مسلمانوں کی کام یابی صرف اتباع رسول صلى الله عليه وسلم میں
محترم محمدایوب الدین ندوی
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاتھا”ایک زمانہ ایساآئے گاکہ تمہاری تعدادتوبہت ہوگی، لیکن تم ایسے ہوگے،جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے تنکے ہوتے ہیں“۔
اُس وقت اس پیشن گوئی پرسوچنے والوں نے سوچا،غورکرنے والوں نے غورکیا،لیکن بات سمجھ میں نہیں آئی ،اس لیے کہ صحابہ رضي الله عنهم کی جماعت کم تھی ، پرساری دنیاکی حاکم تھی،اس لیے صحابہ رضي الله عنهم کایہ خیال تھا،کہ جب ہم مسلمانوں کی تعداداس سے زیادہ ہوگی،تودنیاہی نہیں آسمانوں پربھی ہماری ہی حکومت ہوگی،لیکن صحابہ رضي الله عنهم اپنے اس خیال وگمان کونبی صلی الله علیہ وسلم کی زبان وبیان پرکیسے ترجیح دے سکتے تھے؟وہ توایسے تھے کہ بات سمجھ میں آئے یانہ آئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہہ دیا تو اس کے سامنے سرجھکادیا۔
بہرحال نبی صلى الله عليه وسلم نے کہا،صحابہ رضي الله عنهم نے سنااورمان لیا، لیکن سوچنے سے معلوم ہوگاکہ چودہ سوسال پرانی پیشن گوئی آج جاکرپوری ہورہی ہے۔
سوچیے!ساڑھے چودہ سوسال پہلے مسلمانو ں کی تعدادکتنی تھی اورآج کتنی ہے؟اُس وقت مسلمانوں کے پاس وسائل کتنے تھے اورآج کتنے ہیں؟ معلوم ہوگاکہ آج دنیاکی ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے اورآج جتنے وسائل مسلمانوں کے پاس ہیں اتنے کبھی کسی زمانے میں نہیں تھے،خلاصہ یہ کہ وہ کم تھے،پرساری دنیاکے حاکم تھے،آج ہم زیادہ ہیں،پرساری دنیاپرحکومت توکیاکرتے،اپنے ممالک اسلامیہ کی حکومت کوسنبھالنے میں دوسرے کے محتاج بنے بیٹھے ہیں ۔
آخرایساکیوں؟
اب اس کیوں کے جواب کے لیے تاریخ کے ہزاروں صفحات پلٹنے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ اپنی زندگی کواُس کم تعدادوالی جماعت، یعنی صحابہ کرام رضي الله عنهم کی زندگی سے ملانے کی ضرورت ہے، جس مُٹھی بھرجماعت نے ساری دنیاکواپنی مٹھی میں کرلیاتھا،آخران میں کونسی ایسی طاقت تھی ،جس نے ساری دنیاکواپنے سامنے جھکنے پرمجبورکیاتھا؟
دیکھیے اورملاتے جائیے،صحابہ رضي الله عنهم اپنے ہرکام میں اللہ کی خوشی چاہتے تھے،جب کہ ہماراہرکام دکھاوے کے لیے ہوتاہے،صحابہ رضي الله عنهم اپنے ہرکام میں قرآن وحدیث کودیکھتے تھے،جب کہ آج ہم اپنے ہرکام میں یورپ اوراس کے بازیگروں کودیکھتے ہیں،صحابہ رضي الله عنهم کاہرعمل نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پرہوتاتھا،جب کہ ہماراہرکام دنیاکے نام نہادہیروں کے طریقے پرہوتاہے، صحابہ رضي الله عنهم کونبی صلی الله علیہ وسلم سے اورنبی صلی الله علیہ وسلم کی ہراداسے محبت تھی،آج ہمیں یورپ اوراس کے ہرطریقے سے عشق ہے، صحابہ رضي الله عنهم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت کوقیصروکسریٰ کے دربارمیں بھی نہیں چھوڑا،جب کہ آج ہم اپنے گھرمیں رہتے ہوئے بھی نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت پرعمل کرتے ہوئے شرماتے ہیں، قربان جائیے صحابہ رضي الله عنهم پرکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کوبجالانے میں نہ دنیاکی پروا کی اورنہ دنیا والوں کی ،صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ، فاتح ایران حضرت حذیفہ بن یمان رضي الله عنه کسریٰ(گویاکہ آج کاصدرامریکہ)کی دعوت پرجب اس کے دربارمیں جنگ کو روکنے کے تعلق سے بات چیت کے لیے جاتے ہیں، توان کے اکرام میں کھاناپیش کیاجاتاہے، توجب وہ کھانے لگتے ہیں ،توحضرت حذیفہ رضي الله عنه کے ہاتھ سے ایک نوالہ گرجاتاہے، اب ایسے وقت میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم ہے کہ اگرنوالہ نیچے گرجائے تواس کونہ پھینکو،وہ نوالہ اللہ کارزق ہے اورمعلوم نہیں اللہ کے کونسے رزق میں برکت ہے؟ اس لیے ناقدری نہ کرو،بلکہ اسے اٹھاکرکھالو، اگرمٹی بھی لگ جائے تودھوکرکھاوٴ،توحضرت حذیفہ رضي الله عنه ،حضور صلی الله علیہ وسلم کی ہراداپرمرمٹنے والے، وہ اس سنت کو کیسے چھوڑسکتے تھے؟وہ اس کوسنت سمجھ کراٹھاکرکھانے لگے،توان کے ایک ساتھی نے کہایہ لوگ ہم کوجاہل(Uneducated) سمجھیں گے ،اس لیے آج ایسا مت کرو،یہ ہمارے اوپرفرض تونہیں ہے،تواس پرحضرت حذیفہ رضي الله عنه نے فرمایا”أأترک سنةرسول صلى الله عليه وسلم لھوٴلاء الحمقاء“ ․
کیامیں ان احمقوں و بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی سنت کوچھوڑدوں؟یہ مجھ سے نہیں ہوگا،چاہے یہ مجھے اچھاسمجھیں یابرا،چاہے یہ میری عزت کریں یانہ کریں ،یایہ میرا مذاق اڑائیں ،میں ان بیوقوفوں کی خاطرنبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت کونہیں چھوڑسکتا۔
دنیانے دیکھاکہ یہی نیچے گرا ہوا نوالہ اٹھا کرکھانے والا بے سر وسامان حذیفہ رضي الله عنه ایران کواپنے ہاتھ سے فتح کرتاہے اورکسری کواپنے سامنے جھکنے پر مجبورکرتاہے ،کون؟وہی جن کے پاس پہننے کے لیے ٹھیک سے کپڑے نہیں تھے اورجن کوایک وقت کاکھانامیسرنہیں تھا،لیکن نبی کی محبت اوران کے طریقوں سے الفت اوران کی اتباع کی چاہت، نے کسری کے تخت وتاج کوان کے قدموں میں لاکرڈال دیااوراسی اتباع نے انہیں اللہ کامحبوب بنادیا، جس کو قرآن میں اللہ نے یوں بیان فرمایا:﴿فاتبعونی یحببکم اللہ﴾ میری اتباع کرو،اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا۔
لیکن آج کا مسلمان اپنی زندگی گزارنے میں نبی کے طریقے کو چھوڑ کرغیروں کے طریقے کواپنارہاہے،جب کہ اللہ نے فرمایا﴿لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیراً﴾(الأحزاب/12)
ہم نے تمہارے پاس رسول صلی الله علیہ وسلم کوبہترین نمونہ بناکر بھیجاہے کہ تم ان کی نقل اتارو۔
دورحاضرمیں مسلمانوں کودیکھنے کے بعد یہ سوال پیداہوتاہے کہ نعوذ بالله، نقل کفر کفر نہ باشد، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میں کونسی ایسی کمی تھی جس کودورکرنے کے لیے ہم نے یورپ کی طرف نگاہ اٹھائی؟جب کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ میں غریب کے لیے بھی زندگی ہے ،اورامیرکے لیے بھی ،ایک کالے انسان کے لیے بھی میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ اسوئہ حسنہ ہے اورایک گورے کے لیے بھی،مختصربات یہ کہ اگرکوئی باپ ہے توفاطمہ الزہرا رضي الله عنه کے باپ کودیکھے اورکوئی شوہر ہے تو خدیجہ رضي الله عنه وعائشہ رضي الله عنه کے شوہرکودیکھے ، اگرکوئی ایک کاروباری تاجرہے توملک شام جاکرتجارت کرنے والے کودیکھے،اگرکوئی ایک حاکم ہے تومدینہ کے حاکم کودیکھے،اگرکوئی ایک جج ہے تو مدینہ کی چھپروالی مسجدمیں بیٹھ کرفیصلہ کرنے والے جج کودیکھے،اگرکوئی الیکشن میں جیت چکا ہے تومکہ کے فاتح کو دیکھے، اگر کوئی ایک استادہے توسوا لاکھ صحابہ رضي الله عنهم کوپڑھانے والے استاد وٹیچرکو دیکھے،بہرحال زندگی کے قدم قدم پرہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ موجودہے، پھر ہمارے لیے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی گزارنے میں دوسرے کے طریقے کے محتاج ہوں۔
بہرحال آپ صلی الله علیہ وسلم خوداورآپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کودیکھ کرہمیں اپنی زندگی کے قدم کوآگے بڑھاناہوگا،اسی میں ہماری ترقی کارازپوشیدہ ہے،ورنہ ہماری تعدادکتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،لیکن اگرہم میں نبی صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ نہیں ہے توہم سیلاب کے تنکوں کی مانندہوں گے،جسے اڑانے کے لیے ایک بڑے طوفان کی ضرورت نہیں، بلکہ انسان کی ایک پھونک ہی کافی ہے۔