Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 17
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
مولانا عبدالمجید لدھیانوی

ایک بزرگ کہتے ہیں کہ دھوکے میں نہ آنا، باتوں کے چکر میں نہ پڑنا، توحید ”ایک“ کہنے کا نام نہیں ہے، ” ایک“ جاننے کا نام ہے، کہنے کو تو منافق بھی کہتے تھے”لا الہٰ الله محمد رسول الله“ ان کے کہنے کا کیا اعتبار ہے؟ قرآن کہتا ہے:﴿اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول الله﴾ جب یہ منافق آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ﴿نشھد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسولہ﴾ الله کو پتہ ہے کہآپ الله کے رسول ہیں:﴿والله یشھد ان المنافقون لکذبون﴾ لیکن الله گواہ ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں ، گویا کہ منافق کی زبان سے ”انک لرسول الله“ بھی جھوٹ ہے۔

بات وہی ہے کہدھوکانہ کھا جانا، توحید ” ایک“ جاننے کا نام ہے ، ماننے کا نام ہے، زبان سے کہنے کا نام نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ”لا الہ الا الله“ کے ساتھ ہم اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ الله کے سوا کوئی خدا نہیں ، الله کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں، لیکن یہ بات اوپر سے لے کر نیچے تک اتنی گہری ہے کہ قرآن کریم میں یہ بات دو جگہ آئی ہے : ﴿افرأیت من اتخذا الھٰہ ھواہ…﴾ آپ نے ایسا شخص دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو الہٰ بنار کھا ہے ؟ … الله کے سوااپنے دل کے اندر اس نے الہٰ بنا رکھا ہے لفظ الہٰ بولا، اپنی خواہش نفس کو الہ بنا رکھا ہے ، جس سے معلوم ہو گیا کہ الہ صرف باہر نہیں ہے اندر بھی ہوتے ہیں ، کہتے ہیں :
        ابراہیمی نگاہ پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
        ہوس سینے میں چھپ چھپ کے بنالیتی ہے تصویریں

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑے تھے اور یہ ہوس سینہ میں تصویریں بنالیتی ہے ، اس کے جانچنے کے لیے ابراہیمی نگاہ چاہیے، اس لیے راستہ سے میں نے آ پ کو تھوڑا سانیچے اتارا ہے کہ ” لا الہٰ الا الله“ کو ہم نے اپنایا، لیکن اس ”لا الہٰ الا الله“ میں کیا قوت ہے کہ اس نے ساری دنیا کو کاٹ کے رکھ دیا اور ہمیں علیحدہ کھڑا کر دیا ہے، کیا قوت ہے اس میں ؟ کیا تاثیر ہے اس میں ؟ اس نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے ؟

اگر زبان سے کہہ دیا : لا الہٰ الا الله تو کیا حاصل
اس لیے سمجھ دار کہتے ہیں ، علامہ اقبال  کہتے ہیں کہ جب میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں کہ مجھے ”لا الہ الا الله“ کی مشکلات کا پتہ ہے کہ ”لا الہ الا الله“ جب زبان سے کہتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں، کیوں کہ اس کی مشکلات کامجھے اندازہ ہے، جیسے کسی نے کہا:
        اگر زبان سے کہہ دیا لا الہ الا الله تو کیا حاصل
        سمجھ رکھا ہے بتِ پندار کو خدا تو نے

کہ زبان سے ” لا الہ“ کہتے ہو اور دل کے اندر یہ بات کہ میں یہ ہوں ، میں وہ ہوں، میری رائے ہے ، میں جو چاہوں کروں، اپنے سینہ میں خدا بنا رکھا ہے اور زبان سے ” لا الہ“ کہتے ہو ،اب ” لا الہ الا الله“ جس وقت پڑھا تو کیا مشکلات آگئیں ، ہم نے کبھی اس پر غور نہیں کیا، جیسے آزاد زندگی ”لا الہ“ پڑھنے سے پہلے تھی ”لا الہ“ پڑھنے کے بعد بھی ہے۔

کلمہ کی مشکلات کی وضاحت مثال سے
کیا مشکلات پیش آگئیں ؟اس کو ایک مثال سے سمجھا دوں، مثال کے طور پر ایک نوجوان نے نکاح کیا اور وہ لڑکی نوجوان کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی ، اب جب وقت کھانے کا آیا تو وہ کہتی ہے، کھانا لاؤ، وہ کہتاہے کہ میری تو ذمہ داری نہیں ، شادی ہال میں ہزاروں کے مجمع میں ویڈیو بن رہی تھی ، مولوی صاحب بیٹھے تھے، سب بیٹھے تھے، کوئی کہہ دے کہ میں نے ذمہ داری لی ہے کہ میں تجھے روٹی دوں گا، میں نے تجھے قبول کیا ہے سر آنکھوں پر ، تشریف لائیے، پلنگ حاضر ہے ، وہ کپڑا مانگتی ہے کہ کپڑا الاؤ، یہ کہتا ہے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، میں نے تو صرف تجھے قبول کیا ہے ، مکان دے دو،کمرہ دے دو ، کہتا ہے کہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے، میں نے کب کہا تھا کہ مکان بھی دوں گا ، اب وہ جھگڑا کرنے لگ جائیں اور بات پہنچ جائے بڑوں تک۔ تو سب یہی کہیں گے کہ اس کو پاگل خانے میں بھیج دو ، اس کا دماغ ٹھکانہ پر نہیں ہے ، اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ نکاح کہتے کس کو ہیں ؟ جب تونے یہ کہہ دیاکہ میں نے نکاح میں قبول کیا تو تونے سب کچھ قبول کر لیا ہے ، روٹی بھی دینی پڑے گی ، کپڑا بھی دینا پڑے گا، مکان بھی دینا پڑے گا۔ لفظ نکاح کا معنی یہی ہے ،اب لفظوں کے چکر میں اگر پڑیں گے تو کیا گھر بس جائے گا ، کس چیز کا وعدہ کیا تھا ، لفظ نکاح میں سب کچھ آگیا۔ اب ” لا الہٰ الا الله“ یہ بھی ایسے ہی ہے ۔
        یہ تو شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
        تم نے آسان سمجھ لیا ہے مسلمان ہونا

یہ مسلمان ہونا آسان نہیں ، یہ ”لا الہٰ الا الله“ بہت بڑا معاہدہ ہے، جس کے اندر سب کچھ ہی آگیا ، کیا آگیا” لا الہ الا الله“ میں ؟ آپ نے صوفیا کو دیکھا ہو گا کہ وہ ذکر کرتے ہیں : لا الہٰ الا الله، لا مقصود الا الله ، لا مشہود الا الله، لا الہ الا الله، لا موجود إلا الله“ یہ سب ”لا الہٰ الا الله“ کے اندر ہے تو ” لا إلہ إلا الله“میں سب کچھ آگیا” لا الہٰ لا الله لا معبود الاالله“ عبادت نہیں کسی کی ، نہ قولی ، نہ فعلی ، نہ مالی ”التحیات لله والصلوة والطیبات“ بدنی عبادت بھی الله کی، قولی عبادت بھی الله کی ، مالی عبادت بھی الله کی ، التحیات میں یہی ہے کہ ہر قسم کی عبادت الله کے لیے ہے ، قولی ہو، فعلی ہو ، مالی ہو، الله کے رسول کے لیے صلوٰة وسلا م ہے ، الله کے رسول کے ساتھ صالحین کے لیے بھی صلوة والسلام ہے اور اس کے بعد پھر ”اشہد ان لا الہ الا الله“ ہے، یہ ہے :” لا معبود الا الله۔“

لامقصود الله
اسی میں آگیا” لا مقصود الا الله لا مقصود الا الله“ کا معنی اب ہم عبادت کے لیے آئے ہیں ، کتنا سفر کرکے آئے ہیں ، کتنے پیسے خرچ کیے ہیں ؟ اس میں مالی عبادت بھی ہے، بدنی عبادت بھی ہے ، حاجی بننا مقصود نہیں ہے، حاجی کہلوانا مقصود نہیں ، ” لامقصود الا الله“ ہمارے سامنے صرف الله کی رضا ہے، ہمارا مقصود صرف الله ہے ، حاجی بننا مقصود نہیں ہے، حاجی کہلوانا مقصود نہیں ہے ، ہمارے سامنے صرف الله کی رضا ہے ، ہم نہ حاجی بننا چاہتے ہیں نہ حاجی کہلوانا چاہتے ہیں، یہ سفر پر جو ہم نے پیسے خرچ کیے ہیں، یہ سفر کیا ہے؟ بدنی عبادت بھی ہے ، مالی عبادت بھی ہے یہ حاجی کہلوانے کے لیے یا حاجی کی شہرت پانے کے لیے ہم نے سفر نہیں کیا، یہ ہے : ” لا مقصود الا الله“ الله کے علاوہ کچھ مقصود نہیں ہے ، یہ ”لا الٰہ الا الله“ میں داخل ہے۔

ریا کاری ختم ، دکھلاواختم، غیر الله کی عبادت ختم، یہ الہٰ کے مفہوم میں داخل ہے کہ اس دنیا کے اندر کوئی مدبر، کوئی مصّرف ، کوئی بااختیار نہیں ، سوائے الله کے، جب آپ یہ کہتے ہیں تو آپ نے یہ مان لیا کہ نہ کوئی مدبر ، نہ کوئی مصّرف، نہ کوئی بااختیار پوری کائنات کے اند رکوئی نہیں ، یہ تو ” لا الہ الا الله“ میں داخل ہے ، مدبر کوئی نہیں ، مصرف کوئی نہیں۔

اسی کو شیخ سعدی نے بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
        گر گزندت رسد زخلق مرنج
        نہ راحت رسد زخلق نہ رنج
        ازوداں خلاف دشمن ودوست
        کہ دل ہر دو در تصرف اوست
        تیر گرچہ از کمان مے گزرد
        از کماندار بیند اہل خرد

کسی سے تکلیف پہنچے، کسی سے راحت پہنچے ،الله کی جانب سے جانو ، کیوں کہ لوگوں کا دل الله کے قبضہ میں ہے ، جس کو چاہے آپ پر مہربان کر دے وہ آپ کو فائدہ پہنچا دے ، جس کو چاہے آپ کے خلاف کر دے، وہ آپ کا دشمن ہو جائے ، سب کچھ الله کی طرف سے سمجھو مخلوق کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ، محبت کا مرکز الله ، خوف کا مرکز الله ”لا یضر ولا ینفع“ شرک کی تردید کرتے ہوئے ہر جگہ لفظ یہی بولے ہیں کہ نہ نقصان کسی کے اختیار میں ہے ، نہ نفع کسی کے اختیار میں ہے ۔ اسی کو شیخ سعدی کہتے ہیں:
        مؤحد چہ برپائے ریزی زرش
        چہ شمشیر ہندی نہیں بر سرش
        امید وہراسش نہ باشد زکس
        بریں است بنیاد توحید وبس

کہ موحد کے سامنے سونے کا ڈھیر لگا دو یا ہندوستانی تلوار اس کے سر پر لے کر کھڑے ہو جاؤ، اس کو نہ کسی کا خوف ہوتا ہے، نہ کسی سے لالچ ہوتا ہے ،توحید کی بنیاد اسی پر ہے ، یہ سب ”لا الہ الا الله“ کا معنی ہے، کوئی مدبر نہیں ، کوئی مصرف نہیں ، عزت ، ذلت، موت ، حیات جو کچھ ہے سب اسی کے اختیار میں ہے، توحید کی بنیاد اسی بات پر ہے ”لا الہ الا الله“ پڑھ کے سب سے جدا کیسے ہو گئے؟ سب کچھ اس میں آگیا۔

لا مشہود الا الله
”لامشہود الا الله“ (مختصر کرتا ہوں ،ورنہ یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے ) مشہود جس کو دیکھا جائے ، جس کا مشاہدہ کیا جائے، کہتے ہیں وہ بھی الله ہی ہے ” لا الہ الا الله“ کا تقاضا یہ ہے کہ جو دیکھو سب سے پہلے الله کا ذکر ہو ، پانی بہہ رہا ہے، الله نے پانی بہا دیا ، بارش ہو رہی ہے ، الله نے بارش برسائی، پہاڑ کھڑے ہیں ، الله تعالیٰ نے قائم کر دیے ، درخت اُگے ہوئے ہیں ، الله نے اگا دیے، یہ نہ کہوکہ ہوا چل رہی ہے ، یہ کہو کہ الله نے چلائی ہے ، میری اولاد ہو گئی، یہ نہیں بلکہ کہو کہ الله نے دی ہے ، فلاں کام ہو گیا نہیں ، الله نے کیا ہے ، ہر چیز میں مشاہدہ الله کا ، اس لیے صوفی کہتا ہے کہ میں تو جب کسی چیز میں دیکھتا ہوں ، مجھے الله پہلے نظر آتا ہے، الله پہلے ہے، چیز بعد میں ہے ، جب یہ مقام آجاتا ہے ” لا مشہود الا الله“ کا تو پھر کوئی انسان کسی وقت بھی غافل نہیں ہوتا، ہر وقت الله اس کے دل ودماغ پر حاوی رہتا ہے ، بھولنا بھی چاہے تو بھول نہیں سکتا ، فراموش بھی کرنا چاہے تو فراموش نہیں کر سکتا، اسی طرح سے انسان میں الله کی یاد رچ جاتی ہے ۔

جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
لیلیٰ مجنون کے واقعات آپ سنتے رہتے ہیں ، مجنوں کو اس کے باپ نے کہا : چھوڑ اس کو کیا اس کے پیچھے پڑ گیا ہے؟ تو مجنوں شاعر بھی تھا، یہ عربی ہے ، بنو عامر قبیلہ سے ہے ، قیس ا س کا نام ہے مجنوں تو پاگل کو کہتے ہیں ، یہ پاگل ہو گیا تھا ، وہ کہتا ہے :
        ارید لانسٰھا فکانما
        تجلت لی اللیلیٰ بکل مکان
ترجمہ:” میں تو بھلانے کا ارادہ کرتا ہوں ، لیکن میں کیا کروں میں جدھر دیکھتا ہوں وہی نظر آتی ہے ۔“
        سمائے ہو جب سے تم آنکھوں میں میری
        جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
کبھی ہوا ہو دل ودماغ کے اوپر کسی کے خیال کا غلبہ تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ بیٹھے ہو تو بھی وہی دماغ میں ہے ، چل رہے ہو تو بھی وہی دماغ میں ہے ،ایسے ہوتا ہے جیسے اس کی تصویر ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہے تو بھولے کیسے آدمی ؟

لا موجود الا الله
اور آخری مقام جو آتا ہے : ” لا الہ الا الله“ کے ساتھ، وہ ہے ”لا موجود الا الله“ موجود بھی الله ہی ہے، باقی کچھ بھی نہیں ۔اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ موجود نہیں، میں موجود نہیں ” لا موجود الا الله“ موجود الله ہی ہے ، کیوں کہ اصل موجود وہ ہے جو اپنے وجود میں کسی کامحتاج نہیں ، جس پر کبھی عدم طاری ہوا نہیں ، کبھی عدم طاری ہو گا نہیں ، وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا ، اصل وجود اس کا ہے، ہمارا وجود تو عارضی سا ہے ، بنایا بن گیا، مٹایا مٹ گیا، سمجھنے کے لیے اگر آپ چاہیں تو آپ آنکھیں بند کرکے تھوڑی دیر کے لیے گھر پہنچ جاؤ تو آپ کو آپ کا مکان بھی نظر آئے گا، سامان ، جانور، چارپائیاں، ہر چیز نظر آئے گی ، ایک ہی لمحہ میں سب کچھ آپ کے دماغ میں موجود ہو گیا ہے ، ذرا توجہ ہٹاؤ تو مٹ گیا، اس کو منطقی حضرات ذہنی وجود کہتے ہیں، آپ نے ذرا توجہ کی بن گیا، ذرا توجہ کی ہٹ گیا۔

الله تعالیٰ کہتے ہیں : ﴿وما امر الساعة الا کلمح البصر او ھو اقرب﴾ تم قیامت کو مشکل سمجھتے ہو وہ تو ایسے ہے جیسے آنکھ جھپکتے ہو، بلکہ اس سے بھی جلدی… آپ نے بنایا تھا گھر آنکھ جھپکنے سے پہلے ، مٹا دیا آنکھ جھپکنے سے پہلے، یہ کیا موجود ہے ؟ یہ کون سا وجود ہوا ؟ تو گویا کہ ہم موجود ہیں، لیکن نہ ہونے کے برابر۔ موجود وہی ہے جس پر کبھی عدم طاری نہیں ہوا ، کبھی عدم طاری ہو گا نہیں ، جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں ، اصل کے اعتبار سے موجود وہ ہے اورانسان کہے کہ میں ہوں ۔ میں ڈاکٹر ہوں، میں انجینئر ہوں، میں نے کمایا ہے ، میرے اندر یہ کمال ہے، میرے اندر یہ خوبی ہے ۔ یہ باتیں اس وقت تک چلتی ہیں جب تک ”لا الہ ا لا الله“ کے ساتھ الله کی عظمت انسان کے دل میں نہیں آتی ، ورنہ ایک ایک لفظ پر وہ شکر دا کرے گا کہ الله تعالیٰ نے دیا ہے ، الله نے صلاحیت دی ، الله تعالیٰ کی توفیق سے ڈاکٹر ہو گیا ہوں ، الله تعالیٰ کی توفیق سے انجینئر ہو گیا ہوں، الله کی توفیق سے زندہ ہوں، میرا اس میں کیا کمال ہے؟

شیخ سعدی کی حکایت
اسی بات کو سمجھنے کے لیے شیخ سعدی کہتے ہیں:
        یکے قطرہ از ابر نیساں چکید
        خجل شد چوں بینائے دریا بدید
        کہ جائے کہ او است من کیستم
        حقا کہ او ہست من نیستم
کہ بادل سے ایک قطرہ ٹپکا، جو اپنے آپ کو سمجھ رہا تھاکہ میں بھی کچھ ہوں او رجب دریا پر نظر پڑی تو شرم سار ہو گیااور کہنے لگا کہ پانی تو دریا بہاتا ہے، میری کیا حیثیت ہے ؟ الله کی قسم! یہ ہے، میں نہیں ہوں، یہ میں نہیں ہوں والی بات ہے ” لا الہ الا الله“ جس وقت تک دریا پر نظر نہیں پڑی تھی ، اس وقت تک اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا سمجھ رہاتھا اور اسی طرح شیخ سعدی نے ایک دوسری حکایت لکھی:
        چوں سلطان عزت علم در کشد
        جہاں سربجیب عدم در برد

کہ ایک گاؤں کا چوہدر ی تھا، سارے لوگ اس کے سامنے دست بستہ ہوتے تھے ، سارے اس کے سامنے جھکتے تھے ، ایک دفعہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں چلا گیا ، جب بادشاہ پر نظر پڑی تو کانپنے لگ گیا، ٹانگیں کانپنے لگ گئیں ، جیسے بڑے آدمی کے سامنے جاتے ہوئے ہو جاتا ہے ، بیٹا کہتا ہے : ابو کیا ہو گیا ؟ لوگ تو آپ کے سامنے کانپتے تھے ، آپ یہاں کانپنے لگ گئے؟ آپ تو چوہدری تھے؟ وہ کہتا ہے کہ میں چوہدری اس وقت تک تھا جب تک اس دربار میں نہیں آیا تھا، جب اس دربار میں آگیا تو چودراہٹ ختم، اس کو کہتے ہیں الله تعالیٰ بادشاہ ہے ، جب اس کی عظمتظاہر ہوتی ہے تو جہاں ایسے لگتا ہے کہ ہے ہی نہیں ، اس کو کہتے ہیں ”لا موجود الا الله“ اس کی عظمت کے سامنے سب کچھ ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ایک او رحکایت بیان کی کہ کسی نے جگنو کو کہا کہ تو رات کو بڑا چمکتا ہے ، دن کو نہیں چمکتا ؟ وہ کہتا ہے رات کو اس لیے چمکتا ہوں کہ اندھیرا ہوتا ہے ، سورج کے سامنے کون چمکے ؟ رہتا یہیں ہوں، لیکن چمکتا نہیں ہوں ۔ تو پہلے ہوتا ہے : ” میں، میں“ جب الله کی عظمت نمایاں ہوتی ہے تو ہوتا ہے : تو ہی تو، توہی تو ، توہی تو، یہ ہے جو ” لا الہ الا الله“ پڑھنے کے بعد انسان توحید کی طرف جاتا ہے ۔

توحید کو سمجھنے کے لیے محمد رسول الله کا دامن پکڑو
اب آگئی بات کہ یہ جو ” لا الہ الا الله“ کے ساتھ درجات ہیں، ان کو عقل کے ذریعہ سے حاصل نہیں کرسکتے، عقل کے پیچھے پڑنے والے تو ماریں کھاتے پھرتے ہیں ، کیوں کہ یہ توحید اور الله کی ذات کے ساتھ تعلق اس کو انہیں لفظوں سے تعبیر کر سکتے ہیں کہ تو دل میں تو آتا ہے، عقل میں نہیں آتا ، میں جان گیا تیری پہچان یہی ہے ، یہ منزلیں اگر طے کرنی ہیں تو کامل راہ نما چاہیے او رتمام کاملوں کا کامل ، تمام ہادیوں کا ہادی ، تمام راہ نماؤں کا راہ نما، اس دربا رکے پورا جاننے والے، دامن ان کو کا پکڑو تو مقام توحید پر آؤ گے ، ان کا دامن چھوڑکر کوئی راستہ نہیں ہے توحید کی طرف جانے کا او رالله کو منانے کا اگرراستہ ہے تو وہی ہے ،جب محمد رسول الله کا دامن پکڑ لیا تو باقی سارے دروازے بند ، صرف یہی ایک دروازہ باقی ہے ۔

پیغمبر کے خلاف وہی شخص راستہ اختیار کر سکتا ہے جو منزل پر کبھی نہیں پہنچے گا۔ سعدی کبھی دل میں خیال بھی نہ لانا کہ ” محمد رسول الله “ کے بغیر دل کی منزل طے کی جاسکتی ہے ، اس کا کبھی دل میں خیال بھی نہ لانا کہ مصطفی کے نقش قدم پر چلے بغیر دل کی صفائی حاصل ہو سکتی ہے ، اس دربار تک رسائی صرف ”محمد رسول الله“ سے ہے ، یہ ہے ”لا الہ الا الله محمد رسول الله۔“

پورے دین کا خلاصہ
جب یہ دامن پکڑو گے دامن پکڑنے کے بعد پھر وہی بات آگئی، وہ آپ کو بتائیں گے کہ اس دروازے کی سیڑھی سب سے پہلے نماز ہے ، دوسرے نمبر پر زکوٰة ہے ، تیسرے نمبر پر صوم ہے ، چوتھے نمبر پر حج ہے اور یہاں پھر وہی بات ہو گی کہ صرف کہہ دینا کافی نہیں ، اس کی روح کیا ہے ؟ نماز کے لیے کیا کیا شرطیں ہیں ، کیا کیا پاکیزگی ظاہری او رباطنی طور پر چاہیے ؟ زکوٰة میں پورا مالی نظام آگیا ، پورا بدنی نظام صلوة میں آگیا ، صوم الله کے عشق کا مظاہرہ ہے او رحج تو الله تعالیٰ پر مر مٹنے کا نام ہے، آخری آخری معاملہ جو حج کا ہے ، یہ تو مر مٹنے کا نام ہے ، یہ منزلیں اسی طرح طے ہوتی ہیں او راس میں سارا دین سمٹ کر آجاتا ہے ۔ نماز کس اخلاق کا تقاضا کرتی ہے ؟ کس طرز عمل کاتقاضا کرتی ہے ؟ زکوٰة مالی نظام کیا چاہتی ہے ؟ مالیات میں کیا احتیاط چاہتی ہے ؟ صوم انسان کو کیا سبق دیتاہے ؟ او رحج کی حقیقت اصل کے اعتبار سے قربانی ہے ، یہ انسان کو فنا کے مقام تک لے جاتا ہے۔ اصل کے اعتبار سے یہ روایت جو آپ کے سامنے پڑھی تھی، واقعہ یہ ہے کہ پورے دین اسلام کا یہ خلاصہ ہے، جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے ، الله ہمیں سمجھ دے اور سمجھنے کی توفیق دے اور ان چیزوں کی حقیقت نصیب فرمائے ، توحید بھی ہم صحیح طور پر جانیں، جس میں ردِ شرک، ردِ بدعت سب کچھ آجاتا ہے ۔ (آمین)

ارکان اسلام کی مثال شجرة طیبہ کی ہے
اسی طرح توحید پر، ایمان، رسالت پر ایمان او رپھر آگے عبادت کا نظام او رعبادت کے چاروں شعبے جس وقت یہ سارے پورے ہو جاتے ہیں، اب یہ شجرہٴ ایمانی کامل مکمل ہو گیا، پھر قرآن کیا کہتا ہے ؟ بات تو کلمہ کی ہے : ﴿مثل کلمة طیبة کشجرة طیبة اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء﴾ کلمہ طیبہ کی مثال ایک عمدہ درخت کی ہے، جس کی جڑ زمین میں ثابت ہے ، شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ﴿توتی اکلھا کل حین باذن ربھا﴾ وہ اپنے رب کی اجازت کے ساتھ ہر وقت پھل دیتا ہے تو جب دل میں گہرائی اس کی آگئی، دل میں جڑ لگ گئی اور یہ شاخیں پھیل گئیں تو اب الله کی حکمت کے ساتھ یہ پھل دار درخت ہے ، پھر ہر وقت انسان اس کے پھل سے مزہ لیتا ہے اور یہ پھل دار بھی ہے ﴿توتی اکلھا﴾ یہ اپنا پھل دیتا ہے او را س کا سایہ بھی گھنا ہے تو گویا کہ جڑ جب مضبوط ہو گئی اوراتنا پھیل گیا تو : یہ درخت پھل دار بھی ہے، یہ درخت سایہ دار بھی ہے ، یہ درخت پُر بہار بھی ہے کہ اس کے اوپر کسی قسم کی خزاں نہیں تو انسان اس کے سائے میں راحت پاتا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں یہ شجرہٴ طوبیٰ ہے تو ارکان اسلام اسی طرح شجرہ طیبہ کیمثال ہیں ، قرآن کریم نے اس کو اسی انداز میں ذکر کیا ہے ، اس لیے ایمان دل سے شروع ہوتا او راس کی شاخیں باہر پھیلتی ہیں۔

کیا خوشی اس بات کی کہ کوئی ایجنٹ ہے کوئی جج ہے؟
جس وقت تک انسان پوری طرح سے احکام کا پابند نہ ہو تو اس کا یہ تنا بھی ٹوٹ گیا وہ تنا بھی ٹوٹ گیا، اکیلی جڑ سے نہ پھل ملتا ہے، نہ سایہ حاصل ہوتا ہے ، نہ نماز ہے ، نہ روزہ ہے ۔ اکبر الہٰ آادی کہتے ہیں:
        نہ نماز ہے، نہ زکوٰة ہے، نہ روزہ ہے، نہ حج ہے
        تو کیا خوشی اس بات کی کوئی ایجنٹ ہے کوئی جج ہے؟

اب جس درخت کے تنے ٹوٹ جائیں، پتے جھڑ جائیں او رایک جڑ اگر قلب کے اندر رہ بھی گئی توکیا آپ نے دیکھا ہے کسی درخت کی جڑ ہو اوراس کو سیب لگ جائیں ، اس کو آم لگ جائیں ؟ اگر صرف جڑ موجود ہو، اس کے تنے او رشاخیں نہیں ہیں تو ایسی صورت میں نہ پھل نہ سایہ، کچھ بھی نہیں ہوتا، ہاں!البتہ یہ امید لگی رہتی ہے کہ کسی وقت بھی سر سبز ہو جائے گا ، اس لیے ایمان باقی ہے ،ورنہ اصل کے اعتبار سے اگر سایہ لینا ہے یا پھل لینا ہے تو اس درخت کو سر سبز ہونا چاہیے ، الله ہم سب کو وہ نصیب فرمائے اور خاص طور پر جو حج کی عبادت ہے وہ الله تعالیٰ صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Flag Counter