چند قیمتی نصیحتیں
حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم
جامعہ کی شاخ ،جامع مسجد محمد بن قاسم سندھی مسلم سوسائٹی کے زیر اہتمام تکمیلِ حفظ قرآن کی سالانہ تقریب کے موقعہ پر حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کی سبق آموز نصائخ، نذر قارئین ہیں۔ (ادارہ)
سب سے پہلے ہم ان بچوں کو جنہوں نے حفظِ قرآن مکمل کیا مبارک باد دیتے ہیں، اور ان بچوں کے والدین او راساتذہ بھی قابلِ مبارک باد ہیں( پھرحضرت نے سامنے بیٹھے 30 حافظ بچوں میں سے 3 کو اشارہ کرکے فرمایا: آپ کھڑے ہو جاؤ… آپ کھڑے ہو جاؤ… آپ… الخ جن کی عمریں 8 سے 10 سال کے درمیان معلوم ہوتی تھیں ، پھر سامعین سے مخاطب ہو کر فرمایا:) ان نَنھّے منّے بچوں کو پورا قرآن زبانی یاد کروا دینا کوئی ہنسی کھیل ہے ؟ ان پر انتھک محنت ہوتی ہے، کتنے نوجوان آج ایسے ہیں جو قرآن مجید کے الفاظ کی صحیح ادائیگی بھی نہیں کر سکتے ، کتنے بوڑھے لوگ آپ کو ملیں گے جن کی پچاس پچاس سال ستر ستر سال عمر ہو گئی ہے ابھی تک قرآن مجید کی کوئی سورت الفاظ کی صحیح ادائیگی سے وہ آپ کو نہیں سنا سکتے دعاء قنوت تک نہیں آتی۔ نماز میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی صحیح سے ادا نہیں کر پاتے، دوسری طرف ان معصوم بچوں کو آپ دیکھیں اور سنیں کیسی خوش الحانی سے الحمد سے والناس تک سارا قرآن زبانی پڑھ سکتے ہیں ، بے شک یہ کلام الله کا معجزہ ہے ،اور ان کے اساتذہ کی محنت اور کوشش کا بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری بات جسے ہم یہاں ذکر کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان بچوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا اب انہیں اسکولوں میں بھیج کر ان کی او ران کے اساتذہ کی رات دن کی محنتوں پر پانی مت پھیریں، خدا را انہیں دین دار رہنے دیں، اب تک جو دیکھنے میں آیا ہے وہ یہی ہے کہ ان اسکولوں کالجوں میں دینی تعلیمات کے برعکس تعلیم دی جاتی ہے۔ آپ کے ملک کے حکمرانوں اور ان جیسے عہدیداروں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں، ان سب نے انہیں اسکولوں کالجوں میں پڑھا ہے اور یہ سب دین کے دشمن ہیں ، اپنی آخرت کی انہیں کوئی فکر واحساس نہیں، انہیں مرنے کے بعد کی زندگی اور قبر حشر کے سوال وجواب کا ڈرگویا ختم ہو جاتا ہے۔ سب نے مرنا ہے ، اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا نا۔ جب گناہ گار آدمی کی میت کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو منکر نکیر آتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں”من ربک“؟ تو یہ بتانہیں سکتا بلکہ ہا ہا کرتا ہے ، پھر وہ سوال کریں گے ”مادینک؟“ تو یہ ہا ہا کرتا ہے اور بغلیں جھانکتا ہے۔ جواب نہیں دے سکتا، پھر جانتے ہو کیا ہوتا ہے ؟ نبی اکرم ا اور اس میت کے درمیان تمام حجاب ہٹا دیے جاتے ہیں اور سوال ہوتاہے”من ھذا الرجل“؟ تو ذرا تصور تو کریں کہ نبی اکرم ااس کی طرف گویا کس طرح دیکھیں گے کہ ”ارے یہ…؟ یہ میرا اُمّتی ہے…؟ اس نے تو داڑھی منڈا رکھی ہے… اس نے میرے طریقہ کو قابلِ اتباع نہیں سمجھا…؟ اوروں کے طریقہ کو ترجیح دے دی۔
اور یہ ظاہر بات ہے کہ جب یہ بچے اسکولوں میں جائیں گے تو داڑھیاں منڈوائیں گے، قرآن مجید بھلائیں گے، کیوں کہ ان اسکولوں کالجوں میں تو بچوں کے دل ودماغ سے شعائر دین کی وقعت اور علومِ نبوی کی قدر وعظمت کو کُھرچ کُھرچ کر نکال دیا جاتا ہے۔
یاد رکھو! داڑھی اتنی اتنی ( ایک انچ کا اشارہ فرمایا) رکھنا یا اتنی اتنی (پہلے سے کچھ زیادہ یعنی ایک انچ سے کچھ زیادہ) رکھنا یا بالکل صاف کروانا تینوں کا حکم ایک ہی ہے۔
ان بچوں کے والدین سے ہم دوبارہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اسکولوں کالجوں میں بھیج کر ضائع نہ کریں، ان میں سے ہر بچہ عالم بنے، سیدھے راستے پر چلے۔ حق بالکل واضح ہے، یہ باہر جو روشنی آپ کو دکھائی دے رہی ہے، حق کی روشنی اس سے زیادہ تیز ہے ، پھر بھی اگر کوئی نہ سمجھے تو اس کی مرضی ہے۔
یاد رکھو، ہمارا کام ہے بتا دینا… آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے ہمارے کام میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے شہر میں جس قدر قتل وغارت، فحاشی، چوریاں، ڈکیتیاں ہیں اسی طرح الحمدلله، الله والوں کی مجالس، تربیتی مراکز اور اصلاحی مجالس بھی کوئی کم نہیں، ایک جگہ ایک الله والا ہے، لوگ اس کی مجلس میں آکر اُخروی فائدوں سے مالا مال ہو رہے ہیں، تو دوسری جگہ دوسرا الله والا لوگوں کی اصلاح وفلاح اور تربیت میں مصروف ہے ۔ آپ جہاں بیٹھے ہیں یہ تو ایک مدرسہ ہے جس میں بچے صبح آتے ہیں، شام کو واپس چلے جاتے ہیں ، اسی شہر میں ایسے ایسے ادارے بھی ہیں جہاں رات دن طلبہ رہتے ہیں، دینی ماحول فراہم کیا جاتا ہے او رایک سال نہیں دو تین سال نہیں بارہ سال اس پاکیزہ ماحول میں رہ کر دینی واخلاقی تربیت پاتے ہیں اسی طرح ایک الله ولا ڈیفنس میں ہے ، ان کا نام مولانا عبدالستار صاحب ہے (فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی)،آپ تفریح کے لیے تو اس طرف جاتے ہیں ذرا کبھی ان کی مجلس میں بھی چلے جائیں ، نوجوانوں کو خاص طور سے ہم کہیں گے کہ ایک بار ان کے ہاں ان کی مجلس میں جاکر دیکھیں، بات اچھی لگے، سمجھ میں آئے تو مان لیں۔ الله ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین