Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 17
رمضان میں عزم کر لیجیے
مولانا عبید اللہ خالد
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی چار بنیادی ذمے داریاں جو قرآن پاک میں ذکر کی گئیں ، ان میں سے ایک امّت کو تعلیم دینا بھی شامل ہے ۔ خود آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

علم انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ جب انسان اس دُنیا میں آتا ہے تو لا علم ہوتا ہے پھر جیسے جیسے وہ تعلیم حاصل کرتا چلا جاتا ہے ، اس کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، تعلیم کا حصول اور عدم حصول دو افراد کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں، یقینا تعلیم حاصل کیا ہوا انسان، لاعلم اور بے بہرہ انسان سے کہیں زیادہ شعور وآگہی رکھتا ہے، تاہم یہ شعور وآگہی دو قسم کی ہوتی ہے : ایک وہ جس کا تعلق اس دنیاکے مسائل اور ضروریات سے ہے اور دوسری جس کا تعلق آخرت کے مسائل اور ضروریات سے ہے۔ چناں چہ عوام میں انہیں دنیاوی علم اور دینی علم کا نام دے دیا گیا ہے ۔

دُنیا کا علم انسان کو اپنی دنیا کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے انہیں حل کرنے اور دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے قابل بناتا ہے ۔ دین کا علم انسان کو اس دنیا اور اس کے بعد شروع ہونے والی نئی زندگی کے مسائل کو سمجھنے، انہیں حل کرنے اور اُخروی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل بناتا ہے۔

اول الذکر علم نہیں بلکہ دنیاوی فنون ہیں او ران میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے، تو یہ حقیقت بھی خوش آئند ہے کہ ثانی الذکر حقیقی علم یعنی دینی علوم کے معیار میں بھی بہتری آئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دینی علوم حاصل کرنے کا جذبہ بھی بڑھ رہا ہے۔ چناں چہ مدارس میں دینی علم حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد رجوع کرتی ہے۔

رمضان کے شمارے میں دینی علوم کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ رمضان کے فوری بعد یعنی شوال کے پہلے ہی ہفتے سے پاکستان بھر کے مدارس میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے ۔ ایسے بہت سے نوجوان جو دُنیاوی یا عصری فنون حاصل کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ دنیا کی زندگی کے لیے وہ جس طرح محنت اور تگ ودو کر رہے ہیں ، وہ اپنی توجہ اُخروی زندگی کے لیے کرتے ہوئے دینی علم کے حصول کے لیے بھی وقت ضرور نکالیں۔ شوال کا مہینہ نئے تعلیمی سال کا مہینہ ہے اور اس سال اس موقعے کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اسی رمضان میں دینی تعلیم کے حصول کا عزم کیا جائے اور منصوبہ بندی، تاکہ یہ موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے ورنہ ایک سال کا انتظار کرنا پڑے گا، معلوم نہیں، آئندہ سال کس کو نصیب ہو۔
Flag Counter