Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 17
منُافقین کا بیان
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون،أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِن لاَّ یَشْعُرُونَ﴾․ (البقرہ:12,11)
ترجمہ: ”اور جب کہا جاتا ہے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ، جان لو وہی ہیں خرابی کرنے والے لیکن نہیں سمجھتے۔“

تفسیر
منافقین کی دوسری خصلت، فساد اور اصلاح کی حقیقت
منافقین کئی طرح سے فساد پھیلاتے تھے، کبھی کافروں کے پاس جا کر مسلمانوں کے راز افشا کرتے، کبھی کافروں کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کرتے، مسلمان جہاد کرتے تو یہ امن وامان کا ڈھنڈورا پیٹتے، ان کی حوصلہ شکنی کرتے، یہ لوگ ایمان وکفر اور توحید وشرک میں امتیازی فرق روا نہیں رکھنا چاہتے تھے ، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کفر وشرک کے فساد کا خاتمہ تھا کیوں کہ کفر اور شرک سے بڑھ کر کوئی فتنہ وفساد نہیں جیسے الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّہِ﴾․(البقرة:193)

اور لڑو اُن سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد او رحکم رہے خدا تعالیٰ ہی کا یہاں فتنہ سے شرک مراد ہے۔ ( بحر المحیط، البقرة، تحت آیہ رقم:193)

آپ صلی الله علیہ وسلم او رمسلمانوں کی اصلاحی جدوجہد (جہاد) کو فساد تعبیر کرتے حالاں کہ الله تعالیٰ کے کلمہ کوبلند کرنے اور کفرو شرک کو مغلوب کرنے کے لیے جہاد کرنا عین اصلاح ہے جہاد کو فسا دکہنا درحقیقت فساد ہے ، جب ان منافقین سے کہا جاتا کہ راہ حق میں روڑے اٹکا کر فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہم نے کب فساد مچایا ہے ہم تو پُر امن اور صلح پسند لوگ ہیں ، چوں کہ انہوں نے فساد واصلاح کے خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں اس لیے انہیں یہ شعور بھی نہیں ہوتا کہ ہم فساد میں مبتلا ہیں۔

موجودہ دور کے زندیقوں کا بھی یہی حال ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی غلط سلط تاویلیں کرکے فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں او راس پر مزید حماقت یہ کہ اسے امت کی اصلاح کا زریعہ سمجھتے ہیں۔

﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاء أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاء وَلَکِن لاَّ یَعْلَمُون﴾․(البقرة:13)
ترجمہ:” کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بے وقوف جان لو وہی ہیں بے وقوف لیکن نہیں جانتے۔“

تفسیر
منافقین کی تیسری خصلت
جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمہیں ایمان کا دعوی ہے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم جیسی مقدس جماعت کی طرح ایمان لاؤ جو ایمان وعشق کی اس منزل پر فائز تھے ،جہاں کبھی ”کیوں“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا ” کس طرح“ فنا وزوال کے گھاٹ اتر گیا”کاش ایسا ہوتا“کی گنجائش ہی باقی نہ رہی جو نبوت کے ہر اشارے پر جان ومال لُٹانے کا فن جانتے تھے، وہ خواہش نفس کی غلامی سے اس قدر آزاد ہو چکے تھے کہ نازک سے نازک لمحات میں بھی عروسِ دنیا انہیں اپنی ادا وناز کا اسیر نہ بنا سکی ، اے دنیا پرست منافقو!

اپنے ایمان کو ذرا ان کے ایمان پر تو پرکھو، اس کے جواب میں منافق کہتے ہیں ۔ ”ہوں! ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں جنہیں نفع کی خبر ہے نہ نقصان کی ۔“ حالاں کہ بے وقوف تو یہی منافقین ہیں جو عارضی زندگی کو دائمی زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں ، پر اپنی حماقت کو دانائی سمجھ کر اس پر نازاں وفرحاں بھی ہیں، آج کل بھی دین دشمنوں کا یہی وطیرہ ہے کہ مخلص مسلمانوں کو دقیانوس، بنیاد پرست، فسادی، جدید تقاضوں سے بے خبر جیسے القابات سے نوازتے رہتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ایمان معیار ہے
آیت کریمہ میں … ﴿ کَمَا آمَنَ النَّاسُ﴾ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم مراد ہیں یعنی ایمان لانا ہے تو صحابہ کرام کی طرح ایمان لاؤ، جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایمان وتصدیق اسی قسم کی معتبر ہو گی جس قسم کی تصدیق صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کی ، اگر کوئی شخص ملائکہ، جنت، جہنم کی ایسی تصدیق وتعریف کرے جو صحابہ کرام کی تصدیق سے یکسر مختلف ہو جیسے زنادقہ کا طریقہ ہے، تو یہ تصدیق درحقیقت تکذیب شمار ہو گی۔

﴿وَإِذَا لَقُواْ الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَی شَیَاطِیْنِہِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَکْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ ،اللّہُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُون﴾․(البقرة:14-13)
ترجمہ: ”او رجب ملاقات کرتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئیں ہیں او رجب تنہا ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں بے شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ہنسی کرتے ہیں ( یعنی مسلمانوں سے) الله ہنسی کرتا ہے ان سے اور ترقی دیتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) حالت یہ ہے کہ وہ عقل کے اندھے ہیں۔“

تفسیر
منافقین کی چوتھی خصلت
منافقین کا یہ رویہ تھا کہ جب مسلمانوں سے ملتے تو انہیں یقین دلاتے کہ ہم تو مسلمان ہیں او رجب کافروں کے سرغنوں کے پاس جاتے تو انہیں کہتے کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ میل جول اور اٹھنا بیٹھنا تو بس ہنسی مذاق کے واسطے ہے ۔ ان کے اس قول کے جواب میں کہا گیا کہ تم اہل ایمان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو تو الله تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہنسی مذاق کرتا ہے ۔ جس کی صورت یہ ہوتی ہے الله تعالیٰ ان پر مال دولت کی فراوانی کر دیتے ہیں اور یہ غرور وتکبر میں آکر خوب فتنہ وفساد کا بازار گرم کرتے ہیں او رپھر اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ مال ودولت الله تعالیٰ کا فضلِ خاص ہے کہ اچانک گرفت شروع ہو جاتی ہے اور یہ مال جسے نعمت سمجھ رہے ہوتے ہیں عذاب بن جاتا ہے جیسے الله تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا ہے :﴿فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَةً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُون﴾․(الانعام:44)

ترجمہ: ”پھر جب وہ بھول گئے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی کھول دیے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوئے ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں پکڑ لیا ہم نے ان کو اچانک پس اس وقت وہ رہ گئے ناامید)۔

کیا الله تعالیٰ بھی ہنسی مذاق کرتا ہے؟
الله تعالیٰ کی ذات لہو ولعب، استہزاء جیسی چیزوں سے بلند تر ہے ، آیت میں استہزاء کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف اہل عرب کے محاور ے کی بنا پر ہے ، اہل عرب کا محاورہ ہے کہ جب کوئی کام کسی فعل کی سزا کے طور پر کیا جائے تو اس کی تعبیر بھی اسی فعل سے کر دیتے ہیں۔ (الجامع لأ حکام القرآن للقرطبی، البقرہ تحت اٰیہ رقم:16)

مثلاً:﴿ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ﴾( الحشر:19) اس میں بھلانے کی جو سزا دی گئی ہے اسے بھی بھلانے سے تعبیر کیا گیا جب کہ الله تعالیٰ کے لیے بھول جانے کا کوئی امکان ہی نہیں اسی طرح ﴿وَجَزَاء سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُہَا﴾․ ( الشوری:40) میں برائی کی سزا کو برائی سے تعبیر کیا گیا ، حالاں کہ برائی کی سزا تو عین انصاف اور عدل کا تقاضا ہے وہ خودبرائی نہیں یہ سب عرب محاورے کی بنا پر ہے۔

﴿أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِیْن﴾․ (البقرة:16)
ترجمہ:” یہ وہی ہیں جنہوں نے مول لی گمراہی ہدایت کے بدلے، سونافع نہ ہوئی ان کی سوداگری اور نہ ہوئے راہ پانے والے۔“

تفسیر
”شراء“ کا لفظ عربی میں دو متضاد معنوں ”خرید“ اور ”فروخت“ کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ ( مفردات القرآن للراغب، باب، شراء)

یہاں خریدنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ ان منافقین نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ، لیکن اس صورت میں اشکال یہ ہو گا کہ منافقین کے پاس ایمان ہی کب تھا کہ وہ اس کے بدلے گمراہی خرید لیتے وہ تو ایمان کی دولت ہی سے محروم تھے ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ” اشتراء“ کے معنی مجازی ترجیح واختیار مراد لیے جائیں کہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی اس صورت میں ”بالھدی“ میں ”ب“ علیٰ کے معنی میں ہو گی ، تفسیر طبری اور روح المعانی میں یہی توجیہ مذکور ہے ۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:16)

تاہم اگر ہدایت سے وہ فطری ہدایت مراد لی جائے جس کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ” ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے لیکن ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں، تو پھر کوئی اشکال ہی باقی نہ رہے گا او رتمام الفاظ بھی اپنے حقیقی معنوں میں رہیں گے ۔ ( تفسیر الکشاف، البقرة، تحت آیہ رقم:16)

او راگر منافقین سے وہ مخصوص افراد مراد لیے جائیں جو واقعی ایمان کی دولت پانے کے بعد نفاق کی راہ پہ چل پڑے تھے جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔

تو اس صورت میں بھی کوئی اشکال باقی نہ رہے گا لیکن آیت کا مصداق محدود ہو جائے گا۔
﴿فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِیْنَ﴾

تفسیر
منافقین نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دے کر سر اسر گھاٹے کا سودا کیا ہے ، تجارت ان کا پیشہ ہے لیکن تجارت کے سلیقے سے بے خبر ہیں ، کیا گمراہی انہیں دنیا میں اطمینان وسکون او رآخرت میں رضائے الہٰی کا پروانہ دی سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں یہ ایک کھوٹہ سِکہّ ہے جس کی کہیں قدر وقیمت نہیں۔

﴿مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللّہُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُون﴾․ (البقرة:17)
ترجمہ:” ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب روشن کر دیا آگ نے اس کے آس پاس کو تو زائل کر دی الله نے ان کی روشنی اور چھوڑا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھتے۔“

تفسیر
تمثیل کی حقیقت
کسی صورت واقعہ کو صورت حقیقت واقعہ یعنی کسی واقعہ کی جزئیات پیش نظر رکھے بغیر کل کو کل سے تشبیہ دی جائے،حقیقت واقعہ سے تشبیہ دینے کا نام مثال او رتمثیل ہے ، اگرچہ اس تشبیہ میں دونوں کے اجزا ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ (کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم:1449/2)

مثل کے مفہوم میں ایک پہلو ندرت او رغرابت کا بھی پایا جاتا ہے یعنی ایسا حال جو عجیب وغریب ہو ۔ ( تفسیر الکشاف: البقرة تحت آیة رقم:17)

”الَّذِی“:”کَمَثَلِ الَّذِی“ میں”الَّذِی“ مفرد ہے لیکن یہاں معناً جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں اس طریق استعمال کے متعدد نظائر ہیں ۔ ( تفسیر الکشاف: البقرہ تحت آیة رقم:17)
مثلاً:﴿خُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُواْ…﴾ (سورة التوبة:69) ﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُون﴾․ سورة الزمر:33)

مثال بیان کرنے کا مقصد
قرآن کریم میں مثالوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ممثل لہ (جس کی وضاحت کے لیے، مثال دی جاتی ہے) کو پردہ خفا سے نکال کر حقیقت کاروپ دے دیا جائے تاکہ نظر وفکر کا ہر درجہ اس چشمہ ہدایت سے سیرابی کا سامان پیدا کر سکے۔( احکام القرآن للقرطبی البقرہ، تحت آیة رقم:17)

﴿وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ﴾ ․(سورة العنکبوت:43)
مگر جس شخص نے کج روی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو وہ یہاں بھی تشنہٴ لب رہے گا۔﴿یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْرا﴾․ (البقرة:26)

منافقین کی پہلی مثال
یہ پہلی مثال ان منافقین کے بارے میں ہے جنہوں نے ایمان پانے کے بعد گنوا دیا او رکفر اختیار کر لیا، چناں چہ حضرت عبدالله بن مسعود ودیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے، تو کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد منافق بن گئے، ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اس قدر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھڑا ہو کہ سیدھا راستہ بھی سُجھائی نہ دیتا ہو ، اس نے آگ سلگا کر ارد گرد کے ماحول کو روشن کر دیا، جب پرخار جھاڑیوں سے بچ کر سدھے راستے پر چلنے کی امید ہو چکی تھی کہ دفعةً وہ آگ بجھ گئی پھر وہی ظلمت کا پردہ چھا گیا ، اب وہ حیراں وسرگرداں، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے، منزل کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے نہ کانٹوں سے دامن بچا سکتا ہے ، یہی حالت منافقین کی ہے شرک وکفر کی ظلمتوں میں پڑے ہوئے تھے کہ نورِ نبوت کی جلوہ آرائیوں نے انہیں ذوق توحید سے آشنا کیا، حلال وحرام کے فرق سے باخبر ہوئے جب اس نور کا پورا عکس ان کے دلوں میں اتر چکا تو یہ پھر سے کفر وشرک کی ظلمتوں میں جاگھسے۔ اب ان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہا جس کے ذریعہ حلال وحرام، خیر وشرکی تمیز کر سکیں۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:17)

﴿صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ﴾․(البقرة:18)
ترجمہ:” بہرے ہیں ، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو وہ نہیں لوٹیں گے۔“

تفسیر
جو شخص گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہو ، علم ومعرفت کے تمام ذرائع اس پر بند ہو چکے ہوں، کان صدائے حق سننے سے قاصر، زبان اظہار حق سے عاجز، آنکھیں حق کی روشنی دیکھنے سے محروم ہو چکی ہوں تو ایسے شخص کو ایمان ویقین کی منزل تو کجا نشانِ منزل بھی نہ ملے گا، یہ منزل تو انہیں خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے جن کے کان نغمہ توحید پر ہمہ تن گوش ہوں او رلبوں کی جنبش تصدیق کے لیے بے قرار ہو۔

﴿أَوْکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاء ِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصْابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّہُ مُحِیْطٌ بِالْکافِرِیْنَ، یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَہُمْ کُلَّمَا أَضَاء لَہُم مَّشَوْاْ فِیْہِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْْہِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّہُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَأَبْصَارِہِمْ إِنَّ اللَّہ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر﴾․(البقرة:20-19)
ترجمہ:” یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زور سے مینہ پڑ رہا ہو آسماں سے، اس میں اندھیرے ہیں اور گرج او ربجلی، دیتے ہیں انگلیاں اپنے کانوں میں مارے کڑک کے موت کے ڈر سے او رالله احاطہ کرنے والا ہے کافروں کا قریب ہے کہ بجلی اچک لے ان کی آنکھیں، جب چمکتی ہے ان پر تو چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں او رجب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں او راگر چاہے الله تولے جائے ان کے کان اور آنکھیں بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے۔“

تفسیر
منافقین کی دوسری مثال
یہ مثال ان منافقین کی ہے جو تردد اور شک وشبہ میں زندگی گزارتے ہیں ان میں سے بعض کو تو ہدایت نصیب ہو جاتی ہے اور بعض اسی پس وپیش میں زندگی فنا کر دیتے ہیں۔

ان کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے موسلا دھار بارش برس رہی ہو، اندھیریاں چھائی ہوئی ہوں، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک زوروں پر ہو ، وہاں پر موجود لوگ طوفان بادوباراں کے اس منظر سے خوف زدہ ہو رہے ہوں بادل کڑکے تو موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں بجلی کی تیز چمک آنکھوں کی روشنی سلب کرنے کو ہو تو اس کی روشنی میں قدم دو قدم چل دیے پھر جب تاریکی چھا گئی تو حیران وپریشان کھڑے ہو گئے، منافقین کا حال بھی ایسا ہی ہے جب اسلام کی شان وشوکت اور پھیلتے ہوئے نور کو دیکھتے ہیں تو آگے بڑھنے لگتے ہیں او رجب دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان پر آزمائشیں آرہی ہیں تو قدم روک لیتے ہیں او رکفر کی اوٹ میں جاکر راحت وسکون کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔

بارش آسماں سے برستی ہے یا بادل سے؟
مذکورہ آیت او راس کے علاوہ کئی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش آسمان سے ہوتی ہے مثلاً:﴿وَہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً ﴾․ (الأنعام:99)﴿أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء﴾․(رعد:17)﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً طَہُوراً﴾․(فرقان:48)

دوسری طرف بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں بادل سے بارش برسنے کا ذکر ہے مثلاً:﴿حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَاباً ثِقَالاً سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِہِ الْمَاء﴾․(الاعراف:57)
ترجمہ:” یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بھاری بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اس بادل کو ایک شہر مردہ کی طرف پھر ہم اتارتے ہیں اس بادل سے پانی)

﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجاً ﴾․(النباء:14)
ترجمہ:” اور اتارا نچڑنے والی بدلیوں سے پانی کا ریلا۔“

قرآن کی دونوں طرح کی آیات میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے۔

دفع تعارض
پہلی آیات میں سما سے مراد سحاب (بادل) ہی ہے کیوں کہ اس چیز کو جو جہت علّو میں ہوتی ہے اسے سماء سے تعبیر کر دیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کل ما علاک فھو سماء ہر وہ شی جو تیرے اوپر ہے وہ آسمان ہے چوں کہ بادل بھی جہت علو (اوپر کی طرف) میں ہوتے ہیں اسی لیے انہیں سماء (آسماں) سے تعبیر کرکے ﴿ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ًً﴾ کہہ دیا گیا وگرنہ درحقیقت بارش بادلوں ہی سے ہوتی ہے۔ ( روح المعانی، البقرة، تحت آیت رقم:20) (جاری)
Flag Counter