Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 16
ماہ رجب کے واقعات اور بدعات
محترم محمد اخلاص سجاد

رجب،شوال،ذوالقعدہ ،ذو الحجہ کا شمار اشہر حرم میں کیا جاتا ہے، ان مہینوں میں جنگ وجدال حرام قرار دیا گیا ہے۔بعثت نبوی سے قبل عہد جاہلیت میں ان چار مہینوں کا بے حد ادب و احترام کیا جاتا تھا اور عرب اپنی بدویانہ زندگی کی وجہ سے لوٹ مار،فتنہ فساد اور ڈاکہ زنی جیسی عادتوں کے خوگر ہونے کے باجود ان ایام میں اپنی تمام سرگرمیاں موقوف کردیتے تھے اور ہر طرف امن و امان ،صلح و آشتی کا دور دورہ ہو جاتا تھا۔اسلام نے ان مہینوں کی حرمت و عظمت کے تصور کو باقی رکھا اور ہر قسم کی انسانیت دشمن سرگرمیاں حرام قرار دے کر ان مہینوں کو امن کا گہوارہ بنانے کا حکم دیا ۔قرآن عظیم الشان ان مہینوں کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿ان عدة الشہور عنداللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض ومنہا اربعة حرم﴾․
ترجمہ: مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اسی دن سے درج ہے۔جب کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔

زیر نظر مضمون میں رجب کے متعلق ذکر کیا جارہا ہے ۔لہذا مناسب یہ ہے کہ اس عظمت و اہمیت کے حامل مہینے کے ہر پہلو کو مختصراً بیان کیا جائے۔

لغوی حیثیت
ما رجب کو اگرلغوی نظر سے دیکھاجائے تو اس کی لغوی معنی تعظیم اور قربانی کے آتا ہے۔چناں چہ لسان العرب میں اس کی تصریح ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے۔

ورجب سموہ بذلک لتعظیمہم ایاہ فی الجاہلیة عن القتال فیہ․

وفی الحدیث: ہل تدرون ما العتیرہ؟ ہی التی یسمونہا الیہ الترجیب التعظیم وذبح النسائک فی رجب․

یعنی عربوں نے زمانہ جاہلیت میں اس مہینہ کی تعظیم کرنے اور جنگ وجدال سے باز رہنے کی وجہ سے اس کا نام رجب رکھا تھا۔

حدیث میں آ یاہے کہ کیاتم لوگ جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟وہی ہے جس کو اہل عرب رجبیہ کہتے تھے ترجیب کے معنی تعظیم اور رجب کے مہینہ میں قربانی کرنے کے آتے ہیں ۔اور بعض لغات کی کتابوں میں رجب کے معنی بہرے کے بھی ذکر کیے گئے ہیں ،اس معنی کے اعتبار سے رجب کے مہینہ کا نام رکھنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں قتل و غارت گری بند ہوجاتی تھی ،راستے پرامن ہو جاتے تھے اور پورے مہینہ میں امن و امان رہتا تھا،اس لیے لوگوں کی حالت کے مطابق اس مہینہ کا نام رجب ہے کہ گویا اس مہینہ میں لوگوں کی حالت بہروں کی طرح ہو جاتی تھی،لیکن بعض لوگوں میں جو رجب کے مہینہ کے بارے میں بہرا ہونے کی معنی کی وجہ سے جویہ مشہور ہوا ہے کہ قیامت کے دن یہ مہینہ بہر ا ہو جائے گا ”لوگوں کے عیوب اور جرائم بیان کرنے سے “اس کی کوئی اصل نہیں۔(بحوالہ”ماثبت بالسنہ فی ایام السنہ“ص169تا170 محدث دہلوی )۔

تاریخی حیثیت
تاریخی حیثیت سے یہ مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے اور اسلامی مہینوں میں اس عتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔

مثلاً تحویل قبلہ کا واقعہ ماہ رجب ہی میں پیش آیا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ معراج اسی مہینہ میں پیش آیا ہے بنسبت دیگر اسلامی مہینوں کے ماہ رجب میں احتمال زیادہ ہے۔

بہر حال واقعہ معراج ایک حیران کن اور حیرت انگیر واقعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو دین کو عقل کی کسوٹی پر کھتے ہیں، آخر ان کا نتیجہ گم راہی ہوتی ہے اور وہ لوگ اس اظہر من الشمس حقیقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں،لیکن واقعہ معراج نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور معجزے کی تعریف یہ ہے کوئی”خارق العادة“کام کا صدورنبی سے ہوجائے تو معجزہ کہلاتا ہے ،جب کہ عام ولی سے ہوجائے تو وہ کرامت ہوتا ہے۔

اس واقعے کا پورا تذکرہ ،بخاری شریف ومسلم شریف میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اس کے علاوہ نماز کی فرضیت بھی واقعہ معراج میں ہوئی ہے،اسی طرح غزوہ تبوک بھی ماہ رجب میں پیش آیا ہے۔

غزوہ موتہ میں رومیوں کو اپنی شکست فاش کا بڑا رنج وقلق تھا، وہ مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے،مسلمانوں سے ٹکر لینے کی تیاری کی خبر برابر موصول ہورہی تھی اور انہوں نے فوج کو تبوک پر جمع کیاتھا۔جس کی سرکوبی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ضروری سمجھی اور باوجود سخت مشکلات ،گرمی اور دیگر سازو سامان کی کمی کے مسلمانوں نے ان کے سامنے سینے تانے رکھے اور ان مغروروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

پہلی صدی ہجری ہی میں ماہ رجب 2ھ میں مصر و اسکندریہ کے بادشاہ”مقوقسقبطی“نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو تحفہ بھیجا ۔(تقویم تاریخی از عبدالقدوس ہاشمی صاحب ص2)

اس کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت کا خط لکھا تو اس نے بڑے اچھے طریقے سے خط کا جواب دیا اور حضورصلی الله علیہ وسلم کے لیے درج ذیل تحفے بھیجےدوعدد باندیاں، جن میں ایک حضرت ماریہ قبطیہ بھی تھیں۔جن سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ ایک ہزار مثقال سونایعفور نامی حماردلدل نامی خچر 30 عدد مصر کے نفیس کپڑے عمدہ شہدلکڑی کی شامی سرمہ دانی کنگھا آئینہ۔ (بحوالہ عہد نبوت کے ماہ وسال ص334)۔

ماہ رجب 2ھ میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی  کے ساتھ حضرت فاطمہ  کا نکاح کیا۔نکاح کا خطبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود پڑھا۔اس پر وقار مبارک تقریب میں خلفائے راشدین سمیت دیگر اصحاب کرام شریک تھے۔

اسی صدی کے ماہ رجب میں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ  کی وفات ہوئی۔(صحابہ انسائیکلو پیڈ یا ص 557)

ماہ رجب میں صحابی رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن سلام  بھی فوت ہوئے۔ (تقویم تاریخی)اور حضرت حفصہ کا ارتحال، وصحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اسامہ بن زید کی وفات ہوئی۔دوسری صدی کے ہجری ہی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز،حسن بصری(یعنی حضرت حسن ابن ابی الحسن )اور امام اعظم امام ابو حنیفہ  جیسی شخصیات بھی اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔

اس کے علاوہ اسی صدی کے ماہ رجب میں رومیوں نے ایشیائے کوچک کے سرحدی شہر”کمخ“پر حملے کے ساتھ”ملیطہ“شہر قبضہ کیا، یہاں جتنے مسلمان تھے ان کو قتل اور ان کی عورتوں کو قید کر لیا۔(ابن اثیر ج 5ص167)

اسی صدی کے ماہ رجب میں 151ھ میں لعین حکیم مقنع نے آگ میں کود کر خودکشی کی۔(تقویم تاریخی ص40)یہ اصلا ماوراء النہر (وسطی ایشیا)”مرو“کا باشندہ تھا۔ اس نے سونے کا ایک چہرہ بنا کر اپنے چہرہ پر لگالیا اور خدائی کا دعوی کردیا۔اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے خودان کے جسم میں حلول کیا ،وغیرہ ۔ بہر حال خلیفہ مہدی نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر بھیجے،بالآخر مقنع کا قلعہ”بسام“ محاصرہ میں لے لیا گیا ،اس کے تیس ہزار متبعین نے مسلمانوں سے امن طلب کیا اور قلعہ سے باہر نکل آئے، اس کے ساتھ صرف دو ہزار افراد باقی بچے ،آخرکار مقنع کو اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلا کر اپنے اہل و عیال کو اس میں دھکیل دے دیا، پھر خود بھی آگ میں کود کر جل مرا مسلمانوں نے قلعہ میں داخل ہوکر مقنع کی لاش آگ سے نکالی اور اس کا سر خلیفہ مہدی کے پاس روانہ کیا۔(تاریخ اسلام حصہ دوم ص314 از مولانا اکبر شاہ خان)ماہ رجب 204 ھ میں حضرت امام شافعی،ماہ رجب 259ھ میں محدث وقت حضرت حجاج بن شاعر،ماہ رجب 261ھ میں امام مسلم ( شہر ہ آفاق تصنیف ”صحیح مسلم “)ماہ رجب 280ھ میں امام ترمذی نے بھی رحلت فرمائی۔ان کے تعارف کے لیے ان کی تین لازوال تصانیف کا تذکرہ ہی کافی ہے، ترمذی جو کہ صحاح ستہ میں شامل ہے،2العلل3الشمائل۔ جس میں آپ علیہ السلام کا حلیہ مبارکہ وروزمرہ کے معمولات مذکورہیں، جب کہ ماہ رجب632 میں صاحب ہدایہ نے (ظفر المحصلین ص191) ،خواجہ معین الدین چشتی نے (تذکرہ اولیاء ص9)اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ماہ رجب 1225 ھ میں وفات پائی۔ (مقدمہ تفسیر مظہری)ماہ رجب 1362ھ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوینے (اکابر علماء دیوبند ص33)،ماہ رجب 13274ھ میں مولانا محمد اعزاز علی(صاحب نفحة العرب) اہم اکابر امت مسلمہ نے اس دار بے بقاکو الوداع کہا۔ اسی طرح ماضی قریب کے مشہور علماء میں سے مفسر بے بدل حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی (صاحب معارف القرآن)نے 8رجب 1349ھ میں حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب نے ماہ رجب 1400ھ میں اور حضرت علامہ محمد یوسف بنوری کے جانشین حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن  نے ماہ رجب1406 ھ میں رحلت فرمائی۔

رجب اور غیر شر عی رسومات
بعض لوگ ماہ رجب میں مختلف قسم کی رسومات کرتے ہیں۔جنکا نہ کوئی شرعی ثبوت ہے نہ ان کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔لیکن پھر بھی اکثر لوگ ان بدعات ورسومات کو عین دین سمجھ کر آگے ترویج بھی کرتے ہیں۔حالاں کہ غیر شرعی رسومات و بدعات کرنے پر قرآن و احادیث میں سخت ترین وعیدیں اور عذاب کی تہدید وار د ہوئی ہے لہذا خود بھی ان سے بچنا اور دوسروں کوبھی نہ کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔

مثلاً ماہ رجب میں بعض لوگ ”کونڈوں“کے نام سے ایک خاص قسم کی رسم کرتے ہیں۔جس کا ثبوت شرع کے بجائے یہ ہے کہ مولوی مظہر علی سندیلوی اپنے روزنامچہ میں 1911ء کو ایک نادر یاد داشت لکھتے ہیں کہ آج مجھے ایک نئی رسم دریافت ہوئی جو میر ے اور میرے گھر والوں میں رائج ہوئی جو اس سے پہلے میری جماعت میں نہیں آئی تھی۔وہ یہ ہے کہ21 رجب کو بوقت شام میدہ شکر اور گھی ،دودھ ملا کر ٹکیاں پکائی جائیں۔اور اس پر امام جعفر صادق  کا فاتحہ اور 22 رجب کی صبح کو عزیز و اقارب کو بلاکر یہ ٹکیاں کھلائی جائیں۔

یہ سب باتیں اوران کا تذکرہ کرنے سے مقصد اس رسم کے غیر شرعی ہونے کو ثابت کرنا تھا ،اس کے علاوہ مزید تحقیق کے لیے درج ذیل فتاویٰ مستندہ دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں اس رسم کو خلاف شرع قرار دے کر بدعت اور گناہ سے موسوم کیا گیا ہے۔(کفا یةالمفتی ج1ص242،فتاوی محمودیہ ج1 ص220)وغیرہ۔

اسی طرح 27رجب کی رات میں خاص طریقے پر نمازیں پڑھنا جس کو ”صلوة الراغب“کا نام دیا جاتاہے،یہ بھی غیر شرعی اور بے اصل ہے اور وہ روایات جو اس پر دلیل کے لیے پیش کی جاتی ہیں وہ خود ساختہ ،موضوع اور ناقابل اعتبارہیں۔

اسی طریقے سے عام لوگوں میں یہ بات بھی بہت مشہو ر ہے کہ ستائیسویں رجب کو روزہ رکھنا اس کا ثواب ایک ہزار روزہ کے برابر ہے۔ یہی وجہ تسمیہ بنا کر اس دن کے روزے کوہزاری روزہ کہتے ہیں ۔

یہ بھی بدعت اور خودسا ختہ رسم ہے ،جس کی بے اصلیت درج ذیل مستند فتوی میں دیکھی جاسکتی ہے۔

فتاوی رشیدیہ مع تالیفات رشیدیہ ص148 فتاویٰ دارالعلوم مدلل و مکمل ج2 صفحہ491۔ فتاوی محمودیہ ج1ص184۔ ست مسائل صفحہ 5۔ عمدة الفقہ ج 3ص 195 ملاحظہ ہوں۔

ان کے علاوہ دیگر مستند کتب و فتاویٰ میں اس کے متعلق بہت اہتمام کے ساتھ تردید ہوئی ہے۔

لہٰذا !تمام مسلمانوں سے گذارش ہے کہ ان تمام تربدعات سے خود بھی بچیں اور اہل خانہ کو بھی ان رسومات محضہ کے متعلق وعیدات اور عذابوں کو بیان کرکے ان سے گریز کرنے کی دعوت دیں ،ورنہ قیامت کے دن بہت سخت ترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

رب کریم ہم سب کو ترک بدعات اور صراط مستقیم پر چلنا سکھا دے۔ آمین ثم آمین۔ 
Flag Counter