Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 16
ائمہ مساجد کے مطلوبہ اوصاف
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

بندے اور خالق کے درمیان فرائض میں امام واسطہ ہوا کرتا ہے، واسطہ جس قدر قوی وتوانا ہوگا اسی کے بقدر اس پر سہارا بھی دیا جاسکتا ہے، منصبِ امامت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب امامت کبری کا مسئلہ در پیش ہوا تو امامت صغری ہی کو بطورِ نظیر پیش کیا گیا، جس کی بنا پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت کی گئی، لہٰذا جو منصب جتنا اہم ہوتا ہے اسی کے بقدر اس کا پاس ولحاظ بھی کرنا پڑتا ہے، لہٰذا مساجد کی امامت کے لیے بھی ایسے ہی افراد کا انتخاب ہو جو اس کی صلاحیت رکھتے ہوں، ورنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جب نا اہل کو کوئی منصب سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ (بخاری: 59 باب من سئل علما)

در اصل امامت بھی ایک ایسا ہی منصب ہے کہ صحابہ کرام اس سے گھبرایا کرتے تھے، حضرت حذیفہ نے ایک دفعہ نماز پڑھائی، اس کے بعد کہنے لگے کہ تم لوگ اپنا امام تلاش کرلو، آئندہ میں نماز نہیں پڑھاوٴں گا۔ امام غزالی فرماتے ہیں: صحابہ کرام چار چیزوں سے ڈرتے تھے جن میں امامت اور فتوی بھی ہے۔ (تبلیغ دین ص:121)

الغرض امامت وہ منصب ہے جب تک صلاحیت نہ ہو اس سے احتراز کرنے ہی میں عافیت ہے، لیکن کوئی شخص امامت کے لیے آمادہ ہے تو اس کے لیے ان اوصاف کا حامل ہونا بھی ضروری ہے جو ایک امام کے لیے مطلوب ہیں، اگر کوئی شخص امامت کا خواہاں ہے اور وہ مطلوبہ صفات سے خالی ہے تو اسے اپنے اندر ون ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

متقی امام
تقوی ایک اہم اور بنیادی صفت ہے، جو کئی خوبیوں کو حاوی ہے، اسی لیے متقی امام کی تلاش ہونی چاہیے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی فرمایا: اگر تم کو حسرت ہو کہ تمہاری نمازیں مقبول ہوں تو تمہارے بھلے لوگ تمہارے امام ہونے چاہییں۔ (مستدرک حاکم: 4981)

نیز دوسری روایت میں ہے: تمہارے علماء تمہارے امام ہوں، اس لیے کہ ائمہ حضرات تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ترجمان ہوتے ہیں، (طبرانی کبیر: 777)

نماز کی امامت در حقیقت نبی صلی الله علیہ وسلم کی (جو دنیا وآخرت کے پیشوا اور امام ہیں) نیابت کا ایک حصہ ہے، چونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم تمام اوصاف حمیدہ کے جامع اور نمونہٴ قرآن ہیں، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت یہ رہی کہ جو شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی نیابت کرے اس میں بھی ان اوصاف کا پَر تو موجود ہو، چناں چہ کئی مرتبہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امام کی صفات اور معیارات کو بیان کیا (فتح الملہم 2/231)

در اصل امام کے تقوی کا اثر مقتدیوں کی نماز کے ثواب پر بھی پڑتا ہے، اس لیے کہ جو ثواب متقی کے لیے ہے وہ فاسق کی اقتداء میں نہیں۔ (ہندیہ 1/84 ،الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ)

اسی لیے امام کو ظاہری وباطنی فسق وفجور سے گریزاں ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنی ذات کے ساتھ مقتدیوں کے ثواب میں کمی کا مرتکب نہ ہو؛ اسی لیے فقہاء نے فاسق کی امامت کو مکروہ لکھا ہے، آج ائمہ کرام میں فسق ظاہری کی کئی صورتیں مروج ہیں، مثلا اسبالِ ازار یعنی ٹخنوں کے نیچے پائجامہ پہننا، یہ تو ایک عام آدمی کے لیے بھی جائز نہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر امام کے لیے روا ہوجا ئے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ازار کا جو حصہ ٹخنوں کے نیچے لٹکارہے وہ جہنم میں ہوگا۔(بخاری: 5787 باب ما أسفل)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ٹخنوں کے نیچے پائجامہ پہننے والے کو متکبر تک شمار کیا ہے،بسا اوقات اس مرض کے عادی نماز میں بھی اپنا ازار نیچے رکھ دیتے ہیں، جس کے سلسلہ میں فقہاء نے لکھا ہے کہ نماز مکروہ تحریمی تک ہوجاتی ہے، صحابہ کرام اس سلسلہ میں بہت محتاط تھے، اگر کسی کا ازار ٹخنوں سے نیچے دیکھ لیتے تو فورا ٹوک دیا کرتے، چناں چہ حضرت عمر فاروق زخم سے نڈھال ہیں، بیماری کی حالت میں صاحب فراش ہیں، ایک شخص آپ کی عیادت کے لیے آئے، آپ نے جاتے ہوئے ان کا ازار ٹخنوں کے نیچے محسوس کیا تو انہیں طلب کیا، اور فرمایا: ”یا ابن اخی إرفع ازارک فانہ انقی لثوبک وأتقی لربک“ اے میرے بھتیجے! اپنے ازار کو اوپر کرلو، یہ کپڑوں کی پاکی کے لیے بھی زیادہ مناسب ہے، اور رب سے ڈرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ فسق ظاہری کی ایک مروجہ صورت ڈاڑھی میں کٹوتی کی بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی بناوٹ کو بہترین ساخت سے تعبیرفرمایا، اگر بندہ اسی پر راضی رہے تو زہے قسمت، بجائے اس کے اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صورت سے ڈاڑھی کو غیر شرعی طریقہ سے تراشتا ہے تو وہ مغربی نظر میں تو اپنے آپ کو حسین وخوب صورت شمار کرسکتا ہے، لیکن فطری نظر تو اسے نا پسندیدہ ہی قرار دے گی، نیز اس کی خرابی اس وقت مزید دو چند ہوجاتی ہے جب اس کا مرتکب کوئی مذہبی پیشوا اور راہ نما بھی ہو، وہ بھی وہ شخص جس نے اپنے آپ کو منصب امامت کے لیے آمادہ کیا ہے، ڈاڑھی آنے کے باوجود اس میں ناجائز قطع وبرید انتہائی بد بختانہ عمل ہے، شیخ الحدیث زکریا نے اس کی قباحت کچھ یوں بیان کی کہ انسان اگر کوئی برا عمل کرے تو وہ بُرا عمل اس کی نیکی میں دخل انداز نہیں، لیکن ریش تراشی کا گناہ ایسا خطرناک ہے کہ اس کے نیک عمل کے ساتھ بھی شامل ہے، اسی لیے ائمہ کرام بالخصوص اور عوام بالعموم اپنی ڈاڑھیوں کی غیر شرعی کٹوتی سے احتراز کریں۔

منصب کا لحاظ
امامت ایک اہم منصب ہے اس منصب کے حامل کو ایسے امور سے بھی اجتناب کرنے کی ضرورت ہے، جو مروت کے خلاف تصور کی جاتی ہیں، جیسے راستے میں کھانا، سرراہ استنجاء کرنا، گٹکا، سگریٹ نوشی، اسی طرح تمباکو کا استعمال، جس کو علماء نے مکروہ تحریمی تک لکھا ہے، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے منھ صاف رکھنے کی تلقین بھی کی ہے، اسی لیے مسواک بھی مشروع ہے، چوں کہ زبان تلاوت قرآن کا ذریعہ ہے تو دنیاوی ناپاک اشیا سے گندہ کرکے اگر ہم تلاوت کریں تو منھ کی بدبوسے ملائکہ کو تکلیف ہوگی، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے منھ کو مسواک سے پاک صاف رکھو، یہ قرآن کریم کی تلاوت کا راستہ ہے، (ابن ماجہ: 291 باب السواک) منصب امامت کی پاس داری میں یہ بھی داخل ہے کہ ذمہ داروں کی چاپلوسی وخوشامدی سے دور رہے، یہ طرزِ عمل منصب امامت کے منافی ہے، اخلاق ومروت کے بھی خلاف ہے، اس سے امام کا وقار بُری طرح مجروح ہوجاتا ہے، ذمہ دار پھر امام پر حقارت کی نگاہ ڈالتے ہیں، نیز بعض مقامات پر تو چاپلوسی وخوشامدی کو بنیاد بنا کر امام مقرر کیا جاتا ہے، جس کے کئی ایک بھیانک نتائج رونما ہورہے ہیں۔منصب ِامامت کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ منبر رسول سے حق کا اظہار ہو، باطل کی بیخ کنی ہو، حق کے اظہار میں حکمت کا بھر پور لحاظ بھی ہو کہ تیز وتند لہجہ ترش روئی مخالف کو حق سمجھنے سے باز نہ رکھے، مسلکی تعصب بھڑکانے، فروعی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے اس مقام کا استعمال نہ ہو، عوام کے درمیان اختلافی مسائل کی تبلیغ وتشہیر کو اپنا مشغلہ نہ بنائے، بعض ائمہ مساجد اختلافات کی تبلیغ کے ذریعہ اپنا استحکام کرتے ہیں، جو منصبِ امامت کے منافی طرز عمل ہے، نیز ذمہ داروں کے اختلافات کے مواقع پر غیر جانب دار رہے اور حکیمانہ انداز میں حق کی حمایت ہو، جس سے دونوں طبقات کی اصلاح ہو، ورنہ اگر ائمہ مساجد جانب دارانہ رویہ اپنائیں گے تو مخالفین امام کو داغ دار کریں گے، جس سے اس کی شخصیت مجروح ہوگی، ایک محلہ کے امام کی کم از کم کوشش یہ ہو کہ وہ محلے میں دینی شعور بیدار کرنے کی تدبیریں کرے اور عملی طور پر لوگوں میں دینی مزاج پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہو، اگر ائمہ مساجد چاہیں تو اپنے منصب کا خیال کرتے ہوئے محلے میں دینی ہلچل پیدا کرسکتے ہیں محلے میں ہونے والے علانیہ گناہوں پر پابندی لگاسکتے ہیں، ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں ائمہ کرام مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ بچوں کو بیٹے کے درجے میں رکھ کر شفقت ومحبت کا معاملہ کریں، نوجوانوں کو بھائی سمجھ کر نرمی وخیر خواہی کا پہلو اپنائیں، بوڑھوں کو باپ کا درجہ دیتے ہوئے اکرام کریں، اس منصب کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو محض نوکری کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ یہ نیابت رسول صلی الله علیہ وسلم ہے، جس کے ذریعہ معاشرہ میں صالح انقلاب لایا جاسکتا ہے، ملنساری، خوش طبعی ہمدردانہ رویے سے ایسا نمونہ پیش کرے کہ مخالفین وموافقین بیک زبان امام کی ہر آواز پر لبیک کہیں۔

عوام کا اعتماد
عوام کے ذہن ودماغ میں یہ بات جاگزیں ہے کہ ائمہ حضرات ہم سے زیادہ نیک ہیں، ائمہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو مجروح ہونے سے محفوظ رکھیں، بالخصوص انسان اپنی ظاہری حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے علانیہ گناہوں سے تو مجتنب رہتا ہی ہے؛ لیکن تنہائی میں وہ شیطان کے مقابل زیر ہوجاتا ہے،اسی لیے ہم اپنے ظاہرو باطن کو یکساں بنانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو جو دعائیں سکھلائیں ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ : ”اللہم اجعل سریرتی خیرا من علانیتی واجعل علانیتی صالحة․“ (ترمذی: 3586) کہ اے اللہ! میرے باطن کو ظاہر سے اچھا بنا اور ظاہر کو بھی صالح بنادے۔

امام کی تلاش
آج ذمہ دارانِ مساجد کی خواہش وآروز ہے کہ ان کا امام ایسا ہو جو ظاہری وضع قطع کا بھی پابند ہو، نیز حسن صوت وقراء ت سے بھی آراستہ ہو، معتبر ادارہ سے بھی فارغ ہو، مفتی بھی ہو، اندازِ بیاں بھی عمدہ ہو، ظاہر ہے اگر یہ اوصاف کسی میں جمع ہوجائیں تو زہے قسمت ، لیکن بالعموم ایسا اجتماع بہت ہی کم ہوتا ہے، اگر ان اوصاف سے متصف افراد کی تلاش وجستجو کے لیے نکلیں تو یہ بنی اسرائیل کی گائے کی طرح ہے، حسنِ صوت نماز کے لیے کوئی لازمی عنصر نہیں فقہاء نے حسنِ صوت کو صرف لوگوں کی رغبت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

بعض دفعہ صالحیت کے بجائے حسنِ صوت پر ہی تقرر کا مدار رکھا جاتا ہے، جس سے کئی قسم کے نقصانات رونما ہوتے ہیں، مفتی تقی عثمانی صاحب نے امام کے کچھ شرعی اوصاف قرآن وسنت کی روشنی میں بیان فرمائے ہیں، ذمہ داروں کو جس کا لحاظ کرنا اور ائمہ کو ان کا التزام کرنا زیادہ مفید رہے گا۔

امام مسلمان ہو، بالغ ہو، دیوانہ نہ ہو، نشے میں نہ ہو، نماز کا طریقہ جانتا ہو، نماز کی تمام شرائط وضو وغیرہ اس نے پوری کر رکھی ہوں، کسی ایسے مرض میں مبتلا نہ ہو جس کی وجہ سے اس کا وضو قائم نہ رہتا ہو، رکوع وسجدے پر قادر ہو تاکہ تن درست لوگوں کی امامت کرسکے، گونگا، تتلا، ہکلانہ ہو، کچھ ایسے اوصاف ہیں جن کے بغیر نماز مکروہ ہوتی ہے، وہ یہ ہیں : صالح ہو، یعنی کبیرہ گناہوں میں مبتلا نہ ہو، فاسد عقیدہ والا نہ ہو ، نمازکے ضروری مسائل سے واقف ہو، قرآن کریم کی تلاوت صحیح طریقے سے کرسکتا ہو، کسی ایسے جسمانی عیب میں مبتلا نہ ہو، جس کی وجہ سے پاکیزگی مشکوک ہو، یا لوگوں کو بیماری سے گھن ہو۔ نیز فرماتے ہیں: ان کے علاوہ چوں کہ امام مسجد اپنے محلے کا دینی مرکز اور ایک طرح مربی بھی ہوتا ہے؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ مندرجہ ذیل مزید اوصاف بھی پائے جاتے ہوں، حاضرین میں علم وتلاوت کے اعتبار سے سب سے بلند ہو، خوش اخلاق، شریف النسب ہو، باوقار، وجیہ ہو، صفائی ستھرائی، تقوی اور طہارت کا خیال رکھتا ہو، مستغنی طبیعت رکھنے والا ہو اور سیرچشم ہو۔ (فتاوی عثمانی1/415)
Flag Counter