Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

9 - 17
ایمانی زندگی اور صبر و ثبات
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

﴿یا ایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوٰة ان الله مع الصابرین، ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل الله اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون، ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین، الذین اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون، اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمة واولئک ھم المھتدون﴾․ ( البقرة: آیت:157-152)

”اے ایمان والو! مدد لو صبر سے او رنماز سے۔ بے شک الله صبر والوں کے ساتھ ہے اور ( دیکھو!) نہ کہو ان کو جو راہ خدا میں قتل کیے جائیں مُردہ۔ نہیں ، وہ زندہ ہیں ۔ پرتم اس کی حقیقت کو جانتے نہیں اور ( دیکھو!) ہم آزما کے رہیں گے تم کو کسی قدر خوف وخطر او ربھوک سے او رمال وجان اور پیداوار کے نقصانات سے ۔ اور خوش خبری دو ( اے نبی!) ان کو جو صبر کرکے دکھائیں، ( یعنی) وہ کہ جب بھی پہنچے ان کو، کوئی مصیبت ( اور نقصان) تو کہیں کہ ہم تو ( مع جان ومال) الله ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ جانے والے (ہی) ہیں۔ (خوش خبری دوان کو کہ) یہ وہ لوگ ہیں جن پر عنایتیں ہوں گی ان کے رب کی او ررحمت ۔ اور یہی ہیں کہ جو راہ یاب ہیں۔“

اس سے اوپر کی آیتوں کے سلسلے میں جہاں قبلے کی تبدیلی کی بات آئی تھی ۔ وہاں یہ بھی ذکر آگیا تھا کہ تبدیلیٴ قبلہ کے ایک ماہ یا زیادہ سے زیادہ دو ماہ بعد کفر او رایمان کا وہ معرکہ پیش آیا تھا جو غزوہ بدر کے نام سے اسلامی تاریخ میں یاد گار ہے ۔ آج کی یہ آیتیں جن میں قتال فی سبیل الله اور شہادت کی بات آئی ہے اور صبر وثبات سے کام لینے کی تلقین اور اس کے فضائل کا بیان ہوا ہے ، ان آیتوں کے بارے میں ایک روایت آتی ہے ، جسے تفسیر روح المعانی میں حضرت ابن عباس کے حوالے سے درج کیا گیا ہے ، کہ یہ آیتیں اسی معرکے او راس کے شہداء کے تعلق سے نازل ہوئیں۔ آیتوں کے مضمون سے یہ بات قرین قیاس بھی ہے ۔ معرکہ بدر ہی وہ پہلا موقع تھا جہاں سے کفر واسلام کے درمیان باقاعدہ صف آرائی او رجنگ وقتال کا آغاز ہوا او راب اس کا سلسلہ سالہا سال تک دراز ہونا تھا۔ نہیں، بلکہ قیامت تک پتہ نہیں کتنے معرکے تقدیر کے پردے میں تھے۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس نئے دور کے آغاز پر اس کی مناسبت سے ہدایت نازل فرمائی جائے ۔ پس فرمایا کہ اے ایمان والو! تمہیں اس موقع پر جو چیز سب سے زیادہ کام دینے والی ہے وہ ہے صبر او راس کے ساتھ پھر نماز ۔ یہ دو چیزیں ہیں ان سے تم مدد حاصل کرو تو تمہاری کمر بڑی مضبوط ہو گی۔

صبر کا مفہوم او راس کی اہمیت
صبر کے معنی ثابت قدمی ، مضبوطی ، برداشت اور مخالف وناخوش گوار حالات میں جمے رہنے کے ہیں اور یہ چیز آدمی کی قوت ارادی اور (Will Power) پر موقوف ہے ۔ بلکہ کہیے کہ ول پاور ( قوت ارادی) سے کام لینے ہی کا نام صبر وثبات ہے اور اس طرح صبر وثبات کو آدمی کا اولین ہتھیار قرار دے کر الله تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی میں قوت ارادی کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت فرما دی ہے ۔ قرآن پاک کی رو سے اس کائنات میں سب سے بڑی کار فرما قوت ارادہ الہٰی ہے اوراس کے بعد او راس کے نیچے ارادے کی وہ قوت اور طاقت ہے جو الله تبارک وتعالی نے انسان کو بخشی ہے ۔ ایک طرف وہ حقیقی معجزے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے ارادے اور حکم سے پیغمبروں کے ہاتھوں پر رونما ہوتے رہے ہیں او ردوسری طرف یہ انسانی ارادوں ہی کے ”معجزے“ ہیں جو بعض انسانوں کے محیر العقول (Astonishing) کارناموں کی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ارادے ہی کی قوت سے دراصل آدمی آدمی ہے ۔ ورنہ فقط ایک بُلبُلا ہے، پانی کا۔

قرآن پاک میں صبر کا مادہ (Root) مختلف صرفی (Deritive) شکلوں میں غالباً ایک سو ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔ ان میں سے صرف نو یا دس جگہیں ایسی ہیں جہاں اس کا مفہوم کچھ ایسا ہے جیسے مفہوم میں یہ لفظ ہماری زبان او رہمارے محاورے میں استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی کسی زیادتی کے مقابلے میں بالارادہ یا بہ مجبوری خاموش رہ جانا، اسے سہہ جانا، یا ہر مرض اور قدرتی آفات ومصائب پر جزع فزع نہ کرنا، الله کی مرضی پر راضی رہنا ، باقی تمام مقامات پر کسی نہ کسی شکل میں اس کا مفہوم وہی ہے، مشکلات ، ناموافق حالات اورمخالف طاقتوں نیز نفسانی کمزوریوں کے مقابلے میں مضبوطی او رپامردی سے کام لینا۔ اور اس کے بارے میں ایک جگہ تو قرآن پاک میں ہمیں صاف لفظو ں میں لکھ کر دے دیا ہے کہ یہ صبر ہی وہ عامل ( Factor) ہے جو جنگ کے میدان میں ”باذن الله“ فتح کی راہ کھولتا ہے ﴿فان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین﴾۔ (الانفال:65) (پس اگر تم میں بیس صبر کی صفت والے ہوں تو وہ غالب ہوں الله کے حکم سے دو سو پر) اور ایک جگہ تو اس لفظ کے استعمال کی ایسی بھی آئی ہے کہ وہاں اگر پامردی اور مضبوطی سے بھی آگے بڑھ کر دلیری اور جیوٹ کا لفظ استعمال نہ کریں تو موقع کا حق نہیں ادا ہوتا۔ دوزخ میں لے جانے والے کاموں پر دلیر لوگوں کا ذکرکرتے ہوئے بانداز تعجب فرمایا گیا ہے ۔ ﴿فما اصبرھم علی النار﴾ (البقرہ:175) (کیسے دلیر ہیں یہ لوگ آگ پر کیسی جیوٹ ان لوگوں میں رکھی ہوئی ہے آگ کی برادشت پر !) اپنے اندر کی (یعنی نفسانی) کمزوریوں کے مقابلے میں ارادے کی مضبوطی سے کام لینے کے لیے لفظ صبر کا استعمال مثال کے طور پر سورة البقرہ ہی کی اس آیت میں ہوا ہے جہاں بنی اسرائیل کو تلقین فرمائی جاری ہے کہ نفسانی خواہشات کے دباؤ سے نکل کر اسلام قبول کریں۔ فرمایا گیا ہے: ﴿واستعینوا بالصبر والصلوة وانھا لکبیرة الا علی الخاشعین﴾․(البقرہ:45)

”اور مدد لو صبر سے او رنماز سے۔ اور بے شک یہ بہت بھاری ہے، مگر ان پر جو خوف ( آخرت) رکھنے والے ہیں۔“

یہ بات کہ یہاں صبر سے مراد نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ارادے کی قوت اور مضبوطی سے کام لینا ہے ۔ سورہ مریم کی آیت کے ذریعہ گویا منصوص (Manifest) ہو جاتا ہے ۔ فرمایا گیا ہے ﴿فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوٰة واتبعوا الشھوات﴾․ ( مریم:59)

”پھر ان کے بعد وہ نسل آئی جس نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشوں کی پیروی کی۔“

اس کار زار حیات میں صبر کی صفت بڑی فیصلہ کن قوت ہے او راس میں کافر ومومن کی کوئی تفریق نہیں ۔ البتہ مومن کو چوں کہ الله سے وہ رشتہ نصیب ہوتا ہے جو اس کے یہاں معتبر ہے اس لیے جب انسان اپنی قوت صبر کے استعمال کے ساتھ الله کی طرف بھی مدد کے لیے دیکھتا اور طلب گار ہوتا ہے تو پھر مومن کے صبر کی طاقت اس ” بیرونی “ امداد کے شامل ہو جانے سے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ : ﴿ کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن الله﴾

کتنی ہی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو غالب آگئیں بڑی جماعتوں پر، الله کے حکم سے ۔“

کامنظر سامنے آتا ہے ۔ او رآگے یہی آیت بتارہی ہے کہ ” الله کا یہ حکم“ صبر کے ساتھ مشروط ہے ۔

﴿والله مع الصابرین﴾․ ( البقرة:249)․ ” اور الله ساتھ ہے صبر وثبات والوں کے۔“ یعنی اصل کھیل صبر ہی کا ہے ۔ بس ضرورت اس کی ہے کہ مومن اس طاقت سے کام لینے میں بھی اپنے آپ کو الله کی مدد کا محتاج سمجھے اور جب اس کے استعمال کی ضرورت کا موقع آئے تو قرآن ہی کے سکھائے ہوئے الفاظ میں الله سے یوں طلب گار ہو۔ ﴿ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین﴾․(250)

”اے ہمارے رب! انڈیل دے ہم پر صبر اور جمادے ہمارے پاؤں اور غلبہ نصیب کر ہمیں اہل کفر پر۔“

اور اس طلب کی بہترین شکل نماز کے ذریعے الله کا در کھٹکھٹانا ہے۔ بس اس لیے ہدایت فرمائی گئی:﴿ واستعینوا بالصبر والصلوٰة﴾․ او رمدد لو صبر سے اور نماز سے۔“ اور یقین دلایا گیا کہ ﴿ان الله مع الصابرین﴾․

آگے فرمایا گیا: ﴿ولا تقولوا لمن یقتل…﴾( اور راہ خدا میں کام آجانے والوں کو مردہ نہ کہو ۔ بلکہ وہ زندہ ہیں ۔ البتہ تمہیں اس حقیقت کا شعور نہیں۔) اس سے پہلی آیت میں ثابت قدمی دکھانے کی بات تھی ۔ لیکن جب یہ ثابت قدمی میدان جنگ میں ہو تو جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔ پس اب بات اس مرحلے کی شروع ہوتی ہے کہ اگر الله کی راہ میں ثابت قدمی اور جواں مردی موت کی منزل سے گزار دے تو یہ موت ”موت“ کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو مردہ او رمیت (جمع اموات) مت کہو۔ کیوں کہ انہوں نے ظاہر کی موت کے اس پردے میں ایک بڑی شان دار زندگی پالی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ زندگی تمہارے ادراک (Perception) کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ تم اپنے کسی حاسے ( Sense) سے اس کا پتہ پا نہیں سکتے۔

اس زندگی کی خصوصیت
اسلامی عقیدے کے رو سے ہر موت کے بعدایک دوسری زندگی شروع ہو جاتی ہے ۔ جسے برزخی زندگی کہا جاتا ہے ، یہ موت سے قیامت تک کے دور کی ایک کیفیت ہے ۔ لیکن وہ عام کیفیت ایسی نہیں ہوتی کہ اسے واقعی ”زندگی“ کہا جاسکے۔ یہ شہدائے کرام کا اعزاز ہے کہ انہیں اس دور میں بھی زندگی کے بعض خاص آثار وعلامات والی ”زندگی“ نصیب ہوتی ہے ۔ چنا ں چہ قرآن پاک میں دوسری جگہ جہاں شہداء کی زندگی کا مضمون آتا ہے۔ وہاں ﴿بل احیاء﴾ ( نہیں ، بلکہ وہ زندہ ہیں ) کے ساتھ عندربھم یرزقون﴾ ( اپنے رب کے پاس رزق وروزی پاتے ہیں) کے الفاظ بھی آئے ہیں، جو ان کی برزخی زندگی کا دوسرے لوگوں کی زندگی سے فرق بتاتے ہیں ۔ اور یہ صرف رزق وروزی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ وہ اس دور زندگی میں پارہے ہیں۔ اسی موقع پر آگے فرمایا گیا﴿فرحین بما آتاھم الله من فضلہ﴾․(آل عمران:169-170) ( شاداں وفرحاں ہیں ان نعمتوں پر کہ جو وہ الله کے فضل سے پار ہے ہیں) ان قرآنی اشاروں کے علاوہ حدیث میں اچھی خاصی تفصیلات بھی ان نعمتوں اور اعزاز وکرام کی آتی ہیں اور اس سب کی روشنی میں یہ کہنا بالکل حق اور بے مبالغہ نظر آتا ہے کہ راہ خدا کے یہ جاں نثار اپنے مالک کے حضور ایک اعلیٰ تر زندگی سے ہم کنار ہیں۔

بلکہ اس آسمانی معاملے کی صداقت کا تو ایسا عکس اس دنیا پر پڑا ہے کہ اسلام کے وہ نام لیوا بھی بے شمار ملیں گے جنہیں قرآن کی کوئی او ربات یاد ہو یا نہ ہو، یہ ضرور دل کی گہرائیوں سے یاد ہے کہ الله کی راہ میں جان دینے والے مردہ نہیں ہوتے۔

ایمانی زندگی اور آزمائشیں
معلوم ہوتا ہے یہ اوپر کی آیتیں تمہید تھیں آگے آنے والی آیتوں کی، جن میں فرمایا گیا اور آگاہی دی گئی کہ ایمان ہے تو اس کے ساتھ آزمائشیں لگی رہیں گی۔ (خاص طور سے اس کے ابتدائی دور میں فرمایا گیا :﴿ولنبلونکم بشیءٍ من الخوف والجوع﴾… (اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کسی قدر بھوک، پیاس، خوف وخطر او رنقصان جان ومال سے ۔) پس ان میں جو ثابت قدم رہیں گے وہ اپنے انجام کے لیے بشارت او رخوش خبری کے حق دار ہیں ۔ ﴿فبشر الصابرین﴾․

بشارت کس بات کی ؟
وہ کیا چیز ہے جو ان نقصانات او رمصیبتوں پر صبر اور ثابت قدمی کے بدلے میں یہ لوگ پائیں گے ؟ ﴿صلوات من ربھم ورحمة﴾ (اپنے رب کی عنایتیں او ررحمت اس کے صلے میں ملے گی ﴿اولئک ھم المھتدون﴾( اوران کانام ہدایت پا جانے والوں میں درج ہو گا) اور یہی وہ چیز ہے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی سب سے بڑی سعادت اورکام یابی ہے۔ مگر ابھی بات مکمل نہیں ہوئی ۔صبر واستقامت اور ثابت قدمی، جس پر الله کی رحمت وعنایت کا یہ صلہ مرتب ہو گا وہ جب ہو گا جب اس کی روح یہ ہو کہ : ﴿اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون﴾ کہ جب بھی ان پر ان آزمائشی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو ان کے دل وزبان سے نکلتا ہے کہ ہم تو الله ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا بھی ہے۔

یعنی صرف صبر واستقامت کا خول نہ ہو، اس کے اندر للہیت اوربندگی کی روح ہونی چاہیے، ورنہ کتنا بھی مضبوط خول ہو۔ کیسی ہی بہادری اور جواں مردی آدمی دکھائے۔ اس کے حصے میں ہدایت یابی کی کیفیت نہیں آئے گی اور الله کی نظر عنایت ورحمت ا س کا نصیب نہیں ۔ ایک غزوہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ ”بڑا زبردست رن پڑا او ربالاخر اہل اسلام اور اہل کفر دونوں اپنے اپنے پڑاؤ کی طرف پلٹے۔ مگر مسلم صف کا ایک آدمی پلٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کفار کے منتشر افراد کا پیچھا کرنے میں سر گرم تھا۔ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا، حضور! آج فلاں نے جو جان بازی دکھائی اس کا جواب نہیں۔ آپ نے اس کا نام سن کر فرمایا ”انہ من اھل النار“ مگر وہ دوزخی ہے۔ صحابہ چونک پڑے او رعرض گزار ہوئے کہ حضرت! اگر یہ آدمی دوزخی ہے تو پھرجتنی ہم میں سے کون ہو سکے گا؟ ایک صحابی نے خاموشی سے فیصلہ کیا کہ میں پلٹ کر جاؤں او راس آدمی کا پیچھا کرو۔ شاید کوئی ایسی بات سامنے آجائے جس سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کا راز کھلے! یہ پیچھے لگ گئے اور پھر پلٹ کر آئے کہ یا رسول الله! میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ الله کے رسول ہیں۔ میں اس شخص کے پیچھے لگا۔ اس کی جرأت کے کارنامے دیکھتا رہا۔حتی کہ وہ زخمی ہوا تو پھر اس کی ساری جرات جواب دے گئی۔ اس نے زخم کی تکلیف سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنی تلوار کی نوک اپنے سینے میں اتار لی “۔ ( صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہٴ خیبر) یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ، حدیث شریف کے مطابق ، الله کی رضا اورجنت کی طلب میں نہیں، بلکہ قومی اور جماعتی غیرت کے جذبے سے یامحض نام وری کے شوق میں جاں بازی دکھاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے آں حضرت صلی الله وسلم کا ارشاد ہے، جو اس واقعے کے بارے میں بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ( جنت میں تو صرف مومن ومسلم ہی جائے گا، مگر)”ان الله لیؤید الدین بالرجل الفاجر․“ ( کتاب الجھاد)

”الله تعالیٰ اپنے دین کی خدمت فاجروں اور نافرمانوں سے بھی لیتا ہے۔“

پس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ الله نے جس طرح دنیا کی کام یابیوں کا عام قانون عقل کے ساتھ صبر، محنت او راستقامت کو بنایا ہے، بالکل یہی بات دین کی بھی ہے۔ اس لیے کہ یہ دین فطرت ہے ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو 23 برس مکے کی آزمائشوں او رمدینے کی جاں بازیوں میں ہر گز نہ گزارنے پڑتے۔ دین ودنیا کے مسئلے کا فرق صرف یہ ہے کہ دین میں کام یابی کی راہ جب کھلتی ہے جب صبر ومحنت کا نشانہ صرف الله کی رضا او رجنت کی طلب ہو۔ اسی سے ﴿صلوات من ربھم ورحمة﴾ کی منزل ہاتھ آتی ہے او راسی سے ہم ﴿ھم المھتدون﴾ کا مقام ملتا ہے۔ اور اسی کا نام دین میں کام یابی ہے۔

﴿اللھم اجعلنا من المھتدین والصابرین والشاکرین، والحمد لله رب العالمین﴾․
Flag Counter