Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

12 - 17
نوجوان علمائے کرام اور نئے فضلا کی ذمے داریاں
خطاب: مولانا قاری محمد حنیف جالندھری

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس مختلف اوقات میں صحابہ کرام حاضر ہوتے اور سوالات پوچھا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک سوال متعدد مرتبہ ہوا کہ ” یا رسول الله! کون سا عمل افضل ہے؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں کسی سے فرمایا جہاد افضل ہے ، کسی سے فرمایا والدین کی خدمت جہاد ہے، کسی کو انفاق فی سبیل الله کا حکم دیا، کسی کو غصہ نہ کرنے کی تلقین فرمائی، الغرض سوال ایک ہی تھا لیکن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مختلف حضرات کو مختلف جوابات مرحمت فرمائے۔

اس اختلاف کے بارے میں حضرات محدثین کرام کی آرا مختلف ہیں ۔ بعض حضرات کا کہناہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ مختلف جوابات سوال پوچھنے والوں کے حالات او رمزاج کی وجہ سے تھے، مثلاً آپ کو جس شخص کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ یہ غصے کا تیز ہے، اسے غصہ نہ کرنے کی ترغیب دی ، جس کے بارے میں والدین کی خدمت او راطاعت میں کوتاہی کا خدشہ تھا، اس کے لیے والدین کی خدمت کو جہاد قرار دیا، جس کے مزاج میں بخل پایا، اسے انفاق فی سبیل الله کا درس دیا۔ جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مختلف جوابات حالات اور مواقع کے اختلاف کی بنا پر تھے، جہاد کا موقع درپیش تھا، اس وقت جہاد کو افضل عمل قرار دیا، جب فقرا کا تعاون کروانا مقصود تھا اس وقت انفاق فی سبیل الله کا حکم دے دیا، جب والدین کی خدمت میں کوتاہی محسوس کی تو والدین کی خدمت کو جہاد بتلایا، اگر دیکھا کسیکہ کی بیٹی جوان ہے اور شادی میں تاخیر کی جارہی ہے تو اسے عزت سے رخصت کرنے کا حکم دیا، رمضان المبارک کا موقع ہو اتو روزے کے فضائل بیان فرمائے او راگر حج کا معاملہ آیا تو فریضہ حج کی ادائیگی کی تلقین فرمائی۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت کے بہت سے احکام کی بنیاد حالات پر ہوتی ہے او رحالات کی بنیاد پر احکام تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے آج کے دور کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ علمائے کرام کو آج کے دور میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کے لیے آج کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے ، موجود دور کے چیلنجز کا ادارک کرنا لازم ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت تہذیبی ، فکری، عملی ، علمی او رتبلیغی میدان کے تقاضے کیا ہیں ؟ آج کے دورمیں علم کلام کا کون سا مسئلہ موجود ہے ، موجودہ حالات کا ادراک اور فہم آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے او رپھر اس کے نتیجے میں علمی اور فکر ی سطح پر خود کو مسلح کرنا آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضا ہے ، اپنے مسائل کے تدارک کے لیے پہلے ان کا ادراک ضرور ی ہے ، علاج کے لیے مرض کی تشخیص لازم ہے، آج یونان کا فلسفہ اور فکر نہیں، جس وقت یونانی فلسفہ کا عروج تھا اس وقت امام غزالی رحمة الله علیہ نے میدان میں آکر پہلے اس کوپڑھا او رسمجھا او رپھر اس کا رد کیا۔ آج ہمیں پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارا واسطہ کس کلچر، تہذیب اور کس قسم کے فکرو فلسفہ سے ہے او راس کے مقابل کے لیے اسلامی فکر وفلسفہ اور تہذیب وکلچر کیا ہے ؟ او رہم قرآن وسنت کی روشنی میں موجودہ دور کے فکر وفلسفہ کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ حضرات الله کے فضل وکرم سے درس نظامی پڑھ چکے ،اب آپ کو یہ سیکھنا ہے کہ ان علوم کا ابلاغ کیسے ہو ؟ ان کے استعمال کے لیے کون سی زبان استعمال کی جائے او ردنیا سے اپنا موقف منوانے کے لیے کن دلائل کی بنیادپر بات کی جائے ؟ یہ کورس آپ کی اس حوالے سے تربیت کی ایک کوشش ہے ۔ اس لیے آج یہ لازم ہے کہ ایک عالم کی نظر زمانے کے موجودہ حالات پر بھی ہو اور اس کا رشتہ ” صفہ“ کی درس گاہ سے بھی جڑا ہوا ہو۔ اسے قرآن وسنت اور دینی علوم پر بھی دست رس حاصل ہو او راس کا ہاتھ قوم کی نبض او رزمانے کی رفتار پر بھی ہو ۔ جس عالم کا رشتہ اپنے اصل او رماضی سے کم زور ہو وہ بھی نامکمل ہے اور جو موجودہ حالات سے واقف نہ ہو وہ بھی ادھورا ہے۔ اس لیے بعض حضرات نے ایسے مفتی حضرات کو فتویٰ دینے سے منع کیا ہے جو اپنے زمانے کے حالات کو نہ جانتے ہوں اور وہ مشہور مقولہ تو آپ سب نے سن رکھا ہو گا کہ ” جو اپنے زمانے کے حالات کو نہ جانتا ہو وہ جاہل ہے“ اس لیے موجودہ دو رکے تقاضوں کو سمجھنا، موجودہ دور کے چیلنجز سے آگاہی حاصل کرکے ان سے نمٹنے کی تیاری او راہتمام کرنا آج کے دور کی اہم ترین ذمہ داری ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہرمیدان کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں او رہر میدان کا کوئی خاص قسم کا اسلحہ ہوتا ہے ، جس کے بغیر چارہ کار نہیں ۔ علم وفکر کے میدان کی ضرورت اور اسلحہ دلیل، استدلال،منطق اور برہان ہے۔ آج کے اہل باطل او رکفار طاقت ، اسلحہ ، ڈرون حملوں اور دھمکی کی زبان میں بات کرتے ہیں ۔ وہ آج پاکستان کو اور دیگر مسلمان ملکوں کو دھمکیاں دیتے ہیں ، ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت استعمال کرتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن یاد رکھیں! جو فتح طاقت کی بنیاد پر حاصل کی جائے وہ عارضی ہوتی ہے اور دائمی فتح دلیل اور استدلال کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے ۔ طاقت کے نشے میں بدمست لوگ ایک نا ایک دن ضرور شکست کھاتے ہیں جب کہ دلیل اور علم کام یاب ہوتے ہیں۔ جنگ نہ کسی مسئلے کا حل ہے اور نہ اس کے ذریعے فتح حاصل کی جاسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مدارس کے دفاع او ربقا کی جنگ دلیل او رمنطق کی بنیاد پر لڑی ہے ۔ مدارس کے دفاع کی جد وجہد میں ہم نے اسلحہ نہیں اٹھایا، طلبا کو سڑکوں پر نہیں لائے ، جلوس نہیں نکالے، بلکہ ہم نے دلیل اور سچائی کی بنیاد پر جنگ لڑی اور الله نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے فتح دی۔

آپ کو بھی کل اسی قسم کی صورت حال سے واسطہ پڑے گا، بلکہ آپ کے مستقبل میں حالات مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے ۔اس لیے آپ جب اس قسم کے کورسز میں شریک ہوں گے تو اس سے ان شاء الله آپ کا علم مضبوط ہو گا، آپ کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ آئے گا، آپ کوعالمی زبانوں پر عبور حاصل ہو گا، آپ کو موجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک ہو گا اور اس کے نتیجے میں اپنی ذمے داریوں کا احساس پیدا ہو گا۔ اور پھر آپ دلیل کی بنیاد پر دنیا سے اپنا موقف منواسکیں گے ۔ کیوں کہ اسلام طاقت کی زبان میں بات نہیں کرتا، بلکہ دلیل کی بنیاد پر بات کرتا ہے ، جنگ کے میدان میں بھی پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ، پھر جزیہ دے کر بطور ذمی اسلامی ریاست کی رٹ قبول کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے اور آخر میں اسلحے اور تلوار کی نوبت آتی ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی چالیس سالہ زندگی کوبطور دلیل پیش کیا، جب کہ مشرکین مکہ نے ظلم وتشدد کی زبان میں بات کی ۔ فرعون او رنمرود نے طاقت کی زبان میں بات کی ۔ فرعون نے کہا ﴿لاصلبنکم فی جذوع النخل﴾ جب کہ حضرت موسی علیہ السلام او رحضرت ہارون علیہ السلام نے دلیل کی بنیاد پر بات کی ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دلیل کی بنیاد پر فرعون سے مکالمہ کیا۔ اس کے جواب میں نمرود نے اپنی طاقت اور اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہوئے بے گناہ کو پھانسی دے دی اور سزائے موت پانے والے کو رہا کر دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اگلی دلیل دی کہ ” میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تمہیں رب ہونے کا دعویٰ ہے تو سورج مغرب سے نکال کر دکھاؤ“ اس دلیل کے مقابلے میں نمرود شکست کھا گیا اور ہکا بکا رہ گیا۔ اس لیے یہ یاد رکھیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا راستہ دلیل اور استدلال کا راستہ ہے اور فرعونوں، نمرودوں، بادشاہوں او رحکم رانوں کا انداز ہمیشہ یہ رہا کہ وہ طاقت ، دھمکی اور اسلحے کی زبان میں بات کرتے ہیں، اس لیے آپ نے انبیائے کرام علیہم السلام والا راستہ اپنانا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ آج کا ہتھیار دلیل کا ہتھیار ہے، علم کاہتھیار ہے ، تعلیم کا ہتھیار ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس ہتھیار سے مسلح کرنا ہو گا۔ کیوں کہ آج مکالمہ او رمباحثہ کی جنگ ہے ۔ علمی او رفکری محاذوں پر کش مکش ہے ، دلیل او راستدلال کی بنیاد پر مقابلہ ہے او راس کے لیے علم ضروری ہے ،یہ علم ہی ہے جو انسان کو مسلح کرتا ہے اور آج کے دور کا ہتھیار یہی ہے ۔ دیکھیں! نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے دور میں گھوڑوں اور تلواروں کے ذریعے جنگیں ہوتی تھیں، لیکن آج کی جنگیں طیاروں ، میزائلوں اور بھاری اسلحے کی جنگیں ہیں۔ جنگ عظیم اول میں جو ہتھیار استعمال ہوئے آج وہ استعمال نہیں ہو رہے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی بدل جاتے ہیں او رجنگوں کا طریقہ کار بھی بدل جاتا ہے، اس لیے ہمیں موجودہ دور میں جن جن میدانوں میں اہل باطل سے مقابلہ درپیش ہے ان تمام میدانوں کے لیے تیاری کرنی ہو گی ۔جنگوں کی طرح آج مناظرے ، مجادلے اور مباحثے کا انداز بھی بدل گیا ہے، اس لیے لازم ہے کہ آج کے دور کے مسائل بھی سمجھیں اور دلائل بھی ، طرز استدلال بھی جانیں اور آج کے دور کی مروجہ زبانیں بھی سیکھیں، تب جا کر اس کش مکش میں آپ کا پلڑا بھار ی ہو سکتا ہے۔

اور آخری بات یہ ہے کہ امام ابو یوسف سے کسی نے پوچھا کہ آپ آج علم اور فقاہت کے جس مقام پر فائز ہیں اس مقام تک آپ کیسے پہنچے؟ اس سوال کے جواب میں امام ابویوسف  نے جو جملہ ارشاد فرمایا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ نے فرمایا” افادہ میں بخل نہیں کیا اور استفادہ سے انکار نہیں کیا“ اس لیے آپ حضرات بھی یہ مت سوچیں کہ ہم نے سند فراغت حاصل کر لی، اب ہمیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ پہلے سے زیادہ محنت کریں اور یہ یاد رکھیں الحکمة ضالة المؤمن کہ حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے ،جہاں سے ملے وہیں سے لے لو ،بلکہ اگر حکمت کی کوئی بات دیوار پر لکھی ہوئی ملے تب بھی اسے لے لینا چاہیے۔

آپ استفادہ کرتے ہوئے جھجھک او رتکبر کو آڑے نہ آنے دیں اور افادہ میں بخل سے کام نہ لیں ،کیوں کہ استفادہ اور افادہ کے ذریعے علم ترقی کرتا ہے او راس کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے چیلنجز کا ادراک کرکے اس کے حوالے سے کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کیجیے، کیوں کہ آپ کے سامنے میدان بہت وسیع ہے… آپ پر بہت بھاری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں۔ یا درکھیے! آپ ہی ہمارا مستقبل ہیں، آپ ہی ہمارا سرمایہ ہیں او رآپ ہی ہماری امید ہیں۔ الله آپ کا حامی وناصر ہو۔ 
Flag Counter