Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

4 - 17
کسبِ حلال کے انسانی زندگی پر اثرات
ڈاکٹر بشیر احمد رند

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان نے اس دھرتی پر اپنی ضرورتیں لے کر قدم رکھا ہے ۔ کھانے کے لیے غذا، پینے کے لیے پانی، پہننے کے لیے لباس، گرمی، سردی، بارش اور طوفان سے بچنے کے لیے گھر، انسان کی بنیادی ضرورتیں ( Basic Needs) ہیں۔ اور اس کے زندہ رہنے کا دارومدار ان ضرورتوں کے پورے ہونے پر رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح حسن پسندی کی حس بھی انسانی فطرت میں داخل ہے، جس کے تحت وہ ہر چیز میں حسن اور خوبی کو پسند کرتا ہے۔ ایسے ہی سہولت اور آسائش پسندی بھی انسانی مزاج کا حصہ ہے، جس کے لیے وہ ہمیشہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق خالقِ کائنات نے سب بنیادی ضرورتیں، سہولتیں، آسائشیں اور زیبائش کی چیزیں اس دھرتی میں پیدا کر رکھی ہیں ، جیسے قرآن مجید کا ارشاد ہے ﴿ وجعلنالکم فیھا معایش ومن لستم لہ برازقین﴾․

”ہم نے تمہارے لیے رزق کے وسائل پیدا کر دیے ہیں اوران کے لیے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے۔“

﴿والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینة ویخلق ما لا تعلمون﴾․

”الله تعالیٰ نے گھوڑے، خچر اورگدھے تمہاری سواری کے لیے بنائے ہیں اور زیب وزینت کی چیزیں بھی اور ایسی چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں۔“

﴿وھو الذی مد الارض وجعل فیھا رواسی وانھاراً ومن کل الثمرات جعل فیھا زوجین اثنین﴾․

” الله وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اس میں پہاڑ پیدا کیے اورنہریں جاری کیں اور ہر طرح کے پھل دو دو قسم کے پیدا کیے۔“

﴿رزقاً للعباد﴾․”بندوں کی روزی کے لیے“۔

معلوم ہوا کہ انسان کے وسائل رزق اس دھرتی پر موجود ہیں، لیکن اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص خود جدوجہد کرکے ان وسائل کو حاصل کرے، پھر ان سے اپنی ضرورتیں اورجائز خواہشیں پوری کرے، جس طرح مندرجہ ذیل آیات، احادیث اور سلف صالحین کے اقوال اور کردار سے ظاہر ہے۔

آیات
﴿فاذا قضیتم الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل الله﴾․

”نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور الله کا فضل یعنی رزق تلاش کرو۔“

﴿ان الذین تعبدون من دون الله لا یملکون لکم رزقا فابتغوا عندالله الرزق﴾․

”الله کے سوا جن کو تم پوجتے ہو وہ تمہارے رزق کے مالک نہیں، اس لیے الله سے ہی ( اس کے حکم کے مطابق) رزق تلاش کرو۔“

﴿واٰخرون یضربون فی الارض یتبغون من فضل الله﴾․

” اورکتنے دوسرے لوگ (بھی قابل تعریف ہیں) جو الله کے فضل یعنی رزق تلاش کرنے کے لیے زمین میں سفر کرتے ہیں۔“

مذکورہ آیات سے واضح ہے کہ الله تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندے فریضہٴ عبادت کی ادائیگی کے بعد رزق کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اورالله تعالیٰ ان بندوں کی تعریف کرتے ہیں جو حصول رزق کے لیے دھرتی پر سفر کرتے ہیں۔

احادیث
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کسب الحلال فریضة بعد الفریضة“․ ” رزقِ حلال کی تلاش فریضہ عبادت کے بعد اہم فرض ہے۔“ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے لیے اوراپنے اہل وعیال کے لیے حلال رزق تلاش کرو، یہ بھی جہاد فی سبیل الله ہے ۔“ ایک اور روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی بھی کھانا نہیں ، الله کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔“

حضرت عبدالله بن عباس انبیاء علیہم السلام کے کاروبار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” داؤد علیہ السلام زر ہیں بنایا کرتے تھے، آدم علیہ السلام زراعت کرتے تھے، نوح علیہ السلام بڑھئیکا کام کرتے تھے اورادریس علیہ السلام درزی تھے اورموسی علیہ السلام بکریاں چراتے تھے۔“

کسب حلال کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اصحاب کرام نے عرض کیا: اے الله کے رسول ! کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ حدیث کے راوی سوید کہتے ہیں : آپ صلی الله علیہ وسلم ہر بکری ایک قیراط (1.8 رتی سونا) کے عوض چراتے تھے۔

جب الله تعالیٰ کے آخری پیغمبر بکریاں چراتے ہوں اور وہ بھی اپنی نہیں، بلکہ محنت اوراجرت پر، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کسب حلال کو کتنی اہمیت دیتا ہے اوراسے عظمت بخشتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس عمل میں امت کے لیے درس ہے کہ عظمت محنت میں ہے بیکار بیٹھنے یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں نہیں۔ یہی سبب ہے، کہ اصحابِ کرام کی نظر میں بھی کسبِ حلال کی بہت بڑی اہمیت تھی، جیسا کہ ذیل کے واقعات سے ظاہر ہے:

سلف صالحین کے اقوال اوران کا طرزِ عمل
ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں کہ :” جب حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ مقرر کیا گیا توانہوں نے دوسرے دن کپڑوں کی گٹھڑی سر پر رکھ کر بازار کا رخ کیا ،راستے میں حضرت عمر فاروق  اور ابوعبیدہ بن الجراح ملے، جنہوں نے کہا: آپ کو تو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا ہے ، آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ حضرت ابو بکر صدیق نے کہا: ( اگر کاروبار نہ کروں) تو پھر اپنے اہل وعیال کی کفالت کیسے کروں؟ انہوں نے کہا، ہم آپ کے لیے بیت المال سے تنخواہ مقرر کرتے ہیں، پھر انہوں نے ان کے لیے آدھی بکری روزانہ ( بطور تنخواہ) مقرر کی“۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق  نے جو خطبہ دیا ام المؤمنین حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق اس کے الفاظ یہ تھے : ” میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا کاروبار میرے اہل وعیال کی کفالت کے لیے کم نہیں تھا، مگر چوں کہ مجھے مسلمانوں کے معاملات سنبھالنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اس لیے اب میرے اہل وعیال سرکاری خزانے سے کھائیں گے اور میں ( اپنا پورا وقت) مسلمانوں کے لیے کام کروں گا۔“

اسلامی تاریخ میں حضرت عمرفاروق  کی جو حیثیت ہے وہ کسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ، ان کے ہاں کسب حلال کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ ان کے مندرجہ ذیل ارشادات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

ایک موقعہ پر کسب رزق کی ترغیب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی رزق کی تلاش چھوڑ کر بیٹھا نہ رہے اور بیٹھا دعائیں مانگے کہ یا رب! مجھے رزق عطا کر، کیوں کہ تمہیں معلوم ہے کہ آسمان سے سونے چاندی کی بارش نہیں برستی( بلکہ یہ سب کچھ جدوجہد سے حاصل ہوتا ہے)۔“ آپ کسی کو کسبِ رزق کے سلسلہ میں مصروف دیکھ کربہت خوش ہوتے تھے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ زید بن مسلمہ کو اپنے باغ میں کام کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:” تم اچھا کام کر رہے ہو ، لوگوں سے بے نیاز رہو ، اس طرح تمہارا دین بھی محفوظ رہے گا اور لوگوں کے سامنے تمہارا وقار بھی باقی رہے گا۔“ آپ کے پاس کسبِ رزق کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ آپ کی اس خواہش سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جس کا اظہار کرتے ہوئے آپ  نے فرمایا:”جہاد فی سبیل الله کے علاوہ اور کسی حالت میں مجھے مرنا اتنا پسند نہیں جتنا اس حالت میں کہ میں رزق کی تلاش میں اونٹنی پر سوار ہوں اورموت آکر مجھے پکڑے“۔ پھر دلیل میں آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿واٰخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل الله﴾ ” دوسرے وہ لوگ ہوں گے جو تلاشِ رزق میں زمین پر سفر کر رہے ہوں گے۔“ مطلب یہ کہ جہاد کے میدان کے بعد آپ  کو تلاشِ رزق کے میدان میں مرنا پسند تھا، اس لیے کہ اوپر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات گزرے کہ کسب حلال کے لیے جدوجہد بھی جہاد فی سبیل الله ہے۔ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ :” میں کوئی آدمی دیکھتا ہوں جو (صحت مند ہونے کی وجہ سے) مجھے بہت پسند آتا ہے، لیکن جب میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ کوئی کام کاج کرتا ہے؟ پھر جب لوگ کہتے ہیں کہ نہیں ، تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے، یعنی میں پھر اسے نظر اٹھا کر دیکھنے کے لائق بھی نہیں سمجھتا۔“

اسی طرح حضرت عثمان رضی الله عنہ دورِ جاہلیت میں اور اسلام والے دور میں بھی تجارت کرتے تھے، وہ اپنا مال شرکت مضاربت یعنی نفع میں آدھے کی بنیاد پر ( تجارت کے لیے) دیتے تھے۔

آپ کے کاروبار کی وسعت اور دولت مندی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ : ” جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنگ تبوک میں مسلمانوں سے مالی تعاون کی اپیل کی تو اس وقت حضرت عثمان نے تین سو اونٹ اور ایک ہزار دینار آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے ۔“ جو بہت بڑے سرمائے کا ثبوت ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے پاس کاروبار کی کیا اہمیت تھی؟

اسی طرح خلیفہ راشد،دامادِ رسول حضرت علی المرتضیٰ بھی باقی تین خلفاء کی طرح اور دوسرے صحابہ کرام کی طرح اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے اپنی روزی خود حاصل کرتے تھے۔ آپ کا معاشی ذریعہ عام طور پر زراعت تھا، جیسے امام بخاری امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ : حضرت علی ، سعد بن مالک، عبدالله بن مسعود، عمر بن عبدالعزیز، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، اولاد عمر ،اولاد علی اور امام محمد بن سیرین رضی الله عنہم یہ سب زراعت کے ذریعے روزی حاصل کرتے تھے۔

حضرت ابو سلیمان دارانی  کسبِ حلال کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” ہمارے ہاں عبادت اس چیز کا نام نہیں کہ تم ہاتھ پیر باندھ کر عبادت کے لیے کھڑے رہو اور دوسرے لوگ تمہیں کھلاتے پلاتے رہیں ، پہلے دوروٹیاں حاصل کرو، پھر عبادت کرو۔“

کسبِ رزق کی تاکید کا سبب
کسبِ رزق کے سلسلہ میں مندرجہ بالا اسلامی تعلیمات سے معلوم ہواکہ اسلام نے کسب رزق کو بہت بڑی اہمیت دی ہے اوراس کے لیے اپنے پیروکاروں کو بہت تاکید کی ہے ۔ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی خوش حالی انسان کے عقیدہ ، ایمان ، اخلاق اور کردار ، فکر اور فہم پر بہت مثبت اثر چھوڑتی ہے، جب کہ معاشی بد حالی اس کے برعکس انسانی عقیدہ ، اخلاق، فکر اور فہم پر بہت منفی اثر چھوڑتی ہے ،اس لیے اسلام اپنے پیروکار کو جائز طریقہ سے جدوجہد کرکے معاشی خو ش حالی حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے اورا س کے لیے بہت ترغیبات دیتا ہے ۔ ذیل میں ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ معاشی بد حالی کی وجہ سے انسان کے عقیدہ ، ایمان ،ا خلاق اورکردار ، فکر اور فہم پر کیا منفی اثرات پڑتے ہیں ؟

انسانی عقیدہ پر بھوک اوربد حالی کا اثر
انسانی عقیدہ اور ایمان پر فقر اور فاقہ یا بھوک اوربد حالی کا کیا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ : ”کاد الفقر أن یکون کفرا“ کہ بھوک اوربد حالی انسان کو کفر کے قریب پہنچا دیتی ہے ۔“ یہی سبب ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بھوک اور بد حالی کو مصیبت سمجھتے ہوئے اس سے بچنے کے لیے ہمیشہ الله تعالیٰ سے پناہ مانگا کرتے تھے، جیسا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ان دعاؤں سے ظاہر ہے : ”اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر“․ ”یا الله! میں کفر اور بھوک اوربدحالی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ”اللھم انی اعوذبک من الفقر والقلة والذلة“․” یا الله! میں بھوک اوربد حالی، قلت یعنی مال کی کمی اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“

معلوم ہوا کہ بھوک اوربد حالی یا فقر وفاقہ ایسی مصیبت ہے جو انسان کو کفر کے قریب پہنچا دیتی ہے، ایسی صورت حال میں انسان کے لیے اپنے عقیدہ اورایمان کو بچانا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس سے بچنے کے لیے ہمیشہ الله تعالیٰ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

انسانی اخلاق وکردار پر بھوک اوربد حالی کا اثر
اسی طرح بھوک اور بد حالی انسانی اخلاق وکردار پر بھی منفی اثر چھوڑتی ہے، جیسے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھوک اوربد حالی کی شدت اور اس کی و جہ سے انسانی اخلاق وکردار پرپڑنے والے منفی اثر کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:”خذوا العطاء مادام عطاء، فاذا صار رشوة علیٰ الدین فلاتأخذوہ، ولستم بتاریکہ، تمنعکم الحاجة والفقر“ عطیہ جب تک عطیہ رہے لے لو۔ لیکن جب رشوت بن جائے تو مت لو ، لیکن تم اسے چھوڑتے ہوئے نظر نہیں آتے، کیوں کہ بھوک اوربد حالی تمہیں اسے چھوڑنے سے روک رہی ہے۔“

ایک تنگ دست قرض دار پر اس کا قرض اخلاقی اعتبار سے کتنا اثر انداز ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے : ”ان الرجل اذا غرم حدث فکذب ووعدفأ خلف“( رواہ ابوداود) جب کوئی شخص قرض دار ہو جاتا ہے ( اور تنگ دستی کی وجہ سے قرض ادا نہیں کر سکتا) تو باتوں میں جھوٹ بولتا ہے اوروعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے ۔“ اور یہ سب کچھ بھوک اوربدحالی کا منفی اثر ہے ۔

انسانی فکر وفہم پر بھوک اوربد حالی کا اثر
انسان کے عقیدہ، ایمان، اخلاق وکردار کے علاوہ بھوک اوربد حالی انسان کی فکر وفہم پر بھی برا اثر چھوڑتی ہے، ایک تنگ دست آدمی جس کو اپنے اہل وعیال کی ضروریات ِ زندگی میسر نہ ہوں وہ کیسے کوئی گہری بات سوچ سکتا ہے۔ امام محمد بن حسن شیبانی کے بارے میں منقول ہے کہ : ” ایک دن ان کی خادمہ نے کسی علمی مجلس میں انہیں اطلاع دی کہ گھر میں آٹا ختم ہو گیا ہے ، جس پر آپ نے فرمایا: الله تمہیں ہلاک کرے! تم نے میرے ذہن سے فقہ کے چالیس مسائل ضائع کر دیے ، امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ جس کے گھر میں آٹا نہ ہو اس سے مشورہ بھی نہ لینا، کیوں کہ وہ فکری طور پر پریشان ہوتا ہے، اس لیے اس کا مشورہ درست نہیں ہو سکتا۔“ ڈاکٹر یوسف القرضاوی فرماتے ہیں: ”نفسیات اس کی تصدیق اس طرح کرتی ہے کہ کوئی سخت جذبہ انسان کی سلامتی فکرو صحتِ رائے پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔“ تبہی تو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لایقضین حکم بین اثنین وھو غضبان“”قاضی یا ثالث جب غصہ کی حالت میں ہو تو ہر گز فیصلہ نہ کرے۔“ اس حدیث پر قیاس کرتے ہوئے فقہائے کرام نے فرمایا:”قاضی کسی پریشانی، بھوک یا طبعی تقاضا کے وقت کوئی فیصلہ نہ کرے،بلکہ اس کیفیت کے ازالے کے بعد فیصلہ کرے۔“

یہی سبب ہے کہ حضرت لقمان حکیم جیسے دانش ور نے اپنے بیٹے کو دوسری دانش ورانہ نصیحتوں کے ساتھ ایک نصیحت یہ بھی کی تھی کہ : ”اے بیٹے ! حلال کمائی کے ذریعے اپنی تنگ دستی دور کرنا، کیوں کہ جو تنگ دست ہوتا ہے اس میں تین باتیں پیدا ہوتی ہیں : ایک دینی کمزوری ، دوسری علمی کمزوری، تیسری خود داری کا چلا جانا اوراس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ لوگ اسے حقیر اوررذیل سمجھتے ہیں۔“

اسلام چوں کہ ایک مکمل نظام حیات ہے، وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کا عقیدہ ، ایمان ، اخلاق اور کردار، فکر اور فہم محفوظ رہے اور وہ چاہتا ہے کہ لوگ خود داری، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی بسر کریں اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب لوگ معاشی طور پر خو ش حال اورخو دکفیل ہوں ، اس لیے اسلام معاشی جدوجہد کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اورکسب رزق کو فریضہٴ عبادت کے بعد اہم فرض قرار دیتا ہے اوراس کے لیے بہت تاکید کرتا ہے اور ترغیبات دیتا ہے۔

حلال ذرائع سے رزق کا حصول اور حرام سے اجتناب
لیکن اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص جائز اورحلال ذرائع سے رزق حاصل کرے، ناجائز اور حرام ذرائع سے دور رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جائز ذرائع سے رزق حاصل کرے گا تو منافع کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر ہو گا، جس کی وجہ سے دوسرے فرد یا معاشرہ کو فائدہ پہنچے گا لیکن اگر کوئی شخص ناجائز ذرائع سے روزی حاصل کرے گا تو اس کا نقصان دوسرے فرد یا معاشرے کو ہو گا، جب کہ اسلام منافع کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر چاہتا ہے، وہ کسی بھی شخص کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے کسی فرد یا سماج کو نقصان دے۔ اس لیے اسلام ہر اس ذریعہ سے روزی حاصل کرنے کو حرام اورناجائز قرار دیتا ہے جس کے اختیار کرنے سے دوسرے فرد یا معاشرے کو جانی، مالی، دینی یا اخلاقی نقصان پہنچے، جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے:﴿یایھا الذین امنوا لاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارة عن تراض منکم﴾․” اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر نہ کھاؤ، سوائے اس کے کہ تمہارے درمیان تجارت ہو ،ایک دوسرے کی رضا مندی کے ساتھ۔“

حلال اور حرام کا اثر
اسلامی تعلیمات کے مطابق حلال خوری انسانی سیرت وکردار پر بہت زیادہ مثبت اثر چھوڑتی ہے، جب کہ حرام خوری بہت زیادہ منفی اثر چھوڑتی ہے، یہی سبب ہے کہ الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:﴿یٰایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا انی بما تعملون علیم﴾․” اے پیغمبرو! حلال اور پاک چیزوں سے کھاؤ اور اچھے اعمال کرو، بلاشبہ میں تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہوں۔“

اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:” الله تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو پہلے حلال اور طیب رزق کھانے کی ہدایت کی اورپھر اچھے اعمال کا حکم دیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال خوری نیک اعمال کے لیے مدد گار ہے۔“ علامہ مراغی فرماتے ہیں: نیک اعمال کا حکم دینے سے پہلے حلال کھانے کا حکم دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیک اعمال اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک حلال نہ کھایا جائے۔

سندھ کے مشہور عالم اورروحانی پیشوا مولانا عبدالکریم قریشی بیر والے  اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:” الله تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو پہلے حلال اور طیب رزق کھانے کی ہدایت کی اور پھر اچھے اعمال کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے اچھے اعمال تبھی ہوں گے جب وہ حلال کھائے گا۔ غذا کا اثر جیسے جسم پرپڑتا ہے ایسے روح پر بھی پڑتا ہے ، ظاہری چیزوں کا اثر انسان کے ظاہر جسم پر اورباطنی چیزوں کا اثر انسان کے باطن پر پڑتا ہے اور چوں کہ حلال اور حرام باطنی چیزیں ہیں، اس لیے وہ انسان کے باطن پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ حلال خوری انسان میں وہ روحانی قوت پیدا کرتی ہے جو دو ا انسان میں جسمانی طاقت پیدا کرتی ہے۔ ایک بوڑھا آدمی دھکے اور ٹھوکریں کھاتا ہوا نماز کے لیے مسجد میں پہنچتا ہے، جب کہ جسمانی طور پر ایک طاقت ور آدمی مسجد تک نہیں پہنچتا۔ فرق ظاہر ہے، پہلا شخص حلال کھاتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں روحانی قوت پیدا ہوتی ہے، جو اسے نیکی پر آمادہ کرتے ہوئے اسے مسجد تک لے آتی ہے اور دوسرا شخص حرام خوری کی وجہ سے روحانی طو رپر کمزو رہو چکا ہے ۔ اس سے نیکی کی قوت سلب ہو چکی ہوتی ہے ، اس لیے اسے نیکی کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ حلال میں وہ تاثیر ہے کہ اگر کافر بھی کھائے تو اسے روحانی فائدہ ہو گا، وہ کفر میں نرم ہو گا اور برائی کرنے میں اسے کچھ نہ کچھ حیا اور حجاب ہو گا۔ اور حرام میں ایک خاص اثر ہے، جو ہر کھانے والے پر پڑتا ہے ، چاہے کوئی جان بوجھ کر کھائے یا بے خبری میں، مسلمان کھائے یا غیر مسلم ، بہرحال حرام اپنااثر دکھائے گا، اس کی مثال ایسے سمجھیں جیسے سنکھیا، وہ ایک خاص اثر رکھتا ہے، جوبھی کھائے گا اسے جلابوں میں مبتلا کر ے گا، پھر وہ مرے گا یا مر مر کر بچے گا البتہ جان بوجھ کر کھائے گا اور مر جائے گا تو حرام موت مرے گا اور اس پر خود کشی کا گناہ ہو گا، لیکن اگر اسے کسی اور نے کھلایا ہو گا اوراسے خبر نہ پڑی اور وہ مر گیا تو شہید ہو گا، بہرحال سنکھیا تو اپنا اثر دکھائے گا، حرام بھی بالکل ایسا ہی ہے، جان بوجھ کر کھانے سے گناہ ہو گا، بے خبری میں کھانے سے گناہ تو نہیں ہو گا، لیکن وہ اپنا منفی اثرتو ضرور چھوڑے گا، ایک غیر مسلم بھی کھائے گا تو کفر میں اور بھی پکا ہو جائے گا، ایک مسلمان کھائے گا تو اس میں شوخی اور بے حیائی آئے گی، اچھی باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آئیں گی، اس سے نیکی کی قوت سلب ہو جائے گی، حرام کھاتے کھاتے اس کا دل اتنا سیاہ ہو جائے گا کہ کفر میں چلا جائے گا۔ یہ حرام کا اثر ہے اورحرام کا بہت منفی اثر ہے ۔“

یہی سبب ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص آپ صلی الله علیہ وسلم کو عرض کرتے ہیں کہ:” اے الله کے رسول ! میرے حق میں د عا فرمائیں کہ الله تعالیٰ میری ہر دعا قبول فرمائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے سعد! تم اپنا کھانا پاک اور حلال بناؤ تو الله تعالیٰ تمہاری ہر دعا قبول فرمائے گا۔“

ایک اورروایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :” جس نے پاک اور حلال کمائی سے ایک کھجور جتنی چیز صدقہ کی( اور الله تعالیٰ حلال اورپاک چیز کے علاوہ کوئی چیز بھی قبول نہیں کرتا) تو الله تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول فرماتے ہیں اوراسے مالک کے لیے پالتے ہیں، جیسے تم گھوڑے کے بچے پالتے ہو،یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ چیز پہاڑ جتنی وزنی اوربھاری ہو گی۔“

حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص چالیس دن تک حلال رزق کھاتا ہے الله تعالیٰ اس کے دل کو نورانیت سے بھر دیتا ہے اور اس کے دل سے زبان کی طرف حکمت اور دانش مندی کے چشمے جاری کر دیتا ہے۔“

حرام خوری کی نحوست کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ الله تعالیٰ عام طور پر مسافر اور پریشان حال شخص کی دعا قبول فرماتا ہے، لیکن ایسا شخص اگر حرام خور بھی ہو تو الله تعالیٰ رحیم اور کریم ہونے کہ باوجود ایسے شخص کی دعا قبول نہیں فرماتا، جیسے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ:”آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے ، اس کے بال بکھرے ہوئے اورمٹی آلود ہو تے ہیں، یعنی بظاہر اس کی حالت قابلِ رحم ہوتی ہے، وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے اوریا رب یا رب کہہ کر دعا مانگتا ہے، لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، اس کا گزر بسر ہی حرام پر ہوتا ہے تو بھلا ایسے آدمی کی دعا کہاں قبول ہو گی ؟“ ام المؤمنین اماں عائشہ کی نظر میں سب سے بڑی عبادت حرام خوری سے بچنا ہے، جیسے آپ کا ارشاد ہے:” تم سب عبادتوں میں سے افضل عبادت سے غافل ہو اور وہ ہے حرام سے بچنا۔“

حضرت عبدالله بن عمر نے فرمایا:” اگر آپ نماز پڑھتے پڑھتے کمان کی طرح کبڑے بن جائیں اور روزہ رکھتے رکھتے زِرہ کی طرح باریک اورپتلے ہو جائیں تب بھی الله تعالیٰ کے ہاں آپ کے یہ اعمال اس وقت تک قبول نہیں ہوں گے جب تک اپنے آپ کو حرام سے نہیں بچائیں گے۔“

حلال اورحرام ذرائع
رزق حاصل کرنے کے حلال اورجائز ذرائع بہت ہیں، ان میں سے چند اہم یہ ہیں:تجارت، زراعت، ملازمت، صنعت وحرفت اورمحنت مزدوری وغیرہ۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کے پیروکار جائز ذرائع سے روزی حاصل کرکے اپنی جائز ضرورتیں اورخواہشیں پوری کریں۔

اور رزق حاصل کرنے کے حرام اورناجائز ذرائع بہت ہیں، جن میں سے کچھ اہم یہ ہیں: چوری، لوٹ کھسوٹ، سود، قمار،ناپ تول میں کمی بیشی، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، حرام اورناجائز چیزوں کا کاروبار، جیسے شراب ، ہیروئن، یا دوسری نشہ آور چیزوں کا کاروبار، جسم فروشی کا کاروبار، وغیرہ۔ رزق حاصل کرنے کے ان سب ذرائع کو اسلام حرام اور ناجائز قرار دیتا ہے اوران سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔

خلاصہ
مذکورہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال کھانے سے نیکی کی توفیق ہوتی ہے، اچھے اخلاق جنم لیتے ہیں، برائی سے نفرت پیدا ہوتی ہے، گناہ مٹ جاتے ہیں اورالله تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی حاصل ہوتی ہے ، جس کے نتیجہ میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔ جب کہ حرام کھانے سے نیکی کی توفیق سلب ہوتی ہے، برائی آسان لگتی ہے، برے اخلاق جنم لیتے ہیں، نیک اعمال قبول نہیں ہوتے اور خدا کی ناراضگی نصیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں دوزخ مقدر بن جاتی ہے۔ اسی طرح مذکورہ اسلامی تعلیمات سے حلال کی برکت اور حرام کی بے برکتی واضح ہوتی ہے اور حلال اورحرام کے انسانی زندگی پر اثرات واضح ہو جاتے ہیں۔
Flag Counter