Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 17
دل دولھا، جسم بارات
محترم شمس الحق ندوی

ہر انسان کو اپنی زندگی سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے او روہ اس کی بقا وحفاظت کے لے ہرجتن کرتا ہے ، جسمانی قوت وتوانائی کے لیے غذا کی فکر کرتا ہے، سردی گرمی سے بچنے کے لیے لباس کا انتظام کرتا ہے ، سکون واطمینان اور آرام وراحت کے ساتھ رہنے کے لیے مکان بناتا ہے ، لذت کام ودہن کے لیے ماکولات ومشروبات کی تمام انواع واقسام کو سمیٹ لینے کا خواہاں رہتا ہے، بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے صاف ستھری اور جراثیم سے پاک جگہوں کا انتخاب کرتا ہے ، ان چیزوں کے حصول کو وہ اتنا ضروری سمجھتا ہے کہ ان کے حاصل کرنے میں اکثر حدود وقیود کو پار کر جاتا ہے، بلکہ اپنے او راپنے متعلقین کے سوا سب کو بھول جاتا ہے، خود کو سارے وسائل حاصل ہوں، چاہے دوسروں کا خون چوس کر ، دوسروں کا گھر بے چراغ کرکے ، یہ وہ حقائق ہیں جن کو عالم، جاہل ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سبھی جانتے ہیں اور یہ شب وروز ہم سب کے تجربہ میں آتے رہتے ہیں۔

مگر یہ انسان یہ نہیں سوچتا اور ادھر اس کا ذہن نہیں جاتا کہ یہ چیزیں تو دیگر تمام مخلوقات میں او رانسان میں مشترک ہیں اور ہر مخلوق اپنے رہنے، کھانے او راپنی جان کی حفاظت کی فکر کرتی ہے ، حتیٰ کہ سانپ جس کا ایک قطرہٴ لعاب انسان کو موت کی نیند سلا دیتا ہے ، وہ بھی اپنی جان کے لیے خائف رہتا ہے او رزندگی کی بقا کے لیے محفوظ مقامات او راپنے دشمنوں سے حفاظت کی جگہیں تلا ش کرتا ہے ، یہ ہمارا ہر وقت کا مشاہدہ ہے ، ہم ہر ذی جان میں یہ سب بات محسوس کرتے ہیں ، لیکن انسان او ردیگر مخلوقات میں وجہ امتیاز کیا ہے ؟ اس پر نظر کم جاتی ہے، بلکہ کہنے، سننے اور توجہ دلانے کے بعد بھی اس پر غور کی فرصت نہیں ملتی کہ انسان کے اس جسمانی نظام کے ساتھ اس کا ایک روحانی نظام بھی ہے ، جس کو اسی طرح غذا ، صاف ستھری فضا اور ساز گار حالات او رماحول کی ضرورت ہے جس طرح جسم کو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہی دوسری چیز وہ جوہر اصلی ہے جس کی وجہ سے انسان کو دیگر تمام مخلوقات پر امتیاز اوربرتری حاصل ہے ، اگر وہ اپنی اس حقیقت کو پہچانتا ہے تو اپنے سر پر ﴿لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم﴾ کا تاج رکھتا ہے اور پھر صحیح اور حقیقی معنی میں فرشتوں کو بھی اس پر رشک آتا ہے، بلکہ وہ اس کے اعزاز وتکریم میں اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔

بنی نوع انسان پر الله تعالیٰ کا یہ مزیدانعام ہے کہ افضل الخلائق بنا کر اس کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اس کے اس امتیازی وصف کے سلسلہ میں ہدایت وراہ نمائی کے لیے اپنے رسولوں اور آسمانی کتب کا سلسلہ جاری فرمایا، جس کی آخری کڑی فداہ ابی وامی محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم۔

مگر کیا انسان جتنی فکر اپنے فانی اور معدوم ہو جانے والے جسم کے لیے کرتا ہے کیا اس کا عشر عشیر ( دسواں حصہ) بھی اپنے دائمی او رابدی وروحانی نظام کے لیے کرتا ہے ؟ یہ کتنی بڑی بھول اور نادانی ہے کہ مسافر اپنی منزل سے غافل اور بے خبر ہو کر ساری توانائی وصلاحیت اسباب سفر اکٹھا کرنے میں صرف کر دے۔

ہم ذرا غور وفکر سے کام لیں اور تھوڑی دیر کے لیے یکسو ہو کر اپنے شب وروز کے معمولات پر غور کریں تو ہم پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ ہم کو عارضی اور فانی کی فکر تو ہمہ وقت بے چین وسرگرداں رکھتی ہے، مگر اصل منزل کا خیال بہت کم آتا ہے، جسم کی فکر رہتی ہے، مگر دل جو روح کا مرکز ومسکن ہے ، اس کی طرف سے غفلت اور بے فکری رہتی ہے ، اس کو اچھی طرح سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں حضرت شاہ محمد یعقوب مجددی کا ایک بہت عام فہم ملفوظ نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

حضرت اپنے عام فہم انداز میں چند لفظوں میں ایسے حقائق بیان فرما دیتے جو بڑی بڑی کتابوں پر بھاری ہوتے، ایک مجلس میں حضرت نے اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے فرمایا:
” دل دولہا ہے ، جسم بارات، بارات دولہا ہی کی خاطر ہے ، دولہا سے بے اعتنائی او ربارات کی خاطر داری کوئی عقل کی بات نہیں، اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ ایک بڑی بارات جاری ہے، ایک باغ اور جنگل سے اس کا گذر ہوا، ایک اجنبی آدمی کھڑا دیکھ رہا تھا، اس کے سامنے سے بارات کا جلوس نکلا، مشعلچی طبلچی، تماشائی او رباراتی سب ساتھ تھے ، اس کو دولہا نظر نہیں آیا، اس نے ایک باراتی سے پوچھا کہ نوشہ کہاں ہے ؟ میں سب کو دیکھتا ہوں، وہ کہیں نظر نہیں آتے ، اس نے جھنجھلا کر جواب د یا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو، بارات کا لطف نہیں لیتے اور فضول کی باتیں کر رہے ہو ۔ وہ مشعلچی ہے، وہ طبلچی ہے ۔ وہ مرد خدا خاموش ہو گیا ، تھوری دیر کے بعد پھر اس سے رہا نہیں گیا، اس نے دوسرے سے پوچھا، اس نے بھی ٹال دیا، تیسرے سے پوچھا، اس نے اعتراف کیا او رکہا کہ ہاں واقعی دولہا میاں بارات میں نہیں ہیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ کہیں پیچھے گھوڑے سے گر کر گڈھے میں پڑے ہوئے ہیں، بارات آگے بڑھ گئی، کسی کو خیال نہ آیا ۔ اس طرح سے دل جسم کی بارات کا دولہا ہے ، اس کا خیال سب سے مقدم ہے۔“

حضرت جسم کے دولہا کی طرف بے توجہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” بعض لوگو ں کو دیکھیں گے صبح اٹھے ، منھ ہاتھ دھویا، بال بنائے ، کپڑے بدلے، جوتے پر پالش کی اور دولہا (دل) بھوکا پڑا ہوا ہے ، اس کا ناشتہ ندارد، (حالاں کہ) دولہا پہلے ہے، بارات بعد میں ، الله تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ونفخت فیہ من روحی﴾ یہی دل سرالہٰی او رامانت خداوندی کا محل ومرکز ہے۔“

شاہ مجددی  کے اس بلیغ ملفوظ پر ہم غور کریں تو صاف معلوم ہو گا کہ ہمارا آج کا ماحول ومعاشرہ صرف بارات کے سجانے او راس کا تماشا دیکھنے دکھانے میں لگا ہوا ہے ، دولہا بیچارہ بے ناشتہ پانی، گڈھے میں گرا پڑا ہے ، اس کا خیال ہی نہیں آتا۔

کبھی کچھ کہا سنا جائے ، توجہ دلائی جائے تو اکثر ماحول کا بہانہ کیا جاتا ہے ، صاحب کیا کیا جائے؟ ماحول خراب ہے ،ماحول بگڑا ہوا ہے ۔ مقابلہ کی صلاحیتیں تو مخالف ماحول ہی میں ابھرتی ہیں ، صحابہ کرام کا ماحول کیا موافق ماحول تھا، لیکن ان کو جب فطرت سلیمہ کی طرف موڑ دیا گیا تو انہوں نے عزم ویقین کے ساتھ اس ماحول کا مقابلہ کیااور ماحول کے رخ کو بدل دیا۔ ہماری پوری اسلامی تاریخ ایسے مردانِ کار کے کارناموں اور ماحول کو یکسر بدل دینے کے تابندہ نقوش سے پُر ہے۔ شاعر اسلام اقبال  نے گو اپنے بارے میں کہا، ہے، لیکن درحقیقت یہ ان تمام جواں مردوں کی ترجمانی ہے، جو ماحول کا شکوہ نہ کرکے ماحول سے نبرد آزماں رہتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں #
        زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
        نہ چھوٹے مجھے سے لندن میں بھی آداب سحرگاہی

ضرورت صرف تھوڑی فکر اور توجہ کی ہے، اگر یہ بات حاصل ہو جائے تو بندہٴ مومن کے ذہن میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمہ وقت تازہ رہے گا: حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ :”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کر مجھ سے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں ایسے رہ جیسے کہ تو پردیسی ہے ، یا راستہ چلتا مسافر“ ۔( بخاری)

مگر ہمارے آج کے ماحول میں معاملہ بالکل اس کے خلاف ہے ، فانی کی فکر زیادہ، باقی کی کم اور شاہ مجددی کی تعبیر میں بارات کی فکر زیادہ اور دولہا کی کم۔

اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے خطبات ومواعظ میں اس بنیاد پر بہت زیادہ زور دیتے تھے ، جن لوگوں نے قوموں کی قسمت بدل دینے یاد لوں کی سرد انگیٹھیوں کو گرمانے کا کام انجام دیا ہے، ان کے پیش نظر یہی حقیقت تھی، جس کا حدیث پاک میں ذکر ہوا ۔ ہم بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بارات سے زیادہ دولہا کی فکر کرنی ہو گی او راسی میں ہماری صلاحیت کا راز پوشیدہ ہے۔
Flag Counter