Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1434ھ

ہ رسالہ

4 - 16
قضائے حاجت سے متعلق شرعی احکام
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا حکم
آج کل جدید تہذیب کے دلدادے، مغربیت کی تقلید میں چلنے والے، اُن کی رَوِش کو اپنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ، اپنی زندگی کے ہر ہر عمل میں ان کے طرز کو اپناتے ہیں، اس طرز ِ زندگی کو اختیار کرنے والے اپنے جسم کی طہارت کے حصول میں بھی اپنی عقل پر پردے ڈال کے انہی کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو جدیدیت ، تہذیب اور اسلوب زندگی شمار کرتے ہیں، اس عمل کے لیے نہ بیٹھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں اور نہ ہی پانی سے استنجا کرنے کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، اب تو باقاعدہ ہر جگہ پیشاب کے لیے دیواروں میں ایسی جگہیں بنائی جاتی ہیں، جہاں کھڑے ہو کے تو پیشاب کرنا ممکن ہوتا ہے، لیکن بیٹھنا ناممکن ہوتا ہے اور ایسے بیت الخلا ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، رُوٹ کی بڑی بسوں کے اڈوں اور سعودیہ میں حاجیوں کے لیے تیار کی جانے والی رہائش گاہوں میں تیار کیے گئے ہوتے ہیں۔حالاں کہ ! کھڑے ہو کر استنجا کرنا شرعاً ممنوع ہے، اس فعل کے مرتکب اپنے کپڑوں کو بھی پاک نہیں رکھ سکتے اور اپنے بدن کو بھی نہیں ، بلکہ موجودہ دور میں تو سائنسی تحقیق کے مطابق بھی اس طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والے انتہائی نقصان اٹھاتے ہیں،ان کا مثانہ بھی کمزورہو جاتا ہے، یہ افراد پیشاب کے بعدآنے والے قطروں کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والے جب پیشاب سے فارغ ہوتے ہیں تو درحقیقت کھڑے ہونے کی صورت میں ان کا مثانہ اور پیشاب کی نالی مکمل طور پر خالی نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ سے ایسا شخص جب اپنے کپڑے پہن کر چلتاہے تو باقی ماندہ قطرے بھی نکلتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے کپڑے اور بدن دونوں ناپاک ہو جاتے ہیں۔

آئیے اس بارے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عمل دیکھتے ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک بار (ابتدائے اسلام میں جب مجھے مسئلے کا علم نہیں تھا)مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھ لیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! کھڑے ہو کر پیشاب مت کرو“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے (کبھی) کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔

عن عمر رضي اللہ عنہ، قال: رآني رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وأنا أبول قائماً، فقال: ”یا عمر! لا تبل قائماً “․فما بُلتُ قائماً، بعدُ․ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة، باب في البول قاعداً، رقم الحدیث:308، 1/196)

درحقیقت یہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے ، کہ مسلمانوں کو ایمان واعمال سے اتنا دور کردو کہ نظریاتی اور عملی اعتبار سے مسلم اور کافر کے درمیان فرق باقی نہ رہے،ان کی عیارانہ اور مکارانہ تدابیر میں سے ایک اہم ترین تدبیر یہ بھی ہے کہ مسلمان کو اس کے پیغمبر علیہ السلام کی مبارک سنتوں سے اتنا متنفر کر دیا جائے کہ وہ اپنے ہی مسلم معاشرے میں اپنے نبی کی اتباع میں عار محسوس کرے، اہلِ زمانہ کی وجہ سے وہ عمل کے اعتبار سے چھوٹی سے چھوٹی سنت کو ترک کرنے کو کچھ مشکل نہ جانے، چناں چہ ! غیروں نے اس طہارت والے عمل میں بھی اسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنت سے دور کر دیا، حتیٰ کہ قضائے حاجت کے نظام کو یکسر تبدیل کر دیا، بیت الخلا اس طرز کے تعمیر کیے جانے لگے کہ بیٹھ کے فراغت حاصل کرنا ممکن ہی نہ ہو سکے اور اگر کوئی اس طرزِ عمل کے اختیار کرنے سے دور رہا تو وہ بیت الخلا کے رُخ قبلہ کی طرف کروانے والے مرض میں مبتلا ہو گیا، کوئی اس سے بھی بچا تو وہ قضائے حاجت کے بعد کامل طہارت کے حصول کی اہمیت اپنے دل سے نکال بیٹھا۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنی ذات کے اعتبار سے مکمل طہارت سنت کے مطابق حاصل کرنے کا اہتمام کریں اور اپنی اولاد /بالخصوص نابالغ اولادکی نگرانی کریں، کہ کہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی عادی تو نہیں بن رہی یا وہ پیشاب کرنے کے بعد استنجا بھی کرتی ہے یا نہیں؟! اور اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً مناسب تنبیہ کریں اور مکرر اس طرح کرنے کی صورت میں ہلکی پھلکی سزا بھی دیں، حتیٰ کہ وہ اہتمام سے طہارت حاصل کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرلیں۔

پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کا وبال
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی صورت میں کپڑوں پر یا بدن پر چھینٹوں کا گرنا ایک یقینی امر ہے، دیکھنے کے اعتبار سے تو یہ چھوٹا سا اور معمولی سا عمل ہے، لیکن جزا کے اعتبار سے پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو نا بچانا بہت بڑے وبال کا سبب ہے۔

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار نبی اکرم صلى الله عليه وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کوئی بڑے بڑے اور مشکل کاموں کی وجہ سے نہیں ہو رہا، بلکہ ان میں سے ایک کو پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو غیبت کرنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے“۔

قال (أبو بَکْرَة): مرَّ النبي صلی الله علیہ وسلم بقبرین، فقال: ”إنھما لیُعذَّبان، وما یُعذَّبان في کبیرٍ، أما أحدُھما فیُعذَّبُ في البول، وأنما الآخر فیُعَذَّبُ في الغیبة“․ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة، باب: التشدید في البول، رقم الحدیث: 349، 1/219، دار المعرفة، بیروت )

اس لیے پیشاب کرنے کے بعد جب قطرے نکلنا اچھی طرح بند ہو جائیں، تب !بہتر یہ ہے کہ پہلے کسی ڈھیلے یا ٹشو پیپر وغیرہ سے خشک کریں ، اس کے بعد پانی کا استعمال کریں۔اس طریقے سے مثانہ اور پیشاب کی نالی اچھی طرح خالی ہو جاتی ہے، فارغ ہونے کے بعد قطرے وغیرہ ٹپکنے سے امن رہتا ہے۔

قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر کے پیشاب کرنے کاحکم
قضائے حاجت کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اس عمل کے دوران قبلے کی طرف نہ منہ کیا جائے اور نہ ہی پُشت، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہے قضائے حاجت کا وقت ہو یا (ننگے ہو کر)غسل کرنے کی حالت ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں ،جنگل میں ہو یا صحرا میں،تمام صورتوں میں یہی حکم ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کے لیے آئے تو قبلے کی طرف نہ چہرہ کرے اور نہ ہی پشت کرے۔بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھے۔ (واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھو یا مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھو“، یعنی جنوب یا شمال کی طرف منہ کر کے نہ بیٹھو، یہ اس وجہ سے کہ مدینہ منورہ میں قبلہ جنوب کی جانب ہے۔جب کہ ہمارے ہاں پاکستان میں قبلہ مغرب کی جانب ہے، لہٰذا پاکستان میں رہتے ہوئے منہ مغرب کی طرف نہیں کیا جائے گا، بلکہ شمال یا جنوب کی طرف کیاجائے گا )

عن أبي أیوب الأنصاري رضياللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم :”إذا أتیٰ أحدکم الغائط، فلا یستقبل القبلة، ولا یولھا ظھرہ، شرقوا أو غربوا“․(صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب لا یستقبل القبلة بغائط أو بولٍ، رقم الحدیث: 144، 1/68، المکتبة السلفیة)

قبلے کی طرف بنے ہوئے بیت الخلا کا حکم
اگر کسی گھر میں بیت الخلا قبلہ ُرو بنا ہوتو اہلِ خانہ پر لازم ہے کہ اسے گرا کے درست سمت بیت الخلا بنائیں،بصورتِ دیگر !اگر اُسے گرا نا ممکن نہ ہوتواس بیت الخلا کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر اُس بیت الخلا میں ہی اپنا رُخ بقدرِ امکان قبلہ کی طرف سے پھیر کر بیٹھے تو ٹھیک ہے، چاہے تھوڑا سا ہی رُخ پھیر لیا جائے، کافی ہے۔

وکُرِہ استقبال القبلة بالفرج في الخلاء واستدبارھا، وإن غفل وقعد مستقبل القبلة یستحب لہ أن ینحرف بقدر الإمکان کذا في التبیین، ولا یختلف ھذا عندنا في البنیان والصحراء، وکذا في شرح الوقایة․ (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، 1/55، دار الکتب العلمیة)

دودھ پیتے بچوں کے لیے استقبال قبلہ کا حکم
والدہ یا ہر ایسا شخص جو بچوں کو قضائے حاجت کروائے، اس کے لیے ان بچوں کو لے کر قبلہ کی طرف رکھ کر کے بیٹھنا یا قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا جائز نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شمالاً یا جنوباًبیٹھ کے قضائے حاجت کروائیں۔

(وکذا یکرہ للمرأة إمساک صغیر لبول أو غائط نحو القبلة اھ )․ وفي الشامیة تحت قولہ:(إمساک صغیر): ھٰذہ الکراھة تحریمیة، لأنہ قد وجد الفعل من المرأة․ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس: 1/555، دار عالم الکتب)

مریض کے لیے استقبال قبلہ اور استدبار قبلہ کا حکم
جو شخص بوجہ مرض کے خود اپنا رُخ بدلنے پر قادر ہو تو اس شخص کے تیمار دارقضائے حاجت کے وقت اس کو ایسے طریقے سے اٹھائیں یا لٹائیں کہ بوقت قضائے حاجت اس کا رُخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو، اسی طرح ہسپتالوں میں بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ مریضوں کے بیڈ / بستر قبلہ رُ خ پر حتیٰ الوسع بچھانے سے گُریز کریں، بصورت ِ دیگر اگر مریض اپنا رُخ قبلہ کی طرف سے پھیرنے پر قادر نہ ہو تو یہ شرعاً معذور سمجھا جائے گا اور اُسے بوجہ قبلہ رُخ ہونے کے گناہ نہیں ہو گا۔

بیت الخلا جاتے ہوئے سر ڈھانپ کے جانے کا حکم
بیت الخلا جاتے ہوئے سر ڈھانپ کے جانا بھی سنت ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بیت الخلا میں داخل ہوتے تھے تو اپنے سر کو ڈھانپ لیتے تھے۔

عن عائشة رضي اللّٰہ عنھا قالت: ”کان رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم إذا دخل الخلاء، غطیٰ رأسہ“․ (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس عند دخول الخلاء، رقم الحدیث: 464،1/96،دائرة المعارف،دکن)

پیشاب پاخانہ کی طرف دیکھنے کی ممانعت
اپنے بول و براز کی طرف دیکھنا ناپسندیدہ اور خلاف ادب ہے، علامہ طحطاوی  نے لکھا ہے کہ یہ نسیان کو پیدا کرتا ہے۔

وفي حاشیة الطحطاوي: ولا إلیٰ الخارج، فإنہ یورث النسیان، وھو مستقذر شرعاً، ولا داعیة لہ“․ (کتاب الطھارة:1/31، دار الکتب العلمیة)

قضائے حاجت کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جب استنجا کر لیا تو اپنے ہاتھوں کوزمین پر رگڑا“۔

عن أبي ھریرة رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی الله علیہ وسلم توضأ، فلما استنجیٰ دلک یدہ بالأرض․ (سنن الترمذي، کتاب الطھارة، باب: دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء، رقم الحدیث:50،دارالسلام)

زمین پر ہاتھ ملنا ،ہاتھ سے بو دور کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور پاکی حاصل کرنے کے لیے بھی، بہر صورت موجودہ دور میں اس عمل پر قادر شخص کے لیے یہ عمل بھی مسنون ہو گا، بصورت دیگر صابن وغیرہ سے ہاتھوں کو دھو لینا بھی اس کا قائم مقام ہو جائے گا۔

استنجا کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم
استنجاء کرنے کے بعد اگر ظنِ غالب ہو کہ ہاتھ صاف ہوگئے ہیں اور بدبو وغیرہ بھی ختم ہو گئی ہے تو مزید صفائی کے لیے ہاتھ دھونا مسنون ہے، لیکن ضروری نہیں ہے، مطلب یہ کہ اگر یہ شخص ہاتھ نہ دھوئے تو عند اللہ مجرم نہیں ہو گا۔

وتطھر الید مع طھارة موضع الإستنجاء، کذا في السراجیة، ویغسِلُ یدَہ بعد الاستنجاء کما یکون یغسِلھا قبلَہ لِیَکونَ أَنْقیٰ وأَنظَفُ․ (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، 1/55، دار الکتب العلمیة)

جن جگہوں میں استنجا کرنا مکروہ ہے
کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں استنجا کرنا شرعاً ممنوع ہے، وہ مقامات ذیل میں لکھیں جاتے ہیں:پانی جاری ہو یا ٹھہرا ہوا، نہر،کنویں، حوض یا چشمے کے کنارے، پھل دار درخت کے نیچے، کھیتی میں ، ہر ایسے سایہ میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں، مساجد اور عید گاہ کے پہلو میں ، قبرستان میں اور مسلمانوں کے راستے یعنی گذرگاہ میں، سورج یا چاند کی طرف منہ کر کے، ڈھلوان (نیچے والی سطح) میں بیٹھ کے اوپر کی جانب پیشاب کرنا، ہوا چلنے کے رُخ پر پیشاب کرنا، چوہے، سانپ یا چیونٹی کے بل میں پیشاب کرنا۔خلاصہ ان مقامات کا یہ ہے کہ جہاں بھی لوگوں کا نفع وابستہ ہو اور وہاں ناپاکی یا گندگی ان کے لیے تکلیف دِہ ہو یا اس عمل کی وجہ سے خود اس کو کسی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو، وہاں پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے۔

ویکرہ البول والغائط في الماء جاریاً کان أو راکداً ویکرہ علی طرف نھرٍ أوبئرٍ أوحوضٍ أو عینٍ أوتحت شجرةٍ مثمرةٍ أو زرعٍ أو في ظلٍ ینتفع بالجلوس فیہ، ویکرہ بجنب المساجد ومصلی العید وفي المقابر وبین الدواب وفي طرق المسلمین، …وکذا یکرہ استقبال الشمس والقمر، لأنھما من آیات اللہ الباھرة، ویکرہ أن یقعد في أسفل الأرض ویبول في أعلاھا، وأن یبول في مھبِّ الریح، وأن یبول في حجرِ فأرةٍ، أو حیةٍ، أو نملةٍ، أو ثقبٍ․(البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس، 1/652، دارالکتب العلمیة)

قضائے حاجت کا مفصل طریقہ
جب کوئی شخص بیت الخلا میں جانے کا ارادہ کرے، تو اس کے لیے مناسب ہے کہ ایسے وقت میں ہی چلا جائے جب اس پر قضائے حاجت کا بہت زیادہ غلبہ نہ ہو، بلکہ یہ شخص اس حالت کے طاری ہونے سے پہلے پہلے ہی بیت الخلا میں داخل ہو جائے،اس دوران یہ شخص اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز (مثلاً: انگوٹھی، لاکٹ یا کاغذ وغیرہ)جس پر اللہ کا نام(یا قرآن ِ پاک کی آیت وغیرہ لکھی ہوئی ) ہو ،نہ لے جائے،اور ننگے سر بھی نہ جائے، جب دروازے کے پاس پہنچ جائے تو بیت الخلا میں داخل ہونے والی دعا پڑھنے سے قبل ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھے ، پھر دعائے ماثورہ: ”اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“ پڑھے، پھر بایاں پاوٴں اندر رکھ کے اندر داخل ہو،پھر قضائے حاجت کے بیٹھنے کے لیے اس وقت اپنا ستر کھولے جب زمین کے قریب ہو جائے، پھر اپنے پاوٴں کو قدرے کشادہ کر کے اس طرح بیٹھے کہ اس کے بدن کا زیادہ وزن بائیں پاوٴں پر زیادہ ہو، اس حالت میں یہ شخص اُخروی امور (مثلاً: علم دین ،فقہ وغیرہ ) کے بارے میں نہ سوچے، کوئی شخص اِس کو سلام کرے تو اُسے جواب نہ دے، موٴذن کی آواز اس کے کانوں میں پڑے تو اُس کا جواب نہ دے، اس حالت میں اس کو چھینک آئے تو زبان سے ”الحمد للہ“ نہ کہے، بلکہ دل میں ہی اللہ کی تعریف کرے، یعنی: الحمد للہ کہے، اپنے اعضائے مستورہ کی طرف نظر نہ کرے، بدن سے نکلنے والی گندگی کی طرف بھی نہ دیکھے، گندگی میں تھوک، ناک کی رینٹھ اور بلغم وغیرہ نہ تھوکے، بہت زیادہ دیر تک وہاں ہی نہ بیٹھا رہے، آسمان کی طرف نظریں اٹھا کے نہ دیکھتا رہے اور نہ ہی بوجہ حیاء کے سر جھکائے بیٹھا رہے، بلکہ معتدل کیفیت کے ساتھ رہے، پھر جسم سے خارج ہونے والی نجاست کو (کچے بیت الخلا یا جنگل و صحرا وغیرہ ہونے کی صورت میں )دفن کردے (اور پکے بیت الخلا ، مثل فلش سسٹم وغیرہ کے، پانی ڈال کر اچھی طرح بہا دے) پھر جب فارغ ہو جائے تو شرم گاہ کے نیچے کی جانب موجود رَگ پر اپنی انگلی پھیر کے اُسے اچھی طرح پیشاب کے قطروں سے خالی کر دے، پھر تین پتھروں کے ساتھ اپنے عضو سے نجاست دور کرے، پھر فارغ ہو کے سیدھا کھڑے ہو نے سے پہلے پہلے اپنے ستر کو چھپالے، پھر اپنا دایاں پاوٴں بیت الخلا سے باہر نکال کے قضائے حاجت کے بعد کی دعا: ”غُفْرَانَکَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“․(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الطھارة، باب الأنجاس:1/955، دارعالم الکتب)

قضائے حاجت کے وقت کی احتیاطیں
تکمیل عبادات کے لیے چوں کہ طہارتِ کاملہ ضروری ہے، اس لیے قضائے حاجت سے فراغت پر استنجا کرتے وقت مبالغے کی حد تک اپنے آپ کو پیشاب کے قطروں اور ناپاکی سے بچانا ضروری ہے، بالخصوص موجودہ دور میں، جب کہ پختہ بیت الخلا فلش سسٹم اور پانی کے ساتھ استنجا کرنے کا معمول عام ہو چکا ہے، احتیاط لازم ہے، اکثر مشاہدہ میں یہ بات آتی رہتی ہے کہ بیت الخلاء میں پانی کے لیے لگائی جانے والی ٹونٹیاں مختلف نوعیتوں کی لگی ہوتی ہیں، مثلاً: بعض جگہ ٹونٹیاں سطح زمین سے بہت اوپر لگی ہوتی ہیں، جس کی بنا پر ان کا پانی نیچے لوٹے میں قوت کے ساتھ اور پھیل کے گرتا ہے ، جس کی وجہ سے کپڑے بھی گیلے ہو جاتے ہیں اور اگر نیچے والی زمین ناپاک ہو تو(اور اکثر و بیشتر وہ جگہ ناپاک ہی ہوتی ہے، تو اس صورت میں )بھی پانی نیچے گرے گا اور وہاں سے کپڑوں اور بدن پر، چناں چہ دونوں جگہیں ناپاک ہو جائیں گی۔

اور بعض اوقات پانی کی ٹینکی خالی ہو چکی ہوتی ہے، انسان حاجت کی وجہ سے جلدی میں آکر بیٹھ جاتا ہے، پھر جب ٹونٹی کھولتا ہے تو اب پریشانی اس کا مقدر بنتی ہے، کہ اب طہارت کیسے حاصل کی جائے؟!

اسی طرح بعض ٹونٹیوں کا پانی بہت ہی زیادہ پریشر سے نکلتا ہے، اس سے بھی کپڑوں اور بدن کی ناپاکی کا خدشہ ہے۔

اس کے علاوہ بعض اوقات بیت الخلا کی صفائی کے وقت طہارت کے لیے استعمال کیے جانے والے لوٹے بھی ناپاک ہو جاتے ہیں ، تیز پریشر کے ساتھ پانی گرنے کی وجہ سے لوٹے کا ناپاک پانی بھی کپڑوں کو ناپاک کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

نیز! موجودہ فلش سسٹم چوں کہ پختہ سیمنٹ یا ماربلز وغیرہ سے بنا ہوتا ہے تو اس لیے پیشاب کرنے کے وقت بھی پیشاب کے چھینٹے اٹھتے ہیں۔

مذکورہ تمام خرابیوں سے بچنے کے لیے احتیاط برتنا نہایت ضروری ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی بیت الخلا میں داخل ہو، اسی وقت ٹونٹی کھول کے پانی کے ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ کر لے ، اس کے علاوہ بیت الخلا میں ٹشوپیپر بھی ضرور رکھنے چاہییں، تا کہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جا سکے۔

اورجن مقامات میں ٹونٹیوں کی حالت معلوم ہو وہاں تو ٹھیک! بصورت ِ دیگر لوٹے کو اوپر اٹھا کے ٹونٹی کے قریب کر کے پانی بھریں ، پھر نیچے رکھ دیں اور کچھ دیر تک پانی کھلا رکھیں، یہاں تک کہ پانی لوٹے کی اوپر والی سطح سے بہنے لگے ، اس طرح پانی جاری ہو جانے کی وجہ سے اگر لوٹے میں ناپاکی کے اثرات ہوئے بھی تو وہ دور ہو جائیں گے اور چھینٹوں وغیرہ سے بھی امن رہے گا، اسی طرح پیشاب کرنے میں احتیاط اس طرح برتی جائے کہ پیشاب فلش میں سامنے کی ٹھوس جگہ میں قوت سے نہ ٹکرائے ،کیوں کہ اس صورت میں اسی قوت کے ساتھ چھینٹیں اڑنے کا قوی امکان ہوتاہے، اس سے حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ پیشاب فلش کی سائڈوں میں گرے، نہ کہ سامنے والے حصے میں۔

علاوہ ازیں! اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھروں میں بیت الخلا اور غسل خانہ اکٹھا ہوتا ہے اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے مشین بھی اسی جگہ لگائی جاتی ہے تو اس صورت ِ حال میں فلش کے علاوہ والی جگہ کا پاک رہنا بھی نہایت ضروری ہے، اس کے لیے بچوں کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے اور بڑے بھی اس کا اہتمام کریں کہ بیت الخلا میں فلش کے علاوہ والے حصے میں پیشاب کے چھینٹیں نہ گریں اور وہ جگہ پاک رہے، ورنہ خدشہ ہے کہ ایک جگہ کی ناپاکی کی وجہ سے دوسری بہت ساری چیزیں ناپاک نہ ہوں جائیں۔

آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کے اس اہم اور عظیم الشان حکم کو نہایت کامل اور احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !
Flag Counter