Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 17
رمضان میں و علماء، عوام پر کس طرح محنت کریں؟
مولانا محمد حذیفہ وستانوی

اِس وقت دنیا کی آبادی 6ارب سے سے زائد بیان کی جاتی ہے، جس میں مسلمان چوتھائی یعنی تقریباً ایک سو پچاس کروڑ یعنی پندرہ سو ملین کی تعداد میں دنیا کے تقریباً دو سو سے زائد ممالک میں پائے جاتے ہیں، جس میں تین طرح کے لوگ ہیں: ایک مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے۔ دوسرے کالجز میں پڑھنے پڑھانے والے۔ اور تیسرے دنیا بنانے کی خاطر زندگی بسر کرنے والے۔ پھر اس تیسرے طبقے کو بھی مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو سیاست میں مشغول طبقہ ، دوسرا تجارت میں مشغول طبقہ، تیسرا مزدوری کرنے والا طبقہ اور اب بھیک مانگنے والوں میں بھی کافی اضافہ ہوگیا تو گویا وہ بھی ایک طبقہ، پھر اسی دنیا طلب طبقہ میں کچھ جدید تعلیم یافتہ ،کچھ دین کی بنیادی باتوں سے واقف اور اکثریت دینی و دنیوی دونوں تعلیم سے ناواقف ہے اور جو جدید تعلیم یافتہ ہے اس کا حال تو اور بھی ابتر ہے، اس کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے صرف ناواقف ہی نہیں بل کہ اسلامی تعلیمات اور عقائد کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

حضرت مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ کی فکر سے دنیادار اور جاہل طبقہ میں ضرور دین کی فکر زندہ ہوئی ہے ،مگر پھر بھی امت کی اکثریت اب بھی دین سے کو سوں دور ہے؛ بل کہ ارتداد تک کی شکار ہے۔ اور حیرت اس پرہے کہ اس کو احساس تک نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون؟ تو ظاہر سی بات ہے کہ جواب یہ ہوگا کہ کوئی ایک طبقہ اس کا ذمہ دار نہیں ،بلکہ علماء بھی ذمہ دار، والدین بھی ذمہ دار اور وہ لوگ خود بھی ذمہ دار ہیں جو دین سے دور ہیں، اس لیے کہ والدین نے بچپن میں انہیں دینی ماحول نہیں دیا اور نہ ہی اسلامی تربیت کی۔علماء ذمہ داراس لیے ہیں کہ انہیں تعلیم دین اور تبلیغ دین کی جیسی فکر اوڑھنی چاہیے تھی‘ نہیں اوڑھی بل کہ سرسری خدمت پر اکتفا کرلیا اور جاہل افراد خود بھی ذمہ دار اس لیے ہیں کہ اگر والدین نے تربیت نہیں کی تو شعور آنے کے بعد خود دین کی بنیادی باتوں کو جاننے کی فکر کرنی چاہیے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت میں سب سے زیادہ فکر کس کو ہونی چاہیے؟ تو ظاہرسی بات ہے کہ علماء کو سب سے زیادہ فکرمند ہونا چاہیے؛ کیوں کہ وہی درحقیقت وارثِ انبیاء ہیں اور انبیاء تعلیم و تبلیغ دین کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہتے تھے، لوگوں کی چوکھٹ پر جاجا کر دین کی دعوت و تبلیغ کرتے اور تعلیم دیتے تھے، وہ اس کا انتظار نہیں کرتے تھے کہ جن کو طلب ہوگی وہ آئیں گے، بل کہ محاورہ کے برخلاف کنواں خود پیاسے کے پاس جاتا تھا، لہٰذا ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہوگا۔

اب اگر کوئی بہانہ کرنے لگے کہ ہم کو تو پڑھنے پڑھانے سے فرصت ہی نہیں تو ہم کیا لوگوں کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتے رہیں گے؟ تو مان لیاکہ ایک حد تک آپ کا یہ کہنا صحیح ہے، لیکن تعطیلات اور خاص طور پر رمضان المبارک کی دو ماہ کی طویل تعطیلات آخر کس کام کی؟

تو آیئے! ہم تعطیلات کو اس امت میں دینی بے داری پیداکرنے کے لیے وقف کرنے کا عزم کریں، جو امت ہمیں تعلیم و تعلم کے لیے فارغ کر چکی ہے، وہ ہمارے مدارس اسلامیہ اور جامعات اسلامیہ کو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے دیتی ہے، صرف اس لیے کہ دین صحیح معنی میں زندہ رہ سکے، اگر اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی سال بھر ہم پر خرچ کرتی ہے تو کیا ہم ایسی محسن امت کے لیے دو ماہ نہیں وقف کرسکتے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ ہماری گرفت کرلے کہ تم نے امت کا اور میرا رزق کھا کر آخر امت کو جہنم سے بچانے کے لیے کیا کیا تو ہم کیا؟ جواب دیں گے؟

عزیزو! امت کا 60سے 70 فی صد بل کہ اس سے زائد طبقہ دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی بالکل نابلد ہے اور ا َسِّی سے لے کر نوّے فی صد طبقہ اسلامی تعلیمات پر عمل درآمدسے گریزاں ہے، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مساجد میں مصلیوں کے تناسب کو دیکھ لیجیے، جہاں مسلمانوں کے سوسو مکانات ہوتے ہیں وہاں مسجد میں دس پندرہ سے زیادہ مصلی آپ کو عام نمازوں میں نہیں ملیں گے اور فجر کا تو پوچھنا ہی کیا، اگر پانچ بھی ہوں تو غنیمت ہے۔ ذرا غور کا مقام ہے کہ یہ امت اللہ سے روٹھ کر کہاں جارہی ہے؟ تو آئیے پورے حوصلہ اور عزم کے ساتھ ہم امت پر دینی اعتبار سے محنت کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ رمضان میں امت پر محنت کرنے کا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔

سب سے پہلے امت میں دینی اعتبار سے پائی جانے والی کم زوریوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، ا س کے بعد یہ طے کریں گے کہ کس طرح مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ کم زوریوں کو دور کیا جائے۔

دینی پہلو سے امت کی کم زوری
٭…عقائد اسلامیہ سے ناواقفیت یا سرسری واقفیت۔
٭…احکام سے ناواقفیت۔
٭…قرآن سے دوری اور بُعد۔
٭…حقوق العباد سے غفلت۔
٭… حقوق اللہ سے پہلوتہی۔
٭…اخلاق اسلامیہ سے بُعد اور دوری۔
٭…دنیا سے ضرورت سے زیادہ محبت۔
٭…حساب اور آخرت کے عذاب، قبر اور عذابِ جہنم کی فراموشی۔
٭…لایعنی امورمیں ابتلا وا نہماک۔
٭…سنت رسول سے تنافر اور کنارہ کشی۔
٭…افکار باطلہ سے متاثر ہوجانا۔
٭…شریعت کے مقاصد کو ضرورت کا اور ضرورت کو مقاصد کا درجہ دینا۔
٭…آپسی بے جا اختلافات اور نفرتیں۔
٭…اولاد کی اسلامی تربیت سے لاپرواہی۔
٭…امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے کنارہ کشی۔
٭…دعا سے غفلت۔
٭… گناہوں میں انہماک۔وغیرہ

امت مسلمہ اس وقت انتہائی کسم پرسی کے عالم میں مبتلا ہے، ہر طرف سے وہ فکری بحران میں پھنسی ہوئی ہے،ان حالات میں ہم علماء و طلبہ کی ذمہ داری ہے اور امت کا ہم پر حق ہے کہ ہم اس کی صحیح راہ نمائی کریں، سب سے پہلے تو ہم مادیت، جاہ و عزت، منصب و عہدہ ، مال و دولت کی لالچ سے اپنے آپ کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کریں، کسی دین کا کام کرنے والے کے مخاصم اور مدِمقابل ہرگز نہ ہوں، بل کہ اخلاص و للہیت کے ساتھ بلا کسی دنیوی غرض کے محض اللہ کو راضی کرنے کے لیے امت کا حق اور اپنا فریضہ سمجھ کر جتنا ہوسکے، امت کو دینی اعتبار سے خوب سے خوب فائدہ پہنچانے کی انتھک محنت اور کوشش کریں، اللہ ہم سب کو اخلاص کی دولت عطا فرمائے اور ہمارے اپنے نفس کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہماری ذات سے امت کو خوب فائدہ ہو، ا س کے اسباب مہیا فرمائے اور ہمارے دلوں میں امت کے لیے موٴثر اقدمات کرنے کی تدبیریں ڈال کر ہمارے لیے نجات کا راستہ ہم وار کردے۔ آمین یارب العالمین!

عقائد پر محنت
امت میں دو طر ح کے طبقے ہیں: ایک وہ جو عقائد سے بالکل نابلد ہیں، نہ اس کے پاس دینی تعلیم ہے، نہ دنیوی تعلیم۔ دوسرا جو دنیوی تعلیم سے تو واقف ہے، مگر دینی تعلیم سے یا تو بالکل دور ہے یا ناکافی حد تک واقف ہے ۔ ہاں! ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دونوں سے واقف ہے، مگر یہ شاید ایک فی صد توکیانصففی صد بھی مشکل سے ہوگا۔

اب ہمارے سامنے دو طبقے ہیں، ایک تو بالکل تعلیم سے نابلد اور اَن پڑھ اور دوسرے عصری و دنیوی تعلیم یافتہ۔ ہمیں دونوں پر محنت کرنی ہے؛ رمضان المبارک میں دونوں ہی طبقہ کے لوگ سال بھر مسجد میں آنے کے مقابلہ میں زیادہ آمد و رفت رکھتے ہیں۔ پس ہمیں ان کی اس کثرت آمدورفت سے فائدہ اٹھاکر کم از کم مختصر اور موٴثرانداز میں انہیں عقائد اور خاص طور پر اسلامی بنیادی عقائد سے واقف کرنا ہے۔

ماہ رمضان المبارک سے پہلے مسجد کے ذمہ داروں سے مشورہ کرکے طے کرلیں کہ کسی ایک نماز کے بعد پانچ منٹ عقائد اسلام بیان کیے جائیں گے اور پھر آپ بھرپور تیاری کرکے پانچ ہی منٹ بیان کریں، کیوں کہ آج کل لوگوں کو دینی تعلیم سے دل چسپی نہیں ہے؛ اس طرح محنت کرنے سے آہستہ آہستہ طلب پیدا ہوگی۔ اللہ ہماری مدد فرمائے!

احکام کی تعلیم
امت جہاں عقائد سے عام طور پر ناواقف ہے وہیں مسائل واحکام سے بھی ناآشنا ہے، لہٰذا کسی ایک نماز کے بعد امت کو کم از کم رمضان المبارک میں ایسے مسائل سے واقف کرادیں جن میں امت مبتلا ہے۔ اور امت کو ان کے شرعی احکام معلوم نہیں ، کسی بھی نماز کے بعد صرف ایک یا دو مسئلے دو یا تین منٹ میں بیان کردیں۔ صرف مسئلہ بیان کریں، نہ کوئی دلیل، نہ کوئی اور چیز، البتہ اتنا لحاظ رکھیں کہ الفاظ بالکل آسان ہوں۔

مسائل کے بیان کرنے کے بعد ہوسکتا ہے لوگوں کو مسائل کو جاننے کا شوق پیدا ہو اور وہ آپ سے پوچھنا شروع کردیں تو اگر بالکل یقین کے ساتھ آپ کو مسئلہ معلوم ہو تو بتلائیں، اپنے طور پر ویسے ہی بلا تحقیق مسائل ہرگز نہ بتلائیں۔

تفسیر قرآن
درس قرآن یا تفسیر قرآن کے نام پر کسی ایک نماز کے بعد قرآن کی تفسیر کا نظام بنائیں قرآن کی منتخب آیات کی تفسیر کریں، ایسی آیات جو امت کو موجودہ حالات سے نکلنے کی راہیں بتلاتی ہوں۔ آپ انہیں آیات میں سے دو دو یا چارچار آیات کی معارف القرآن، بیان القرآن وغیرہ دیکھ کر تفسیر کردینے کی کوشش کریں، ان شاء اللہ امت کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔

یہ فجر، عصر کے بعد کا نظام ہو؛ اب چوں کہ مغرب و عشا کے بعد تو لوگ بیٹھنے کے موڈ میں نہیں ہوتے، لہٰذا اپنے طور پر مزید اور محنت کرتے رہیں، خاص طور پر حقوق العباد سے امت کو واقف کرائیں۔

اس کے بعد جو مضامین بچتے ہیں، جمعہ کے بیان میں ایک ایک کرکے اسے بھی بیان کرتے رہیں، مثلاً اگر چار جمعہ ہیں تو پہلے جمعہ کو نماز کے فوائد اور اس کے ترک کے نقصانات، دوسرے جمعہ کو لغو اور لایعنی کاموں سے اجتناب، تیسرے جمعہ کو سنت رسول کی اتباع، چوتھے جمعہ کو اولاد کی اسلامی تربیت یا موت اور آخرت کی یاد، اسلامی اخلاقیات یا دعا کا اہتمام یا آپسی اختلافات کو کیسے دور کریں وغیرہ،رمضان المبارک کے آغاز میں رمضان کی فضیلت، روزے کے فوائد، رمضان کی ناقدری پر وعیدیں وغیرہ مضامین انتہائی موٴثر انداز میں بیان کریں، تاکہ لوگ رمضان میں کوتاہی نہ کرنے پائیں۔

زکوٰة، صدقات، فطرہ اور عُشْر وغیرہ پر بھی امت کو توجہ دلائیں؛ امت کا ایک طبقہ زکوٰة اور عشر بھی نہیں نکالتا۔

غرضیکہ امت کو رمضان میں دینی اعتبار سے جتنا ہوسکے زیادہ سے زیادہ دین سے قریب کردیں اور رمضان کو ان کی اور ہماری زندگی میں انقلاب کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں۔

اللہ ہم سب کو توفیق اور اخلاص عطا فرمائے اور ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راضی ہو جائے۔ آمین!
Flag Counter