Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

11 - 17
بے حیائی کا سیلاب اورہمارا طرزِعمل! 	
محترم یرید احمد نعمانی

لاکھوں کامجمع ،ہزاروں کا انبوہ، صبح وشام شہر کی مرکزی شاہراؤں اورسڑکوں سے گزرکر اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتاہے۔ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے دماغ پر،اِس دوران سینکڑوں اچھے برے مناظر، بیسیوں ترغیبی اشتہارات اوردسیوں متنوع دعوتوں سے مزین وآراستہ جہازی سائز بورڈ ،بینرزاورنیون سائنزمختلف نقوش وتاثرات چھوڑجاتے ہیں۔موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی اعلی طبقے کی بیگمات وخواتین کو” نت نئے“اورموجودہ فیشن میں”اِن“ کپڑوں کی خریداری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اِس مقصد کے لیے متفرق ملکی کمپنیوں کی جانب سے کراچی،لاہور،اسلام آباد اورپشاور سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں آویزاں کیے جانے والے تشہیری بورڈ، ارض پاک پر حدود اللہ کی کھلم کھلا اوراعلانیہ پامالی وبے حرمتی پر منہ بولتا ثبوت ہیں۔ایک خالص اسلامی ونظریاتی ریاست ومملکت میں ہیجان خیز زاویوں،بے ہودہ تصویروں اورشہوت انگیز منظروں کا یوں منظرعام پرلگ جانا، خالصتاًغیظ ِخداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔اس تشہیری مہم کے پس منظر میں بھلااس کے سوا اورکون سی سوچ کا رفرما ہوسکتی ہے کہ اسلامیانِ پاکستان کے ایمان ودین کی تخریب واستیصال میں بھرپور حصہ لیا جائے؟رفتہ رفتہ غیر شعوری وغیر وجدانی طور پر شرم وحیا اورحجاب وتستر جیسی پاکیزہ وارفع اسلامی تعلیمات پر عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضروربنادیا جائے؟

اسلام فطری دین ہے۔انسان کی پیدائش سے لے کر بعدازمرگ آنے والے حالات ولمحات کے حوالے سے اس کی تعلیمات وراہنمائی مکمل، جامع اورکامل ہیں۔حیااورشرم جیسی اعلی قدریں اورخصلتیں ،اسلام نے ہی انسانیت وآدمیت کو سکھلائیں اورسمجھائیں۔نگاہوں کوجھکانے،شرم گاہوں کی حفاظت کرنے اوربے حیائی وبدکاری کی جگہوں کے قریب نہ جانے جیسے روشن ومنور احکامات وہدایات، دین متین ہی کا خاصہ اورحصہ ہیں۔خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ذخیرہ ٴ احادیث میں صراحتاًیہ بات ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار اورشرم رکھنے والے تھے۔نطق ِنبوت نے شرم ولحاظ کو ایما ن کا جز قرار دیا۔گویا کسی علاقے،مقام اورمحلے میں عریانیت وفحاشیت کا عام اورشائع ہوجانا ،وہاں اسلام کے نام لیواؤں میں ایمان کی کمزوری اورضعف کا بنیا دی اورکلیدی سبب ووسیلہ بن سکتاہے۔

اس کے برخلاف جو مسلمان قوم ،قبیلہ اورفرد بے حجابی اوربے پردگی کے حمام میں ننگاہوتاہے،شریعت مطہرہ اس کا مقام ومرتبہ اسفل سافلین بتلاتی ہے۔ایسے لوگ جو کلمہ پڑھ کر ،اسلامی نام رکھ کر اوراسلامی تہوارومواقع میں شریک ہونے کے باوجود ،مسلمانوں میں بے حیائی اوربدی کا سیلاب اوربے شرمی کا طوفان عام کرنا چاہتے ہیں ،کتاب مبین نے صاف صاف لفظوں میں ان کے لیے دنیا وعقبیٰ میں دردناک عذاب کی مبنی برحقیقت خبردے دی ہے۔نیز جو لوگ بیہودگی وناپسندیدگی کے اِن امور میں بلاواسطہ یا بالواسطہ معین ومددگار یا شریک ِکار بنتے ہیں ،اُن کی تذکیروخیرخواہی اورنصیحت کے لیے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کا یہ ملفوظ چشم کشابھی ہے اوربصیرت افروز بھی :

”معصیت اورگناہوں کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس کے سبب عتاب خداوندی نازل ہوتاہے۔اورجن پر ہوتاہے وہ تین قسم کے لوگ اورفرد ہیں۔پہلا،بلاواسطہ معصیت میں مبتلا شخص۔دوسرا،شرکت ومعاونت کرنے والا فرد؛اگرچہ وہ خود اس برائی سے بچاہواہو۔تیسرا،کارِمعصیت میں شریک تو نہیں، مگر ملامت ونفرت بھی نہیں ۔“(ملخصاً،ملفوظات حکیم الامت 73/2)

چناں چہ اس فتنہ پرور ماحول اورپرآشوب گھڑی میں دینی تعلیمات اورمذہبی اخلاقیات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر اورعام کرنے کی ضرورت وحاجت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔دین کے لٹیروں اورقزاقوں سے ایمان کی حفاظت وسلامتی، ہر صاحب ِایمان کا اولین دینی فریضہ اور ذمہ داری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بے لباسی اوربے حیائی کے اِس چنگھاڑتے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے ہر طبقے اورہر سطح میں،ہر حوالے سے موثراورنتیجہ خیز پیش بندی کی جائے۔شرم وحیا پر مبنی رویوں کی حوصلہ افزائی،زیر تربیت افراد ورجال کی اخلاقی ذہن سازی اورمعاشرتی واخلاقی بگاڑوفساد پیدا کرنے والے وسائل وذرائع کی مکمل بیخ کنی اوراُن سے اظہارِتنفرہی ،ہماری نسل نو کے معصوم ذہنوں ،نظروں اوردلوں کو روحانی پاکیزگی اورباطنی صفائی کا سامان مہیا کرسکتی ہے۔بلا شبہ حیا سے لبریز آنکھ اورستھرے جذبات کا عکاس قلب، ملک کی تعمیر اورقوم کی ترقی کا ضامن اورمثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بنتاہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُن سوچوں اورنظریات کا بھرپور مقاطعہ اوربائیکاٹ کریں،جو ہماری نوخیز پَود کو ایمانی حلاوت وچاشنی اور حرارت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ایسے تمام حیا باختہ اذہان اورایمان سوز افکار․․․․․ جو ہماری جڑوں اوربنیا دوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کررہے ہیں،جو مسلمانوں میں حق تعالی کی سرکشی وبغاوت کا مسموم زہر پھیلا رہے ہیں،جو اہل ایمان کو لذت کوش اورنفس پرست بنا کر ان کی” متاع عزیز“ پر ڈاکا ڈال رہے ہیں․․․․․ کی حوصلہ شکنی ،عدم پشت پناہی اوربے وقعتی کی فضا بنائی جائے۔برائی کو برائی سمجھنے کا احساس وشعور جب تک ہماری انفرادی واجتماعی فکروں ورویوں میں بیدار اورکروٹ نہیں لے گا،اُس وقت تک اِس ”بادصرصر“ کے ہلاکت خیز جھکڑوں سے بچاؤ ناممکن ومحال ہے۔

نیکی وتقوی ،غیرت حمیت اورلحاظ وشرم جیسی بلند انسانی صفات وعادات کو معاشرے میں فروغ ورواج دینے کے لیے ،ہم میں سے ہرایک کو پہلی اینٹ خود رکھنی ہوگی۔اصلاح ِمعاشرہ میں سب سے پہلا اوراول کردار خود ہمیں اداکرناہوگا۔پھر اپنی ذات ،اپنے خاندان اوراپنے کنبے سے شروع کی جانے والی یہ تحریک اورمہم بہت جلد یا بدیر انشاء اللہ تعالی اپنا اثر ورنگ دکھائے گی۔کیو ں کہ یہ قرآن کریم کی سچی ،ابدی اورسرمدی پیش گوئی ہے کہ ”اچھائی برائی اورپاکی ناپاکی کبھی برابرنہیں ہوسکتے“ہمیں اور آپ کو پوری ہمت وحوصلہ اورعزم وتوکل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کردینا چاہیے ،کہ کل بروز محشر ہم میں سے ہر ایک رب تعالی کے حضور ،اپنے عمل ،قول اورنیت کا بذات خود جواب دِہ اورمسئول ہے۔ 
Flag Counter