Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

10 - 16
جہیزخاندانی ادارے کے لیے عظیم چیلنج
محمد شاہ نواز عالم قاسمی

عصرحاضر میں خاندانی ادارے کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سب کا احاطہ تو شاید ممکن نہ ہو،ہر معاشرے میں یہ چیلنج ایک دوسرے سے مختلف؛بلکہ بعض حالات میں متضاد بھی۔مثلاًکہیں جہیز کا اژدہا بے شمار جوانیوں کو چاٹ جاتا ہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عفت مآب دوشیزائیں ہوس پرست نوجوانوں اور ان کے والدین کی”ہل من مزید“کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔دوسری طرف کوئی باپ اپنی جوان بیٹی کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے دندان حرص تیز کر رہا ہوتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو طرفہ ہوس پر ستوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:عورت سے نکاح چار اسباب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے:اس کے مال کی وجہ سے ،اس کے حسب و نسب کے باعث ،اس کے حسن وجمال کے سبب اور اس کے دین کے تعلق سے۔لہٰذا تم دین دار خواتین کو منتخب کرو۔(مسلم شریف:2661،بخاری شریف:4700)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی ایسا شخص جس کے دین اور اخلاق پسندیدہ ہوں نکاح کا پیغام دے تو اس سے نکاح کردیا کرو،بصورت دیگر زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔(سنن الترمذی :1004)

نکاح کے لیے مال و دولت کو معیار بنانا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور نہ آپ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو،ارشاد ربانی ہے: اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی فرمادے گا۔(النور:32=18)

جہیز کی حقیقت
جہیز اور بری یہ دونوں درحقیقت زوج(لڑکے والوں کی)طرف سے زوجہ یا اہل زوجہ کو ہدیہ ہے اور جہیز جو در حقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے فی نفسہ امر مبا ح بلکہ مستحسن ہے۔(اصلاح الرسوم ،ص:56)

اگر خدا کسی کو دے تو بیٹی کو خوب جہیز دینا برا نہیں؛مگر طریقے سے ہونا چاہیے ،جو لڑکی کے کچھ کام بھی آوے۔(حقوق البیت،ص:52)

جہیز میں قابل لحاظ امور
جہیز میں اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے:اول تو اختصار۔ یعنی گنجائش سے زیادہ کوشش نہ کرے۔

دوم:یہ کہ ضرورت کا لحاظ کرے؛یعنی جن چیزوں کی ضرورت فی الحال ہووہ دینا چاہیے۔

سوم:یہ کہ اعلان نہ ہو؛کیوں کہ یہ تو اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے، دوسروں کو دکھلانے کی کیا ضرورت؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے جو اس روایت میں مذکور ہے تینوں امر ثابت ہیں۔(اصلاح الرسوم،ص:93)

حضرت فاطمہ کا جہیز
سیدة النساء حضرت فاظمہ کا جہیز یہ تھا:دویمنی چادریں،دو نہالی جس میں السی کی چھال بھری تھی،چار گدے ،چاندی کے دوبازو بند،ایک کملی،ایک تکیہ، ایک پیالہ ،ایک چکی،ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن، یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔(ازالة الخفاواصلاح الرسوم ،ص:93)

حضرت فاطمہ کے جہیز کی حقیقت
ہمارے معاشرے میں جب جہیز کی بات آتی ہے تو سارے عہد نبوی سے ایک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اکلوتی مثال کو اس قدر زور بیان اور قوت استدالال فراہم کردیا جاتا ہے؛گویا سنت نبوی کا تمام تر انحصار اسی پر ہے۔سیدہ فاطمہ کے اسباب کے ذریعے جہیز کو مسنون ثابت کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور دیگر صاحب زادیاں تھیں ،آپ نے انھیں کتنا سامان جہیز دیا؟اگر نہیں دیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلقین فرمارہے ہیں:اولاد کو عطیہ دینے میں مساوات کو پیش نظر رکھو۔(بیہقی)

ایک صحابی نعمان بن بشیر  اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دینے کے سلسلے میں گواہ بنانے حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا :کیا ساری اولاد کو اسی طرح کے عطیات دے رہے ہو؟انہوں نے کہا:نہیں۔توآپ نے فرمایا:اللہ سے ڈرو اولاد کے بارے میں انصاف سے کام لو،کسی ایک کو دینا دوسرے کو نظر انداز کر دینا ظلم ہے اور میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔(متفق علیہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں یہ معاملہ آتا ہے تو ایک بیٹی کو جہیز دے کر روانہ کرتے ہیں اور دوسری بیٹیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں حال آں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:میں انصاف نہیں کروں گا تو کون انصاف کرے گا ؟

بخدا دامنِ نبوت ہر قسم کی ناانصافی سے پاک ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر صحیح روایت سے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے سیدہ فاطمہ  کے گھر کا سامان اپنے پاس سے دیا اور ان چار سواسی دراہم سے نہیں خریدا گیا جو حضرت علی  نے اپنا واحد اثاثہ غزوہ بدر میں ملنے والی زرہ کو فروخت کرکے حاصل کیا تھا تو بھی صورت حال علاحدہ تھی ۔

بعثت نبوی سے پہلے کی بات ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ابو طالب کی معاشی تنگی کا شدت سے احساس تھا،ایک روز آپ نے اپنے دوسرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:آئیے! ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس طرح کے ان کا ایک بیٹا میں لے لیتا ہوں ایک آپ لے لیں ۔اس طرح ان کی معاشی ذمے داری کم ہوجائے گی؛چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی کفالت کی ذمے داری لی، جو شادی تک آپ کے ساتھ رہے۔چوں کہ حضرت علی کی کفالت آپ کے ذمے تھی :اسی لیے مدینہ منورہ میں مواخات کے موقعے پر جب ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بھائی بنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :یہ میرا بھائی ہے۔

مطلب یہ تھا کہ اس کی کفالت جس طرح مکہ معظمہ میں میرے ذمے تھی اب بھی میرے ذمے ہے؛چوں کہ حضرت علی کی کفالت آپ کی ذمے داری تھی؛اس لیے حضرت علی  نے جب نیا گھر بسانے کا ارادہ کیا تو آپ نے ان کے سر پرست ہونے کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے کچھ ضروری سامان ساتھ کردیا، جسے بعدمیں ہوس پرستوں نے کچھ کا کچھ کردیا۔

مروجہ جہیز کی خرابیاں
مگر اب جس طرح سے اس کا رواج ہے اس میں طرح طرح کی خرابیاں ہوگئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ اب ہدیہ مقصود رہانہ صلہ رحمی ،بلکہ نام وری اور شہر ت اور رسم کی پابندی کی نیت سے کیا جاتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ بری اور جہیز دونوں کا اعلان ہوتا ہے ،متعین اشیا ہوتی ہیں،خاص طرح کے برتن بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں،جہیز کے اسباب بھی معین ہیں کہ فلاں چیز ضروری اور تمام برادری اور گھر والے اس کو دیکھیں گے ،جہیز کی تمام چیزیں مجمع عام میں لائی جاتی ہیں اور ایک ایک چیز سب کو دکھلائی جاتی ہے اور زیور اور جہیز کی فہرست سب کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔آ پ خود فرمائیے یہ ریاء اور کھلاوا ہے یا نہیں ؟اس کے علاوہ زنانہ کپڑوں کا مردوں کو دکھلانا کس قدر غیرت کے خلاف ہے۔

اگر صلہ رحمی مقصود ہوتی کیف ما اتفق جو میسر آتا اور جب میسر آتا بطور سلوک کے دے دیتے ۔

اسی طرح ہدیہ اور صلہ رحمی کے لیے کوئی شخص قرض کا بار نہیں اٹھاتا، لیکن ان دونوں رسموں کو پورا کرنے کے لیے اکثر اوقات مقروض بھی ہوتے ہیں، گوسود ہی دینا پڑے اور گوباغ ہی فروخت یا گروی ہوجائے، پس اس میں الزام مالا یلزم اور نمایش اور شہرت اور اسراف وغیرہ خرابیاں موجود ہیں؛اس لیے یہ بھی بطریق متعارف (مروجہ طریقے سے)ممنوعات کی فہرست میں داخل ہوگیا۔(ازالة الخفا ،اصلاح الرسوم، ص:51وص:57) 
Flag Counter