Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

14 - 17
جھوٹے مدعیان نبوت
قاری جنید احمد فردوسی
نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے جہاں ختم نبوت کے عقیدے کو بیان فرمایا ہے وہاں اس بات کی پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ میرے بعد میری امت میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار بھی پیدا ہو ں گے، چناں چہ حدیث پاک میں ہے : ”انہ سیکون فی امتی ثلاثون دجالون کلھم یزعم انہ نبی، وأنا خاتم النبیین، لانبی بعدی“ ( باب الفتن، مشکوٰة شریف)

جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنے کا آغاز آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 10 ہجری میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا، یہ شخص کاہن اور شعبدہ باز تھا اور اس کا اصل نام عبہلہ بن کعب بن غوث تھا، ابتدا میں اس کے ساتھ 700 جنگ جو شامل ہو گئے، اس بدبخت نے چند دنوں میں پورے یمن پر قبضہ کر لیا او راس کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہو تا گیا۔ جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے عاملین کو خطوط روانہ کیے، جن میں اسود عنسی کو قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانثار صحابی حضرت فیروز دیلمی نے اس گستاخ کو قتل کرکے اپنے اوپر شفاعت محمدی کو واجب کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام  کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی۔ ” فاز فیروز“ کہ فیروز کام یاب ہو گیا۔

اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک بدبخت مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق  کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو آپ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر روانہ کیا، لیکن پہلے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح دوسرے لشکر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حضرت خالدبن ولید  کو سپہ سالار بنا کر تیسرا لشکر روانہ کیا گیا، پھر دونوں لشکروں کی آپس میں زبردست جنگ ہوئی اور بالآخر لشکر اسلام کو فتح عظیم نصیب ہوئی صرف اس جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے اور مد مقابل مسیلمہ کذاب سمیت اس کے 27 ہزار حواریوں کو جہنم واصل کیا گیا۔

اسی طرح مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں بہت سے بدبختوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے، لیکن مسلمانوں کی غیرت نے ایک لمحے کے لیے بھی ان کے وجود کو اس دھرتی پر گوارا نہ کیا ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کو غاصبانہ قبضہ جمانے کے بعد ضرورت تھی کہ وہ اپنے قدم مستحکم کرتا او راپنے تسلط کو طول دیتا، جس کے لیے اسے مسلمانوں کو غلام بنانے کی ضرورت تھی، لیکن انگریز پوری کوشش کے باوجود مسلمانوں کو غلام نہ بنا سکا، بڑی سوچ وبچار کے بعد انگریز کے سامنے یہ بات آئی کہ مسلمانوں کو غلام بنانے میں دو بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں ، پہلی مسلمانوں کی اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے محبت اور دوسری رکاوٹ مسلمانوں کا جذبہ جہاد ہے۔ انگریز کو ضرورت تھی کہ جہاد کے فریضہ کو منسوخ قرار دیا جائے، تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم ہو جائے جہاد ایک فریضہ ربانی ہے ، چناں چہ اس کام کے لیے انگریز کی نظر انتخاب اس انگریز وفا دار خاندان کے شخص مرزا قادیانی پر پڑی او راس خدمت کے لیے مرزا غلام قادیانی کاانتخاب کیا گیا۔ انگریز نے اپنے اس انگریزی نبی کو ایسی ہی ترقی دی جیسے وہ اپنے دنیاوی ملازمین کو ترقی دیا کرتا تھا، چناں چہ پہلے پہلے تو اسے مبلغ اسلام اور مناظر اسلام کے طور پر متعارف کروایا گیا، پھر اس نے عالم، پھر مصنف، پھر مجدد، مہدی مثیل مسیح، مسیح موعود غیر تشریعی نبی، تشریعی نبی حتی کہ جسارت میں اس قدر بڑھا کہ دعویٰ کیا کہ وہ خود محمد رسول الله ہے، جسے اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔اس طرح سے لوگوں کا تعلق مکہ مدینہ سے کٹوا کر قادیان کی طرف جوڑنے لگا اور چوں کہ مسیحیت کا دعویٰ بھی تھا اور حدیث کے مطابق حضرت مسیح کے زمانے میں کافر باقی نہ بچنے کی وجہ سے جہاد ختم ہو جائے گا اس بدبخت نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تنسیخ جہاد اور حرمت جہاد کا اعلان کر دیا اور بڑے فخر سے اپنی کتب میں ذکرکیا کہ میں نے حرمت جہاد کے سلسلہ میں اس قدر کتب او ررسائل تحریر کیے ہیں کہ : ” ان سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔“

اور اپنی اُمت کو حکم دیا کہ وہ یہ کتب تمام عالم اسلام میں پھیلائیں، حتی کہ مرکز اسلام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بھی وہ کتب بھجوا دیں کہ جہاد حرام ہے اور یہ حرامی لوگوں کا کام ہے، چناں چہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:

” آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے، برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے او رہر شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد مطلقا حرام ہے۔“ ”کیوں کہ مسیح آچکا ہے خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے۔ “( مجموعہ اشتہارات، ج3 س:21)

” اور یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا میں کوئی مسلمان اس کی نظیر نہیں دکھلا سکتا۔ یہی غرض انگریز کی تھی۔“ اسے پورا کرنے کے لیے انگریز نے اس استعمال کیا۔ جس کا مرزا غلام احمد قادیانی نے خود اعتراف کیا کہ ”مجھے الله تعالیٰ نے انگریز کے نیک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بھیجا ہے اور میں انگریز کا لگایا ہوا خود کاشتہ پودا ہوں۔“ (ضمیمہ، ص:29 ج:17)

اس طرح اس نے مذہب کا روپ دھار کر اساسی طور پر انگریز کی خدمت کی اور اس نے مسلمانوں کے خلاف انگریز ایجنٹ کا کام کیا، لیکن وہ عام مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو ختم نہ کر سکا۔ جہاد کا فریضہ اب بھی جاری ہے او رحضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق:”الجھاد ماض الی یوم القیامہ“ کہ”جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔“

جس کی زندہ وتابندہ مثال افغانی مسلمانوں کا جہاد ہے ۔ جس سے انہوں نے روس جیسی سپر طاقت کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کر دیا ہے۔ مررزا قادیانی کی تکذیب کے لیے افغانی جہاد کی یہ تازہ مثال ہی کافی ہے، اگر مرزا قادیانی سچا مسیح موعود ہوتا تو آج یہ جہاد نہ ہوتا۔

مرزا قادیانی نے اپنی خانہ ساز نبوت کو چلانے کے لیے الله تعالیٰ ، انبیائے کرام ، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام، اہل بیت ، اولیاء الله، شعائر اسلام اور اہل اسلام کی شان میں وہ گستاخیاں کیں کہ کلیجہ منھ کو آتا ہے لیکن اکثر سادہ لوح مسلمان ان کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر انہیں مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ سمجھتے ہیں، کیوں کہ یہ کلمہ پڑھتے ہیں ۔ قبلہ کی طرف منھ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں ، مساجد تعمیر کرتے ہیں ، قرآن کریم کا ترجمہ چھپواتے ہیں اوربڑے رفاہی کام کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو معلوم ہو گا کہ مسیلمہ کذاب، جس نے نبوت کا دعوی کیا تھا، وہ اور اس کے پیروکار بھی یہی کلمہ اسلام کا پڑھتے تھے، اذان اور اقامت بھی یہی تھی،مساجد بھی بناتے تھے اور قلبہ رو ہو کر نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ مدینہ منورہ کی قریب قبا بستی میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں جن منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی وہ بھی یہی کلمہ پڑھتے تھے۔ لیکن ان کلمہ پڑھنے اور مسجد بنانے والوں کو قرآن کریم نے منافق قرار دیا اوران کی بنائی مسجد کو منہدم کراکر اس کا نام ونشان مٹا دیا گیا۔ دور اول میں یہ مثالیں موجود ہیں، لہٰذا ان کے کلمہ، نماز او رمساجد بنانے سے ان کے مسلمان ہونے کا دھوکہ نہیں ہونا چاہیے، چناں چہ ان کے موٹے موٹے چند کفریہ عقائد درج ذیل ہیں۔

عقیدہ ختم نبوت کا انکار۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بن باپ کا انکار۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی اور دنیا میں دوبارہ آنے کے اجماعی عقیدے سے انکار۔ معجزاتِ انبیا کا انکار۔ انبیا، صحابہ کرام اور صلحا ئے امت کی توہین۔ حرمت جہاد۔ جمیع مسلمان جو مرزا قادیانی پر ایمان نہیں لاتے ان کی تکفیر۔ یہ چند اہم وجوہات ہیں، ورنہ ان کے کفر کے اور بھی کئی اسباب ہیں جو ان کی کتب میں موجود ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں فتنہ قادیانیت سے بچائے او رمجاہد ختم نبوت بنائے۔ آمین ثم آمین!
Flag Counter