے ظالم،پھر بھلادیا ان کو شیطان نے اس جگہ سے، پھر نکالا ان کو اس عزت وراحت سے کہ جس میں تھے اور کہا ہم نے، تم سب اترو،تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ایک وقت تک۔

ربط
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی دل جوئی اور تسکین خاطر کے لیے حضرت حوا علیہما السلام کو ان کی پسلی کے مادہ سے پیدا فرما کر ان کا ہم نشین بنا دیا ۔اور دونوں جنت میں خوش وخرم اور راحت و مسرت کے دن گزارنے لگے۔نعمتوں سے بھری جنت میں ایک درخت ایسا بھی تھا جسے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا تھا۔و ہ درخت کون ساتھا؟قرآن کریم اور صحیح حدیث میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ۔چوں کہ اس پرکوئی شرعی حکم موقوف نہیں، اس لیے اس کی جنس معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔(تفسیر ابن کثیر ۔تفسیر کبیر:البقرة تحت آیہ رقم:35، 36)۔بہرحال حضرت آدم علیہ السلام کی خوش بختیوں کے یہ مناظر ابلیس کو کب گوارہ تھے؟وہ تو بہر صورت ان سے ان کی مسرتیں چھین کر اپنے جذبہ حسد کو سامان تسکین پہنچانا چاہتا تھا۔

چناں چہ اس نے حضرت آدم اور حضرت حوّا علیہما السلام کا خیر خواہ بن کر انہیں بہکا نا شروع کر دیا کہ اگر یہ درخت کھا لیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ کر جنت میں قربت الٰہی کے مزے لُوٹو گے۔کیوں کہ اس درخت میں حیاتِ جاوداں اور ملکِ لازوال کا راز مضمر ہے۔

﴿ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی﴾․(طہ:120)
(میں بتاؤں تجھ کو درخت سدا زندہ رہنے کا اور بادشاہی جو پرانی نہ ہو؟)
ساتھ تاویل بھی بتادی کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت منع فرمایا تھا جب تمہاری استعداد کمزور تھی،اب تو ماشاء اللہ تمہاری استعداد اپنی کمال قوت کو پہنچ چکی ہے۔اس لیے اب کھانے میں کچھ حرج نہیں حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی دل فریب باتوں پر کچھ تردد ہوا تو قسمیں کھا کر یقین دلانے لگا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔

﴿وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْن﴾․(الاعراف :21)
تاویل بھی ذرا نمکین تھی، پھر درخت کی خوبیاں سنا کرحضرت آدم علیہ السلام کے آتش شوق کر بھڑکا چکا تھا۔پھر ظالم نے خدا کی قسمیں کھا کر اطمینان دلا یا تھا۔محبوب کا نام سن کر تو اہل دل گھل ہی جاتے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ کوئی بدبخت رب ذوالجلال پر بھی جھوٹی قسمیں کھا سکتا ہے؟

غرض سب ایسے اسباب جمع ہوگئے کہ حضرت آدم علیہ السلام سمجھے اب درخت کھانا ممنوع نہیں رہا اور لغزش میں آکر درخت کھالیا۔بس درخت کا کھانا تھا کہ سب عیش وآرام رخصت ہوگیا اور نیچے اترنے کا حکم دیا گیا، ظاہری سزا تو یہ ہوئی کہ جنت سے زمین پر اترنے کا حکم ملا اور باطنی سزا یہ دی کہ تمہاری اولاد میں باہم عداوتیں ہوں گی، جس سے زندگی کا لطف پھیکا پڑجائے گااور دنیا کی یہ زندگی بھی عارضی ہوگی، چنددن گزار کر یہاں سے بھی کوچ کرنا ہوگا۔

آدم علیہ السلام فرط ندامت سے رونے لگے اور بارگاہ الٰہی میں معافی کے خواست گار ہوئے۔

ابلیس حضرت آدم علیہ السلام سے ملا تھایا محض وسوسہ ڈالا تھا؟
قرآن کریم کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ابلیس اور حضرت آدم علیہ السلام میں باقاعدہ مکالمہ ہوا تھا۔یہ لغزش محض وسوسے کا نتیجہ نہیں۔ کیوں کہ قسمیں عادةً کلام ہی میں کھائی جاتی ہیں اور کلام ملاقات کی صورت میں ممکن ہے۔باقی رہا یہ اشکا ل کہ ایک آیت ﴿فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَان﴾ (الاعراف:20) میں وسوسہ کی تصریح ہے تو اس کے متعلق اتنا جان لینا چاہیے کہ وسوسہ صرف دل میں خیال لانے کا نام نہیں ہے، بلکہ کلام میں کسی کو ورغلانا بھی وسوسہ کہلاتا ہے۔(بیان القرآن:البقرہ:تحت آیة رقم:36)۔

مکالمہ کہاں ہوا تھا؟اس کی صحیح خبر معلوم نہیں تاہم ممکن ہے حضرت آدم علیہ السلام سیر کے لیے جنت سے باہر آسمانوں کی طرف آئے ہوں، وہاں ابلیس سے ملاقات ہوگئی ہو۔یا آدم علیہ السلام جنت کے دروازے پر ہوں اور ابلیس جنت کے دروازے کے باہر اور یہ مکالمہ ہوگیا ہو۔واللہ اعلم بالصواب․

اس مقام پر بے ساختہ یہ خیال پریشان کرنے لگتا ہے کہ کیا انبیائے کرام سے بھی گناہ سرزد ہو سکتے ہیں؟ اس لیے یہاں مسئلہ عصمت انبیاء پر ایک تحقیقی نظر ڈال لینی چاہیے، تاکہ عصمت انبیاء کا مسئلہ بے غبار ہو کر واضح ہو جائے۔

مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام
اہل سنت والجماعت کے نزدیک پوری انسانیت میں صرف انبیائے کرام ہی ایسی مقدس جماعت ہے جو معصومیت کے درجے پر فائز ہے۔(والأنبیاء علیہم الصلاة والسلام کُلّہم منزّھون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبح:(شرح کتاب الفقة الأکبر․ بحث فی انّ الأنبیاء منزھون عن الصغائر والکبائر،ص:99:بیروت))ان کے اقوال و افعال،حرکات و سکنات سے قصداً وارادةً کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہو سکتا جو ان کے دامن عصمت کو داغ دار کر سکے۔(وجب أن تکون کل اعتقاداتہ وأفعالہ، واقوالہ، وأخلاقہ الاختیاریة بعد الرسالة موافقة لطاعة اللہ تعالیٰ، وجب أن لایدخل فی شییٴ من اعتقاداتةوأفعالہ، وأقوالہ وأخلاقہ معصیة للہ تعالیٰ (العقیدہ الاسلامیہ، الفصل الرابع،صفة العصمة،ص:382))وہ کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنے اختیار سے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں(العصمةفضل من اللہ ولطف منہ، ولکن علی وجہ یبقی اختیار ہم بعد العصمة فی الاِقدام علی الطاعة، والامتناع عن العصمة․ واِلیہ مال الشیخ ابو منصور الماتریدی حیث قال: العصمة لاتزیل المحنة أي الاِبتلاء والامتحان، یعنی لا تجبرہ علی الطاعة، ولا تعجزہ عن المعصیة“․ (شرح کتاب الفقہ الأکبر للملا علی القاری، بحث فی ان الانبیاء منزھون، ص:105)

وأما تعریفہا الحقیقی علی ما ذکرہ فی شرح المقاصد فہو أنہا ملکة اجتناب المعاصی مع التمکن منہا․(حاشیہ خیالی:ص:107)

ان عصمة الأنبیاء لیست لامر طبعی، بل بمحض توفیق اللہ تعالیٰ․(روح المعانی، ابراہیم، تحت آیہ، رقم :35)

اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام کی ذات گرامی سراپا خیر بن کر جلوہ افروز ہوتی ہے،بارگاہ خداوندی سے امت کے ہر فرد کو بغیر چوں چرا کیے، ان کی مطلق اطاعت کا حکم ملا ہے۔﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ﴾ (دلت علی وجوب طاعتہم مطلقاً فلو اتوا بمعصیة لوجب علینا الاقتداء بہم فی تلک المعصیة واجبة علینا، فیلزم توارد الایجاب والتحریم علی الشيٴ الواحد وإنہ محال․(تفسیر کبیر، النساء، تحت آیہ رقم :64)(اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے۔)بلکہ باری تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ ﴾ (النساء:80 )(جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا۔) ان کی زندگی کو ”اسوةحسنة“کا خطاب دے کر واضح کر دیا ہے کہ ان کا ہر فعل اورہر قول ہدایت کا روشن چراغ ہے جہاں معصیت کی ظلمت نہیں پھٹک سکتی﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (احزاب:21)(تمہارے لیے بھلی (مفید)تھی رسول اللہ کی چال)۔

اب اگر ان سے گناہ صادر ہونے لگیں تو پوری امت جذبہ اطاعت کے ساتھ اس معصیت میں شریک ہو جائے گی۔معصیت ،اطاعت قرار پائے گی۔جس سے سارا نظام ہدایت درہم برہم ہوجائے گا۔وحی الٰہی سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ہدایت کی ہر منزل مشکوک ٹھہرے گی۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ
اس مقام پر یہ شبہ وارد ہو تا ہے اگر انبیاء معصوم ہیں تو پھر قرآن وحدیث میں ان کی طرف ایسی چیزیں کیوں منسوب ہیں جو گناہ ہیں؟

شبہ کا ازالہ
پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ انبیائے کرام سے منسوب ایسے واقعات ہم تک کس طریق سے پہنچے ہیں۔اگر خبر واحد کے ذریعے پہنچے ہیں تو قابل التفات ہی نہیں، کیوں کہ انبیائے کرام کو گناہ گار ٹہرانے سے بہتر ہے کہ راویوں کو جھوٹا اور غلط ٹھہرایا جائے۔اور اگر ایسے امور خبر متواتر اور قرآن کریم سے ثابت ہیں تو ایسے تمام افعال:

سہو اور نسیان پر محمول ہیں(والجواب عنہ اما اجمالاً فہو ان ما نقل احاداً مردود، وما نقل متواتراً اومنصوصاً فی الکتاب محمول علی السہو والنسیان او ترک الاولیٰ اوکونہ قبل البعثة او غیر ذلک من المحامل والتاویلات․( شرح المقاصد، المقصد السادس، 3/311:بیروت))۔

کیوں کہ معصیت تو اس نافرمانی کو کہتے ہیں جو جان بوجھ کر اور پورے عزم وارادے کے ساتھ وجود میں آئے۔ اگر عزم وارادے کے بغیر بھول چوک سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جو بظاہر کسی حکم کے خلاف ہو تو اسے گناہ نہیں کہتے، بلکہ لغزش(زلة)کہتے ہیں۔(والحاصل: ان احداً من اہل السنة لم یجوز ارتکاب المنہی منہم عن قصد، ولکن بطریق السہو والنسیان، ویسمی ذلک زلہ․“(شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، بحث فی ان الانبیاء منزھون :ص:105))․

اہل سنت والجماعت کی تصریح کے مطابق بھول چوک سے ہونے والے ایسے تمام امور (صغائر) عصمت انبیاء کے منافی نہیں۔ (اَما الصغائر …ویجوز سہواً بالاتفاق…لکن المحققین اشترطوا ان ینہوا علیہ فینتہوا عنہ…․(شرح العقائد النسفیة:ص مبحث عصمة الانبیاء:326)اسی قصہ آدم علیہ السلام کو لیجیے جس کے بارے میں آیاہے ﴿فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ‘﴾البقرة:36 (پھر ہلا دیا ان کو شیطان نے)زلة بلا ارادہ پھسل جانے کو کہتے ہیں۔(شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری:ص:105)ایک دوسرے مقام پر تو واضح الفاظ میں فرما دیا کہ یہ سب بھولے سے ہوا۔﴿ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْما﴾ (طہ:115) (پھر بھول گیا اور نہیں پائی ہم نے اس میں کچھ ہمت(پختگی)۔

یا ایسے تمام امور مؤول ہیں۔
مثلا حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ انہوں نے چاند کو دیکھ کر ارشاد فرمایاتھا﴿ہَذَا رَبِّیْ ﴾انعام:78) لہٰذا اس ناقابل تردید قول کی تاویل کی جائے گی کہ یہاں ہمزہ استفہام محذوف ہے۔تقدیری عبارت یوں ہے ”أہَذَا رَبِّیْ بزعمکم؟“کیا تمہارے خیال میں میرا رب یہی ہے؟

یا خطا ئے اجتہادی پر محمول ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں ایسے افعال پر عصیان کا اطلاق محض ظاہری صورت کی بنا پر ہوا ہے۔یا انبیائے کرام کے اعلیٰ مقام و مراتب کی نسبت انہیں عصیان کہہ دیا گیا ہے۔(وذکر فی عصمة الانبیاء لیس معنی الزلة انہم زلو ا عن الحق الی الباطل۔ ولکن معناہم انہم زلوا عن الافضل الی الفاضل، وانہم یعاتبون بہ لجلال قدرھم ومکانتہم من اللہ تعالیٰ․ تفسیر حقی ․طہ :تحت آیہ رقم:121)․

انبیاء کوکن امور میں سہو اور نسیان ہوتا ہے؟
علامہ رازی رحمة اللہ علیہ نے انبیائے کرام سے متعلقہ امور چار خانوں پر تقسیم فرما کر ہر ایک پر عمدہ کلام فرمایا ہے کہ انبیاء کے کن امور میں سہو و نسیان کا احتمال رہتاہے۔(تفسیر کبیر،البقرہ ،تحت آیہ رقم36،بتغییریسیر)

امورعقائد
اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام فطرت توحید پر پیدا ہوتے ہیں اور تادم آخر اس عقید ے پر کار بند رہتے ہیں۔ان کے دل کا آئینہنور توحید سے جگمگاتا رہتا ہے۔ بندگان خدا کی یہ مقدس جماعت زندگی کے ہر مرحلے میں کفر و شرک کی ظلمتوں سے محفوظ رہی ہے، عمداًیا سہواً ان سے کفریہ اعمال صادر نہیں ہوئے۔ البتہ شیعوں کے نزدیک انبیاء سے تقیةً کفر کا اظہار ہو سکتا ہے۔

فریضہ تبلیغ
اس پر بھی پوری امت کا اتفاق ہے کہ انبیائے کرام خدا کے احکام انسانوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی دروغ گوئی یا تحریف سے کام نہیں لیتے۔وہ اس فریضے کی انجام دہی میں ہر قسم کی غلطی سے محفوظ اور معصوم ہیں۔سہو اور نسیان بھی ان پر طاری نہیں ہوتا۔

اجتہاد
اس میں اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ انبیائے کرام غیر منصوصہ مسائل میں وحی کا انتظار کرنے کے بعد اپنے اجتہاد سے جو حکم صادر فرماتے ہیں اس میں خطا کا امکان ہوتا ہے۔تاہم اگر خطائے اجتہادی واقع ہوجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے اطلاع آجاتی ہے ۔چوں کہ یہ اجتہاد ہے، اس لیے اس میں سہو اور نسیان کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔

افعال و عادات
اس میں اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ انبیائے کرام عمداً کبیرہ اور صغیرہ (غیراولیٰ)سے محفوظ اور معصوم ہیں۔ البتہ کبھی کبھی سہواًاور نسیاناً غیر اولیٰ امور صاد رہو جاتے ہیں، جو بظاہر معصیت معلوم ہوتے ہیں،لیکن درحقیقت کسی تشریعی حکم کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نماز میں سہو پیش آیا ،جو بظاہر غفلت معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے سجدہ سہو کا حکم بتلانا مقصود تھا۔(تفسیر الکبیر،البقرة،تحت آیہ رقم ،36) (جاری)
Flag Counter