Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

13 - 17
حضرت خالد بن ولید
محترم ثروت صَولت

اسلام کے صدر اول میں ایران وروم پر عربوں کی لشکر کشی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایچ جی ویلز نے اپنی مشہور ”تاریخ عالم“ میں لکھا ہے۔

”اب جن فوجی مہموں کا آغاز ہوا، وہ تاریخ عالم کی شان دار ترین فوجی کارروائیوں میں سے تھیں۔ سر زمین عرب اچانک بہترین انسانوں کے باغ میں تبدیلی ہو گئی۔ ان باصلاحیت اور جانباز سپہ سالاروں کے جھرمٹ میں خالد  کا نام روشن ترین ستارے کی طرح سب سے نمایاں ہے ، انہوں نے جہاں بھی فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی وہ کام یاب ہوئے۔“

حقیقت یہ ہے کہ حضرت خالد  کے فوجی کارنامے نہ صرف یہ کہ تاریخ اسلام میں بے مثال ہیں ، بلکہ دنیا کی فوجی تاریخ کا زریں باب ہیں۔ ان کے محیر العقول کارناموں نے اسی زمانے میں ایک طرح کی افسانوی حیثیت اختیار کر لی تھی او رمسلمانوں میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ خالد کبھی شکست نہیں کھا سکتے اور مسلمانوں کو فتوحات ان ہی کی بدولت حاصل رہی ہیں، اگر ہم یہ کہیں کہ حضرت خالد کے پتلے کی تشکیل ہی جہادی خمیر سے ہوئی تھی تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے قبل قریش کے فوجی کیمپ کا انتظام اور سپہ سالاری ان ہی کے سپرد تھی۔ اس ذمہ داری نے ان کو بہترین شہ سوار اور شمشیرزن بنا دیا تھااور جب احد کی جنگ ہوئی تو وہ کفار کے دستے کے قائد تھے۔ اس جنگ میں کام یابی کے بعد جب مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے، حتیٰ کہ تیر اندازوں کا وہ فوجی دستہ بھی نیچے اتر آیا جوایک فوجی اہمیت کی پہاڑی پر تعینات تھا اور جس کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے تاکید کر دی تھی کہ وہاں سے کسی صورت نہ ہٹے۔ تو خالد جیسا سپہ سالار، جو فوجی دماغ لے کر پیدا ہوا تھا، ایسی غلطی کو کب معاف کرنے والا تھا، چناں چہ کافروں کے سوار دستے نے خالد کی قیادت میں باگیں اٹھائیں اور پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ وہ فوجی چال تھی، جس نے جنگ کا نقشہ بدل دیا او رمسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہو گئی۔ اس واقعہ کے تقریباً چھ سال بعد حضرت خالد نے اسلام قبول کر لیا اور اس طرح وہ تلوار جواب تک کفر کی حمایت میں بلند ہو رہی تھی ، اب اسلام کی مدافعت میں استعمال ہونے لگی۔

جنگ موتہ
عہد رسالت میں حضرت خالد نے کئی معرکوں میں حصہ لیا، لیکن وہ معرکہ جس میں انہوں نے اپنی فوجی صلاحیت کا واضح ثبوت دیا۔ جنگ موتہ ہے ۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی سفیر کے قتل کا انتقام لینے کے لیے تین ہزار افراد پر مشتمل ایک فوج مدینہ سے والی بصرےٰ کے خلاف بھیجی۔ بصریٰ کی عرب ریاست رومیوں کے زیر اثر تھی، جب اسلامی فوج منزل پر پہنچی تو وہاں رومی لشکر کمک کے لیے موجود تھا۔ مورخین نے اس لشکر کی تعداد ڈیڑھ لاکھ بیان کی ہے، ممکن ہے یہ اندازہ غلط ہو ، لیکن رومیوں کی تعداد کا دسواں حصہ بھی فرض کر لیا جائے تو وہ بھی مسلمانوں سے پانچ گنا زیادہ تھے، مسلمان، جو اب تک اپنے سے زیادہ تعداد رکھنے والی فوجوں کو شکست دیتے چلے آرہے تھے ان کے لیے یہ معرکہ بڑا سخت ثابت ہوا۔ جنگ اتنی شدید تھی کہ مسلمان سپہ سالار حضرت زید، حضرت جعفر طیار او رحضرت عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہم یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے ،ان تینوں کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی سے بار ی باری سر لشکر مقرر کر دیا تھا۔

لیکن جب عبدالله بن رواحہ شہید ہو گئے تو حضرت خالد  نے آگے بڑھ کر علم سنبھال لیا اور از خود لشکر کی قیادت شروع کر دی، خالد کی یہ پہل فوجی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہے، بے قائد کا لشکر جلد ہی ہمت ہار دیتا ہے۔ حضرت خالد نے ایسا نہیں ہونے دیا اور قیادت کا علم سنبھال کر سپہ سالاروں کیشہادت سے، جو خلا ہو گیا تھا، اسے پورا کر دیا۔ جنگ پوری شدت سے جاری رہی او رحضرت خالد بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن کی صفیں الٹتے رہے ، اس دن ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں او راگر کوئی تلوار ہاتھ میں سلامت رہی تو وہ یمنی تلوار تھی۔

جنگ دن بھرجاری رہی اور بند اس وقت ہوئی ، جب رات کی تاریکی چھانے لگی۔ حضرت خالد  نے اس مہلت کو غنیمت جانا اور نئی چال چلی۔ انہوں نے رات کی تاریکی میں اسلامی فوج کی ترتیب بدل دی تھی ، صبح ہوئی تو دشمن یہ سمجھا کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے تازہ دم فوج آگئی ۔ چنا ں چہ رومیوں نے حملے کا خطرہ مو ل نہیں لیا اور حضرت خالد اسلامی فوج کو بحفاظت مدینہ واپس لے آئے۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ تھا کہ دربار رسالت سے حضرت خالد کو ”سیف الله“ یعنی الله کی تلوار کا خطاب ملا۔

جنگ عقرباء
موتہ کی جنگ کے تین سال بعد آں حضرت کی وفات پر حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ منتخب ہوتے ہیں۔ عہد صدیقی کا آغاز حضرت خالد کی فوجی زندگی کے عہد زریں کا آغاز بھی ہے۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی خبر پھیلتے ہی عرب میں بغاوتیں اور شورشیں شروع ہو گئیں، ان بغاوتوں کو فرو کرنے میں سب سے نمایاں کردار حضرت خالد  نے ادا کیا۔ سب سے شدید بغاوت یمامہ کی تھی ، جہاں ایک شخص مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کرکے لوگوں کی ایک کثیرتعداد اپنے گرد جمع کر لی تھی۔ مسیلمہ مدینہ سے بھیجے ہوئے ایک دستے کو شکست بھی دے چکا تھا۔ اب حضرت ابوبکر نے حضرت خالد کو اس کی طرف روانہ کیا۔ حضرت خالد  جب مدینے سے یمامہ کی طرف جارہے تھے تو ان کے ذہن میں بھی یہ خیال نہ آیا ہو گا کہ وہ اب چھ سال سے پہلے مدینہ واپس نہیں آسکیں گے اور یہ کہ چھ سال کی اس مختصر مدت میں ان کو دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں سے جنگ کرنا ہو گی او رجب وہ واپس مدینہ آئیں گے تو تاریخ عالم کے ایک عظیم ترین سپہ سالار کی حیثیت سے بقائے دوام کے دربار میں جگہ پا چکے ہوں گے۔

حضرت خالد جب یمامہ پہنچے تو مسیلمہ40 ہزار فوج کے ساتھ عقرباء کے میدان جنگ میں ان کے مقابلے میں صف آرا ہو گیا۔ گھمسان کارن پڑا او رجنگ لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہوتی گئی، حضرت خالد نے جب دیکھا کہ دشمن کا زور کسی طرح کم نہیں ہو رہا تو انہوں نے فوج کی ترتیب بدل دی۔ انہوں نے حکم دیا کہ ” ہر قبیلہ علیٰحدہ علیٰحدہ ہو جائے اور علیٰحدہ ہو کر ہی دشمن کا مقابلہ کرے، تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس قبیلے نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے؟“

حضرت خالد کی اس تدبیر سے مسلمانوں کے حملے کا زور بڑھ گیا، لیکن جب دشمن اس کے باوجود بھی میدان میں جمارہا تو حضرت خالد نے مسیلمہ کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی اور اس کو اس حد تک دبایا کہ وہ پاس کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن مسلمانوں نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا اور مسیلمہ بالآخر لڑتا ہوا مارا گیا، اس کی موت اس کے لیے شکست کا باعث ہوئی او رانہوں نے راہِ فرار اختیار کی ۔ حضرت خالد نے بھاگتے ہوئے دشمن کا سخت تعاقب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ عقرباء کی جنگ میں اکیس ہزار کافر ومرتدمارے گئے او ران میں سات ہزار تعاقب میں ہلاک ہو گئے ۔ مسلمان شہداء کی تعداد ایک ہزار تھی، جن میں ایک بہت بڑی تعداد قرآن پاک کے حافظوں کی تھی، اب تک کسی جنگ میں نہ اتنی تعداد میں کافر مارے گئے اور نہ مسلمان شہید ہوئے۔

ایران کی مہم
حضرت خالد ابھی یمامہ ہی میں تھے کہ فرات کی وادی میں ایرانیوں اورعربوں میں جنگ چھڑ گئی او رحضرت ابوبکر کے حکم پر ان کو عراق کا رخ کرنا پڑا، تاکہ وہ ایرانیوں کے خلاف کم تعداد میں عربوں کو کمک پہنچا سکیں۔ سلطنت ایران کے خلاف لشکر کشی سے حضرت خالد کی فوجی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے، اب تک ان کا مقابلہ اپنے ہم قوم عربوں سے تھا، جواگرچہ اپنی صفات کے لحاظ سے جنگ جو اور دلیر تھے، لیکن جنگی سازوسامان اور جنگی تجربے کے لحاظ سے مسلمانوں پر کوئی خاص برتری نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اب خالد کا سابقہ سلطنت ایران سے تھا، جس کا شمار دنیا کی طاقت ور ترین حکومتوں میں ہوتا تھا اور جس کے پاس ہر قسم کا جنگی سامان وافر مقدار میں موجود تھا، ایرانی فوجی تربیت یافتہ سپاہی تھے اور ایرانی سپہ سالار ترکوں اور رومیوں کے خلاف طویل جنگوں کا تجربہ رکھتے تھے، لیکن خالد کے مقابلے میں ایران کی یہ کثیر تعداد فوجیں بھی عربوں ہی کی طرح بے بس ثابت ہوئیں۔

اس عبقری سپہ سالار نے سوا سال سے بھی کم مدت میں اُبلہ سے لے کر فراض تک سات سو میل کا طویل علاقہ، جو دریائے فرات کے مغرب میں تھا، ایران سے چھین لیا۔ انہوں نے یہاں شہروں اور قصبوں کے کام یاب محاصرے کیے اور ایران نے اپنے عرب حلیفوں کی حمایت میں جو بھی فوج بھیجی اسے شکست دی ۔ ان لڑائیوں میں حضرت خالد کے پاس آٹھ ہزار سے زیادہ فوج کبھی نہیں رہی اور دشمن بارہا ایک لاکھ او راس سے زیادہ فوج میدان جنگ میں لایا، حضرت خالد نے ایران کے خلاف تقریباً پندرہ جنگیں لڑیں اور ان میں کم سے کم پانچ جنگیں جنگ ذات السلاسل، جنگ ندار ، جنگ کسکر، جنگ الیبس اورجنگ فراض ایسی ہیں جن کو ہم بڑی اور سخت لڑائیوں میں شمار کرسکتے ہیں۔

حضرت خالد نے ایرانیوں کے خلاف پہلی بڑی جنگ موجودہ کویت کے قریب کاظمہ کے مقام پر لڑی، اس زمانے کے دستور کے مطابق حضرت خالد نے مغربی عراق کے حاکم ہر مزکو پہلے ایک خط لکھا، جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی او راس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ :

” یادر کھو تم کو ایک ایسی قوم سے لڑنا پڑے گا، جو موت کی اتنی ہی آرزو مند ہے ، جتنی تم زندگی کی تمنا رکھتے ہو۔“

ہر مزنے اسلام پر جنگ کو ترجیح دی، وہ میدان جنگ میں اس طرح آیا کہ اپنی فوج کے ایک حصہ کو زنجیروں سے جکڑ دیا، تاکہ میدانِ جنگ سے منھ نہ موڑنے پائے۔ لیکن مسلمانوں نے اس آہنی زنجیر کے ٹکڑے کر دیے۔ ایرانیوں نے شکست فاش کھائی اور ہر مز حضرت خالد کے ہاتھ سے مارا گیا۔ ایرانیوں نے چوں کہ اس جنگ میں اپنے پیروں کو زنجیروں میں باندھ لیا تھا، اس لیے یہ جنگ ذات السلاسل یعنی زنجیروں والی جنگ کہلاتی ہے۔
Flag Counter