Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

15 - 17
تعلق مع الله، وقت کی اہم ضرورت
مولانا فضل الرحیم

”عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اذا دخل رمضان فتحت ابواب السماء، وفی روایة․ فتحت ابواب الجنة، وغلقت ابواب جھنم، وسلسلت الشیٰطین․ وفی روایة․ فتحت ابواب الرحمة“․ ( متفق علیہ)

ترجمہ:” حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھو ل دیے جاتے ہیں او رایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے او رایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔“

الله رب العزت نے ہر سال رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کا انتظام فرمایا، تاکہ انسان کچھ وقت کے لیے اپنے اندر اخلاق الہٰی کا کچھ نقش اتار سکے، جس سے بندہ اور خالق کے درمیان تعلق اور رابطہ پیدا ہو جائے ۔

اس لیے کہ الله تعالیٰ نے انسان کے اندر خواہشات کو رکھا او ران خواہشات کو پورا کرنے کا اختیار بھی دیا، اب اگر بندے او رخالق کے درمیان رابطہ موجود ہو تو انسان پوری زندگی صراط مستقیم پر رہتے ہوئے گزار لیتا ہے لیکن اگر خالق سے تعلق میں کمی آجائے تو پھر انسان زندگی کو بے لگام ہو کر گزارتا ہے ۔ احساسات، جذبات اور اعصاب کو مکمل طور پر اپنی مرضی سے چلاتا ہے، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سارا انسانی نظام معدہ کے ارد گرد گھومنے لگتا ہے او رانسان کی یہ سوچ بن جاتی ہے کہ پیٹ کے لیے تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں انسان پر سکون زندگی مطمئن دماغ اور زندہ ضمیر سے محروم ہو جاتا ہے ۔ عبادات بوجھ محسو س ہونے لگتی ہیں ، انسان کے جسم او رعقل دونوں میں خرابی آجاتی ہے ۔ ایسا انسان صرف اپنی ذات میں نہیں بکھرتا، بلکہ سوسائٹی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

یہ صرف اس لیے ہوا کہ انسان کا تعلق او ررابطہ اپنے خالق ومالک سے نہ رہا۔ چناں چہ الله رب العزت نے رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کا حکم دیا، تاکہ انسان کھانے پینے او راپنی خواہشات کو پورا کرنے کے ایک لگے بندھے نظام سے نکل کر بھوک اور پیاس کا مزہ چھکے او رانسان تعلق مع الله کی اس لذت سے آشنا ہو جائے جو طرح طرح کے لذیذ ترین کھانوں میں کبھی محسوس نہیں ہوتی۔

چناں چہ رمضان المبارک کے ہر مرحلے میں الله تعالیٰ نے انسان کو اس تعلق اور رابطہ کا احساس اور یقین دلایا جو روزہ رکھنے سے انسان اور خالق کے درمیان پیدا ہو جاتا ہے ۔

ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے ”ان الله وملٰئکتہ یصلون علی المسحرین“ یعنی الله تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرمایا کہ سحری کھایا کرو، سحری میں برکت ہے ۔ پھر جب بندہ روزہ میں سارا دن خالی پیٹ رہتا ہے تو اس کی وجہ سے منھ سے بو آنے لگتی ہے ۔اس کے بارے میں فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی الله علیہ وسلم  کی جان ہے کہ روزہ دار کے منھ کی بو الله تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوش بو سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔

غور کا مقام ہے کہ جب بندہ کا تعلق الله تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے تو پھر اس کی ہر کیفیت کی الله تعالیٰ کے ہاں قدر ہوتی ہے ۔ اس روزہ رکھنے کے درمیان کھانے سے روکنے کے ساتھ ان برائیوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ، جن سے بندہ اور الله تعالیٰ کے درمیان تعلق میں کمی آجاتی ہے ۔ چناں چہ فرمایا ” جو بندہ جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو الله تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اسی طرح روزے میں لڑنے جھگڑنے سے اور غیبت کرنے سے منع فرمایا۔

پھر جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے تو الله تعالیٰ سے قائم ہونے والے تعلق کا اپنے ہاں سے خود سوال کرتا ہے:”اللھم، انی لک صمت، وبک آمنت، وعلیک، توکلت وعلی رزقک افطرت“․

” اے الله! میں نے تیرے ہی لیے روزہ رکھا او رتجھ پر ایمان لایا اورتجھ پر بھروسہ کیا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔“

افطار کے وقت ایک خوشی کااحساس اور شکر کے جذبات موج زن ہوتے ہیں ۔ یہ صرف کھانا کھانے کی خوشی نہیں ہوتی، بلکہ مومن کا الله تعالیٰ سے رابطہ ہونے کا ایک حسین نتیجہ ہے۔

صحیح مسلم میں ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:للصائم فرحتان: فرحة عند فطرہ وفرحة عند لقاء ربہ․

نیزفرمایا کہ پہلا عشرہ رحمت خدا وندی کا ہے اور دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔

رمضان المبارک کے روزوں کے درمیان الله تعالیٰ اور بندہ کے درمیان اتنا گہرا تعلق قائم ہو جاتا ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک اس کے ہر عمل کا درجہ بہت زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ چناں چہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک کام کرتا ہے تو اس کا ثواب اتنا ہے جتنا اس کے علاوہ کسی اور وقت میں انسان فرض ادا کرتا ہے اور جو شخص رمضان میں ایک فرض ادا کرے تو اس کا ثواب اتنا ہے کہ جتنا عام دنوں میں ستر فرض ادا کر ے۔

روزے کے ذریعہ بندے او رالله تعالیٰ کے درمیان جو تعلق پیدا ہوتا ہے اس کے اثرات صرف انسان کی اپنی زندگی تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اس کے اثرات تجاوز کرکے دوسرے لوگوں پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے کہ یہ صبر کا مہینہ ہے ، باہمی رواداری اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ جو دوسرے لوگوں کا روزہ افطار کرائے گا اس کے گناہ بھی بخشے جائیں گے او رروزہ افطار کرانے والے کو ثواب بھی ہو گا او رافطار کرنے والے کے ثواب میں بھی کمی نہیں ہو گی۔

معلوم ہوا کہ جب بندہ کا الله تعالیٰ سے تعلق اور رابطہ قائم ہوتا ہے تو پھر بندہ الله تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بھی خیال رکھتا ہے او ران کے حقوق ادا کرنے کی فکر کرتا ہے ۔

روزہ کا عمل الله تعالیٰ کے نزدیک کس قدر محبوب ہے ، اس کااندازہ اس ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم سے ہوتا ہے :”قال الله عزوجل: کل عمل ابن ادم لہ الا الصیام لی وانا اجزبہ“․

یعنی” الله تعالیٰ نے فرمایا کہ آدمی کا ہر عمل اس کا ہے، لیکن روزہ کا عمل میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔“

الله رب العزت ہمیں روزے کے اس بابرکت عمل کے ذریعہ تعلق مع الله جیسی نعمت عطا فرما دے، اس لیے کہ ہم نے دیکھا کہ جب کسی بندہ کا الله تعالیٰ سے رابطہ ہو جاتا ہے تو پھر بندہ کی روح پاکیزہ اور اس کا دل پر سکون ہو جاتا ہے ۔ نیکی کا شوق پیدا ہو جاتا ہے او رگناہ نہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے ۔ زبان پاکیزہ اور کان پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔ الله رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنا یہ تعلق او رابطہ پوری زندگی میں عطا فرمائے، تاکہ روزے کے ذریعہ جو رابطہ بندہ او رخالق کے درمیان پیدا ہوا ہے وہ زندگی کے آخری لمحے تک نصیب ہو جائے۔

وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین
Flag Counter