Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

4 - 17
روزہ اورصبر
محترم احمدمعاویہ اشرفی

رمضان رحمت،مغفرت اورجہنم سے خلاصی کامہینہ ہے۔اس مبارک مہینے کی برکتیں اورسعادتیں لامتناہی ہیں۔رحمت حق قدم قدم پر بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ساراسال گناہوں اورخالق کی بغاوتوں میں لتھڑے مسلمانوں کے لیے رب کریم اپنی رضاورضوان کے دروازے کھول دیتے ہیں۔سعادت منداورخوش نصیب روحیں ان مبارک گھڑیوں کوقدرت کا انعام واکرام سمجھ کر قیمتی بناتی ہیں۔روٹھے ہوئے رب کومنانے ،گزشتہ زندگی کی غفلتوں کی تلافی اورآئندہ کے لیے ایمانی زندگی گزارنے کالائحہ عمل طے کرنے میں ماہ صیام اِکسیر کادرجہ رکھتاہے۔

اس برکت وعظمت والے مہینے کو کیسے زیادہ سے زیادہ قیمتی، موٴثر اورمفید بنایا جاسکتاہے؟اس ”ماہ فرقان“ کی پرکیف ساعتوں کو کس طورپر قرآنی انوارات وبرکات سے فیض یاب کیا جاسکتاہے؟کیسے ہماری زندگی کے بقیہ گیارہ ماہ ایمانی سانچے میں ڈھل سکتے ہیں؟ان سوالات کے جوابات پانے کے لیے ضروری اورلازمی ہے کہ ہم رمضان کریم کو ان قواعد اوراصول کے مطابق گزاریں ،جن کاذکر ہمیں جا بجا کتاب وسنت میں ملتاہے۔غورکیا جائے تو یہ بات نکھرکرسامنے آتی ہے کہ روزے کامقصد فقط یہ نہیں کہ انسان ایک خاص وقت میں اپنے کھانے پینے اوربشری تقاضوں سے کنارہ کش ہوجائے ،بلکہ اصل مقصود و منتہی یہ ہے کہ انسانی قلب کا تزکیہ ہو،آدمی کاباطن معصیتوں کی آلودگی سے پاک صاف اوراس کے دل میں ایمان وتقویٰ کانورداخل ہو۔

چناں چہ تقویٰ،خشیت الٰہی اورپرہیزگاری کے حصول میں جہاں اوربہت سے امورمعاون بنتے ہیں،وہاں ”صبر“کی اہمیت وحیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایک حدیث مبارکہ میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کو صبرکامہینہ اورصبرکابدلہ جنت بتلایاہے۔(مشکوٰة)اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے یوں ارشادفرمایا:”روزہ ڈھال ہے(گناہوں اورجہنم سے بچاوٴ کے لیے)پس روزہ دار کو اس دوران نہ توفحش کلامی کرنی چاہیے اورنہ ہی جہالت ونادانی پر مشتمل گفتگو۔اگرکوئی دوسرافرد اس سے جھگڑے یا دشنام طرازی کرے تو اس کو دومرتبہ یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں روزہ دارہوں۔“(بخاری:254/1)

قرآن حکیم ہمیں مختلف انداز اورپیرایوں میں اللہ رب العزت کے ہاں صابرین کا مقام ومرتبہ اوران کو ملنے والے اجروثواب کے بارے میں آگاہ کرتاہے۔صبرکیاہے؟اس کا عملی زندگی میں کہاں کہاں اورکس کس موقع پر اطلا ق ہوتاہے؟بندہ مومن کے لیے اس ایمانی صفت سے متصف ہوناکیوں ناگزیرہے؟حضرت مفتی تقی عثمانی زیدمجدھم ”آسان ترجمہٴ قرآن“ میں رقم طراز ہیں:”صبرکامطلب یہ نہیں کہ انسان کسی تکلیف یا صدمے پر روئے نہیں ۔صدمے کی کسی بات پررنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔اس لیے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔جورونا بے اختیارآجائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں۔البتہ صبر کامطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہ ہو۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر انسان عقلی طورپر راضی رہے۔“(110/1)

حضرات علمائے کرام صبرکی تین قسمیں بتلاتے ہیں۔اول یہ کہ انسان نیکی اوربھلائی کے کاموں پر مستقیم رہے۔جس نوعیت کا بھی کارخیر شروع کررکھاہے ،اس کو پوری مستقل مزاجی ،محنت اورلگن سے سرانجام دیتارہے۔دوسری قسم صبرکی یہ ہے کہ گناہوں ،معصیتوں اورباری تعالیٰ کی سرکشیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرے۔یہ کوشش وکاوش بھی صبرکے مفہوم میں داخل وشامل ہے۔صبرکاتیسرا اورآخری درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے اوپر آنے والے ناگہانی مصائب ،بلیات اورحادثات پر برداشت ،ضبط نفس اورحوصلہ کا مظاہرہ کرے۔کسی بھی بیماری ،دکھ،صدمے اورمشقت پر بے صبری کا اظہارنہ ہو۔بلکہ ایسے جاں گسل لمحات اورسانحات میں دل اورزبان پر قابورکھے۔کوئی بھی ایساکلمہ جو تقدیر کے شکوے پر مبنی ہو،اس سے قلب ولسان کی حفاظت کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ ہمیں اورآپ کو متذکرہ اقسام کے حصول کی عملی مشق وتمرین کا بھرپورموقع فراہم کرتاہے۔اس ماہ مبارک میں ہر فرد بشر زیادہ سے زیادہ افعال خیر کرنے کی جستجو میں لگا ہوتاہے۔ عبادات وتلاوت،ذکروتسبیحات ،کثرت نوافل سمیت صدقات وخیرات کا ذوق وشوق پورے جوبن پرہوتاہے۔ساتھ ساتھ ہرروزے داراپنے نفس کو ظاہری وباطنی نافرمانیوں سے آلودہ کرنے سے بچانے کی سعی والتزام کرتاہے۔دن بھر کی بھوک پیاس،لوگوں کے نامناسب رویوں اورناشائستہ طرز کلام کو برداشت کرکے ہمارے اندر ایثار،ہم دردی،غم خواری اوردوسرے کی فکر جیسے روحانی اوصاف نشوونماپاتے ہیں۔

آج جب ہم اپنے گردوپیش پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہرمتنفس نفسانفسی،آپادھاپی اوراپنااپنی کااسیروقیدی دکھائی دیتاہے۔جگہ جگہ جلد بازی، عجلت اورتیزی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہمارے اجتماعی وانفرادی مزاجوں میں دوسروں کو برداشت کرنے کاحوصلہ،غیروں کی فکر کرنا اورصبروقربانی جیسے اعلیٰ اسلامی اخلاق کی نایابی نظرآتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ بابرکت اورایمان افروز ساعتوں کواس نیت اورعزم کے ساتھ گزاراجائے ،کہ ہمارے اندر بردباری،قناعت،نرم دلی،ضبط اورتحمل جیسی بلنداورایمانی عادات جگہ پاسکیں۔کیوں کہ ایمان کے دوحصے بتلائے گئے ہیں، آدھا شکر اورآدھاصبر۔اللہ تعالیٰ ہمیں صبرکاخوگربنائیں اوراپنے صابرین وشاکرین بندوں میں ہماراشمارفرمائیں ۔آمین!
Flag Counter