Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

6 - 17
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتا جامعہ فاروقیہ کراچی

سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کومارنا
سوال… اس مسئلے کے بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں کہ میں بچوں کو پڑھاتا ہوں، اکثر سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے انہیں مارتا بھی ہوں۔ بچوں کو ڈانٹ پلانے اورمارنے کی شرعا کیا حد ہے؟ پلاسٹک کے پانی والے پائپ سے مارنے کا کیا حکم ہے ؟ بڑے چھوٹوں کو ، استاد شاگرد کو او رماں باپ اپنی بالغ اور نابالغ اولاد کو بطور تادیب کس حدتک مارسکتے ہیں؟ ڈانٹ میں کن الفاظ کا استعمال جائز اور کن الفاظ کا استعمال ناجائز ہے؟ نیزجسم کی کن جگہوں پر مارسکتے ہیں او رکن جگہوں پر مارنا منع ہے چہرے پر مارنے کا کیا حکم ہے ؟ کس چیز سے مارنے کی شرعا اجازت ہے ؟ جواب دے کر ممنون فرمائیں الله تعالیٰ آپ حضرات کا سایہ اُمت پر قائم رکھے آمین۔

جواب… بچوں کو پڑھانا او راسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت او راخلاق سازی کرنا انتہائی شاق اور مستقل مزاج لوگوں کا کام ہے ، لیکن ساتھ ساتھ انتہائی مبارک عمل بھی ہے ، کیوں کہ یہی بچے ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔

شریعت مطہرہ نے ہر نیک کام کرنے کی ترغیب دی ہے ، لیکن اس کی کچھ شرائط، قیود اور حدود بھی متعین کی ہیں ، کہ اگر ان کی رعایت نہ کی جائے ، تو وہ نیک کام بھی مردود اور باعثِ وبال بن جاتا ہے۔

چناں چہ بچوں کو پڑھانے او رتربیت کرنے میں بھی چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ، سب سے پہلے تو نیت خالص ہونی چاہیے ، کہ صرف پیسہ کمانا مقصود نہ ہو، بلکہ بچوں کی تعلیم وتربیت مقصود ہو، پھر بچوں کو اولاد اور اپنے آپ کو ان کا مربی اور روحانی باپ سمجھ کر ان کی تمام نازیبا حرکات ، غفلت ، سستی ، غیر حاضری اور کام چوری وغیرہ نوٹ کرنا چاہیے، اس کے بعد ان بُرے کاموں سے بچوں کو روکنے کے لیے خود بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے ، کہ کون سا طریقہ زیادہ مناسب ہو گا اور ساتھ ساتھ الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر بچوں کی اصلاح کے لیے دعائیں کرنی چاہیے اور دوسرے معتمد، ہوشیار او رمزاج شناس حضرات سے اس بارے میں مشورہ بھی لینا چاہیے ، کیوں کہ ہر کام میں مشورہ بہرحال خیر سے خالی نہیں۔

بچوں کی غلطیوں کو نوٹ کرنے کے بعد انہیں بار بار سمجھانا چاہیے (کیوں کہ بچے ناقص العقل ہونے کی وجہ سے ایک مرتبہ سمجھانے سے نہیں سمجھتے) غلطی پر نرمی سے تنبیہ کرنی چاہیے، کیوں کہ اس میں بات کوقبول کرنے کی امید زیادہ ہوتی ہے ، بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا چاہیے ، کیوں کہ یہ بہت اہم اور ضروری ہے ، غلطی پراس کو سمجھایا جائے اور غلطی کرنے کے نقصانات اور نہ کرنے کے فوائد بتائے جائیں ، تو اس سے اچھی عادت کو اپنانا اور بُری عادت کو چھوڑنا اور آئندہ غلطی نہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی ہمت بڑھائی جائے ، ان کے اندر موجود خوبیاں بیان کریں، بزرگوں اور سلفِ صالحین کے حالات اورواقعات سنائے جائیں، اگر کبھی سبق اچھی طرح یاد کیا ہو یا کوئی اور اچھا کام کرے، تو مناسب انعام دیا جائے ، کہ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور آئندہ اس سے بھی بڑھ کر اچھے کام کرنے اور سبق یاد کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔

جب مذکورہ بالا طریقہٴ تعلیم اپنایا جائے، تو بچے استاد کو اپنا ہمدرد ، غم خوار، مشفق او رمہربان سمجھیں گے، حتی الامکان کوشش ہو کہ طالب علم بغیر جسمانی سزا کے درست ہو جائے او رمارنے کی نوبت نہ آئے ، لیکن اگر کبھی جسمانی سزا دینے کی ضرورت پیش آجائے ، تو غصے کی حالت میں نہ کسی بچے کو ڈانٹنا چاہیے اور نہ سزا دینی چاہیے ، کیوں کہ غصے کی حالت میں ڈانٹنے یا سزا دینے سے مقصود اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے، بچے کی تربیت اور خیر خواہی مقصود نہیں ہوتی ، لہٰذا غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد معتدل حالت میں جتنی سختی ضروری ہو، اتنی سختی کرنی چاہیے۔

جس صورت میں جسمانی سزا ضروری ہو ( کہ اس کے بغیر اصلاح نہ ہو سکے )، تو کوشش ہو کہ کم سے کم سزا سے مقصود حاصل ہو جائے، مثلا: ابتداءً صرف کان پکڑوائے جائیں وغیرہ،ا گر اس سے بھی کام نہ ہو ، تو صرف ہاتھ سے ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ تین تھپڑ مارے جائیں، لیکن چہرہ، سر ، شرم گاہ اور پیٹ پر مارنے سے احتراز کیا جائے اور یہ تین تھپڑ مختلف مقامات پر ہوں ، ایک ہی جگہ پر تین تھپڑ نہ ماریں، مارنے سے نہ دل پر اثر پڑے،نہ ہڈی تک اثر پہنچے، نہ کھال چھلے اور نہ خون نکلے۔

اگر طالب علم کہہ دے کہ الله کے لیے معاف کر دو ، تو معاف کرنا چاہیے ، اگر یہی کہنا اس کی عادت بن گئی ، تو معاف نہ کیا جائے ، بلکہ جواب میں یہ کہا جائے کہ الله ہی کے لیے تو میں مار رہا ہوں، کیوں کہ مارنے سے مقصود بچے کی اصلاح، تربیت اور اس کے مستقبل کو سنوارنا ہے)، جس وجہ سے مار رہے ہوں اس کو بھی طالب علم کے ذہن میں بٹھا نا چاہیے، تاکہ وہ اسے بلاوجہ مارنا نہ سمجھے او راس کمی کو دور کرنے کی طرف وہ متوجہ بھی ہو جائے۔

بچوں کو ڈانٹتے وقت نہ تو بچوں کو طعنہ دینا چاہیے، نہ برا بھلا کہنا چاہیے، نہ ان کا مذاق اڑانا چاہیے ، نہ حقیر اور ذلیل کرنا چاہیے ، نہ دوسروں کی نظروں میں ان کی توہین کرنی چاہیے ، نہ اس طور پر ان کے عیوب ونقائص بیان کرنے چا ہییں کہ دوسرے ان پر ہنسیں، خواہ یہ زبان سے ہو ، یا اشارہ سے ہو، یا نقل اتار کر ہو ، کسی ناگوار لقب یا کنیت سے نہپکارنا چاہیے، نہ گالی دینی چاہیے او رنہ کانا ، اندھا، لنگڑا، چھوٹا، موٹا، دبلاغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرنے چاہییں، کیوں کہ ان الفاظ کے سننے سے اس کے دل سے بڑوں کی قدروقیمت ختم ہو جاتی ہے ، اپنی ذلت کے احساس میں وہ اپنی اصلاح اور تربیت بھول جاتا ہے، بلکہ کبھی کبھی تو جان بوجھ کر ضد میں اس کے خلاف کرنے لگتا ہے اور مقصود فوت ہو جاتا ہے۔

عورت پر کن لوگوں سے پردہ ضروری ہے؟
سوال…کیا فرماتے ہیں علماء اہل سنت اس بارے میں کہ عورت پرکن کن لوگوں سے پردہ کرنا ضروری ہے؟ اور غیر محرم سے پردہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟ امید ہے کہ قرآن، سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں جواب دے کر ممنون اورمشکور فرمائیں گے؟

جواب… ایسے رشتہ دار جن سے عورت کاکبھی بھی نکاح نہیں ہو سکتا، جیسے باپ، دادا، چچا، بھائی، ماموں وغیرہ، وہ عورت کے محرم کہلاتے ہیں ان سے عورت کا پردہ نہیں اور وہ تمام مرد جن سے عورت کا نکاح ہو سکتا ہے ، وہ عورت کے غیر محرم ہیں ، عورت کا ان سے مکمل پردہ ہے، سر سے پاؤں تک عورت پر اپنے جسم کو ان غیر محرموں سے چُھپانا ضروری ہے۔ وہ غیر محرم یہ ہیں: دیور، جیٹھ، خالو، بہنوئی، چچازاد، ماموں زاد، خالہ زاد، یا پھر وہ جو بالکل اجنبی ہو۔
Flag Counter