Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

15 - 17
بیماریاں اور ان کے فوائد
عبدالرحمن بن یحییٰ
ترجمہ مع اضافات: مبشر جاوید

جب کسی پر معمولی بیماری یا پریشانی آتی ہے تو مریض او راس کے اقارب مزاج شریعت کے خلاف انتہائی نامعقول باتیں کرنے لگتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ”یا الله! تو دیکھ رہا ہے تیرا بندہ کتنی تکلیف میں ہے ، تو کیوں اس سے اس پریشانی کو زائل نہیں کرتا؟“۔ اور کوئی پریشانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھتا ہے ”یا الله! یا تو اس کو شفا دے دے یا اس کو اپنے پاس بلالے“

کوئی لاعلاج مرض لاحق ہونے کی صورت میں مریض بسا اوقات انتہائی بے صبرا اورالله کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شیطان کی کارستانی ہے کہ انسان کو ماضی میں کیے ہوئے گناہ اس قدر یاد دلاتا ہے کہ وہ ناامیدی کو گلے لگا لیتا ہے ، حالاں کہ اگر وہ نمازوں کی پابندی کرتا رہے ، بقیہ تمام فرائض ادا کرتا رہے اور صدق دل سے توبہ کرے اور شرک سے اپنے آپ کو بچائے تو الله کی ذات سے قوی امید ہے کہ الله اس کے ساتھ رحم والا معاملہ فرمائیں گے او راسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ: ”میری امّت میں سے جو بھی اس حال میں مرا کہ اس نے الله کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اے الله کے رسول! اگرچہ زنا کرے یا چوری کرے تب بھی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگرچہ زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔“

اور صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی مرے اسے چاہیے کہ وہ الله کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو ۔ “اور حدیث قدسی ہے کہ ” میں اپنے بندے سے اس کے گمان جیسا معاملہ کرتا ہوں پس جیسا چاہے وہ مجھ سے گمان رکھے۔“ او رایک مومن او رمسلمان بندے کو چاہیے کہ وہ تکالیف پر صبر کرے ، چاہیے وہ کتنی ہی سخت ہوں۔ کیوں کہ الله رب العزت نے قرآن مجید میں تنگی اور پریشانی کے بعد راحت کا وعدہ فرمایا، چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿فإن مع العسریسرا﴾․

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول پاک صلی الله علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس تشریف لائے او روہ موت کے بہت قریب تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ تو اس نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! الله کی رحمت کی امید کرتا ہوں اوراپنے گناہوں سے خوف کھاتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی شخص جس کے دل میں یہ دو باتیں جمع ہو جائیں تو الله پاک اس کی امید کو پورا فرماتے ہیں اور اس کو خوف سے بخشتے ہیں“۔

لہٰذا اس حدیث کی رو سے الله کی ذات پر یقین رکھنا چاہیے او راس کے فیصلے پر راضی ہونا چاہیے ، کیا پتہ موت کس وقت آجائے تو اگر صبر وشکر کیا اور الله پاک نے شفا دے دی تو صبر وشکر کا ثواب ملے گا او راگر فانی دنیا سے رحلت ہو گئی تو الله کی رحمت متوجہ ہو گی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” مومن کا تحفہ موت ہے ۔“ (طبرانی)

یہ تو بات ہو گئی بیماری پر صبر کی اور الله کی رحمت سے ناامید نہ ہونے کی، اب میں آپ حضرات کی خدمت میں بیماری کے روحانی فوائد اور اس کی حکمتیں پیش کرتا ہوں، لیکن اس سے پہلے ایک تمہیدی بات عرض کرتا ہوں۔

الله تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز میں نعمت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے، یہ بات الگ ہے کہ بسا اوقات نعمت کا یہ عنصر خود اس شخص پر اثر انداز ہوتا ہے اورکبھی کسی دوسرے کے لیے کار فرما ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ کا کفار کو درد ناک عذاب دینا بھی نعمت ہے، لیکن ظاہر ہے کہ کفار نہیں بلکہ باسیان جنت کے حق میں یہ نعمت ہے ۔ کیوں کہ اگر الله تعالیٰ عذاب کو پیدا نہ فرماتے تو جنت کے مزے لوٹنے والے جنتی ان نعمتوں، سہولتوں او رراحتوں کا ادراک نہ کر پاتے جو ان کو حاصل ہیں، عربی کا ایک مشہور قاعدہ ہے کہ ”تعرف الأشیاء بأضدادھا“ کسی بھی چیز کی معرفت اس کی ضد سے ہوا کرتی ہے ۔

آئیے ! اسی نکتے سے آگے بڑھتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے نعمتوں کے مقابلے میں کچھ ایسی چیزیں بھی پیدا کی ہیں کہ اگر ان کا سامنا ہو جائے تو نعمت کی قدر ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو ہم مختلف نام دے سکتے ہیں ۔ پریشانی آئے تو اچھے وقت کی قدر آتی ہے ، فقر کے بعد فراوانی، ذلت کے بعد عزت، غم کے بعد خوشی ، نفرت کے بعد محبت، جہالت کے بعد علم ، دن کے بعد رات، رات کے بعد دن، سردی کے بعد گرمی ، گرمی کے بعد سردی، مشغولیت کے بعد فراغت، بڑھاپے کے بعد جوانی اور اسی طرح بیماری کے بعد صحت کی قدر آجاتی ہے۔

یہیں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایمان اور حسنِ اخلاق کے علاوہ ہر نعمت کسی کے لیے وبال اور کسی کے لیے واقعی نعمت ہوتی ہے ، جیسا کہ کسی بھی چیز کے بارے میں علم وآگہی حاصل ہونا، نعمت ہے، مثال کے طور پر اگر کسی کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ اس نے کسی سے قرض لیا اور واپس نہ کیا، تو لوگ اس شخص کو قرض دینے کے معاملے میں محتاط ہو جائیں گے تو یہ علم لوگوں کے حق میں تو نعمت ہوا، لیکن اگر مقروض کو پتہ چل جائے کہ وہ قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے گر گیا ہے ۔ تو اب دو صورتیں ہیں یا تو وہ اپنے معاملہ کو درست کرے گا یا بات دل پہ لگالے گا اور غم وپریشانی کا شکار ہو گا پہلی صورت میں علم اس کے لیے نعمت اور دوسری میں وبال بن جائے گا۔

بالکل اسی طرح مرض مریض کے لیے اس وقت نعمت بن جاتا ہے جب وہ صبر وشکر کرتا ہے اور شفا کے بعد صحت کی قدر اور الله رب العزت کی دی ہوئی اس نعمت کا شکر ادا کرتا ہے۔

فوائد
الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ﴿وما أصابکم من مصیبة…﴾(الشوریٰ:30)

کہ” جوبھی مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کی بدولت ہوتی ہے اور الله پاک کتنی ہی باتیں تو معاف فرما دیتے ہیں۔“ اسی لیے کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کہتا پھرے کہکہاں سے یہ مصیبت آٹپکی؟ بلکہ یہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، جو دنیا میں اس کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے اور اگر ہم اس بات کو سمجھیں کہ دنیا کی مصیبتیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں تو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہو گی کہ اس کے اندر ہمارے لیے خوش خبری بھی ہے اور ڈراوا بھی۔ ڈراوا بایں طور کہ انسان پریشانیوں کا سامنا کرکے خوف زدہ رہتا ہے اور خوش خبری بایں وجہ ہے کہ امام بخاری  نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” مومن کو جو بھی بیماری یا غم یا پریشانی یا کوئی بھی تکلیف پہنچے، حتی کہ کوئی کانٹا چبھ جائے تو الله اس کے بدلے اس کے گناہ معاف فرماتے ہیں ۔“ اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا: کہ” مصیبت مستقل بندہ مومن کے ساتھ او راس کے گھر میں ، اس کے مال میں اس کی اولاد میں رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ الله تعالیٰ سے اس حال میں جا ملتا ہے کہ اس پہ کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔“

لہٰذا اگر کسی کے گناہ بہت زیادہ ہوں تو الله تعالیٰ اسے مصیبت میں گرفتار کر دیتے ہیں، جو اس کے گناہوں کے ازالہ کا سبب بن جاتا ہے اور دنیا کی تلخی آخرت کی تلخی سے بہتر ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اگر دنیا میں مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم قیامت میں خالی ہاتھ پہنچتے۔

مریض کو اس کے مرض کی بدولت آخرت میں جو لذت اور مسرت عطا کی جائے گی وہ دنیا کی فانی، وقتی لذتوں سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہے،کیوں کہ دنیا کی تلخی وتنگی آخرت کی راحت وفراوانی کومستلزم ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے او رکافر کے لیے جنت ۔“ او رامام ترمذی نے حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ :( قیامت کے دن جب لوگ ان لوگوں کے صبر وثواب کو دیکھیں گے کہ جو دنیا میں مصیبتوں، بیماریوں میں پھنسے رہے تو وہ یہ تمنا کریں گے کہ اے کاش! دنیا میں ہماری جلدوں کو قینچوں کے ساتھ کاٹ دیا جاتا۔

مریض کو الله تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہو جاتا ہے ۔ حدیث قدسی ہے:” اے آدم کے بیٹے! میرا فلاں بندہ بیمار ہو گیا تھا اور تونے اس کی تیمارداری نہ کی ، اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔“ (مسلم عن ابی ھریرہ)

مرض کے ذریعے آدمی کے صبر کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ آزمائش نہ ہوتی تو صبر کی فضیلت ظاہر نہ ہوتی ، اگر صبر کیا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیں او راگر صبر نہ کر سکا تو سب کچھ گنوادیا۔ تو الله تعالیٰ بیماری کے ذریعے بندہ کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ اب یا تو وہ سونا نکلتا ہے یا پھر کھوٹا… حضرت انس رضی الله عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ ” اجروثواب کی زیادتی تکالیف برداشت کرنے کے بقدر ہوتی ہے اورالله تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا فرما دیتے ہیں تو جو اس پر راضی ہو جاتا ہے اس کے لیے الله کی رضا ہے او رجو ناراض اس کے لیے الله کی ناراضگی ہے۔“

اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ الله رب العزت جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کے غموں کو زیادہ فرما دیتے ہیں او رجب کسی سے ناراضگی فرماتے ہیں تو اس کی دنیاوی آرائشوں وراحتوں کو وسیع تر فرمادیتے ہیں، خاص کر جب آدمی کا دین ضائع ہو جائے، نہ نماز کی کچھ فکر ہو ، نہ بقیہ فرائض کی ادائیگی کا کچھ ہوش اور حرام لذات میں ایسے پڑ جائے کہ حلال چیزوں سے بھی اجنبیت محسوس ہونے لگے۔

اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ بندہ مومن جب الله رب العزت کے فیصلے پر صبر وشکر کرتا ہے تو اس کو صابرین میں شمار کیا جاتا ہے، امام مسلم رحمہ الله نے حضرت صہیب رضی الله عنہ سے روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں خیر ہے اور یہ ہر کسی کے لیے نہیں، صرف مومن کے لیے ہے کہ اگر اسے خوشی ملے تو الله کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کو اجر ملتا ہے او راگر پریشانی لاحق ہو تو وہ صبر کرتا ہے، تب بھی اُسے اجر ملتا ہے ، پس الله تعالیٰ کے ہر فیصلے میں مسلمان کے لیے بھلائی ہے ۔“ یا الله! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا کہ جب ان کو نعمت ملے تو وہ شکر کرتے ہیں او رجب پریشانی کا سامنا ہو تو صبر کرتے ہیں اورجب ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اپنے رب سے معافی مانگتے ہیں۔

مرض کے فوائد میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مریض پر الله تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوتا ہے او روہ اس طرح کہ جب اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو خوف اسے گھیر لیتا ہے او رپھر یہی بیماری اور خوف اسے الله رب العزت کی توحید کی طرف مائل کر دیتا ہے اور وہ بزبان حال یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے مولیٰ! سب اطباء نے اپنی طبابت او رحکمت آزمائی اور وہ ناکام ہو گئے، اب کوئی ہے تو بس تو ہی ہے ، تیرے سوا مجھے کوئی شفا دینے والا نہیں۔ اس طرح مریض کا دل الله رب العزت کے ساتھ رابطہ میں رہتا ہے اور وہ ہر وقت پورے خلوص کے ساتھ اپنے خالق حقیقی اور پرورش کرنے والی ذات کو یاد کرتا ہے۔

علما فرماتے ہیں کہ جب بندہ الله تعالیٰ سے نہ مانگے تو الله پاک ناراض ہوتے ہیں ( اور یہ مضمون حدیث کا بھی ہے ) اور بندہپر پریشانی نازل فرماتے ہیں، تاکہ وہ الله کی طرف متوجہ ہو او راسی سے دعا مانگے تو الله تعالی ٰاس پر انعامات کی بارش فرماتے ہیں۔ تاکہ وہ الله کا شکر ادا کرے۔

اور الله تعالیٰ نے سورہ فصلت کی آیت نمبر51 میں کیا خوب انسان کا حال بیان فرمایا کہ جب اِنس پر الله کی نعمتیں ہوتی ہیں تو الله تعالیٰ سے اعراض کرتا رہتا ہے او رجب اسے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔تو بس لمبی لمبی دعائیں شروع کر دیتا ہے( پھر اس کو مسجد بھی اچھی لگتی ہے۔ داڑھی والے مولوی حضرات بھی اس کی آنکھ میں جچتے ہیں اور پگڑی اور شلوار قمیض میں ملبوس علما بھی اس کی نظر کو بھاتے ہیں)لہٰذا اس بیماری کی برکات ہوتی ہیں کہ جس نے کبھی مسجد کا رُخ نہ کیا ہو وہ بیماری کے بعد پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتا نظر آتا ہے اور صبر وشکر، توکل وعاجزی، خشوع وخضوع، حلاوتِ ایمان سے بھرا بھرا دکھائی دیتا ہے۔ جو کہ اس کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے۔

اور جو اس بیماری کے اندر بھی الله رب العزت کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ جعلی پیروں کے مشرکانہ تعویذات وٹوٹکوں پر اعتماد کرتا رہے او رکبھی کسی نجومی کو جاکر ہاتھ دکھائے تو، اس سے بدنصیب شخص اور کون ہو گا؟ ہاں! اگر کوئی باشرع عامل، شرعی حدود کی رعایت کرکے، تعویذ اور کا عمل کرتا ہو تو اس کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں، مگر تعویذ وغیرہ لے کر عقیدہ یہ ہی رہے کہ مؤثر حقیقی الله کی ذات ہے، تعویذبذات خود مؤثر نہیں۔

بیماری کے ذریعہ الله رب العزت انسان کے دل کو تکبر وعجب اور فخر جیسی مہلک بیماریوں سے نجات عطا فرماتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ روحانی بیماریاں انسان کے ساتھ مستقل رہیں تو سرکشی ونافرمانی جیسی دوسری بیماریاں اس کے اندر جنم لیتی ہیں اور انسان اپنی ابتدا وانتہا کو بھول جاتا ہے او رجوانی کی طاقت یا بڑھاپے کی جو شیلی صحت اس کو خود اعتمادی دیتی ہیں اور وہ اپنے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر جب الله رب العزت کی طرف اس کے اوپر بیماریوں کی آزمائش ہوتی ہے تو اس کا نشہ، غرورو تکبر کا فور ہو جاتا ہے اور پھر اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کے اپنے قبضہ میں نہ اس کا نفع ہے، نہ نقصان، نہ زندگی نہ موت، کبھی کسی چیز کو یاد کرتا ہے تو اس کے ادراک پر قادر نہیں ہوتا، کبھی چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، لیکن جہالت اس کے دامن گیر رہتی ہے ۔ کبھی کسی ایسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو اور کبھی ایسی چیز سے دور بھاگتا ہے جس میں اس کے لیے بھلائی ہو اور دن اور رات میں، کسی بھی وقت اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہتا کہ الله تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سے دیکھنے اور سننے کی طاقت کو سلب فرمالیں، یا اس کی عقل میں فساد پیدا کر دیں ، یا اس سے اس کی محبوب دنیا چھین لیں اور وہ کچھ بھی نہ کر سکے، تو کیا اس سے زیادہ کوئی محتاج وذلیل ہے؟ نہیں ! تو پھر اسے تکبر وعجب کیسے زیب دے گا؟

بیماری اس بات کی علامت ہے کہ الله رب العزت بیمار کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں، بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله تعالیٰ جس سے بھلائی کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں اُسے کسی بیماری سے دو چار فرماتے ہیں۔ اس حدیث کے مفہوم مخالف کی تایید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، جو کہ مسند احمد میں مذکور ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ” رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایک دیہاتی کے پاس سے ہوا۔ آپ کو اس کی صحت وجسم بھلا معلوم ہوا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا کہ تمہیں کبھی اُم ملدم محسوس ہوا؟ اسے نے پوچھا اُم ملدم کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ بخار۔ اس دیہاتی نے پوچھا کہ بخار کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسی گرمی جو جلد اور ہڈیوں کے درمیان پیدا ہو جاتی ہے، تو اس دیہاتی نے جواب دیا کہ نہیں، مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی سر درد محسوس کیا؟ اس نے جواباً پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ضربات تکون فی الصدعین والرّأس) وہ ضربیں ہیں جو سر اور دونوں کنپٹیوں کے درمیان پڑتی ہیں۔ دیہاتی نے جواب دیا کہ میں نے کبھی ایسا محسوس نہ کیا۔ جب وہ دیہاتی چلا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی دوزخی کو دیکھے وہ اس دیہاتی کو دیکھ لے۔“ اس لیے کسی نے کیا خوب کہا کہ ”کافر کا جسم صحیح اور دل بیمار ہوتا ہے او رمسلمان کا دل صحیح اور جسم بیمار ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری کا آنا بھی خیر ہے۔

بندہ مومن جب حالتِ صحت میں الله تعالیٰ کو یاد کرتا ہو او راس کی نافرمانی سے بچتا ہو تو جب وہ بیمار ہوتا ہے تو الله پاک فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ ”یہ بندہ صحت میں جو جو نیک کام کیا کرتا تھا ان کاثواب ہر دن اور رات کے اعتبار سے اس کے نامہٴ اعمال میں لکھتے رہو، چاہے وہ بے ہوش ہو یا اس کی عقل جاتی رہے ۔“ یہ مضمون مسند احمد کی روایت کا ہے،جسے عبدالله بن عمرو نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرمایا ہے اس کے علاوہ دوسری احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اس کے گناہ ایسے معاف ہوتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درختوں سے پتیجھڑتے ہیں ۔ الله اکبر

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ الله رب العزت اپنے کسی خاص بندے کو اپنے ہاں ایک اعلیٰ او رخصوصی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں ،لیکن وہ قلتِ اعمال یا کسی اور سبب سے اس مقام پہ نہیں ہوتا، تو الله رب العزت اسے کسی بیماری میں مبتلا فرما دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے، ابن حبان نے اس مضمون کی حامل حدیث کو روایت فرمایا ہے او راس میں فما یزال یبتلیہ بما یکرہ کے الفاظ ہیں اور اس ابتلا سے مراد بیماری اور دوسری کوئی آزمائش بھی ہو سکتی ہے۔
Flag Counter