Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 17
فرض شناسی، ہم دردی اور دیانت داری
مولانا سید محمد رابع حسنی

اجتماعی زندگی میں درستگی اورخوبی کے لیے تین صفات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں، ایک فرض شناسی، دوسرے ہم دردی او رتیسرے دیانت، اگر ان تینوں باتوں کا لحاظ نہ رکھا جائے تواجتماعی زندگی پریشانی او رمصیبت کی آماج گاہ بن جاتی ہے ، اسلام میں ان تینوں باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور تاکید کی گئی ہے او رحضور صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم میں یہ تینوں باتیں بطریق احسن پائی جاتی تھیں او ران کی بنیاد الله کا خوف اور آخرت میں کام یابی کی طلب ہوتی تھی ، اسی لیے ان کا معاشرہ بڑا مثالی معاشرہ تھا، آپس کی محبت ، ہم دردی اور دیانت داری ان کی عام صفات تھیں، الله کا خوف اور آخرت کی فکر جیسے جیسے کم ہوتی گئی مسلمانوں میں ان صفات کی کمی ہوتی گئی او ران کی اجتماعی زندگی ابتر ہوتی چلی گئی ، ضرورت ہے کہ ان صفات کو رواج دینے اور عمل کا جزو بنانے کی فکر کی جائے او رمعاشرہ کو درست بنایا جائے، ملحد اور کا فرقوموں میں الله کا خوف اور آخرت کی فکر نہیں ہوتی ہے ، لیکن یورپ کی موجودہ متمدن قوموں میں فرض شناسی ، ہم دردی ، تعاون ودیانت کی ظاہری شکلیں خاصی نظر آتی ہیں، دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بیشتر افراد تعلیم یافتہ ہونے کے باعث اپنی اجتماعی زندگی کو خوب صورت اور منظم بنانے کی فکر کرتے ہیں ، ان کے پاس خوف خدا اور تصور آخرت نہیں ہے ، انہوں نے اس کمی کا حاصل دوسرے طریقہ سے نکالنے کی کوشش کی ہے ، انہوں نے خوف خدا کی جگہ حکومت اور قانون کی گرفت کے خوف کو جگہ دی ہے اور آخرت کی فکر کی جگہ اپنے ذاتی اور اجتماعی نفع وضرر کی فکر کو جگہ دی ہے ، اس طریقہ سے وہ اپنی اجتماعی زندگی اپنے مطلب کی حد تک سنبھالنے کے قابل ہو گئے، ضروری کام کے لیے فرض شناسی اس لیے اختیار کی جاتی ہے کہ اس کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی ہے ، وہاں ایک شخص دوسرے شخص کا تعاون اس لیے کر رہا ہے کہ اپنی ضرورت پڑنے پر اس کو دوسرے کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے حصول کے لیے دین کے طریقہ سے مفر نہیں، وہ دوسرے کے ساتھ اگر کوئی ہم دردی کرتا ہے تو ، یا تو اس لیے کہ اس کے کسی ذاتی مقصد کی بر آوری ہوتی ہے یا ہم دردی نہ کرنے پر سوسائٹی کی نظروں میں اس کو رسوائی کا خطرہ ہوتا ہے۔

جہاں تک دیانت کا تعلق ہے تو وہ صرف قانون کی پکڑ سے بچنے کے لیے یارائے عامہ کے دباؤ سے اور سوسائٹی کی نظر تنقید سے بچنے کے لیے اختیار کرتا ہے، اگر ان دونوں باتوں میں مفر کی صورت نکلتی ہے تو وہ بد دیانتی سے بالکل نہیں بچتا، چناں چہ مغربی سوسائٹی میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جب بھی بد دیانتی کی پکڑ سے محفوظ موقع ملا تو کھل کر بد دیانتی کی گئی، نیویارک میں ایک رات چند گھنٹوں کے لیے بجلی چلی گئی تو اندھیرے کی آڑ میں دوکانوں کے دروازے توڑ توڑ کر ہر طرح کا سامان اٹھالے گئے اور پولیس کی زد میں آئے تو ناگواری کا اظہار کیا۔

امریکا میں کسی اخبار نے یہ سوال نامہ شائع کیا کہ اگر آپ کوپکڑ دھکڑ کا خطرہ نہ ہو اور چوری کا موقع ملے تو کیا آپ چوری کریں گے تو بھاری اکثریت کا جواب تھا ضرور کریں گے، یہ ان کی حقیقت گوئی تھی، کیوں کہ پکڑیا دباؤ کے خطرے کے معدوم ہونے کی صورت میں بد دیانتی نہ کرنا ان کی نظر میں بے وقوفی سے زیادہ نہیں۔

وہاں کی حکومتیں ان تصورات کو جانتی ہیں، اسی لیے وہ اسی کے مطابق انتظامات بھی کرتی ہیں او راسی کے مطابق ضابطہ وقانون بھی بناتی ہیں اور اس طریقہ سے سوسائٹی کے ظاہری عمل کو کنٹرول کر لیتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی اجتماعی زندگی کا ظاہری رنگ وروپ بہت بھلا ظاہر ہوتا ہے ، چھوٹی موٹی او رگھٹیا قسم کی بد دیانتیاں مغربی تمدن میں بہت کم ہوتی ہیں، کیوں کہ ان سے فائدہ کم اور سوسائٹی میں رسوائی کا نقصان زیادہ ہوتا ہے ، چناں چہ سڑک پر معمولی اشیا کی دکانوں پر بعض وقت مال بغیر محافظ کے ہوتا ہے او رلوگ قیمت رکھتے جاتے ہیں او رمال اٹھالیتے ہیں ، مثلاً اخبارات کی فروخت میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، وجہ یہ ہوتی ہے کہ ارد گرد دسیوں آدمی آتے جاتے دیکھ رہے ہوتے ہیں ، لیکن جب بھی کسی کو کوئی محفوظ موقع مل گیا تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، مغربی تمدن میں قانون وحکومت کی گرفت کے ساتھ صحافت کی طرف سے بھی گرفت کا نظام ہے او راس معاملہ میں صحافت برابر کا کام انجام دیتی ہے ، اگر کسی فرم کی طرف سے خراب مال بنایا جارہا ہو اور بد معاملگی ہوتی ہو تو فوراً صحافت اس کی گرفت کرتی ہے او رعوام کے سامنے اس کا قضیہ لے آتی ہے ، اس کی وجہ سے کاروبار میں دیانت واحتیاط کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔

یہ حالات ہیں بے خدا زندگی کے، جن میں دین کی گرفت کے نہ ہونے سے دنیاوی تدابیر سے کام لیا جاتا ہے ، کم از کم ظاہری سطح پر اچھے نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں ، لیکن ہمارا مشرقی ماحول اتفاق سے دونوں عوامل سے خالی ہو چکا ہے، نہ تو اس میں دین کا اتنا اثر ہے کہ وہ غلط کاموں اور خود غرضیوں سے روکے او رکہیں پایا جاتا ہے تو اس کی تعداد کم ہے ، جو معاشرہ کو اچھا نہیں بنا پاتا او راس حقیقت کومان کر اس کا متبادل دنیاوی طریقہ اختیار کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں کی جاتی ، چناں چہ ہماری اجتماعی زندگی میں تعاون، ہم دردی اور دیانت تینوں باتوں کی مثالیں کم ہوتی جاری جارہی ہیں، البتہ ابھی دیانت داری ، ہم دردی اور تعاون کے تذکرے برابر ہیں اور ن کے لیے دین وآخرت کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں، جن کا اثر کسی حد تک ہوتا ہے اوربہت سے افراد کی اس طریقہ سے اصلاح بھی ہوتی ہے ، لیکن کوشش کی مقدار زیادہ نہیں ہے ، تھوڑی بہت اچھی مثالوں کی وجہ سے ،نیز دعوت ونصیحت کے کچھ کام کی صورت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کافی ہے اور معاشرہ اس سے درست ہو جائے گا، لیکن یہ کافی نہ ہونے کے باعث ہمارے معاشرہ میں کافی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔

اگر دکان دار کی ناواقفیت او رکسی دوسرے کی نظر سے بچنے کا موقع مل جائے تو خریدار قیمت سے زیادہ مال حاصل کر لیتا ہے او راگر گاہک کی ناسمجھی یا غفلت کا موقع دکان دار کو مل جائے تو وہ اس سے زیادہ دام حاصل کر لیتا ہے ، اسی طرح ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کی اشیا کو غفلت کا موقع ملنے پر بقدر اخفا اپنی ملکیت میں لے لیتے ہیں اور ایک دوسرے کی اشیا کو بلا اجازت استعمال کرنے کا رواج تو بہت عام ہے، خواہ اس سے اصل مالک کو دشواریاں او رنقصانات کتنے بھی پیش آئیں۔

ہمارے مسلم معاشرے میں بھی یہ کم زوری بڑھتی جارہی ہے ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا گھریلو ماحول، پھر ہمارا تعلیمی نظام ، دلوں کو انسانی ہم دردی کا عادی او رخوف خدا اور تصور آخرت سے وابستہ کرنے سے بہت کوتاہ اور غافل ہے ، علم تو ڈھیروں مہیا کرنے کی فکر کی جاتی ہے ، لیکن سیرت کو درست کرنے او رانسان بنانے کے طریقے بہت کم اختیار کیے جاتے ہیں ، اس کے نتیجہ میں وہ اخلاقی کم زوریاں دلوں میں گھر کر لیتی ہیں جن سے معاشرہ پراگندہ اور خود غرض بنتا جاتا ہے ، دوسرے کی چیز بلا اجازت استعمال کر لینا، دوسرے کی مخفی باتوں کی ٹوہ میں رہنا، اپنے معمولی فائدہ کے لیے دوسرے کا بڑا نقصان کر دینا ، ذاتی منفعت کی طلب میں ملت کو نقصان پہنچانا، دنیاوی فائدہ کی خاطر آخرت کی بربادی مول لے لینا، ہماری معاشرت میں پھیلتا جارہا ہے۔

ایک ادارہ نے اپنے ٹیلی فون پر طویل فاصلہ کی کالیں مخفی طور پر بار بار ہو جانے کے بعد ایک تختی لگائی کہ یہ قومی مقصد کا ٹیلی فون ہے، براہ کرم کال کریں تو اس کا معاوضہ بھی ادا کریں، تختی کی پروا کیے بغیر ایک صاحب کال کرنے لگے، جب ان سے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی قوم کا ہوں اور بے تکلف کال کی۔ اور دل چسپی کی بات یہ ہے کہ ایسی باتوں کو دین کے خلاف محسوس نہیں کرتے ، حالاں کہ ان معاملات میں دین کی واضح ہدایات موجود ہیں، یہ احساس کہ مالک سے اجازت لے کر ہی اس کی چیز استعمال کی جائے اور اس کی اجازت پر ہی اس کی چیز کو اپنی ملکیت میں لیا جائے ،خواہ وہ چیز کتنی ہی معمولی ہو ، بہت کم لوگوں کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ یہ دیانت داری کی کمی کامعاملہ ہے او رجہاں تک تعاون وہم دردی کا تعلق ہے تو وہ تو مخلصانہ طور پر اور محض الله کے لیے کرنے کے دائرہ سے تقریباً باہر ہوچکا ہے، اب تو جس کے تعاون وہم دردی کا گہرا جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے عموماً کوئی دنیاوی مفاد مخفی ملتا ہے ، حتی کہ آپس میں ملنے جلنے میں، ایک دوسرے سے اخلاق کے ساتھ پیش آنے میں ، محبت واحترام کے ساتھ پیش آنے میں ، دوسرے کی ضرورت و طلب کو خوش دلی سے پورا کرنے میں اکثر دنیاوی مفاد کا مخفی عمل داخل ملتا ہے ، اس طریقہ سے ہمارا معاشرہ محض ایک مصنوعی ربط ومحبت کا معاشرہ بن گیا ہے ، اس میں اخلاص کے جذبہ سے اور لله فی الله کرنے کا جذبہ بہت قلیل یا مفقود ہو چکا ہے ۔

حقیقت میں خوف خدا اور تصور آخرت کے کم زور پڑ جانے کے ہی یہ اثرات ہیں، جب خوف خدا اورتصور آخرت ہوتا ہے تو باہمی ربط وضبط اور تعاون وہم دردی، اخلاص، بے غرضی اور سچے ربط و ضبط کی خو اور طاقت پیدا ہوتی ہے، جس سے انسانیت اور سچے اخلاق کی فضا بنتی ہے اور زندگی میں زندگی کامزہ آتاہے، عہد رسالت اور عہد خلفائے راشدین میں خوف خدا اورتصور آخرت کے بہت سے واقعات ہیں ، اس کے بعد کے زمانوں میں بتدریج ان میں کمی ہوئی ہے ، لیکن اسلام کا کوئی زمانہ ان جیسے واقعات سے خالی نہیں رہا ،حتی کہ موجودہ عہد میں بھی اس جذبہ کے حامل واقعات ملتے ہیں ، تعاون وہمدردی کے بے لوث واقعات تو وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ، بڑے تعاون اور وسیع ہم دردیوں کے واقعات سے بھی یہ زمانہ خالی نہیں۔

مثال کے طور پر مکہ مکرمہ کا ایک واقعہ کہ ایک پاکستانی نوجوان جو مکہ مکرمہ میں کام کرتے ہیں دونوں گردوں کے بے کار ہو جانے کے مرض میں مبتلا ہوئے ، ان کو ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ کسی کا گردہ اپنے جسم میں منتقل کریں تب ہی وہ بچ سکتے ہیں ، مصارف ایک لاکھ سے زیادہ تھے، ان کے بعض احباب اس کے لیے فکر مند ہوئے ، اسی دوران ایک عرب آئے اور دورانِ گفت گو ان کواس کا علم ہوا ، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے؟معلوم ہونے پر دریافت کیا کہ کیا مصارف ہوں گے ؟ ان کو بتایا گیا کہ فی الحال ایک لاکھ ریال کا خرچ ہے، انہوں نے اسی وقت رقم نکال کر دے دی ، جب ان سے ان کا نام دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جس کے لیے میں نے کیا ہے یعنی خدائے تعالیٰ میرا نام جانتا ہے اور یہ کہہ کر چلے گئے ، کیا یہ بات الله کی رضا اور جزائے آخرت کے علاوہ کسی اور سبب سے ہو سکتی ہے!!

اور جب خوفِ خدا او رتصور آخرت سے زندگی خا لی ہو تو وہ واقعات بکثرت مشاہدہ میں آتے ہیں جن میں بے دردی اور خود غرضی کا مظاہرہ ہوتا ہے تو وہ ملکی قانون سے بھی قابو میں نہیں آتے، مثلاً ریلوے یا ہوائی حادثات کے موقع پر ہلاک شدہ اور زخمی لوگوں کے مال پر فوراً قبضہ کرنا اوراس سلسلہ میں سخت دلی اور بے دردی کا مظاہرہ کرنا ایک عام چلن بن گیا ہے ، حتی کہ روس جیسے سخت گرفت رکھنے والے ملک میں آرمینیا کے زلزلہ سے متاثرین او رامریکا میں سونامی اور کترینا زلزلوں سے متاثرین کے ساتھ بے دردی کے واقعات کی تصویریں سامنے آئیں، جواس بات کی علامت ہیں کہ قانون اور ضرب وحرب سے ایک مصنوعی او رناقص روک تو لگ سکتی ہے ، لیکن حقیقی اورجامع روک نہیں ہو سکتی۔
Flag Counter