Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1433ھ

ہ رسالہ

13 - 17
قرآن کی خاطر دنیا تج دینے والی شخصیت
مولانا محمداسلم شیخوپوری شہیدمولانا سیداحمدومیض ندوی

اسلام کے نام پرتشکیل دی گئی مملکتِ خدا داد پاکستان میں جس قسم کے حالات رونما ہورہے ہیں اس سے ہرمسلمان کا سرشرم سے جھک جاتا ہے، امن وسلامتی کے داعی اور حقوقِ انسانی کے عمل بردار اسلام کا پرچم بلند کرنے کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا، لیکن اسی سرزمین پرآج اسلام اور تعلیماتِ اسلام کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، پاکستان کے اوّلین بانیوں نے خواب دیکھا تھا کہ اس خطہ زمین پرخدا کی شریعت نافذ کی جائے گی اور یہاں کے دستور میں شریعتِ اسلامی کوبالادستی حاصل رہے گی؛ یہاں نفاذِ شریعت کے سبب ہرشخص کوجانی ومالی تحفظ حاصل رہے گا، لیکن بانیانِ پاکستان کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے اور ان کی ساری اُمیدوں پرپانی پھرگیا، قیامِ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ جس طبقہ نے قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا وہ علماءِ کرام کا طبقہ تھا، علمائے کرام اور مذہبی طبقہ کی بے پناہ قربانیوں نے ملک کی آزادی کوممکن بنایا، قیامِ پاکستان کے بعد اس کی اسلامی شناخت کی خاطر علماء نے شبانہ روز محنتیں کیں اور اسلام دشمنوں کی جانب سے پاکستان کو”لادین“ ریاست بنانے کی ہرسازش کا دیوانہ وار مقابلہ کیا، قرار داد مقاصد کی شکل میں اسلامی قوانین وشعائرکوآئین پاکستان میں تحفظ دلانے کا مسئلہ ہویا احکامِ اسلام کے ضمن میں خصوصی آرٹیکلز کے اندراج کا معاملہ، ہرمحاذ پرپاکستان کے 65سالہ سفر میں ہزاروں علماء نے قربانیاں دیں، لیکن آج اسی سرزمین پرعلماء کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے، جس چمن کوعلماء نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا آج اس کے ایک ایک حصہ کوعلماء کے لہو سے رنگین کیاجارہا ہے، ہرتھوڑے وقفہ سے کسی نہ کسی عالمِ دین کے خون سے ہولی کھیلے جانا روز کا معمول بن چکا ہے۔

دوچار ماہ بھی نہیں گزرپاتے کہ کسی نہ کسی عالمِ دین کی شہادت کی خبر اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بن جاتی ہے،صرف ایک شہر کراچی کا جائزہ لیا جائے توگذشتہ اکیس سال (2012-1991ء) کے عرصہ میں یہاں کی گلیاں، محلے، مساجد کئی علماء کے خون سے رنگین نظر آتی ہیں، ڈرگ روڈ پرجامعہ فاروقیہ کے پانچ علماء کی شہادت کوزیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا کہ مولانا محمدیوسف لدھیانوی کی شہادت کا سانحہ پیش آیا، پھرکراچی ہی میں مولانا حبیب اللہ مختار اور مولانا عبدالسمیع جیسی شخصیات کوتہہ تیغ کرایا گیا، اس کوزیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ مولانا مفتی نظام الدین شامزئی جیسے عظیم مجاہد، مفتی جمیل احمد خان جیسے مدبر، مولانا سعید احمد جلال پوری جیسے مناظر، مولانا عبدالغفور ندیم جیسے محافظ عظمتِ صحابہ اور مفتی عتیق الرحمن جیسے استاذ بے بدل کوانتہائی سفاکانہ انداز میں شہید کیا گیا اور اب انسانیت دشمن قاتلوں نے ایک ایسی شخصیت کونشانہ بنایا، جس نے خود کوخدمتِ قرآن اور تفسیر قرآن کے لیے وقف کردیا تھا، ان سے ہماری مراد داعی قرآن ممتاز مفسر دین وملت کے بے لوث خادم حضرت مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمة اللہ علیہ ہیں جنھیں گذشتہ 13مئی2012ء کواس وقت گولی مار کرشہید کردیا گیا جب وہ درسِ قرآن دے کرواپس لوٹ رہے تھے، مولانا حسبِ معمول صبح ساڑھے دس بجے گھر سے القرآن کورسز نیٹ ورک بہادر آباد میں درس قرآن کے لیے اپنے ڈرائیور سفرین اور محافظین حسن عزیز اور وزیر علی قادری کے ہمراہ روانہ ہوئے، قریب ایک بجے درس اختتام کوپہنچا واپسی میں بہادرآباد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرہارون چورنگی رنگون والا ہال کے سامنے آٹھ نامعلوم مسلح دہشت گردوں نے اچانک حملہ کردیا، پہلے ڈرائیور کی گردن پرایک گولی ماری، پھرمولانا کے ساتھ دوسرے محافظ کونشانہ بنایا، ڈرائیور جائے واردات ہی پرچل بسا اور محافظین شدید زخمی ہوگئے، مولانا کے جسم پردوگولیاں لگیں، جن میں سے ایک پیٹ سے ہوتے ہوئے دل کے قریب سے گذری اور چند ہی لمحوں میں مولانا اللہ کوپیارے ہوئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، دشمنوں نے پیروں سے معذور عالم دین کوبھی نہیں بخشا، مولانا کی عمر تین سال تھی کہ فالج کا حملہ ہوا اور آپ دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے، پیروں سے معذوردین کا یہ سچا خادم ہمیشہ دین کی سربلندی اور عام مسلمانوں کوقرآن سے وابستہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا، مولانا شیخوپوری مسلکی تنازعات سے خود کودور رکھتے تھے، پرامن اصلاحی خدمات ان کا نصب العین تھا، اس لحاظ سے دہشت گردوں کی طرف سے انھیں نشانہ بنایا جانا انتہائی حیرت انگیز ہے، مولانا اسلم شیخوپوری نے 1959ء میں صوبہ پنجاب کے شیخوپورہ ضلع کے ایک زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی، آپ کے والد ماجد کا نام محمدحسین تھا، تین سال کی عمر میں فالج کا حملہ ہوا اور دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے؛ لیکن اس کم سن بچے نے پیروں کی معذوری کومجبوری بننے نہیں دیا، ابتدئی تعلیم کے لیے گاوٴں کے اسکول میں داخل کیا گیا، لیکن چوتھی جماعت سے مولانا نے اسکول سے علیحدگی احتیار کرلی، مولانا اپنی عمر کے 9ویں سال میں تھے کہ مسجد کے امام صاحب نے مولانا کے والد صاحب کوحفظ قرآن کا مشورہ دیا اور مولانا نے صرف 11گیارہ ماہ کی مختصر مدت میں حفظ قرآن سے فراغت حاصل کی۔

درسِ نظامی کی ابتدائی چند کتب اپنے ہی علاقے میں پڑھیں، لیکن علومِ اسلامیہ کی دیگر کتب کے لیے مولانا سرفراز خان صفدر کی عظیم درس گاہ جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں داخلہ لیا، پھر عا لمیت کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے چچا اسلم صاحب کے ہم راہ جامعة العلوم الاسلامیہ کراچی پہنچے جہاں انہوں نے حضرت مولانا یوسف بنوری، حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی جیسے اساطینِ علم سے اکتسابِ فیض کیا، دورِطالب علمی ہی سے مولانا میں مطالعہ کتب کا بے پناہ شوق تھا، بنوری ٹاون کے کتب خانہ میں گھنٹوں گذاردیا کرتے تھے، مطالعہ کتب کے ساتھ ان میں مضمون نگاری سے دلچسپی پیدا ہوئی، چناں چہ دورِ طا لب علمی ہی سے انہوں نے ملک سے نکلنے والے جرائد ورسائل میں لکھنا شروع کردیا، بچوں کے رسائل میں ان کے مضامین مسلسل چھپنے لگے، تعلیم کی تکمیل کے بعد باوجود اس کے کہ آپ کوکراچی کے بڑے مدارس میں تدریس کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے اپنے علاقے شیخوپورہ میں خدمت کوترجیح دی، چوں کہ اس دورافتادہ علاقے میں کوئی بھی دینی راہ نمائی کرنے والا نہ تھا۔

درسِ قرآن کی شکل میں آپ نے دینی خدمات کا آغاز کیا، ایک سال تک درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، رفتہ رفتہ لوگ آپ کی صدا پرلبیک کہنے لگے، عوام میں جب آپ کی خوب پذیرائی ہونے لگی توکچھ ناعاقبت اندیشوں نے آپ سے خطرہ محسوس کیا اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے، مولانا چاہتے توعوامی تائید کے سبب ان کا ناطقہ بند کرسکتے تھے؛ لیکن آپ نے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا مناسب نہ سمجھا اور کراچی کا رُخ کیا اور جامعہ بنوریہ العالمیة میں درس وتدریس اختیار کرلی اور علومِ اسلامی کی تدریس میں مصروف رہے، اس دوران جامع مسجد خدیجہ لیبر اسکوائر سائٹ ٹاون میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے، مولانا میں تدریسی صلاحیتوں کے ساتھ تحریر وتصنیف اور تقریر وخطابت کے بھی جوہر تھے، مختصر وقت میں آپ کے خطبات عوام میں مقبول ہونے لگے، جامعہ بنوریہ عالمیہ کے بعد آپ نے جامعة الرشید احسن آباد میں تفسیر وحدیث کے استاذ کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا اور 7سال تک یہ سلسلہ جاری رہا، مولانا کوشروع سے تصنیف وتالیف اور تفسیر قرآن سے شغف تھا؛ چناں چہ ان دونوں شعبوں میں مولانا نے گراں قدر خدمات انجام دیں، سات جلدوں پرمشتمل ”ندائے ممبرومحراب“ خطبات ترتیب دیے جوہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک میں کافی مقبول ہوئے؛ اسی طرح ”پچاس تقریریں“ کے عنوان سے طلبہ کے لیے مجموعہ ترتیب دیا، جوطلبہٴ مدارس میں بے حد مقبول ہوا۔

آپ کی تصانیف دودرجن سے متجاوز ہیں، جن میں خزینہ، عشاقِ قرآن کے ایمان افروز واقعات، تفھیمات درسِ صحیح مسلم، خلاصة القرآن، ہدایہ کی زیرتکمیل شرح، غریب شہر کی التجا اور احسن القصص قابلِ ذکر ہیں، مولانا کوتفسیر قرآن سے بے حد شغف تھا، پاکستان کے کثیر الاشاعت روزنامہ ”اسلام“ میں خلاصہ تفسیر کا سلسلہ شروع کردیا، رمضان المبارک میں روزانہ بالعموم جس پارے کی تلاوت کی جاتی اس کی مختصر اور عام فہم تفسیر اخبار میں شائع ہوجاتی، جسے عوام الناس شوق کی نگاہوں سے پڑھتے، مولانا کی سب سے بڑی خواہش قرآن پاک کی تفسیر تسہیل البیان اور دروس کے ذریعہ قرآن پاک کی تفسیر کی تکمیل تھی، تاشہادت تسہیل البیان کی چار جلدیں مکمل اور پانچویں جلد کا کام آخری مراحل میں تھا اور دروس القرآن کا سفر بھی بیسویں پارے تک پہنچ چکا تھا۔

مولانا نے 2003ء سے دروس قرآن کا سلسلہ شروع فرمایا تھا مختلف موضوعات پران کے درسِ قرآن وحدیث کی مجموعی تعداد2ہزار سے زائد ہے، جن میں سے اکثر ریکارڈنگ اور تحریری شکل میں بھی محفوظ ہے، مولانا اسلم شیخوپوری کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے تفسیر ودروس کے ذریعہ خدمت قرآن کواپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا، بلکہ یوں کہا جائے تومبالغہ نہ ہوگا کہ قرآن کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی، آخری دور میں ان پرتفسیر قرآن کا اس قدر غلبہ ہوا کہ جامعة الرشید سے علیحدگی کوترجیح دی اور اس کے قریب ہی گلشن معمار کی جامع مسجد توابین کو اپنا مرکز بنالیا ،یہاں انہوں نے درس قرآن کا ایک حلقہ تیار کرلیا، مولانا درسِ قرآن کے لیے ملک بھر میں دورے کرتے رہے، حتی کہ قرآن کے عنوان سے بیرونی ممالک کے بھی دورے فرمانے لگے تھے، آپ کے ایک مداح کے بقول ملک اور بیرون ملک درس قرآن کے حوالہ سے آپ کوسند سمجھا جانے لگا، جامع مسجد توابین میں مدارس کے طلبہ کے لیے الگ سے درس قرآن کی تربیت شروع کردی تھی، درس قرآن کے لیے آپ کوجوبھی اور جس جگہ کے لیے بھی دعوت دیتا بلاتأمل تشریف لے جاتے تھے، جامعہ الرشید کے شعبہٴ تخصصات کی جانب سے مختلف کورسیز کا اہتمام کیا جاتا تھا، تقریباً ہر کورس کے آغاز پر آپ کومدعو کیا جاتا اور آپ خندہ پیشانی سے تشریف لے جاتے؛ جہاں تک تحریری صلاحیتوں کا تعلق ہے تویہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو کے آپ ایک صاحبِ طرز ادیب تھے، آپ کے مضامین میں بلا کی ادبی چاشنی اور بے پناہ تاثیر ہوتی تھی، آپ ایک کہنہ مشق صحافی اور مقبول کالم نگار تھے، تقریباً دس سال تک آپ اپنے ملک کے ایک ہفت روزہ کے لیے ”پکار“ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے، جوبے حد مقبول تھا، آپ کا شروع کیا گیا اسلامی سائٹ درسِ قرآن وحدیث کا شمار دنیا کے ان چند اسلامی سائٹس میں ہوتا ہے جوسب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں، جس کے قارئین لاکھوں میں ہیں اس سائٹ پرملک کے چوٹی کے علماء کے بیانات کے علاوہ خود مولانا اسلم شیخوپوری کے انتہائی موٴثر مضامین شائع ہوتے ہیں، مولانا کی تحریر اس قدر دل آویز ہوتی کہ ایک مرتبہ اگر کسی قاری کی نظر سے گذرتی تووہ گرویدہ ہوکر رہ جاتا مولانا کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں موجود تھے، مولانا کے ایک عقیدت مند کے بقول مولانا کا شمار ان چند علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے بہت مختصر وقت میں بہت زیادہ کام کیا اور ان کے کام کوپذیرائی بھی ملی، ان کی یہی مقبولیت تھی جس نے ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر کوانھیں شہید کرنے پرمجبور کیا؛ لیکن ایسے عناصر کوجاننا چاہیے کہ اسلم شیخوپوری کی شہادت سے ان کا مشن ختم نہیں ہوتا ان سے کسبِ فیض کرنے والے ہزاروں علماء ہیں جو ان کے مشن کوآگے بڑھائیں گے۔

حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ کی مقبول سائٹ دینِ اسلام ڈاٹ کام پرمولانا اسلم شیخوپوری سے متعلق شائع شدہ مضمون میں مولانا پرحملہ کی وجوہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ داعیٴ قرآن مولانا اسلم شیخوپوری جیسے معذور عالمِ دین کواس لیے شہید کیا گیا کہ وہ قرآن کے حقیقی پیغام سے لوگوں کوروشناس کرتے تھے، مولانا کی شہادت ماضی کے علماء کی شہادتوں کا تسلسل ہے اور ان کے قاتلوں کے پسِ پردہ وہی عالمی اور مقامی کردار ہیں جن کا مقصد ملک کے اندر لادینیت کا فروغ اور اسلام پسندوں کوختم کرنے کی مذموم سازش ہے، اس لیے یہ اسلام اور ملک دشمن عناصر ہراس عالم کونشانہ بناتے ہیں جس کوعوام میں پذیرائی ملتی ہے اور ان کی تحریر وتقریر سے عوام اصلاح کی طرف گام زن ہوجاتے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے مختصر خطبہ میں کہا کہ یہ مولانا اسلم شیخوپوری کے لیے سعادت ہے کہ ساری زندگی قرآن وحدیث میں مصروف رہے اور شہادت بھی پائی توقرآنی خدمت کے دوران ؛ جہاں تک اوصاف واخلاق کا تعلق ہے توان کے مستفیدین کے بقول وہ انتہائی بے ضرر انسان تھے ،معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے کسی شخص سے انہیں کوئی رنج نہیں، ہمیشہ صاف دل ہوتے ان کی گفتگو اور تحریر سے کسی کا دل نہیں دکھتا، طلبہ کواپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے، کوئی شرپسند سوال کرتا تو اس کا جواب بڑی متانت سے ارشاد فرماتے، شرافت ان میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی، انھوں نے آج تک کسی کا دل نہیں دکھایا، کسی کے خلاف تحریک نہیں چلائی، وہ توامن کے داعی تھے، دھڑے بندیوں سے کوسوں دور رہتے تھے وہ صرف اور صرف قرآن کی بات کرتے تھے، انہوں نے کبھی خود کومنوانے کی کوشش نہیں کی، مولانا کے ایک عقیدت مند مولانا کے بارے میں اپنا تاثر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علم وعمل کے پیکر، عجز وانکساری کے خوگر، قرآن کے سائے تلے زندگی کی بہاریں بِتانے والے، تفسیر قرآن کوگلی گلی کوچہ کوچہ عام کرنے والے، گھر گھر میں قرآن کے پیغام کوپہنچانے والے، داعی قرآن کے نام سے پہچانے جانے والے، دونوں پیروں سے معذور اس فرشتہ صفت کو دنیا مولانا محمداسلم شیخوپوری شہید رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے۔ 
Flag Counter