Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

8 - 17
تحفظ ناموسِ رسالت محاذ پر شاندار کامیابی
قاری محمدحنیف جالندھری

تحریک تحفظ ناموس رسالت کی شان دار کامیابی اور وطن عزیز کے غیور مسلمانوں کو جو فتح مبین نصیب ہوئی اس پر الله رب العزت کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ اس تحریک کی کامیابی پر پاکستان کی پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے، بالخصوص عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت او رتحریک ناموس رسالت کے قائدین وکارکنان اور اس تحریک میں شامل تمام جماعتیں، ان جماعتوں کے قائدین وکارکنان، اس تحریک میں انفرادی، اجتماعی اور جماعتی حیثیت سے حصہ لینے والے تمام عاشقان مصطفی لائق صد تحسین ہیں، جن کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں وطن عزیز ایک بڑے بحران سے بچ گیا اور حکومت کو ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم نہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اگر اس موقع پر حکومت، بالخصوص وزیراعظیم سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یقیناً ناانصافی ہو گی، جنہوں نے عوامی اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس سے وطن عزیز کے مستقبل پر یقینا مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

حالیہ تحریک ناموس رسالت کا آغاز ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کی ایک خاتون آسیہ مسیح کی طرف سے شان اقدس میں گستاخی کے بعد ہوا۔ آسیہ مسیح نے شان اقدس میں جو ہرزہ سرائی کی اسے نوک قلم پر نہیں لایا جاسکتا۔ اس نے گاؤں کی پنچایت او رپھر سیشن جج کی عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا، جس کے نتیجے میں اسے سزا سنادی گئی تھی۔ اس کے ورثاء کو اگر اس فیصلے پر اطمینان نہیں تھا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاتا،اگر ہائی کورٹ بھی یہ فیصلہ برقرار رکھتی تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی اور اگر سپریم کورٹ سے بھی موت کی سزا سنا دی جاتی ، تب صدر مملکت سے معافی کی درخواست کی جاتی، لیکن سابق گورنر پنجاب نے اس عدالتی پراسس کو ہائی جیک کرتے ہوئے درمیان سے ہی اس معاملے کو اچک لیا اور وہ جیل جا پہنچے ، جہاں آسیہ مسیح کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اس کی سزا معاف کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔بعد میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے انسداد توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا، جس کی وجہ سے عوامی اشتعال میں مزید اضافہ ہوا۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض نام نہاد این جی اوز نے ناموس رسالت کے قانون کے خلاف مہم جوئی شروع کر دی ، بعض لبرل فاشسٹ اور لبرل انتہا پسند میدان میں کود پڑے او رانہوں نے ٹی وی مباحثوں اور اخباری کالموں اور دیگر مقامات پر اس قانون کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ انسداد توہین رسالت کے قانون کے خلاف پانچ ستارہ ہوٹلوں میں سیمینار منعقد ہونے لگے ، آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے این جی اوز کی خواتین کے چھوٹے موٹے مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا اور اس گروہ کی پشت پناہی کرنے والے بعض میڈیا گروپوں نے ان مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ ایک حکومتی خاتون رکن اسمبلی نے اس بل میں ترمیم کے لیے ایک بل تیار کر لیا ہے او روہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے پر تول رہی ہے ، اسی اثنا میں وفاقی وزیراقلیتی امور کی سربراہی میں انسداد توہین رسالت کے قانون پر نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا شوشہ چھوڑا گیا۔

یہ صورت حال ہمارے لیے خاصی تشویش ناک تھی، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انسداد توہین رسالت قانون کی موجودگی از حد ضروری ہے ، اس لیے کہ اس قانون نے بہت سے فساد اور قتل وغارت کا دروازہ بند کر رکھا ہے ، چناں چہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی سطح پر اس قانون کی ہر قسم کی قطع وبرید سے حفاظت کرنا ضروری ہے ، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ایسے قانون کی بڑی ضرورت ہے جس سے تمام قابل احترام مذہبی شخصیات، بالخصوص حضرات انبیائے کرام کی عزت وناموس کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں فساد وانتشار پھیلانے کی خواہاں قوتوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ وہ انسداد توہین رسالت قانون کو ختم یا اسے غیر موثر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایسی قوتوں کے لیے آسیہ مسیح سونے کی چڑیاثابت ہوئی اور سابق گورنر پنجاب کی طرف سے پھینکے گئے پہلے پتھر کے بعد ایسی قوتیں حرکت میں آگئیں او رہمیں خوبی اندازہ ہو گیا کہ یہ مخصوص لابی اپنے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل اور اس قانون کے خاتمے کے لیے اس وقت کس حدت تک جاسکتی ہے، کیوں کہ اس لابی کے خیال میں اس قانون پر آخری او رکاری ضرب لگانے کے لیے یہ ایک آئیڈیل موقع تھا اور وہ اس طرح کہ ایک طرف پنجاب میں سب سے اہم آئینی عہدہ سلمان تاثیر کے پاس تھا، جواس لابی کے پرانے مہربان، بلکہ راہ نما سمجھے جاتے تھے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی اور اس پارٹی سے ہمیشہ سیکولر انتہا پسند بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ اُدھر عالمی سطح پر بھی اس معاملے میں پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دل آزار، شرانگیز او رتوہین آمیز خاکے بنانے والے گروہ نے عالمی طاقتوں اور رائے عامہ کو بری طرح یرغمال بنا رکھا ہے، ان کی طرف سے بھی مسلسل ناموسِ رسالت کے خلاف غوغا آرائی جاری تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری کو اس قانون سے ڈرا کر باقاعدہ فریق بنا لیا گیا اور اس معاملے کو مسلم مسیحی محاذ آرائی کا رنگ دینے کی کوشش کی جانے لگی اور پھر آزادی اظہار رائے اور حقوق نسواں کے خوش نما نعروں کی آڑ میں اس قانون کے خلاف معرکہ آرائی بھی جاری تھی ، اس لیے ہم نے بھی اس معاملے کو بگاڑ کی طرف جانے سے بچانے کے لیے مجبوراً میدان عمل میں نکلنے کا ارادہ کیا اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہ نماؤں سے گزارش کی کہ ناموس رسالت کے معاملے میں آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے۔ وہ ذرا گومگوں کی کیفیت میں تھے اور انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ آل پارٹیز کانفرنس کی کامیابی کیسے یقینی بنائی جائے گی؟ لیکن جب انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی اور کانفرنس کی کامیابی کی ذمے داری لی تو یہ طے پایا کہ 15 دسمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

15 دسمبر کو منعقد ہونے والی کانفرنس ایک یاد گار کانفرنس تھی، جس میں ملک بھرکی تمام اہم مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھر پور انداز سے شرکت کی ۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 24 دسمبر کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ کانفرنس کے فیصلے کے مطابق 24 دسمبر کو ملک بھرمیں مظاہرے ہوئے۔31 دسمبر کو کو تاریخ ساز شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی ، پھر 7 جنوری کو کراچی میں عظیم الشان ریلی کا نعقاد کیا گیا۔30 جنور ی کو لاہور میں عظیم الشان ریلی نکالی گئی ۔ اس تحریک کے دوران مسلمانان پاکستان او رتحریک تحفظ ناموس رسالت کے قائدین وکارکنان کے تین بڑے مطالبات تھے۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت انسداد توہین رسالت قانون میں ہر قسم کی ترمیم وتحریف سے باز رہے۔ وزیراعظم اسمبلی فورم پر پالیسی بیان دیں او رباضابطہ طور پر یہ اعلان کیا جائے کہ اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جارہی ۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکومتی خاتون رکن اسمبلی کی طرف سے تیار کیا گیا ترمیمی بل غیر مشروط طور پر واپس لیا جائے ۔او رتیسرا مطالبہ یہ تھا کہ وفاقی وزیراقلیتی امور شہباز بھٹی کی سربراہی میں بننے والی اس مبینہ کمیٹی کو تحلیل کیا جائے ، جس کو قانون ناموس رسالت پر ”نظرثانی“ کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

ان تینوں مطالبات کو منوانے کے لیے عوامی سطح پر احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف محاذوں پر کام جاری رکھا۔ اس تحریک کے دوران جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی وہ یہ کہ مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کے مابین اتحاد واتفاق کی فضا برقراررہے او رناموس رسالت قانون کے خاتمے کے لیے سر گرمِ عمل اندرون وبیرون ملک موجود قوتوں کو یہ بتایا جائے کہ ناموس رسالت کے معاملے میں تمام لوگ متحد ومتفق ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے ایثار سے بھی کام لیا او راحتیاط سے بھی ۔ جہاں کہیں دو مکاتب فکر یا دو جماعتوں کے درمیان کسی قسم کی دوریوں یا غلط فہمی کی اطلاع ملی اس کے تدارک کی کوشش بھی کی اور صلح صفائی کا اہتمام بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا مہم میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی اہم شخصیات سے انفرادی او راجتماعی ملاقاتیں کرکے انہیں اس معاملے کی حساسیت ونزاکت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی ذہن سازی کا اہتمام بھی کیا۔ وفاق المدارس کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کے اساتذہ وطلبا ، وفاق المدارس کے فضلا اورائمہ وخطبا نے ملک بھر میں منعقد ہونے والی ریلیوں ، کانفرنسوں، جلسوں اور مظاہروں کی بھرپور کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم محاذ، جسے ہمارے اکابر کبھی بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے، اس پر بھی ٹوٹی پھوٹی محنت کی کوشش کی اور وہ تھا اہم حکومتی شخصیات، پالیسی سازوں اور ارکان پارلیمنٹ وسینٹ کے ساتھ رابطہ کاری کا محاذ۔ وزیراعظم پاکستان سمیت ملک کے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کے ساتھ اس تحریک کے دوران مسلسل رابطہ رہا او رانہیں اس اہم ترین معاملے میں قرآن وسنت ، دلائل ومنطق اور ملکی مفادات وترجیحات کی روشنی میں درست فیصلے اورصحیح نتیجے تک پہنچانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوششیں جاری رکھیں۔ یوں تو ہر اہم شخصیت او رجماعت نے اس مبارک تحریک میں بھرپور انداز سے حصہ لیا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہاں خصوصیت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی کاوشوں کا ذکر نہ کرنا یقینا نا انصافی ہو گی ۔ انہوں نے اس تحریک میں بہت ہی فعال ، مؤثر اور نتیجہ خیز کر دارا ادا کیا۔ اپنے کئی بیرونی اسفار ملتوی کیے۔ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی ، جدائی اور ڈیڈ لاک کے باوجود وہ ناموس رسالت کے معاملے میں اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے او رانہیں قائل کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے پر آمادہ کرنے میں بلاشبہ مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔

تین ماہ کی انتھک جدوجہد کے بعد بالآخر حکومت کی طرف سے پوری قوم بالخصوص تحریک ناموس رسالت کے قائدین کے مطالبات کی روشنی میں مبنی برحقیقت موقف کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس کی سبیل کچھ یوں بنی کہ قانون ناموس رسالت کے حوالے سے شروع ہونے والے جملہ امور کے سلسلے میں حکومت نے وفاقی وزارتِ قانون سے مشاورت طلب کی۔ وفاقی وزارت قانون کی طرف سے ناموس رسالت کے معاملے میں قرآن وسنت ، تاریخی حوالوں، عالمی قوانین وغیرہ کی روشنی میں ایک جامع، پرمغز دلائل سے مزین اورمبنی برحق سفارشات پر مشتمل دستاویز وزیراعظم اور دیگر ارباب حل وعقد کی خدمت میں پیش کی گئی۔

اس کی روشنی میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جو تحریری آرڈر جاری کیا۔ اس کے بارے میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ فون کرکے راقم الحروف کو آگاہ کیا، بلکہ فوری طور پر اس آرڈر کی کاپی فیکس بھی کروائی ،جس میں لکھا گیا تھا کہ ” وزیراعظم پاکستان نے وزیر قانون وانصاف وپارلیمانی امور کی تجاویز کی بخوشی منظوری دے دی ہے۔ تمام متعلقہ وزارتوں کو ضروری اقدامات کی ہدایت کی جاتی ہے… منظور شدہ تجاویز کی کاپی الگ سے ارسال ہے۔“

اس کے بعد وزیراعظم نے نہ صرف یہ کہ اسمبلی فلور پر پالیسی بیان میں اعلان کیا کہ حکومت ناموس رسالت قانون میں کسی قسم کی ترمیم وتحریف کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، بلکہ انہوں نے اپنی پارٹی کی خاتون رکن کو بھی اس قانون کے حوالے سے ترمیمی بل واپس لینے کا حکم دے دیا ،جس پر مذکورہ خاتون نے اپنابل واپس لے لیا اور وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کے بارے میں بتایا کہ ایسی کسی کمیٹی کا اول تو کوئی نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا اور اگر بالفرض ایسی کوئی کمیٹی موجود بھی ہے تو وہ تحلیل کی جاتی ہے۔

یوں الله رب العزت کے فضل وکرم سے وطن عزیز ایک بہت بڑے بحران سے محفوظ ہو گیا اور اسلامیان پاکستان او رتحریک ختم نبوت کے قائدین اور کارکنان کو الله رب العزت نے فتح مبین عطا فرما دی اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ملاحظہ کیجیے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی راہ نما، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو الله تعالیٰ نے مسئلہ ختم نبوت کو حل کرنے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قادیانیوں کو کافر قرار دلانے کا اعزاز عطا فرمایا اور انہیں کی پارٹی کے دور اقتدار میں ناموس رسالت کے معاملے پر مہر تصدیق وتائید ثبت کروائی۔ فللہ الحمد علی ذالک․
Flag Counter