Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

3 - 16
فتنہٴ انکار ِ حدیث
مولاناسید احمدومیض ندوی

اسلام مکمل دستورِ حیات ہے، جو ہرشعبہٴ زندگی میں انسان کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلامی تعلیمات نے انسانی زندگی کے کسی شعبہ کو تشنہ نہیں چھوڑا، عقائد وایمانیات کے علاوہ معاملات ومعاشرت، لباس وپوشاک، وضع قطع ودیگرشعبہ ہائے زندگی، حتی کہ بشری تقاضوں کی تکمیل تک میں اسلام کا اپنا طریقہ ، اپنی تہذیب اور اپنا طرز بود وباش ہے، ایک مسلمان سے اسلام کا تقاضا ہے کہ وہ زندگی کے ہرشعبہ میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی طرزِ زندگی کا التزام کرے، اسلام ایک مسلمان کی ہرحرکت وعمل میں اسلامی تہذیب کی جھلک دیکھنا چاہتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلامی تعلیمات میں یہ جامعیت صرف قرآن مجید سے نہیں آتی، قرآن پاک میں تو زیادہ ترکلی اور اصولی باتوں پر اکتفا کیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں جامعیت اور ہمہ گیر یت احادیثِ رسول صلى الله عليه وسلم سے آئی ہے؛ اگر شریعتِ اسلامی سے احادیثِ رسول صلى الله عليه وسلم کو علیحدہ کرلیا جائے تو اسلامی تعلیمات کے ایک بڑے حصہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا؛ چوں کہ دستورِ حیات کی حیثیت سے مکمل دین پر عمل نفس کے لیے شاق گذرتا ہے، اس لیے شکوک وشبہات کے مریض اور خواہش نفس کے غلام ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ کسی نہ کسی عنوان سے ذخیرہٴ احادیث سے دامن چھڑالیا جائے، حدیث سے بے نیازی یا انکارِ حدیث کا فتنہ آج کی نئی پیداوار نہیں ہے؛ بلکہ نبیٴ رحمت صلى الله عليه وسلم نے اپنی حیات ہی میں اس فتنہ کے ظہور کی پیشین گوئی فرمائی تھی؛ چناں چہ آپ کا ارشاد ہے ”خبردار! عنقریب ایسا وقت بھی آئے گا کہ کسی شخص کو میری حدیث پہنچے گی وہ اپنے تخت پر (بے نیازی کے ساتھ) ٹیک لگائے بیٹھ کر اس کے جواب میں کہے گا کہ ہمیں کتاب اللہ کافی ہے، ہم صرف اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھیں گے (کسی اور کے کلام کی ہمیں ضرورت نہیں) خبردار! (اچھی طرح سمجھ لو) مجھے کتاب اللہ دی گئی، اس کے ساتھ اتنی ہی مقدار بھی دی گئی ہے (یعنی وحی متلو کے ساتھ وحی غیرمتلو بھی ہے)۔“ (ابوداوٴد، ترمذی،مشکوٰة:29)

انکارِ حدیث کی بنیاد سب سے پہلے فرقہ معتزلہ نے رکھی، اس فرقہ نے عقل کو شریعت کے تابع کرنے کے بجائے شریعت اور امورِ شرعیہ کو عقل کے تابع کردیا، اس فرقہ کے ظہور سے قبل پہلی صدی تک امت احادیث صحیحہ کو قابل حجت سمجھتی تھی، فتنہ انکار حدیث پہلی صدی کے بعد کی پیداوار ہے، اس سلسلہ میں مشہور محدث مولانا بدر عالم میرٹھی اپنی شہرہٴ آفاق تصنیف ترجمان السنة میں تحریر فرماتے ہیں:

”اسلام میں تقریباً پہلی صدی تک صحیح احادیث کو بلا تفصیل متفقہ طور پر حجت سمجھا جاتا تھا،حتی کہ معتزلہ کی ابتدا ہوئی، ان کے دماغوں پر عقل کا غلبہ تھا؛ انہوں نے حشرونشر، روٴیت ِباری تعالیٰ ،صراط ومیزان اور اس قسم کی احادیث کو قابل تسلیم نہ سمجھا اور اپنے اس مزاجی فساد کی وجہ سے اخبار ِ متواترہ کے سوا بقیہ احادیث کا سرے سے انکار کردیا اور بہت سی قرآنی آیات، جو اپنے وجدان کے خلاف دیکھا، ترک کر ڈالیں“ ۔(ترجمان السنة: 92/1)

بقول علامہ ڈاکٹر خالد محمود:
”واصل بن عطا پہلی صدی کے آخر میں ابھرا اور عقل کے ھتیاروں کی تیزی میں بہت سے ذخیرہٴ حدیث کو کچلتے ہوئے آگے نکل گیا۔“ (آثارالحدیث: 403/2)

یہ حیرت انگیز بات ہے کہ دوسری صدی ہجری میں معتزلہ نے عقل کے غلبہ کے نتیجہ میں انکارِ حدیث کے جس فتنہ کی بنیاد رکھی تھی، تیرھویں صدی ہجری میں پھر یہ فتنہ دین کو عقل کے تابع کرنے کی اساس پہ ظہور پذیر ہوا، اس طرح تیرھویں صدی میں نیچری تحریک کا آغاز دراصل معتزلہ کی نشاة ثانیہ تھی، بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں اس فتنہ نے برصغیر ہندوپاک میں سراٹھایا، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
”بیسویں صدی کے آغاز میں، جب مسلمانوں پر مغربی اقوام کا سیاسی نظریاتی تسلط بڑھا تو کم علم مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب تھا، وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں ترقی بغیر تقلید مغرب کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ لیکن اسلام کے بہت سے احکام اس کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، اس لیے اس نے اسلام میں تحریف کا سلسلہ شروع کیا تاکہ اسے مغربی افکار کے مطابق بنایا جاسکے، اسی لیے ان کو اہل تجدد کہا جاتا ہے، ہندوستان میں سرسیداحمد خان ،مصر میں طٰہٰ حسین ،ترکی میں ضیاء گو ک اس طبقہ کے بانی تھے، اس طبقہ کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے تھے جب تک کہ حدیث کو راستہ سے نہ ہٹایا جائے؛ کیوں کہ احادیث میں زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق ایسی مفصل ہدایات موجود ہیں جو مغربی افکار سے صراحةً متصادم ہیں؛ چناں چہ اس طبقہ کے بعض افراد نے حدیث کو حجت ماننے سے انکار کیا، یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمد خان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی، لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علی الاعلان اور وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی اس کی صحت سے انکار کردیا، خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید مطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا، اس ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند جواز دی گئی ۔ (درسِ ترمذی: 26/1)

فتنہ انکارِ حدیث کو اس وقت قدرے تقویت ملی جب اس کی باگ ڈور مولوی عبداللہ چکڑالوی نے سنبھالی،یہ پہلا شخص تھا جس نے کھلے عام حدیث کا انکار کیا، مولوی عبداللہ چکڑالوی کس شدت کے ساتھ انکارِ حدیث کے نظریہ پر قائم رہا،اس کا اندازہ اس کی تفسیر ترجمة القرآن بآیات القرآن کے ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے، ایک جگہ لکھتا ہے:

”کتاب اللہ کے مقابلہ میں انبیا اور رسولوں کے اقوال وافعال یعنی احادیث قولی فعلی تقریری پیش کرنے کا مرض ایک قدیم مرض ہے“ کسی جگہ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور شے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر نازل ہوئی تھی؛ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سوا کسی اور چیز سے دینِ اسلام میں حکم کرے گا تو وہ مطابق آیات مذکورہ بالا کا فر اور فاسق ہوجائے گا“ ۔(تفسیر ترجمة القرآن: 42)

حدیث کے تعلق سے عبداللہ چکڑالوی کی یاوہ گوئی کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجئے:

”فی الحقیقت حدیث میں اس قدر لغویات، ہزلیات اور دور از کار باتیں مندرج ہیں کہ وہ اس کی شکل کو نہایت بدنما بناتی ہیں؛ لیکن واضعین حدیث نے یہ بڑی کاری گری کی کہ اس کو خاتم النبیین کی طرف منسوب کیا اور اس طرح اس کے بدشکل چہرہ پر سفید پاوٴڈر ملادیا“۔ (ترجمان الفرقان: 109)

اس سے آگے بڑھ کر اس نے سرے سے حدیث کی حاجت ہی کا انکار کیا اور لکھا ”قرآن مجید میں دینِ اسلام کی ہرایک چیز“ من کل الوجوہ مفصل ومشرح طور پر بیان ہوگئی ہے تو اب وحی خفی یاحدیث کی کیا حاجت رہی؟ بلکہ اس کا ماننا اور دینِ اسلام میں اس پر عمل درآمد کرنا سراسرکفر وشرک اور ظلم وفسق ہے۔“

مولوی عبداللہ چکڑالوی نے اہلِ قرآن کے نام سے ایک گروہ کی بنیاد رکھی، جس کی بنیاد انکار حدیث تھی، عبداللہ چکڑالوی کے بعد اسلم جیراج پوری نے اس فتنہ کو آگے بڑھایا، اسلم جیراج پوری متشدد منکر حدیث تھا، حدیث کے تعلق سے اس کے گم راہ کن عقائد کا اندازہ اس کی کتابوں کے چند اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے، ایک جگہ لکھتا ہے:

”نہ حدیث پر ہمارا ایمان ہے اور نہ اس پر ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا، نہ حدیث کے راوی پر ہمارا ایمان ہے نہ اس پر ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے؛ پھر یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایسی غیر ایمانی اور غیریقینی چیز کو ہم قرآن کی طرح حجت مانیں۔“ (مقام حدیث، بحوالہ آثار الحدیث:413/1)

اسلم جیراج پوری کے بعد نیاز فتح پوری میدان میں اترا، اس نے بھی انکارِ حدیث میں ہر طرح کی حدود کو پھلاند دیا؛ حتی کہ اس نے مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار حدیث کو ٹھہرایا؛ چناں چہ وہ لکھتا ہے:

”اگر مولویوں کی جماعت واقعی مسلمان ہے تو میں یقینا کافر ہوں اور اگر میں مسلمان ہوں تو یہ سب نامسلمان ہیں؛ کیوں کہ ان کے نزدیک اسلام نام ہے صرف کورانہ تقلید کا اور تقلید بھی رسول واحکام رسول کی نہیں، بلکہ بخاری ومسلم ومالک وغیرہ کی اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی کیفیت یقین کی اس وقت تک پیداہی نہیں ہوسکتی جب تک ہرشخص اپنی جگہ غور کر کے کسی نتیجہ پر نہ پہنچے قصہ مختصر یہ کہ اولین بیزاری اسلامی لٹریچر کی طرف سے مجھ میں احادیث نے پیدا کی“۔ (آثارالحدیث: 417/2)

منکرین حدیث کے حلقے میں ایک مشہورنام تمنا عمادی کاہے، اس نے دوسروں کے مقابلہ میں قدرے علمیت کا سہارا لیا؛ انکارِ حدیث کے لیے وضع حدیث کا سہارا لیا اور براہ ِ راست انکار کے بجائے ان روایتوں کو مسترد کردیا جو اس کی فہم میں خلاف قرآن ہیں، نیز ائمہ حدیث پر بے اعتمادی کا اظہار کیا؛ چناں چہ اس کے بقول وہی حدیث صحیح ہے جو قرآن سے قریب تر ہو اور باقی سب غلط ہے، چاہے ان کے راوی کتنے ہی ثقہ کیوں نہ ہوں اور وہ صحاح ستہ کی متفق علیہ حدیثیں بھی کیوں نہ ہوں اور وہ ایک حدیث جو قرآن سے قریب تر ہے اس کا راوی کیسا ہی مجروح کیوں نہ ہو اور وہ صحاح ستہ سے باہر ہی کی حدیث کیوں نہ ہو، بلکہ شیعوں کی اصول کافی وغیرہ ہی کی حدیث کیوں نہ ہو۔ منکرین حدیث میں ایک نام ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا ہے، اس نے اپنی کتابوں ”قرآن اورا سلام“،” جہانِ نو “وغیرہ میں شدت کے ساتھ انکارِ حدیث کانظریہ پیش کیا ہے؛ البتہ غلام احمد پرویز کے دور میں یہ فتنہ بامِ عروج کو پہنچا؛ اس نے انتہائی چابک دستی کے ساتھ اس فتنہ کو پروان چڑھایا، بقول علامہ خالد محمود:

”آپ کا اندازتصنیف کچھ زیادہ سلیقہ دار اور الجھا ہوا ہے، جس میں جھانک کر اصل فتنے کی نشان دہی کرنا واقعی ایک بڑا مشکل کام ہے، آپ نے تفسیر مفہوم القرآن نو جلدوں میں تحریر کی ہے، جو حسن عبارت اور حسن طباعت میں نفیس کتاب ہے؛ لیکن اس میں کس طرح اسلام کے مسلم نظریات سے کھیلا گیاہے اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انکارِ حدیث کا نظریہ پرویز صاحب کو کہاں تک اسلام سے دور لے گیا ہے؟“ (آثارالحدیث : 422/2)

” غلام احمد پرویز نے اس فتنہ کو مستقل تحریک اور مکتب فکر کی شکل دے دی، انہوں نے اپنے کئی خیالات کی اشاعت کے لیے پاکستان میں اپنے سرکاری اثرورسوخ کا خوب استعمال کیا ، جدید تعلیم یافتہ لوگ کسی درجہ میں ان کے اردگرد جمع ہوگئے، پرویز نے اپنے اس موقف پر ادبی انداز میں خاصا لٹریچر مہیا کیا ،پہلے اس خیال کے لوگوں کو چکڑالوی کہا جاتا تھا، اب انھیں پرویزی کہتے ہیں۔“ (آثارالحدیث: 224/2)

فتنہ انکارِ حدیث اب ایک تحریک اور جماعت کی شکل اختیار کرگیا ہے، پاکستان میں تو اس تحریک کے باقاعدہ ادارے ہیں، جن سے سینکڑوں افراد وابستہ ہیں، ان اداروں سے انکارِ حدیث کے موضوع پر لٹریچر کی اشاعت عمل میں آتی ہے، ہندوستان میں بھی منکرین حدیث کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے، عرب ممالک بالخصوص مصر وغیرہ میں بھی اس فتنہ کی جڑیں مضبوط ہیں، ہمارے اکابر نے جہاں دیگر باطل فرقوں اور فتنوں کا تعاقب کیا ہے وہیں اس فتنہ کا بھی بھرپور تعاقب کیا ہے، عصر حاضر کے معروف عالم دین، ممتاز صاحبِ قلم ،حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بنیادی طور پر منکرینِ حدیث کے تین نظریات ذکر کیے ہیں؛ پھر ان کی مدلل طریقہ سے تردید فرمائی ہے، مولانا تحریر فرماتے ہیں :

”منکرین حدیث کی طرف سے جو نظریات اب تک سامنے آئے ہیں وہ تین قسم کے ہیں:
1... رسول کریم  صلى الله عليه وسلم کا ذمہ صرف قرآن پہنچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، آپ کی اطاعت من حیث الرسول نہ صحابہ پر واجب تھی اور نہ ہم پر واجب ہے۔ (معاذ اللہ) اور وحی صرف متلو ہے اور وحی غیرمتلو کوئی چیز نہیں ہے؛ نیز قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے حدیث کی حاجت نہیں۔
2... آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات صحابہ پر تو حجت تھے، لیکن ہم پر حجت نہیں۔
3... آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں ،لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں“ ۔(درس ترمذی: 1/26)

ان تینوں نظریات کا باطل اور خلاف قرآن وسنت ہونا واضح ہے، صرف قرآن کو واجب الاطاعت سمجھ کر پیغمبر کی اطاعت کی نفی کرنا خود نص قرآن کے خلاف ہے، قرآن مجید میں بار بار اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت پر زور دیا گیا ہے؛ جگہ جگہ﴿اطیعوالله﴾ کے ساتھ ﴿واطیعوالرسول﴾ کا ذکرہے۔

سورہٴ نساء میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  کی اطاعت اور آپ کے ارشادات کے واجب الاتباع ہونے کا تذکرہ دوٹوک انداز میں کیا گیاہے اور جو ایسا نہ کرے اس کے ایمان کی نفی کی گئی ہے، ارشاد ہے:﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً﴾․(النساء:65)
قسم ہے آپ کے رب! کی یہ ایمان دار نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اورفرماں برداری کے ساتھ قبول کریں۔

پیغمبر کی حقیقت صرف ڈاکیہ کی نہیں، بلکہ پیغمبر شارع اور کتابِ الٰہی کا شارح ہوتا ہے، پیغمبر کی شرح ووضاحت کے بغیر کتاب الٰہی کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں، ارشادِ خداوندی ہے:﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون﴾(النحل:44)”اور ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا ،تاکہ آپ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے کھول کھول کر بیان کریں۔“ تبیین کتاب کے علاوہ تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیة النفس آپ کے فرائض ِمنصبی میں سے ہے؛ چناں چہ ارشادِ ربانی ہے:﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾․(الجمعة:2)
ترجمہ: اگر آپ کے ارشادات اور احادیث کو حجت نہ مانا جائے تو پھر کتاب اللہ کی تشریح اور کتاب وحکمت کی تعلیم کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ اس سلسلہ میں خود قرآن کریم کا اسلوب سب سے بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

قرآن میں سابقہ انبیا ئے کرام علیہم السلام کے اقوال وارشادات بکثرت ذکر کئے گئے ہیں؛ پھر ان انبیاء کرام کی اطاعت کو ان کی اقوام کے لیے واجب قرار دیا گیا اور نہ ماننے والوں کو عذاب کی دھمکی دی گئی؛ اگر انبیاء کے اقوال اور خود انبیا واجب الاتباع نہ ہوتے تو ان کی بات نہ ماننے والوں پر عذاب کیوں نازل کیا جاتا، اس مسئلہ پر غور کرنے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جن انبیا پر آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ،ان کی تعداد بہت کم ہے، باقی بیشتر انبیا پر کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوئی، ایسے میں اگر ان کے ارشادات واقوال بھی حجت نہ رہیں تو پھر ان کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، احادیث رسول کا اس لیے بھی حجت ہونا ضروری ہے کہ قرآن میں عموماً ہر شعبہ سے متعلق صرف بنیادی اصولوں پر اکتفا کیا گیا ہے، تفصیلات سے تعرض نہیں کیا گیا؛ حتی کہ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے اسلامی ارکان کی بھی تفصیلات مذکور نہیں، اگر احادیث حجت نہ ہوں اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذات بابرکت واجب الاتباع نہ ہو تو پھر اسلام پر عمل ہی ناممکن ہے۔

جہاں تک وحی غیرمتلو کے انکار کا تعلق ہے تو یہ بھی خود قرآنی وضاحتوں سے ٹکرانے والی بات ہے، قرآنی آیات خود وحی غیرمتلو کی شہادت دیتی ہیں، سورہٴ بقرہ میں تحویل قبلہ کے ضمن میں ارشاد ہے:﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنتَ عَلَیْْہَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْْہ﴾(البقرة:143) آیت میں جس قبلہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد ”بیت المقدس“ ہے، ”جَعَلْنَا“کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم اللہ نے دیا تھا؛ جب کہ پورے قرآن میں کہیں یہ حکم نہیں ملتا، جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ حکم اللہ نے وحی غیرمتلو کی شکل میں دیا تھا، اس قسم کی دسیوں آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔

منکرین احادیث کا دوسرا نظریہ کہ احادیث صحابہ کے لیے تو حجت تھیں، لیکن ہمارے لیے حجت نہیں خود قرآن سے مسترد ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے رسول قرار دیا گیا ہے، آپ کی کتاب کو ساری انسانیت کے لیے ہدایت اور خود آپ کو ساری انسانیت کے لیے رحمت قرار دیا گیا، ارشادِ ربانی ہے: ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً﴾․ (الاعراف:158) دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وما ارسلناک الا کافة للناس بشیراً ونذیراً ﴾․ (السبا: 28)

منکرین احادیث کا تیسرا نظریہ جوعموماً ان کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعتراضات میں مضبوط اعتراض سمجھا جاتا ہے، وہ یہ کہ احادیثِ رسول حجت ضرور ہیں؛ لیکن وہ ہم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچیں، عموماً منکرین حدیث اس نظریہ کو بڑے شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں؛ لیکن یہ نظریہ جس شدت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اتنا ہی بودا اور بے بنیاد ہے؛ اگر اس نظریہ کو درست مان لیا جائے تو پھر قرآن سے بھی نعوذ باللہ کنارہ کشی اختیار کرلینی پڑے گی؛ اس لیے کہ قرآن مجید جن واسطوں سے ہم تک پہنچا ہے؛ انہی واسطوں سے احادیثِ رسول بھی پہنچی ہیں، قرآن مجید سے حفاظتِ احادیث کا کھلا ثبوت ملتا ہے، ارشادِ ربانی﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾(حجر:9) میں قرآن مجید کی حفاظت کا جو ذمہ لیا گیا ہے، اس میں حفاظت احادیث بھی داخل ہے، اس لیے کہ حفاظتِ قرآن کا مطلب صرف الفاظِ قرآن کی حفاظت نہیں، بلکہ معانی قرآن اور تشریحات ومطالب قرآن بھی اس میں شامل ہیں اور احادیثِ رسول دراصل آیاتِ قرآنیہ کی تشریحات ومطالب ہیں،ان کے بغیر ان آیات کے حقیقی مصداق تک رسائی ممکن نہیں؛ پھر غور کرنے کی بات ہے کہ جب آپ نے احادیث کے واجب الاتباع ہونے کو تسلیم کرلیا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ احادیث محفوظ ہیں، ورنہ خدا تعالیٰ بندوں پر ایسی چیز کیسے ضروری قرار دیں گے جو ان کے بس سے باہر کی ہے۔

احادیثِ رسول کس قدر محفوظ ہیں اس کا اندازہ تاریخ تدوین حدیث سے لگایا جاسکتا ہے، احادیث کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے منکرین حدیث کی جانب سے یہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ احادیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں عمل میں آئی، عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں حفاظتِ حدیث کا اہتمام نہیں کیا گیا؛ جب کہ یہ بات سراسر خلافِ حقیقت ہے، تدوینِ حدیث پر لکھی گئی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانہ ہی سے حفاظت حدیث کا اہتمام ہوتا آرہا ہے، عہدِرسالت اور عہدِصحابہ میں حفاظتِ حدیث کے تین طریقے رائج تھے1.حفظ  2.  تعامل 3. کتابت۔

سب سے پہلے تو صحابہ کرام کی بڑی تعداد صحبت نبوی صلى الله عليه وسلم میں رہ کر آپ کے ارشادات کو ذہن میں محفوظ کرتی تھی، عربوں کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز حافظہ عطا فرمایا تھا، دورِ جاہلیت میں وہ ہزاروں اشعارزبانی یاد رکھتے تھے، معمولی اشعار کا جب یہ حال تھا تو احادیثِ رسول، جو دین کا سرچشمہ ہیں کس قدر اہتمام سے یاد نہ کیے جاتے ہوں گے؟ حضور صلى الله عليه وسلم اپنے ارشادات کے ذریعہ آپ کی باتوں کو یاد رکھنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے؛ چناں چہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بکثرت احادیث یاد رکھا کرتے تھے، دوسرا طریقہ تعامل کا تھا، یعنی آپ کے ہر ارشاد کو عملی جامہ پہناکر محفوظ کرلیا جاتا تھا۔

صحابہ جانتے تھے کہ نبی کا ہرقول وفعل واجب الاتباع ہے؛ پھر انہیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے حد درجہ محبت تھی؛ چناں چہ وہ آپ کی ہرہربات کو عملی زندگی کا جز بنادیا کرتے تھے اور کسی بھی چیز کو محفوظ کرنے کا یہ ایک نہایت موٴثر طریقہ ہے۔

تیسرا طریقہ کتابتِ حدیث کا تھا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں محدود پیمانہ پر ہی سہی، احادیث کے لکھنے کا طریقہ بھی رائج تھا، بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین متفرق طور پر احادیث کو لکھوایا کرتے تھے؛ بعض صحابہ اپنے شخصی صحیفہ میں محفوظ کیا کرتے تھے؛ چناں چہ عہد صحابہ میں احادیث کے کئی مجموعے ذاتی ڈائری کی نوعیت کے پائے جاتے تھے، مسند احمد کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص جو احادیث نوٹ کرتے تھے اس کا نام ”الصحیفة الصادقہ“ رکھا تھا، حضرت عمر کا صحیفہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا، جس میں دیات اور قصاص وغیرہ سے متعلق احادیث درج تھیں، زکوٰة، صدقات اور عشر وغیرہ سے متعلق جو احادیث خود حضورصلى الله عليه وسلم نے املا کروائی تھیں، ان کے مجموعہ کو کتاب الصدقہ کہا جاتا تھا، اسی طرح صحیفہ ابن عباس، صحیفہ جابر بن عبداللہ، صحیفہ سعد بن عبادہ اور دیگر صحابہ کے صحف ملتے ہیں۔

منکرین حدیث، مسلم شریف کی ایک حدیث کو بنیاد بناکر عہدِ رسالت میں کتابت ِحدیث کی نفی کرتے ہیں، مسلم شریف کی حدیث ہے: ”لاتکتبوا عنی ومن کتب عنی غیرالقرآن فلیمحہ“․لیکن وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ بات آپ نے کس سیاق اور کن حالات میں فرمائی تھی؟ یہ بالکل ابتدائے اسلام کی بات تھی، جب قرآن ابھی نازل ہورہاتھا اورپورے طور پر ایک نسخہ میں مدون نہیں ہوا تھا، متفرق طور پر صحابہ کرام کے پاس لکھا ہوا تھا اور صحابہ خود پورے طور پراسلوب ِ قرآن سے آشنا نہیں تھے، آپ نے کتابت احادیث کی ممانعت اس لیے فرمائی کہ کہیں کہ وہ قرآن کے ساتھ گڈمڈ نہ ہو جائیں؛ لیکن جب یہ خطرہ ختم ہوا تو آپ نے نہ صرف کتابتِ حدیث کی اجازت دی، بلکہ اس کی تلقین فرمائی۔

منکرین حدیث کتابت حدیث کی ممانعت پر دلالت کرنے والی حدیث کو تو بڑی فراخ دلی سے قبول کرتے ہیں؛ لیکن ان حدیثوں کو خاطر میں نہیں لاتے جن سے احادیث کی کتابت کی ترغیب ثابت ہوتی ہے، ابوداوٴد اورمستدرکِ حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص کا واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنی گئی ہرچیز لکھ لیا کرتا تھا، قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلى الله عليه وسلم سے سنی گئی ہرچیز قید ِتحریر میں لاتے ہو، حالاں کہ حضور صلى الله عليه وسلم بھی انسان ہیں، آپ دورانِ گفتگو کبھی خوش رہتے ہیں، کبھی غصہ میں؟ قریش کے کہنے پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے سامنے سارا واقعہ رکھا تو آپ نے اپنی انگلی سے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میری زبان سے ہمیشہ حق ہی نکلتا ہے۔ (ابوداوٴد:2/513)

انکار حدیث کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں ہے، یہ دراصل امت مسلمہ کو شریعت اسلامی سے دور کرنے کی صہیونی وصلیبی سازش ہے، بقول مولانا سمیع الحق صاحب:
”مرزائیت کی طرح انکار حدیث بھی سامراجی منصوبوں اور صہیونی سازشوں کا ہی ایک حصہ ہے“

دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں:
”یہ فتنہ اپنی فتنہ سامانیوں کے لحاظ سے اسلام کے لیے ان فتنوں سے کسی طرح کم نہیں جو تاریخ کے ہردور میں اہل الحاد وزندقہ اور پھر جھوٹے مدعیان نبوت نے منصبِ نبوت میں دجل وتلبیس کرکے اسلام کے خلاف کھڑے کیے“۔ (خصوصی شمارہ، شاہ راہِ علم، رجب، شعبان، رمضان 1426ھ)

اس فتنہ کے بانیوں کے افکار کس قدر گم راہ کن ہیں، ذیل کے اقتباسات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے :
”میرا دعویٰ تو صرف اتنا ہے کہ فرض بھی دو ہیں اور ان کے اوقات بھی دو ہیں، باقی سب نوافل ہیں“۔ (عباداللہ اختر، طلوع اسلام: 5/اگست 1950ء)

”آج کے مسلمان دونمازیں پڑھیں؛ کیوں مسلمان نہیں ہوں گے“(طلوع اسلام: 6/اگست 1950ء)

”حدیث کا صحیح مقام تاریخ وغیرہ کا ہے، اس سے تاریخی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں؛ لیکن دینی صحت کے طور پر نہیں پیش کیا جاسکتا ہے“ (اسلم جیراج پوری، طلوع اسلام: 17/ڈسمبر 1650)

”حدیث کا پورا سلسلہ ایک نجی سازش ہے اور جس کو شریعت کہا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی پیدا کردہ ہے“۔ (پرویز، طلو ع اسلام: 7/اکتوبر 2952ء)

”حج کے دن بارہ بجے تک دس کروڑ روپے کا قومی سرمایہ ضائع ہوجاتا ہے اور یہ دس کروڑ ہرسال ضائع ہوتے ہیں“۔ (طلوع اسلام: یکم ستمبر 1950ء) 
Flag Counter