Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

3 - 17
بلند ہمّتی فلاح و کامرانی کی خِشتِ اوّل
مولانا حذیفہ وستانوی

﴿واذکر عبادنا إبراہیم و إسحاق ویعقوب أولی الأیدی والأبصار إنا أخلصناہم بخالصة ذکری الدار﴾․

اللہ رب العزت کا جتنا بھی ہم شکر ادا کریں کم ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ایمان اور علم کی دولت سے، خاص طور پر علم دین کی دولت سے مالا مال کیا ، اچھے انسان کی ہمیشہ یہ آرزو اور تمنا ہوا کرتی ہے کہ وہ دنیامیں کوئی ایسا کام کر جائے کہ جس کے کر نے سے یہاں سے چلے جانے کے بعداور اس کی موت کے بعد بھی دنیا اسے یاد کر تی رہے اور یہ تمنا اور آرزو کوئی غلط چیز نہیں ہے،کیوں کہ جب قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے کارناموں کا تذکرہ کیا تو اس کے بعد اللہ نے ان کے ساتھ ایک انعام اور ایک وعدہ یہ بھی کیاکہ ہم آپ کے بعد آپ کا ذکر خیر چھوڑیں گے کہ دنیا میں لوگ آپ کو بھلائی سے یاد کرتے رہیں گے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کی بڑی تعداد ہے؛ ہر زمانہ میں انسان پیدا ہوتے رہے۔ اب یہ لازم اور ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی ایسا کام کر جائے کہ جس کے کرنے سے اس کا ذکر خیر اس دنیا میں رائج اور عام ہو، البتہ حضرت آدم علیہ الصلوٰة و السلام سے لے کرآج تک، ہر زمانہ میں سنت اللہ یہ رہی کہ بہر حال کچھ لوگ ضرور ایسے ہوا کرتے ہیں جو انتہائی عظیم کارناموں کو انجام دینے کی وجہ سے اپنی زندگی میں بھی یاد کیے جاتے ہیں، اور اپنے مرنے کے بعد بھی، وہ اپنے پیچھے ذکر خیر چھوڑ جاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان دنیا میں اپنا ذکر خیر چھوڑنے کے لیے کون سی صورت اپنائے، کون سا طریقہ اختیار کرے ،جس کی بنا پراللہ رب العزت بھی اس کے لیے یہ فیصلہ کردے کہ اس کے مرنے کے بعد قیامت تک اس کا ذکر خیر ہوتا رہے؟ تو اس سلسلہ میں قرآن پاک ہماری بھر پو را رہنمائی کرتا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم ہمیں وہ اوصاف و کمالات بتاتا ہے ، جن کی بنا پر آج بھی لاکھوں کروڑوں برس پہلے گذرے ہوئے انسانوں کے تذکرے زندہ ہی نہیں، بلکہ قابلِ تقلید بھی ہیں۔

جو آیت کریمہ اوپر پیش کی گئی اس کی تفسیر میں امام ابن القیم الجوزی، جو بڑی جان دار اور شان دار کتابوں کے مصنف گذرے ہیں، جو ابن تیمیہ کے تلمیذ تھے، فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: ﴿واذکر عبادنا إبراہیم واسحاق ویعقوب أولی الأیدی و الأبصار﴾ ”واذکر“ اور یادکیجیے ”عبادنا“ ہمارے بندو ں میں سے ”إبراہیم واسحاق و یعقوب“کو، جو دو اہم صفات کے حامل تھے : ایک یہ کہ وہ صاحب علم وبصیرت تھے اور دوسرے یہ کہ وہ بلند ہمتی اور جواں مردی سے متصف تھے۔

ابن القیم الجوزی فرماتے ہیں کہ قرآن ان الفاظ کے ذریعہ یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ انسان میں اگر یہ دو وصف پائے جائیں توانسان ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچ سکتا ہے،وہ ایسے کارناموں کو انجام دے سکتا ہے کہ جن کی وجہ سے اللہ رب العز ت دنیا اور آخرت میں اس کے لیے سرخ روئی مقدر فرما دیتے ہیں۔ بہرحال ان قدسی صفات بزرگوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ صاحب علم و بصیرت تھے؛ لہٰذا انسان میں پہلی چیز علم اور بصیرت کا ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ حق اور باطل، خیر وشر، حلال اور حرام، جائز وناجائزمیں تمیز کر سکے اور اسے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ چیز حق ہے اور یہ چیز باطل، یہ چیز خیر ہے اور یہ چیز شر، یہ چیز مفید ہے یہ چیز مضر، اس چیز کا دنیا اور آخرت میں یہ فائد ہ ہو سکتا ہے اور اس چیز کا دنیا اور آخرت میں یہ نقصان۔ ”والأبصار“سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔

اور دوسری صفت کی طرف ”اولی الایدی“سے اشارہ ہے، فرمایا کہ وہ قوت، طاقت، بلند فکری اور بلند ہمتی کے مالک تھے، جس کو عربی زبان میں”علو الہمة “ کہاجاتا ہے۔

مطلب یہ کہ ایک آدمی کو حق اور باطل کا علم ہے، وہ حق اور باطل اور شر اور خیر میں تمیز کرتا ہے، اس کے انجام بد اور انجام خیر کو جانتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس میں ایسی ہمت اور طاقت کا ہونا ضروری ہے کہ اس ہمت اور طاقت کے بل بوتے پرکیسے ہی برے حالات اُس پر آجائیں وہ حق کو حق جان کر حق کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گا۔ آج مسلمانوں کو،بالخصوص علما و مدارس کے طلبا کو اس چیز کی نہایت ضرورت ہے کہ وہ سستی اورغفلت کا شکار نہ ہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی کامیابی کا راز اللہ رب العزت نے بیان کیا، حضرت یعقوب کی کامیابی کا راز اللہ نے بیان کیا، حضرت اسحق کی کامیابی کا راز بیان کیا کہ یہ لوگ وہ تھے جو الابصار یعنی دین ، حلال و حرام اور حق و باطل کے بارے میں خوب اچھی طرح معرفت رکھتے تھے، وہ انبیا تھے، کیسے ان کو معرفت نہیں ہوسکتی تھی،تو دوسری طرف ان میں یہ صفت تھی کہ وہ حق کو نافذ کرنے کے لیے کیسی بھی قربانی کیو ں نہ ہو، اس کے لیے وہ تیار تھے، یعنی وہ بلند ہمتی کے حامل تھے،تو معلوم ہو ا کہ انسان کے اندر دو اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔

انسانوں کی چا ر قسمیں
امام ابن القیم الجوزی فرماتے ہیں، حق اور باطل کو جاننے اور حق کو باطل پر ترجیح دینے کے اعتبار سے انسان کی کل چار قسمیں ہیں:

سب سے پہلی قسم تو وہ ہے کہ ہر زمانہ میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو حق اور باطل کو خوب جانتے ہیں،ان کو اس کا علم ہوتاہے اور ان کے اندر وہ جرأت اور طاقت بھی ہوتی ہے، کہ وہ کسی بھی صورت میں حق کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ چاہے اس کے لیے اپنا مال کھپانا پڑے، یا اپنی عزت کو قربان کرنا پڑے،خواہ اس کے لیے اپنی دولت کی قربانی دینی پڑے، یا اپنی اولاد کی۔ غرضیکہ اپنی کسی بھی محبوب سے محبوب چیز کو قربان کرنا پڑے، وہ حق بیانی اور حق کی ترویج و تنفیذ کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، تو یہ ہے انسانوں کی سب سے اعلیٰ ترین جماعت۔

دوسری وہ جماعت ہوتی ہے،جو اس کے برعکس ، نہ تو اسے حق کا علم ہوتا ہے،نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ حق ہے اور یہ باطل اور نہ اسے یہ پتہ ہو تا ہے کہ یہ خیر ہے اور یہ شر اور نہ اسے یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ اچھا ہے اور یہ برا، اسے کوئی علم نہیں ہوتا، بلکہ وہ جاہل ہوتا ہے اور نہ اس کے پا س بلند ہمتی ہوتی ہے،جب وہ حق کو جانتا ہی نہیں تو وہ حق کو نافذ کرنے کی کوشش کیسے کر پائے گا؟یہ انسانوں کی سب سے کمترو ارذل ترین جماعت ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ رب العزت کے یہاں ان کی کوئی عزت نہیں،چاہے وہ کتنے ہی حسین اور جمیل کیوں نہ ہو، چاہے کتنے ہی مال کے مالک، کتنی ہی دولت اور کتنی ہی عزت اور کتنی ہی ڈگریاں اپنے پاس رکھتے ہوں، مگر یہ دو چیزیں ان کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے، وہ عند اللہ سب سے ارذل ترین جماعت میں شامل ہیں۔

تیسر ی قسم انسانوں کی وہ ہوتی ہے،جو حق اور باطل کا علم رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اور یہ باطل، مگر ان کے اندر حق اور باطل کو نافذ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ، جس کو ”الموٴمن الضعیف“ کہا جائے، تو یہ اس کے لیے صحیح تعبیر ہے، وہ ڈرتا رہتا ہے ،وہ اپنے اندر جرات نہیں رکھتا ، یہ آدمی بھی ٹھیک ہے، مگر بہت زیادہ ٹھیک نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ” الموٴمن القوی خیر من الموٴمن الضعیف“․

امام ابن القیم الجوزی نے بڑا جاندار استدلال فرمایا، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا،قوی مومن‘ ضعیف مومن سے اچھا ہے۔ تو قوت سے یہاں جسمانی قوت مراد نہیں ہے،ہمارے طلبہ جسمانی ورزش پر توجہ دیتے ہیں، اس کو سب کچھ سمجھتے ہیں،یہاں وہ ورزش والی طاقت مراد نہیں ہے، بعض طلبہ تو اس کے لیے مدرسہ کی چیزیں بلااجازت استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے وہ قوت بھی حاصل ہو تو کوئی کام کی نہیں، کیوں؟ اس لیے کہ آپ نے جس طریقہ سے قوت حاصل کرنے کی کوشش کی وہ ناجائز طریقہ ہے،آپ کو مدرسہ نے سیمنٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، آپ کو مدرسہ نے سریے (Rods) کے استعمال کی اجازت نہیں دی، تو ظاہر بات ہے اس سے جو قوت حاصل ہو اس قوت کا بھی کوئی فائدہ نہیں،ایسی قوت سے کچھ ہوتا نہیں ، اللہ کے یہاں ایسی قوت کا کوئی خیا ل اور لحاظ نہیں، اللہ ایسی قوت کو پسند نہیں کرتا۔

بہر حال یہ بات بیچ میں آگئی، کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہمیں الموٴمن القوی بننے کی کوشش کرنی چاہیے یعنی حق او ر باطل کو جاننے کے بعد ہر حالت میں حق کو بیان کرنا، حق کو نافذ کرنا ہمارا فریضہ ہونا چاہیے۔

چوتھی قسم انسانوں کی یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقت اور ہمت بہت رکھتے ہیں، مگر انہیں حق اور باطل کا علم ہی نہیں کہ کیا حق ہے اور کیا باطل؟ فرمایا اس میں اور دوسری قسم میں کوئی فرق نہیں، اس لیے کہ وہ اپنی طاقت کو استعمال کرے گا، باطل کے لیے اور اس کو یہ پتہ ہی نہیں کہ میں حق کے لیے استعمال کر رہا ہوں یا باطل کے لیے۔

اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارا شمار کس جماعت میں ہے، ہم اللہ سے دعا کریں کہ اللہ رب العزت ہمیں آیت کریمہ:﴿اولی الأیدی والأبصار﴾ کے مطابق علم وبصیرت اور نفاذ حق کی صلاحیت دے کر پہلی جماعت میں شامل فرمالے ۔ آمین!

پہلی جماعت میں شامل ہونے کا طریقہ
ابن القیم الجوزی قرآن اور حدیث کو گھول کر پی گئے تھے، اسی لیے آگے اس کا بھی طریقہ بیان فرماتے ہیں، یہ جوکچھ وہ بیان کر رہے تھے، ایسا لگتا ہے کہ درحقیقت ان کی زبان نہیں بول رہی ہے ،بلکہ قرآن وحدیث کا نور بول رہا ہے۔ بہر حال ان کے بقول کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے: ارادہ علم۔ جب ارادہ ہوگاتو آدمی علم کی طرف جائے گا اور جب علم حاصل ہوجائے تو اب کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ اس میں مہارت و رسوخ پیدا ہو۔ فرماتے ہیں کہ علم میں مہارت اس وقت پیدا ہوگی، جب کہ آدمی طلب علم کے زمانہ میں ہمت سے کام لے، وہ راتوں کو جاگنے سے پیچھے نہ ہٹے، وہ بھوکا رہنے سے گھبرائے نہیں، وہ آنے والے مصائب کے لیے تیا ر رہے، لیکن اپنے مقصد میں لگا رہے، دنیا کی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھیے، ابھی عرب ممالک اور یورپین ممالک میں ہندسة الحیاة و صناعة التأثیر کے عنوان سے مستقل کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اند ر صلاحیتیں کس طرح پیدا کرے، اپنی ذات کو کس طرح نکھارے اور کس طرح بلند مقام تک پہنچنے کی کوشش کرے،اور اس کے لیے کون ساطریقہ اختیار کرے؛ اس سلسلہ میں عرب علما کی کتابیں زیادہ معتبر ہیں؛ اس لیے کہ وہ قر آن وحدیث کی روشنی میں لکھ رہے ہیں؛ مثال کے طور پر مشہور عربی عالم” علی الحمادی“ ہیں، ان کی اس عنوان پربڑی جاندار تصنیف”مہندسو الحیاة و صناع التأثیر․․ من ہم؟“کے نام سے ہے، انہوں نے اپنی اس کتاب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے؛ فرمایا کہ انسان اپنے اندر بلند ہمتی کیسے پیدا کرے؟ اس وقت دنیا میں انسان بہت ساری غلط فہمیوں کا شکار ہے،سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی جماعت‘ یہ سمجھ بیٹھی ہے کہدنیا کے اندر عزت اور مقام اسی کو حاصل ہو تاہے جس کے پاس پیسہ ہو؛ یہ غلط ہے۔ ہم نے ایسے انسانوں کے بارے میں تواریخ میں پڑھا ہے، جن کے پاس ایک روپیہ نہیں تھا، مگر ان کو ایسی عزت ملی کہ بعد کے لوگ اس مقام تک پہنچنے سے قاصر رہے، باوجو داسباب وسائل ہونے کے۔

مثلاً خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا حال تو ہم جانتے ہی ہیں، کون مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فقیرانہ و زاہدانہ زندگی سے ناواقف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر، اختیاری تھا،اللہ نے تو فرمایا تھا،کہ اے میرے حبیب! اگر آپ چاہیں تو پہاڑوں کوہم سونا بنادیں، بعض احادیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنی أخاف علی أمتی المال۔میں اپنی امت پر مال سے ڈرتا ہوں۔لا أخاف الفقرمجھے فقر سے ڈر نہیں۔فقر رہے گا تو یہ اچھے رہیں گے،لیکن مال آئے گا تو یہ طغیانی اور سرکشی پر اتر آئیں گے۔ آج امت ان ہی حالات سے دو چار ہے؛امت کے پاس مال ہے،دولت ہے،مگر اس کے ساتھ ساتھ طغیانی، بے دینی اور لادینیت ہے۔اس طرح کی چیزیں ایسی عام ہو چکی ہیں کہ جس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے ۔ تو بہر حال وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے کہ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈگریاں ہوں توانسان کو بہت اونچا مقام ملتا ہے،حالاں کہ ہم نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں ، پھر بھی اللہ رب العز ت نے ان کو عزت سے سرفراز کیا۔

اور بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان حسین اور جمیل ہو، انسان ذرا مضبوط اور قوی ہو، اس صورت میں اس کو عزت حاصل ہوتی ہے۔ فرمایا انسان کو عزت حاصل کرنے کے لیے، حسن وجمال کی بھی ضرورت نہیں، انسان کو عزت حاصل کرنے کے لیے،کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں، انسان کو عزت حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت اخلاص و للہیت کی ہے، اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتے ہوئے،تن‘ من‘ دھن کی بازی لگا دے۔

پھر آپ نے عجیب وغریب مثال بیان فرمائی،حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں سے بہت سارے صحابہ کو آپ دیکھیں گے،کہ وہ جسمانی طور پر بڑے عیب دار،مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان کا بڑا اونچا مقام تھا۔ حضرت بلال حبشی کو ہی لے لیجیے ،آپ بالکل سیاہ تھے، مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قربانیوں کی وجہ سے موٴذن بنادیا، کیسی ہمت تھی حضر ت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی، ان کو گرم ریت کے اوپر اونٹ سے گھسیٹا جاتا تھا او ر پوچھا جاتا تھا کہ بلال بتاؤ کہ تمہارا رب کون ہے؟ وہ فرماتے ”احد‘ احد“ اللہ ایک ہے، ایک ہے۔میرا رب اللہ ہی ہو سکتا ہے اور کوئی میرا رب نہیں ہو سکتا،یہاں تک کہ ان کو انگا روں پر ڈالا جاتا تھا، آپ نے صبر سے کام لیا،تو اسی صبر نے حضرت بلال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موٴذن بنادیا،صرف اتنا ہی نہیں، اللہ کے نزدیک ان کا مقا م دیکھیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں جنت میں گیا، تو بلال آگے چل رہے تھے،حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا کہ اے بلال! کس چیز نے تمہیں یہاں تک پہنچا دیا؟ کہا کہ میں تحیة الوضو اور تحیة المسجد کا التزام کرتا ہوں اور ہم لوگ زندگی میں کبھی نہیں پڑھتے،یہ حضرت بلال کا عمل ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسی چیز نے تم کو آگے کر دیا،انسان جتنی زیادہ نفل عبادتیں کرتاہے،اتنا زیادہ اللہ کا مقرب بنتا ہے،اللہ کا تقرب اسے حاصل ہوتا ہے، ان کویہ عزت اور بلندی کہاں سے ملی؟ مال سے ، ڈگری سے یا حسن وجمال سے؟!!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے موٴذن حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ہیں ،آپ بھی ضریر البصرتھے،نابیناتھے،ان کو دکھائی نہیں دیتا تھا،مگر ان کی بلند ہمتی کا ا ندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ فرماتے ہیں، قادسیہ کے موقع پر جب ہم لوگ جہادکے لیے مدینہ سے نکلنے لگے، تو عبداللہ بن ام مکتوم ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے بھی ساتھ لے لو، ہم نے کہا کہ آپ نابینا ہیں، آپ کیا کریں گے؟ کہا کہ میں ایک کام کر سکتا ہوں، تم کو میدان میں اسلامی جھنڈے کو پکڑنے کے لیے ایک آدمی چاہیے اور اس کے لیے ایسا آدمی ہونا چاہیے جو بھاگے نہیں، مجھے دکھائی نہیں دیتا، میں بھاگ نہیں سکتا ہوں، لہٰذا میں جھنڈا لے کر کھڑا ہو جاوٴں گا اور اس جھنڈے کو پکڑ ے رہوں گا، چاہے میری جان چلی جائے، لیکن میں بھاگنے والا تو ہوں نہیں۔ ہم نے ان کو سمجھایا،لیکن وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوئے،یہاں تک کہ میدان قادسیہ میں ہمارے ساتھ تشریف لے گئے اور بڑی بلند ہمتی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی، اس جنگ میں کافروں کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھی ۔

ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے، وہ بھی نابینا تھے، ان کو کسی نے بتایا کہ ایک یہودی عورت ہے،جو مدینہ منورہ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتی ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی ہے،ان کی غیرت نے گوارا نہیں کیا،انہوں نے کہا کہ میں اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کروں گا۔ صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! تم کو تو دکھائی نہیں دیتا،تو پھر بھی کہا کہ میں اس کو قتل کروں گا، صحابہ بھی حیران کہ یہ آدمی کیا کہتا ہے؟ ایک رات اس کے گھر میں داخل ہوگئے اور اس عورت کو قتل کر دیا اور صحیح سلامت باہر آئے،صحابہ حیران تھے پوچھا کہ آپ کیسے گئے؟ کہاکہ میں دیوار کو ٹٹولتے ٹٹولتے پہنچا، جب میں پہنچا تو بچے رونے لگے تو وہ عورت دوڑتے ہوئے پاس آئی میں سمجھ گیا کہ یہی وہ عورت ہے،میں نے اس پر حملہ کیا،بعد میں تحقیق کرنے پر معلوم ہو ا کہ اسی عورت کو قتل کیا، یہ ہے بلند ہمتی۔ جب آدمی کوئی کام کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو کوئی چیز اس کے لیے مانع نہیں ہوتی،لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علم اپنے لیے ایک نقطہ کو متعین کرلے کہ مجھ کو محدث بننا ہے،مجھے فقیہ بننا ہے، مجھے عالم بننا ہے، مجھے امام بنناہے،مجھے پیشوا بننا ہے، تو پھر اس کو سامنے رکھ کر وہ محنت کرے؛ ضرور بضرور وہ اپنے مقصد تک پہنچے گا۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، المسئلة الأولی: في أن الساب یقتل… الخ ،ص:78، المکتبة العصریة)

آپ نے اما م عطا بن ابی رباح کانام سنا ہوگا، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ انسانوں میں جتنے جسمانی ہو سکتے ہیں، وہ تمام نقص ان کے اندر پائے جاتے تھے۔بال گھنگھریالے تھے، چہرا سیاہ تھا، نا ک چپٹی تھی،ایک ہاتھ ان کا شل ہو گیا تھا،پاوٴں سے لنگڑے تھے،لیکن فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کے بعد مکہ مکرمہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے،وکان افقہ الناس بمکة و کان أعلم الناس بالمناسک فرماتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں حج کے احکام کو سب سے زیادہ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ عطا بن ابی رباح ہیں۔ حالاں کہ جتنے جسمانی نقص انسان میں ہو سکتے ہیں، وہ ان میں تھے۔

ہم اور آپ جانتے ہیں کہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتنے جلیل القدر صحابی ہیں، جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أعلمہم بالحلال و الحرام۔ میری امت میں حلال اور حرام کا سب سے زیادہ جاننے والا معاذ بن جبل ہے۔ 19سال کی عمر ہے، 19 سال کی عمر میں ایسی زبردست فقاہت تھی کہ حضور نے ان کی فقاہت کا اعتراف کیا اور حضور کے ہوتے ہوئے ان کو فتوی دینے کی اجازت حاصل تھی،لیکن ان کے بارے میں آتا ہے: وکان أعرج۔ کہ آپ پاوٴں سے لنگڑے تھے۔ حضرت عمربن خطاب فرمایا کرتے تھے،میرے بعد اگر معاذ بن جبل زندہ رہے تو میں ان ہی کو خلیفہ بناوٴں گا؛ لیکن طاعون عمواس میں حضرت عمر کی زندگی ہی میں وہ شہید ہو گئے۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ بڑے جلیل القدر صحابی تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے: من دھاة العرب، یعنی عرب کے انتہائی فطین اور ذہین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تین لوگوں کو دھاة العرب کہا جا تا تھا-معاویة بن ابی سفیان، مغیرہ بن شعبہ اور عمرو بن العاص۔

احنف بن قیس کے بارے میں آتاہے کہ کئی جسمانی نقائص ان کے اندر پائے جاتے تھے، ایک تو ٹھگنے تھے، ان کا منھ عجیب و غریب تھا، ان کے دانت اوپر تھے،ان کی ٹھوڑی بالکل ٹیڑھی تھی، وہ آنکھ سے اعور (کانے) تھے، مگر وکان ابین الناس،انسانی تاریخ میں ان سے بہترین خطاب کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ احنف بن قیس ایک آواز لگا دے، تو ایک لاکھ انسان اپنی تلواروں کو نیام سے باہر نکال دیں؛ ایسے صاحب اللسان تھے، توجسمانی طور پر معیوب ہونا، ان کی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔

اندلس کو فتح کرنے والے، طارق بن زیاد کے آقا موسی بن نُصیر، کے بارے میں آتا ہے کہ جس وقت وہ طارق بن زیاد کے ساتھ وہاں پہنچے اس وقت ان کی عمر80 سال کی تھی اور انہوں نے وہاں کھڑے ہو کر کہا میں نے 40 سال کی عمر سے لے کر آج 80سال کی عمر تک ، ایک بار بھی شکست نہیں کھائی اور نہ کبھی مجھے شکست کا خیا ل گذرا، اس کے بعد بھی وہ 13 سال زندہ رہے؛ فرماتے ہیں کہ53 سال تک آپ اسلامی فوج کے سپہ سالار رہے،مگر اس 53 سالہ زندگی میں ایک مرتبہ بھی اسلامی لشکر کو شکست نہیں ہوئی، 93سال کی عمر تک لڑتے رہے، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار مثالیں آپ کو تاریخ میں مل جائیں گی۔

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی کی بات ہے، شیخ یٰسین نامی فلسطین کے بہت بڑے عالم تھے، ان کوچار پانچ سال پہلے شہید کیا گیا، وہ سب سے پہلے فلسطین میں تحریک انتفاضہ لے کرکھڑے ہوئے کہ فلسطین کو آزاد کرو، ہم بیت المقدس میں آزادانہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں، حالاں کہ وہ دونوں پاوٴں سے معذور تھے، دونوں ہاتھ شل تھے، وہ صرف اپنی گردن ہلا سکتے تھے، اس کے علاوہ ان کا بدن نہیں ہلتا تھا،میں نے خود آپ کی تصویروں کو دیکھا ہے کہ پورا بدن آپ کا شل تھا،صرف آپ کی گردن حرکت کرتی تھی، اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز حرکت نہیں کرتی تھی، لیکن اس سب کے باوجود فلسطین کی بہت بڑی اسلامی یونیورسٹی ”جامعة الغزا“ کے نام سے آپ نے قائم کی؛ مزید براں 50 کے قریب دواخانے تعمیرکروائے او ر اس کے علاوہ ایک بہت بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ فلسطینی عوام کو یہودیوں کے خلاف جہادپر آمادہ کردیا ، اس کے لیے مستقل ایک تنظیم ”حرکة الحماس“ کی بنیاد رکھی ، یہ انسان کی ہمت ہے جو اسے کہا ں سے کہاں لے جاتی ہے۔

مزید برآں علم کے میدان میں بھی ہمارے علماء نے کیسی قربانیاں دیں، حاکم جو المستدرک کے مصنف ہیں، جنہوں نے المستدرک علی الصحیحین کتاب لکھی، اس میں ایسی حدیثوں کو جمع کیا جو امام مسلم اور بخاری کے شرائط کے مطابق تھیں،یعنی امام بخاری نے جب اپنی کتاب کو لکھا تو چند شرائط متعین کیے کیں میں اپنی کتاب میں ایسی ایسی حدیثوں کو بیان کروں گا،لیکن بہت ساری احادیث ان کے کتاب میں نہیں آسکیں، چھوٹ گئیں، امام مسلم نے بھی یہی طریقہ اپنایا، تو وہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوری دنیا میں گھوم گھوم کر علم حدیث کو حاصل کیا اور90 سال کی عمر ہوئی،تو کہا کہ مجھے ایسی کتاب لکھنی ہے،جس میں بخاری اور مسلم میں چھوٹی ہوئی تمام حدیثیں آجائیں، جو شرائط میں ان ہی حدیثوں کی مطابق ہوں، تو المستدرک علی الصحیحین کے نام سے انہوں نے تقریباً 15 جلدوں میں اپنی زندگی کی 90بہاروں کے گذرنے کے بعد، جب 91سال میں قدم رکھاتب لکھنا شروع کیا اور2سال میں اس تصنیف کو مکمل کیا ۔

امام صادق الرافعی عربی زبان کے بہت بڑے ادیب گذرے ہیں۔ 15۔20 سال پہلے ان کا انتقال ہوا،”وحی القلم“ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ہے، جس میں انہوں نے ان اعتراضات کے تشفی بخش جوابات دیے ہیں جو مستشرقین اور اسلام دشمنوں کی طرف سے قرآن کریم اور احادیث رسول پر وارد ہوتے ہیں۔ حالاں کہ ان کے بارے میں آتا ہے، وکان أصم آپ کان سے بہرے تھے۔تو معلوم ہو ا کسی کا بہرا ہونا، کسی کااندھا ہونا،کسی کا لنگڑا اور لولا ہونا، کسی کا بدصورت ہونا،انسان کو بلند مقام تک پہنچنے سے مانع نہیں بنتا،لیکن کب؟ جب انسان اپنے ہدف کو متعین کرنے کے بعد اس کے لیے مکمل کوشاں ہو جائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بہت سارے ایسے تلامذہ ہیں جو آپ کے ساتھ تیس تیس سال تک رہے؛ امام ابو یوسف کے بارے میں آپ بارہا سن چکے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے ساتھ آپ 17 سال تک رہے اور بعض روایتوں میں 20 سال تک رہے اور کبھی بھی آپ کی ایک نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ فوت نہیں ہوئی، کیوں کہ ہر نماز کے بعد اما م صاحب کادرس ہوتا تھا،آپ برابر درس میں حاضر ہو تے تھے، تو درس میں حاضر ہونا، محنت کرنا،بلند ہمتی کا اپنے آپ کو حامل بنانا، سستی اورغفلت کو پس پشت ڈالنا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو بلند مقام تک پہنچا دیتی ہے۔

عبداللہ بن محمد، عراق کے فقیہ ہیں، جنہوں نے کتاب المغنی جو 20 جلد وں پر مشتمل ہیں‘ کا 23 مرتبہ مطالعہ کیا۔نعیم المجمر،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں 20 سال تک رہے۔عبداللہ بن نافع، امام مالک کی خدمت میں 35 سال رہے۔ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں نے 50 سال تک اپنے استاذ ابراہیم حربی کی کوئی نحو وصرف کی مجلس نہیں چھوڑی۔ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ میرے استاذ امام احمد لاکھوں حدیثوں کے حافظ تھے۔ مکحول فرماتے ہیں کہ میں نے طلب علم کے لیے پوری روئے زمین کی خاک چھان ڈالی۔امام بخاری فرماتے ہیں میں نے ایک لاکھ اساتذہ سے حدیثیں لیں اور ہرہر استاذ سے دس دس ہزار۔

بلند ہمتی اللہ کی مدد کا محور !!!
لیکن اس قید خانہ سے رہائی پانے کے لیے انسان کوبلند ہمتی سے رہنا پڑے گا۔ اللہ تعالی بلند ہمتی کو پسند فرماتے ہیں، بلند ہمت انسان کے ساتھ اللہ کی مددہوتی ہے، بلکہ خود اللہ تعالی بلند ہمت مرد مومن کے ساتھ ہوتے ہیں۔

خدااس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔
جب انسان بلند ہمتی کامظاہرہ کرتاہے تو پھر بدر میں مٹھی بھر جماعت مسلح لشکر جرار کوخاک آلودکردیا کرتی ہے ،سینکڑوں من وزنی دروازہ ایک نیزہ کی نوک سے اکھڑ جایا کرتا ہے، نعرئہ تکبیر کی گونج سے قیصروکسری کے بلند وبالا قلعے زمین بوس ہوجایا کرتے ہیں۔ جب مرد مجاہد اللہ کی مدد کے ساتھ اٹھتا ہے تو دریاوٴں اور طوفانی موجوں کوراستہ دینا پڑ تاہے۔ میرے آقا صلی الله علیہ وسلم کے سپاہیوں کے لیے درندوں کو بھی جنگل خالی کرنا پڑا۔ حضرت شرحبیل ایک دبلے پتلے صحابی ہیں۔ ایک جنگ کے موقع پر ایک قلعہ کئی دن سے فتح نہیں ہورہا تھا۔ ایک دن اس مرد قلندر کا یہ جذبہ ایمانی جوش میں آتاہے، اپنا گھوڑادوڑاکر اکیلے اس قلعہ کے پاس جاتے ہیں اورتین مرتبہ بلند آواز سے نعرئہ تکبیر بلند کرتے ہیں اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر! پورے کاپورا قلعہ زمین بوس ہوجاتاہے۔ یہ قلبی جمعیت تھی، تعلق باللہ تھا، قوت باللہ تھی، قوت ایمانی تھی کہ قوی ہیکل اورناقابل تسخیر قلعہ بھی مجاہد کے نعرئہ تکبیر کے سامنے نہ ٹہر سکا۔ جی ہا ں! ایسا ہوتاہے، مگر شرط یہ ہے کہ بندہ کی طرف سے قوت ایمانی کے ساتھ ساتھ ہمت وعزم وارادہ اور محنت بھی ہو۔ (ماہنامہ راہ عافیت جلد نمبر :7ص 36)

لہٰذا ہمارے طلبہ غفلت کا، سستی کا اور پست ہمتی کا شکار نہ بنیں، انسان جب اپنے لیے کوئی ہدف متعین کرلے کہ مجھے فلا ں مقام تک پہنچنا ہے، فلاں کام کرناہے،تو ﴿و من یتق اللّہ یجعل لہ مخرجًا﴾کے مطابق آپ کے لیے وعدہ ہے، آپ بھی اپنا ہدف متعین کر لیجیے، کہ مجھے ادیب بننا ہے،مجھے محدث بننا ہے، مجھے فقیہ بننا ہے اور پھر اسی اعتبار سے آپ تیاری شروع کر دیجیے! پھر دیکھیے اللہ رب العزت آپ کے علم میں کیسی برکتیں عطا فرماتے ہیں۔

اخیر میں اللہ رب العزت سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ایسی ہمت عطا فرمائے جیسی ان لوگوں کو عطا کی گئی تھی اور اللہ رب العزت ہمیں علم نافع کی دولت سے مالا مال فرمائے اور ہم سے راضی ہوجائے۔ آمین!
Flag Counter