Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

9 - 17
رمضان اور زکوٰة
مفتی محمد راشد ڈسکوی
    فہرست   

اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ فضائل پر مشتمل مہینہ ”رمضان المبارک“ شروع ہوچکا ہے، اس ماہِ مبارک میں بہت ساری عبادات انسان کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، یہ مہینہ شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، نہ صرف یہ ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکوٰة نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکوٰة کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکوٰة کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے اس لئے اس موقع پر مناسب معلوم ہوا کہ اس ماہ میں جہاں رمضان ، روزہ اور ان سے متعلق ہر ہر عبادت پر لکھا جاتا ہے اور خوب لکھا جاتا ہے،وہاں اسی مہینے میں ”زکوٰة “ پر بھی لکھا جائے ، تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے اپنے اس فریضے کو ادا کریں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکوٰة رمضان میں نکالنی ہے، بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ زکوٰة نکالنے والا اپنی زکوٰة کی ادائیگی میں زکوٰة کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکوٰة نکالے ،اور اس کے لئے رمضان کا انتظار نہ کرے،چنانچہ ذیل میں ”زکوٰة کن اموال پر واجب ہوتی ہے؟“ پر تفصیلاً اور کچھ دیگر مسائل پر اجمالاً روشنی ڈالی جائے گی۔

زکوٰة کا معنی و مفہوم
زکوٰة کے لغوی معنیٰ پاکی اور بڑھنے کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ”مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “کو زکوٰة کہتے ہیں۔(الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الزکوٰة :1/99،درالکتب العلمیہ)

زکوٰة کو زکوٰة کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لئے زکوٰة و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰة سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکوٰة کا نام زکوٰة رکھا گیا۔

الزکوٰة وھيالطھرة و معناھا أن الزکوٰة طھرة لھم من أدناسھم، قال تعالیٰ:﴿خذ من أموالھم صدقة تطھرھم و تزکیھم بھا ﴾ فإن اللہ تعالیٰ جعل المال سبباً لقوام معاشھم و خلقھم محتاجین مضطرین، والمضطر مفزعة إلیٰ من اضطر إلی نفسہ فترک مفزعہ و جعل الباب الذي صیّر سبباً مفزعاً لحاجتہ، فمال بقلبہ عن اللہ تعالیٰ و لھذٰا سمي مالاً لمیل القلوب عن اللہ تعالیٰ إلیھا فقد دنس بذلک․(نوادر الأصول للترمذي،الأصل الثانيوالستون والمائة في صفة الأولیاء و حقیقة الولایة أو التحذیر من إھانتھم: 2/146 ، دارالجیل)

زکوٰة کی فرضیت
زکوٰة اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔زکوٰة کی فرضیت کب ہوئی ؟ اس سلسلے میں بہت سی آیات اور بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰة کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی۔ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے،ملاحظہ ہو:
قولہ:﴿وأقیموا الصلاة وآتوا الزکوٰة﴾ أي:أقیموا صلاتکم الواجبة علیکم و آتوا الزکوٰة المفروضة․
و ھذا یدل لمن قال:”إن فرض الزکوٰة نزل بمکة، لکن مقادیر النصب و المخرج لم تبین إلا بالمدینة․ واللہ أعلم“․ (تفسیر ابن کثیر، سورة مزمل،آیت نمبر:20)

زکوٰة کے فوائد، ثمرات و برکات
زکوٰة اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے، لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا ہی کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے، تفصیلی مباحث دئیے گئے حوالہ جات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:
٭… زکوٰة کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرة:267۔تفسیر جلالین،البقرة:267۔و روح المعاني،التوبة:104۔صحیح البخاري، کتاب الزکوٰة،باب الصدقة من کسب طیب․رقم الحدیث:1410،2/112، دارطوق النجاة)
٭… زکوٰة کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرة:261۔ تفسیر البیضاوی:البقرة:261)
٭… زکوٰة کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔(الفاطر: 29،30)
٭… اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکوٰة ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔(الأعراف:156)
٭… کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئی ہیں، ان میں ایک صفت زکوة کی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:4)
٭… زکوٰة ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة، باب الوضو شطر الإیمان، رقم الحدیث:280، دارالمعرفة بیروت)
٭… قبر میں زکوٰة (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن أبي شیبة،کتاب الجنائز،باب في الرجل یرفع الجنازة،رقم الحدیث:12188،7/473،دار قرطبة، بیروت)
٭…ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکوٰة کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الصلاة، باب فی المحافظة علی وقت الصلوٰت،رقم الحدیث429،1/214،دار ابن حزم)
٭… انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکوٰة ہے۔ (مسند أحمد:مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث: 12394)
٭… انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکوٰة، باب فرض الزکاہ:3/63)
٭… زکوٰة سے مال کی حفاظت ہوتی ہےَ(شعب الإیمان للبیہقي،کتاب الزکوٰة، فصل في من أتاہ اللہ مالا من غیر مسألة،رقم الحدیث: 3557، 3/282،دار الکتب العلمیہ)
٭…زکوٰة سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الزکوٰة، باب الدلیل علی أن من أدی فرض اللہ فی الزکوٰة، رقم الحدیث:7379)

اوپر جتنے فضائل ذکر کئے گئے ہیں وہ ہر قسم کی زکوٰة سے متعلق ہیں ، چاہے وہ” زکوٰة “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی۔

زکوٰة ادا نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدیں
فریضہ زکوٰة کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لئے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئیں ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کئے جاتے ہیں:
٭… جو لوگ زکوٰة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورة توبہ: 34، 35)
٭… ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورة آل عمران: 180)
٭… ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورة البقرة: 254)
٭…زکوٰة کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورة اللیل:5 تا11)
٭…ایسے شخص کا مال قیامت والے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا وہ مال ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري ، کتاب الزکوٰة، باب إثم مانع الزکوٰة،رقم الحدیث:1403،2/110، دارطوق النجاة)
٭… مرتے وقت ایسا شخص زکوٰة ادا کرنے کی تمنا کرے گا لیکن اس کے لئے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورة المنافقون: 10۔صحیح البخاری، کتاب الزکوٰة، باب فضل صدقة الشحیح الصحیح،رقم الحدیث:1419،2/110، دارطوق النجاة)
٭…ایسے شخص کے لئے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزکوٰة، باب إثم مانع الزکوٰة)
٭… ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر، اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوة للبیہقي، باب الإسراء ،رقم الحدیث:679)
٭… ایسے افراد سے قیامت میں حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکوٰة، باب فرض الزکوٰة: 3/62)
٭… جب لوگ زکوٰة روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث: 2577)
٭… جب کوئی قوم زکوٰة روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (المعجم الأوسط للطبراني،تحت من اسمہ عبدان، رقم الحدیث:4577 )

زکوٰة ادا کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی
عن سعید الطائي أبي البختري أنہ قال: حدثني أبو کبشة الأنماري أنہ سمع رسول اللہ ا یقول:” ثلاثةٌ أُقسِمُ علیھن و أُحدَّثِکم حدیثاً فاحفَظوہ، قال: ”ما نقَص مالُ عبدٍ من صدقةٍ ولا ظُلِمَ عبدٌ مَظلمةً فصبَر علیھا إلا زادہ اللہ عِزّاً ولا فتَح عبدٌ بابَ المسألةِ إلا فتَح اللہ علیہ بابَ فقرٍ أو کلمةً نحوھا “ و أُحَدِّثُکم حدیثاً فاحفَظوہ، قال:”إنما الدّنیا لأربعةِ نفرٍ رزَقَہ اللہُ مالاً و علماً فھو یتّقي فیہ ربَّہ و یصِل فیہ رحِمَہ و یعْلَم اللہَ فیہ حقّاً فھٰذا بأَفضلِ المنازلِ و عبدٍ رزَقَہ اللہُ علماً ولَم یرزُقہ مالاً فھو صادِقُ النِّیّة یقول لو أنّ لي مالاً لعمِلتُ بعملِ فلانٍ فھو بنیّتہ فأجرُھما سواءٌ و عبدٍ رزَقَہ اللہُ مالاً و لَم یرزُقہ اللہُ عِلماً فھو یخبِط في مالِہ بغیر علمٍ لا یتّقي فیہ ربّاً ولا یصِلُ فیہ رحِمَہ ولا یعلم لِلّہ فیہ حقاً فھٰذا بأَخبَث المنازلِ وعبدٍ لم یرزُقْہ اللہُ مالاً ولا علماً فھو یقول لو أَنّ لي مالاً لَعمِلت فیہ بعمل فلانٍ فھو بنیّتہ فوِزْرُھما سواء ٌ“ ․(سنن الترمذي،کتاب الزھد، باب ما جاء مثل الدنیا مثل أربعة نفر، رقم الحدیث:2325،4/562،مصطفیٰ البابي الحلبي )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” کہ میں تین چیزوں پر قسم اٹھاتا ہوں اور تمہیں ایک اہم خاص بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ارشاد فرمایا :کہ کسی بندے کا مال زکوٰة (و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالی اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں“، یا ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا“۔اور میں صلی الله علیہ وسلم تمہیں ایک اور خاص بات بتاتا ہوں، سو تم اسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ”دنیا تو چار قسم کے افراد کے لیے ہے:

ایک اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علم ِدین اور مال کی روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔(مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ، تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے)تو یہ شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔

دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی لیکن مال عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا (جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔

تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔

چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے پس اسکا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے“۔

زکوٰة کن افراد پر اور کن افراد کے لیے ہے؟
دنیا میں بسنے والے افراد کا جائزہ لیا جائے تو ان تما م افراد کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
٭…مال دار افراد، جن پر مخصوص شرائط کے بعد زکوٰة فرض ہوتی ہے۔
٭…دوسرے غریب افراد، جن پرزکوٰة فرض نہیں ہوتی اور ان کے لیے زکوٰة لینا جائز ہے۔
٭…تیسرے وہ متوسط درجے کے افراد، جن پر زکوٰة تو فرض نہیں ہوتی لیکن ان کے لیے زکوٰة لینا بھی جائز نہیں۔

اب ان تینوں قسم کے افراد کو پہچاننے کے لیے کیا معیار اور کسوٹی ہے کہ اس کے مطابق ہر طبقے والا اپنی حالت اور کیفیت کو پہچان کر اس کے مطابق اپنے اوپر عائد احکامات ِ الٰہیہ کوپہچان کر پورا کر سکے؟اس کے لیے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے: ایک تو وہ کون سی اشیاء یا اموال ہیں جن کے ہوتے ہوئے زکوٰة فرض ہوتی ہے؟ اور دوسرا وہ اشیاء یا اموال کتنی مقدار میں ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص زکوٰة دینے والا یا زکوٰة لینے والا ٹھہرتا ہے؟ان میں سے پہلی چیز کو ”اموالِ زکوٰة “ اور دوسری چیز کو ”نصابِ زکوٰة “ سے پہچانا جاتا ہے۔ذیل میں اموال ِ زکوٰة اور نصاب ِ زکوٰة کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے:

اموال ِ زکوٰة
اموالِ زکوٰة سے مراد وہ اشیاء یا اموال ہیں جن کا(مخصوص مقدار میں)مالک ہونے پر(جس کو نصاب سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) زکوٰة فرض ہوتی ہے۔وہ کل چار قسم (کی اشیاء یا اموال) ہیں:
1...سونا، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، ڈلی ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (سونا)مال ِ زکوٰة ہے۔
2...چاندی، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، ڈلی ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (چاندی)مال ِ زکوٰة ہے۔
3...نقدی، اپنے ملک کی ہو یا کسی اور ملک کی، اپنے پاس ہو یا بینک میں، چیک ہو یا ڈرافٹ،نوٹ ہو یا سکّے، کسی کو قرض دی ہوئی ہو(بشرطیکہ ملنے کی امید ہو)یا اس کی سرمایہ کاری کر رکھی ہو،ان تمام صورتوں میں یہ (نقدی) مال ِ زکوٰة ہے۔
4...مال ِ تجارت، یعنی تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکوٰة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں بیٹے یا دوست وغیرہ کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکوٰة نہ رہا)۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،أموال الزکوٰة:2/100،دار إحیاء التراث العربي)

یہ کل چار قسم کے اموال ہیں جن پر (مخصوص مقدار تک پہنچنے پر)زکوٰة فرض ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی مقروض ہو تو قرضوں کی ادائیگی کے بعد بچنے والے اموال کی زکوٰة دی جائے گی۔

نصابِ زکوٰة
سطورِ بالا میں معاشرے کے تین طبقات کو بیان کیا گیا تھا،جن کی تمیز ”نصاب “کے مالک ہونے پر موقوف ہے، اس تمیز کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ نصاب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نصاب کا تعلق ”زکوٰة دینے والے “ سے ہے اور دوسرے نصاب کاتعلق ”زکوٰة لینے والے “ سے ہے، دونوں قسم کے نصابوں میں کچھ فرق ہے، جو ذیل میں لکھا جا رہا ہے:

پہلی قسم کا نصاب (زکوٰة دینے والے کے لیے)
اللہ رب العزت نے اپنے غریب بندوں کے لیے امراء پر ان کے اموال کی ایک مخصوص مقدار پر زکوٰة فرض کی ہے، جس کو نصاب کہا جاتا ہے، اگر کوئی شخص اس نصاب کا مالک ہو تو اس پر زکوٰة فرض ہے اور اگر کسی کے پاس اس نصاب سے کم ہو تو اس شخص پر زکوٰة فرض نہیں ہے،اس نصاب میں صرف وہ (چاروں)اموالِ زکوٰة شامل ہیں جو اوپر ذکر کیے گئے چاروں قسم کے اموالِ زکوٰة کی وہ مخصوص مقداریں،جن پر زکوٰة فرض ہوتی ہے،ذیل میں لکھی جاتی ہیں:
1... اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ ہو اور کوئی مال(مثلاً:چاندی، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک سونا ساڑھے سات تولے (479ء87گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکوٰة فرض نہیں ہوتی، اور اگر سونا اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکوٰة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة، صفةالزکوٰة:2/105،دار إحیاء التراث العربي)
2... اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک چاندی ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکوٰة فرض نہیں ہوتی، اور اگر چاندی اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکوٰة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،أموال الزکوٰة:2/100،دار إحیاء التراث العربي)
3... اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب تک نقدی اتنی نہ ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جاسکے ، اس وقت تک زکوٰة فرض نہیں ہوتی اور اگر نقدی اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو زکوٰة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،أموال الزکوٰة:2/103،دار إحیاء التراث العربي)
4... اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو (چاہے جتنی بھی ہو) یا سونا اور نقدی ہو یا سونا اور مالِ تجارت ہو یا چاندی اور نقدی ہویا چاندی اور مالِ تجارت ہویا (تینوں مال)سونا، چاندی اور نقدی ہو یا سونا ، چاندی اور مالِ تجارت ہو یا(چاروں مال) سونا، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت ہو تو ان تمام صورتوں میں ان اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر انکی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکوٰة واجب ہو گی ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،صفة الزکوٰة:2/105،106،دار إحیاء التراث العربي)

دوسری قسم کا نصاب (زکوٰة لینے والے کے لیے)
اس نصاب میں مذکورہ نصاب (یعنی پہلی قسم کے نصاب کی تمام صورتوں )کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی شامل کیا جائے گا،اور یہاں بھی وہ تمام صورتیں بنیں گی جو پہلی قسم کے نصاب میں بنتی تھیں، مثلاً:
1... اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی ،اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکوٰة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔
2... اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکوٰة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔
3... اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام) چاندی خریدی جاسکے، تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکوٰة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اگر ان دونوں کی قیمت اتنی نہ ہو کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو ایسے شخص کا زکوٰة لینا جائز ہے۔
4... اگر کسی کے پاس سونا ،چاندی اور ”ضرورت سے زائد سامان“ہو (چاہے جتنا بھی ہو)۔
5... اگر کسی کے پاس سونا ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان“ہو۔
6... اگر کسی کے پاس سونا،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو ۔
7... اگر کسی کے پاس چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
8... اگر کسی کے پاس چاندی ، مالِ تجارت اورضرورت سے زائد سامان ہو۔
9... اگر کسی کے پاس (چاروں مال)سونا، چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
10... اگر کسی کے پاس سونا ، چاندی ،مالِ تجارت ہو اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔

اگر کسی کے پاس (پانچوں مال)سونا،چاندی، نقدی ،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہوتوان تمام صورتوں میں ان تمام اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر انکی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام) چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کا زکوٰة لیناجائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔اور اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہوتو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں صاحب نصاب نہیں کہلاتا، یعنی اس شخص کا زکوٰة اور ہر قسم کے صدقات ِ واجبہ لینا جائز ہو گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،مصارف الزکوٰة:2/158،دار إحیاء التراث العربي)

ضرورت سے زائد سامان
وہ تمام چیزیں جو گھروں میں رکھی رہتی ہیں ، جن کی سالہا سال ضرورت نہیں پڑتی ، کبھی کبھار ہی استعمال میں آتی ہیں، مثلاً: بڑی بڑی دیگیں ، بڑی بڑی دریاں،شامیانے یا برتن وغیرہ۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکوٰة، الباب الأول فی تفسیر الزکوٰة:1/174، رشیدیہ)
الف:وی سی آر۔ ڈش ،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیوکیسٹیں جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں ؛بلکہ لغویات ہیں۔مذکورہ قسم کا سامان ضرورت سے زائد کہلاتا ہے،اس لیے ان سب کی قیمت حساب میں لگائی جائے گی۔
ب:رہائشی مکان ، پہننے،اوڑھنے کے کپڑے، ضرورت کی سواری اور گھریلو ضرورت کا سامان جو عام طور پر استعمال میں رہتا ہے، یہ سب ضرورت کے سامان میں داخل ہیں، اس کی وجہ سے انسان شرعاً مال دار نہیں ہوتا، یعنی ان کی قیمت نصاب میں شامل نہیں کی جاتی۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکوٰة، الباب الأول فی تفسیر الزکوٰة:1/174، رشیدیہ)
ج: صنعتی آلات، مشینیں اور دوسرے وسائل رزق (جن سے انسان اپنی روزی کماتا ہے)بھی ضرورت میں داخل ہیں ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل نہیں کی جاتی، مثلاً:درزی کی سلائی مشین، ترکھان ،لوہاراور کاشت کار وغیرہ کے اوزار، سبزی یا پھل بیچنے والے کی ریڑھی یا سائیکل وغیرہ۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکوٰة، الباب الأول فی تفسیر الزکوٰة: 1/174، رشیدیہ)
د:اگر کسی کے پاس ضرورت پوری کرنے کا سامان ہے لیکن اس نے کچھ سامان اپنی ضرورت سے زائدبھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے مثلاً:کسی کی ضرورت ایک گاڑی سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے پاس دو گاڑیاں ہیں،یا اس کی ضرورت ایک مکان سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اس نے دو مکان رکھے ہوئے ہیں تو اس زائد گاڑی اور زائد مکان کی قیمت کو نصاب میں داخل کیا جائے گا۔(بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،مصارف الزکوٰة:2/158، دار إحیاء التراث العربي)

زکوٰة واجب ہونے کے لیے تاریخ
زندگی میں سب سے پہلی بار جب کسی کی ملکیت میں پہلی قسم کے نصاب کے مطابق مال آجائے، تو وہ دیکھے کہ اس دن قمری سال (چاند )کی کون سی تاریخ ہے؟اس تاریخ کو نوٹ کر لے ،یہ تاریخ اس شخص کے لیے زکوٰة کے حساب کی تاریخ کے طور پر متعین ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ زکوٰة کے وجوب اور ادائیگی کے لیے قمری سال ہونا ضروری ہے ، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو خوب غور و فکر کر کے کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے،آئندہ اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا، البتہ حساب کتاب کرنے کے بعد ادائیگی زکوٰة شمسی تاریخ سے کرنا جائز ہے۔

زکوٰة کا حساب کرنے کا طریقہ
جس چاند کی تاریخ کو کسی کے پاس بقدر نصاب مال آیا ، اس سے اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ میں اپنے مال کا حساب کیا جائے اگر بقدر (پہلی قسم کے )نصاب کے مال ہے تو اس کل مال کا اڑھائی فیصد (2.5%) زکوٰة دینا ہو گی۔(العالمگیریہ، کتاب الزکوٰة:1/175، رشیدیہ)

سامان کی قیمت لگانے کا طریقہ
”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح سونا ، چاندی کی بھی قیمت فروخت کا اعتبار ہو گا۔مثلاً: کراچی میں کسی شخص نے یہ چیز دس ہزار میں خریدی، پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت پندرہ ہزار یا کم ہو کے سات ہزار ہو گئی تو قیمت فروخت والی قیمت کو زکوٰة کے لیے شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکوٰة،باب زکوٰة الغنم:2/286، سعید)

مال پر سال گذرنے کا مطلب
جس تاریخ میں زکوٰة واجب ہوئی تھی اس کے ایک سال بعد زکوٰة دی جائے گی،اس ایک سال کے گذرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی تاریخ اور ایک سال کے بعد والی تاریخ میں مال ِنصاب کے بقدر اس شخص کی ملکیت میں رہے، ان دونوں تاریخوں کے درمیان میں مال میں جتنی بھی کمی بیشی ہوتی رہے ، اس سے کچھ اثر نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ مال بالکلیہ ختم نہ ہو گیا ہو، یعنی مال کے ہر ہر جز پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے بلکہ واجب ہونے کے بعد اگلے سال اسی تاریخ میں نصاب کا باقی رہنا ضروری ہے، اگر نصاب باقی ہوا تو ادائیگی لازم ہو گی ورنہ نہیں۔(بدائع الصنائع،کتاب الزکوٰة،اموال الزکوٰة:2/96،دار إحیاء التراث العربي)

مالِ تجارت کی زکوٰة کے احکام
”مال ِ تجارت سے مراد “پیچھے واضح کی جا چکی ہے کہ تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکوٰة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت) کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں بیٹے یا دوست وغیرہ کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکوٰة نہ رہا)۔بعض افراد اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تجارت کا مال صر ف و ہ ہے جس کی انسان باقاعدہ تجارت کرتا ہو، اور نفع کمانے کی نیت سے خرید و فروخت کرتا ہو۔حالانکہ شرعاً کسی چیز کے مالِ تجارت بننے کے لیے اس میں مذکورہ قید ضروری نہیں، بلکہ جو چیزبھی انسان فروخت کرنے کی نیت سے خریدے وہ تجارت کے مال میں شمار ہوتی ہے، البتہ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہ ہوتو بعدمیں فروخت کر لینے کی نیت سے وہ چیز مالِ تجارت نہیں بنے گی۔دوسری طرف وہ چیز جسے تجارت کی نیت سے خریدا تھا اگر بعد میں تجارت کی نیت بدل لی تو وہ چیز مالِ تجارت سے نکل جائے گی۔سونا ، چاندی اور نقدرقم اس تعریف سے خارج ہے، یعنی ان کے لیے کسی خاص نیت وغیرہ کی ضرورت نہیں، یہ ہر حال میں مالِ زکوٰة ہیں۔(ردالمحتار،کتاب الزکوٰة:2/267،سعید)

تجارتی اموال سے متعلق کچھ مسائل
تجارتی اموال سے متعلق ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
1... جن اشیاء کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو ، بلکہ ان کی ذات کو باقی رکھتے ہوئے ان سے کرایہ وغیرہ حاصل کرنا یا کسی اور شکل میں نفع کمانا مقصود ہو، تو وہ چیزیں مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں۔مثلاً: کارخانوں کا منجمد اثاثہ ، پرنٹنگ پریس، مشینری، پلانٹ، دوکان کا سامان ، استعمال کی گاڑی، ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کرائے پر چلانے کی نیت سے خریدی گئی گاڑی، رکشہ وغیرہ، کرائے پر دینے کی نیت سے بنا یا گیا مکان یا دوکان وغیرہ،گھر کے استعمال کے برتن، کرائے پر دینے کے لیے رکھے ہوئے برتن ، کراکری کا سامان، فریج، فرنیچر، سلائی یا دھلائی کی مشین، ڈرائی کلینرز کے پلانٹ وغیرہ۔اس قسم کی چیزیں چونکہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی گئیں،بلکہ ان کو باقی رکھ کر ان سے نفع اٹھانا مقصود ہے، اس لیے یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہوں گی اور ان پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کو خریدا ہی فروخت کرنے کے لیے ہو تو یہ مالِ تجارت ہو ں گی۔ اسی طرح موجودہ دور میں بعض مکینک حضرات اپنے کام کاج کے اوزاروں کے ساتھ بعض اوزاروں کو اس لیے خریدتے ہیں کہ بوقتِ ضرورت گاہکوں کی مشینری وغیرہ میں فٹ کر دیں گے، اور اس کی قیمت گاہکوں سے وصول کر لیں گے، تو یہ مال بھی مالِ تجارت میں داخل ہے۔(ردالمحتار،کتاب الزکوٰة:2/267،سعید)

2... اگر کوئی جانور بیچنے کے لیے خریدے تو وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں،ان کی زکوٰة بھی تجارت کے اموال کی طرح واجب ہو گی(احسن الفتاویٰ:4/286)۔

قصاب جو جانور ذبح کر کے گوشت بیچتے ہیں تو یہ جانور بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔جو جانور دودھ حاصل کرنے کے لیے خریدے تو وہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں ، البتہ ان کے دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی نقد رقم میں داخل ہو کر نصاب کا حصہ بنے گی۔(احسن الفتاویٰ:4/287)

3... اگر کسی کا پولٹری فارم یا مچھلی فارم ہو،تو ان کی زکوٰة میں یہ تفصیل ہے کہ ان کی زمین ،مکان اور ان سے متعلقہ سامان پر تو زکوٰة فرض نہیں ہوتی،البتہ مرغیاں یا مچھلیاں اگر فروخت کرنے کے لیے رکھی ہیں تو یہ مالِ تجارت ہیں اور فروخت کرنے کے لیے نہیں،بلکہ مرغیوں کے انڈے حاصل کرنے کے لیے وہ مرغیاں رکھی ہیں تو ان انڈوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکوٰة ہو گی۔(احسن الفتاویٰ:4/310)جو شخص انڈے فروخت کرنے کے لیے خریدتا ہے تو وہ انڈے مالِ تجارت ہیں،اور اگر ان انڈوں سے چوزوں کا حصول مقصود ہے تو ان بچوں کی قیمت پر زکوٰة لازم ہوگی۔

سامانِ تجارت کی قیمت لگانے کا طریقہ
”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح سونا ، چاندی کی بھی قیمت فروخت کا اعتبار ہو گا۔مثلاً: کراچی میں کسی شخص نے یہ چیز دس ہزار میں خریدی، پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت پندرہ ہزار یا کم ہو کے سات ہزار ہو گئی تو قیمت فروخت والی قیمت کو زکوٰة کے لیے شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکوٰة،باب زکوٰة الغنم:2/286، سعید)

قرض پر زکوٰة کا حکم
جو رقم کسی کو بطور قرض دی ہو ، اس کی دو قسمیں ہیں :ایک تووہ قرض ہے ، جس کے (کبھی نہ کبھی)واپس ملنے کی امید ہو ۔ دوسرا وہ قرض ہے ،جس کے واپس ملنے کی (کبھی بھی)امید نہ ہو ۔

تو پہلی قسم والے قرض کی زکوٰة دی جائے گی اور دوسری قسم کے قرض کی زکوٰة نہیں دی جائے گی۔البتہ اگر کبھی یہ قرض بھی وصول ہو گیا تو اس کی بھی زکوٰة ادا کی جائے گی۔(ہندیہ، کتاب الزکوٰة، الباب الاول:1/174، 175، رشیدیہ)

قرض کی تین قسمیں
پہلی قسم والے قرض کی تین قسمیں ہیں: دَین قوی دَین متوسط دَین ضعیف۔ ان تینوں قسم کے دیون (قرضوں) کے وصول ہونے پر زکوٰة کی ادائیگی کا طریقہ اور حکم قدرے مختلف ہے، ذیل میں اجمالاً دَین کی تینوں قسموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے:

دَین قوی کا حکم
اگر کسی شخص کونقد روپیہ یا سونا یا چاندی بطور ِ قرض دی،یا کسی شخص کے ہاتھ تجارت کا مال بیچا اور اس کی قیمت ابھی وصول نہیں ہوئی،پھر یہ مال ایک سال یا دو، تین سال کے بعد وصول ہوا تو ایسے قرض کو ”دَینِ قوی“ کہتے ہیں۔

ایسا قرض اگرچاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکوٰة حساب کر کے دینا فرض ہے، لیکن اگر قرض یکمشت وصول نہ ہو ،بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو ، تو جب چاندی کے نصاب کا بیس فی صد (یعنی: ساڑھے دس تولے)وصول ہو جائے، تو صرف اس بیس فی صد (یعنی: ساڑھے دس تولے)کی زکوٰة ادا کرنا فرض ہو گا، پھر جب مزید بیس فی صدوصول ہو جائے گا تو اس کی زکوٰة ادا کرنافرض ہو گی، اسی طرح ہر بیس فی صد وصول ہونے پرزکوٰةفرض ہوتی رہے گی اور زکوٰة سابقہ تمام سالوں کی نکالی جائے گی۔

اور اگر قرض کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر نہیں بلکہ اس سے کم ہے تو اس پر زکوٰة فرض نہیں ہو گی، البتہ اگر اس آدمی کی ملکیت میں کچھ اور مال یا رقم ہے اور دونوں کو ملانے سے چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو جاتے ہیں تو زکوٰة فرض ہو گی۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکوٰة، باب زکوٰة المال:2/305،306،307، سعید)

دَین متوسط کا حکم
اگر کسی کو قرض نقد روپے اور سونا چاندی کی صورت میں نہیں دیا اور تجارت کا مال بھی فروخت نہیں کیا، بلکہ کوئی چیز فروخت کی جو تجارت کی نہیں تھی، مثلاً:پہننے کے کپڑے یا گھر کا کوئی سامان یا کوئی زمین فروخت کی تھی،اس کی قیمت باقی ہے، تو ایسے قرض کو ”دَین ِمتوسط “کہتے ہیں۔

تو اگر یہ قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے اور چند سالوں کے بعد وصول ہوئی تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکوٰة اس پر فرض ہو گی اور اگر یکمشت وصول نہ ہو تو جب تک یہ قرض چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد وصول نہ ہو جائے، تب تک زکوٰة ادا کرنا فرض نہ ہو گا، البتہ وصول ہونے کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکوٰة ادا کرنا فرض ہے۔

اگر مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہو تو ”دَین متوسط“ سے جو بھی تھوڑی تھوڑی رقم ملتی رہے، اس کو اپنے پاس موجود نصاب میں ملاتا رہے اور زکوٰة دے۔(العالمگیریہ، کتاب الزکاہ، باب اقسام الدیون:1/175، رشیدیہ)

دَین ِ ضعیف کاحکم
کسی شخص کو نہ نقد روپیہ قرض دیا، نہ سونا چاندی فروخت کی اور نہ ہی کوئی اور چیز فروخت کی، بلکہ کسی اور سبب سے یہ قرض دوسرے کے ذمے ہو گیا، مثلاً: شوہر کے ذمے اپنی بیوی کا حق مہر ادا کرنا باقی ہو، یا بیوی کے ذمے شوہر کا بدلِ خلع ادا کرنا باقی ہو،یا کسی کے ذمے دیت ادا کرنا باقی ہو یا کسی مالک کے ذمے اپنے ملازم کی تنخواہ دینا باقی ہو ، تو ایسے قرضوں کو ”دَین ِ ضعیف“ کہتے ہیں۔

ایسے قرضوں پر زکوٰة کی ادائیگی کا حکم یہ ہے کہ ان اموال کی زکوٰة کا حساب وصول ہونے کے دن سے ہو گا، اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکوٰة فرض نہیں ہو گی۔وصول ہونے کے بعد اگر یہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو اس نصاب کے ساتھ اس مال کو ملا کے زکوٰة ادا کرے گا، ورنہ وصول ہو جانے کے بعد اس مال پر سال گذر جانے کے بعد زکوٰة ادا کرے گا۔(فتح القدیر، کتاب الزکوٰة:2/123، رشیدیہ)

اور جو ادھار خود لیا ہوا ہے ،اس کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ فورا ً سارے کا سارا ادا کرنا لازم ہے، تو اس کو نصاب سے منہا کیا جائے گا، دوسری قسم یہ کہ یک مشت اس کل رقم کی ادائیگی لازم نہیں بلکہ قسطوں میں ادا کرنا ہے تو صرف اس مہینے کی قسط نصاب سے منہا کی جائے گی۔اس کے علاوہ قرض اگر تجارت کے لئے لیا ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی عمارت ، بلڈنگ یا مشینری وغیرہ کے لیے لیاہے تو اسے نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا اور اگر محض تجارت کے لیے لیا ہے تو اسے نصاب سے منہا کیا جائے گا۔(رد المحتار، کتاب الزکوٰة:2/263، سعید)

بینکوں کے زکوٰة کاٹنے کا حکم
حکومت کے آرڈینیس کے تحت حکومت بینکوں سے لوگوں کی رقمیں زکوٰة کی مد میں کاٹتی ہے۔شرعاً اس طریقے سے زکوٰة کی ادائیگی نہیں ہوتی، حکومتِ وقت کے اس طرح زکوٰة کاٹنے میں شرعاً دس خرابیاں ہیں جنہیں فتاویٰ بینات جلد دوم ،ص:635-640 میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، بوقتِ ضرورت وہاں مراجعت کر لی جائے۔(فتاویٰ بینات،کتاب الزکوٰة، حکومت کا مسلمانوں سے زکوٰة وصول کرنا :635-640 ، مکتبہ بینات)

کمیٹی کی رقم پر زکوٰة کا حکم
کچھ افراد مل کے کمیٹی ڈالتے ہیں، کچھ ممبروں کی کمیٹی پہلے نکل آتی ہے،مثلاً: بیس افراد نے مل کر ایک ایک ہزار روپے جمع کر کے کمیٹی ڈالی، ان میں سے ایک کی کمیٹی پہلے نکل آئی، اب اس شخص کے پاس انیس ہزار روپے دوسروں کے ہیں اور ایک ہزار اپنا، تو یہ شخص اگر صاحب نصاب ہے تو یہ اپنے ایک ہزار روپے کو اس نصاب میں داخل کرے گا، انیس ہزار کو نہیں،اسی طرح ہر ممبر صرف اتنی رقم نصابِ زکوٰة میں جمع کرے گا، جتنی اس نے ابھی تک جمع کروائی تھی، البتہ آخری شخص پورے بیس ہزار کو اپنے نصاب میں شامل کرے گا، اور اگر یہ مذکورہ افراد صاحبِ نصاب نہیں ہوں تو اس نکلنے والی کمیٹی کی رقم پر زکوٰة واجب نہیں ہو گی۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکوٰة، الباب الأول فی تفسیر الزکوٰة:1/173، رشیدیہ)

خلاصہ کلام
آخر میں بطورِ خلاصہ ان تمام اثاثوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر زکوٰة واجب ہوتی ہے اور جن پر واجب نہیں ہوتی:

وہ اثاثے جن پر زکوٰة واجب ہوتی ہے
(1) سونے کی مارکیٹ ویلیو(خواہ سونا زیور کی صورت میں ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو)۔(2) چاندی کی مارکیٹ ویلیو (خواہ چاندی زیور کی صورت میں ہو یا کسی بھی شکل میں ہو)۔(3) نقد رقم۔ (4) کسی کے پاس رکھی گئی امانت (خواہ رقم ہو یا سونا، چاندی)۔(5)بینک بیلنس۔(6) غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو۔ (7) کسی بھی مقصد (مثلاً: حج ، بچوں کی شادی یا مکان وغیرہ خریدنے)کے لیے رکھی ہوئی رقم۔(8) حج کے لیے جمع کروائی ہوئی وہ رقم،جو معلم کی فیس اور کرایہ جات وغیرہ کاٹ کر واپس کر دی جاتی ہے۔ (9) بچت سر ٹیفکیٹ مثلاً: NIT،NDFC،FEBC، کی اصل رقم (اگرچہ ان کا خریدنا ناجائز ہے)۔(10) پرائز بانڈز کی اصل قیمت (اگرچہ ان کی خرید و فروخت اور ان پر ملنے والا انعام جائز نہیں ہے) ۔(11) انشورنس پالیسی میں جمع کردہ اصل رقم (اگرچہ مروجہ انشورنس کی تمام صورتیں ناجائز ہیں)۔ (12) قرض دی ہوئی رقم(بشرطیکہ واپس ملنے کی امید ہو)۔ (13) کسی بھی مقصد کے لیے دی ہوئی ایڈوانس رقم، جس کا اصل یا بدل اسے واپس ملے گا۔ (14) سیکورٹی ڈیپازٹ کے طور پر جمع کردہ رقم۔ (15) بی سی (کمیٹی)میں جمع کروائی ہوئی رقم(بشرطیکہ ابھی تک کمیٹی نکلی نہ ہو)۔ (16) تجارتی یا تجارت کی نیت سے خریدے گئے حصص۔ (17) شرکت والے معاملے میں اپنے حصے کے قابل زکوٰة اثاثوں کی رقم بمع نفع۔ (18) بیچنے کے لیے خریدا ہوا سامان، جائیداد، حصص اور خام مال۔ (19) تجارت کے لیے خریدی ہوئی پراپرٹی۔ (20) ہر قسم کے تجارتی مال کی مارکیٹ ویلیو (یعنی: قیمتِ فروخت)۔ (21) فروخت شدہ چیزوں کی قابلِ وصول رقم۔ (22) تیار مال کا اسٹاک۔ (23) خام مال۔

جو رقم مالِ زکوٰة سے منہا کی جائے گی
ادھار لی ہوئی رقم۔ خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قیمت۔ کمیٹی حاصل کرنے کے بعد بقیہ اقساط کی رقم۔ ملازمین کی تنخواہ ، جس کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہے۔ یوٹیلٹی بلز، کرایہ وغیرہ جن کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہو۔ گزشتہ سالوں کی زکوٰة اگر ابھی تک اداء نہ کی گئی ہو۔ قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قسطیں۔

اب ماقبل میں ذکر کئے گئے ”وہ اثاثے جن پر زکوٰة واجب ہوتی ہے“ کی تمام صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کل قیمت جمع کر لیں ، پھر ”جو رقم مالِ زکوٰة سے منہا کی جائے گی“ میں ذکر کی گئی صورتوں کے ہونے کی صورت میں تمام چیزوں کی قیمت جمع کر کے پہلی رقم میں سے نفی کر لیں، اب جو رقم باقی بچے ، اس کا چالیسواں حصہ(یعنی : ڈھائی فی صد )بطورِ زکوٰة نکال کر مستحقین تک پہنچائیں۔

ناقابلِ زکوٰة اثاثے
رہائشی مکان، ایک ہو یا زیادہ۔ دوکان ، البتہ دوکان کا مال مالِ زکوٰة ہوتا ہے۔ فیکٹری کی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت سے نہ لی گئی ہو۔ دوکان، گھر، فیکٹری کا فرنیچر۔ زرعی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت نہ ہو۔ کرایہ پر دیا ہوا مکان ، دوکان یا فلیٹ۔ مکان ، دوکان، اسکول یا فیکٹری بنانے کے لیے خریدا ہوا پلاٹ۔ کرایہ پر چلانے کے لیے ٹرانسپورٹ گاڑی، مثلاً: ٹیکسی ، رکشہ یا بس وغیرہ۔

مذکورہ اشیاء پر زکوٰة واجب نہیں ہوتی۔ نوٹ: زکوٰة سے متعلق مندرجہ بالا مضمون صرف مسئلہ زکوٰة سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے ہے ، اس کے علاوہ زکوٰة کے متعلق کوئی اور مسائل درپیش ہوں ،تواپنے قریبی مستند دارالافتاء سے رابطہ کر کے پوچھ لیے جائیں۔
Flag Counter