Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

5 - 17
یہ آئے دن کا فساد کیوں؟
محترم ابو صفی قاسمی

دنیا کیا اور دنیا کی حقیقت کیا، ”کن“ سے وجود میں آئی اور ”کن“ ہی سے ختم ہوجائے گی، نہ اسے دوام، نہ اس کے اندر موجود کسی شے کو دوام، خود فانی، اس کی ہر شے فانی، باقی تو صرف ایک ذات واجب الوجود ہے ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْْہَا فَانٍ وَیَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ﴾․

لیکن انسان ہے کہ خوابِ خرگوش سے بیدار ہونے کو تیار نہیں، غفلت در غفلت اس پر طاری ہے۔ معمولی سا اسے اختیار کیا مل گیا ”أنا ربکم الاعلیٰ“کا نعرہ لگا بیٹھا۔ اپنی قوت پر اترانا، دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھنا، خود غرضی اور مفاد پرستی اس کا شیوہ بن گئی۔ خدا بے زاری، بے راہ روی، خواہش نفس کی پیروی، اطاعت حق سے سرکشی فطرت بن گئی۔ نفس کو آسودہ کرنے کے لیے جو کچھ کرسکتا تھا سب کیا، چوری، ڈکیتی، رشوت خوری، شراب نوشی، فحاشی، عیاشی، زناکاری، بدکاری۔ حیا کی چادر چاک کردی، جسم سے کپڑے اتار پھینکے، مادر زاد ننگے ہونے کو تہذیب و تمدن کا نام دے دیا۔ اخلاق، کردار، انسانی شرافت، ہمدردی و غم گساری کو بھلا بیٹھا۔ بس وہ ہے اور اس کا نفس ، جس کی ہر تمنا کی تکمیل اس کی ذمہ داری۔ خدا کون، خدا کا رسول کون، قرآن کیا اور اس کی تعلیمات کیا، کس نے پیدا کیا ، کیو ں پیدا کیا، دنیا میں کب تک رہنا ہے، یہاں سے جانے کے بعد کہاں جانا ہے، وہاں کیا ہوگا اس کی کوئی پروا نہیں۔

خدا جہاں رحمن و رحیم ہے، کریم وغفور ہے، وہیں جبار و قہار بھی ہے، جب وہ پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں سکتا، ﴿ان بطش ربک لشدید﴾ نہ کوئی جائے پناہ ، نہ کوئی ٹھکانہ، چاہے عالی شان محل میں ہو یا فٹ پاتھ پر ﴿و لو کنتم فی بروج مشیدة﴾اس کی یہ سنت رہی ہے کہ اولاً غافلوں کو متنبہ کرنے اور اپنی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے انبیاء و رسل یا ان کے نائبین کو بھیجتا ہے۔

﴿وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِيْ أُمِّہَا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِنَا وَمَا کُنَّا مُہْلِکِي الْقُریٰ إلاَّ وَأَہْلُہَا ظَالِمُوْنَ﴾․

”اور تیرا رب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک کرنے والا نہیں جب تک نہ بھیج دے ان کے صدر مقام میں اپنا رسول، جو پڑھ کر سنائے ان کو ہماری آیات اور ہم (اس وقت تک) بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے جب تک ان کے بسنے والے خود ہی ظلم پر نہ اتر آئیں۔“

لیکن جب باز نہیں آتے تو پھر حوادث و آفات کے ذریعہ جھنجھوڑتا ہے کہ ہوش میں آجا اور بندہ ہے بندگی کو قبول کرلے۔ افسوس ان انسان نما حیوانوں پر جو اس کے باوجود قبول حق اور اصلاح احوال سے روگرداں ہی رہتے ہیں ﴿أولئک کالأنعام بل ہم أضل﴾پھر وہی ہوتا ہے جو تنبیہ کے بعد بھی متنبہ نہ ہونے والوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے :

﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحاً إِلَی قَوْمِہِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَکَ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْن،أَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ وَاتَّقُوہُ وَأَطِیْعُونِ، یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُؤَخِّرْکُمْ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی إِنَّ أَجَلَ اللَّہِ إِذَا جَاءَ لَا یُؤَخَّرْ لَوْ کُنتُمْ تَعْلَمُون﴾َ․

”ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف کہ ڈرا اپنی قوم کو، اس سے پہلے کہ پہنچے ان پر عذاب دردناک، بولا اے قوم میری! میں تم کو ڈرسناتا ہوں کھول کر کہ بندگی کرو اللہ کی اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو، تاکہ بخشے وہ تم کو کچھ گناہ تمہارے اور ڈھیل دے تم کو ایک مقررہ وعدے تک، وہ جو وعدہ کیا ہے اللہ نے جب آپہنچے گا اس کو ڈھیل نہ ہوگی، اگر تم کو سمجھ ہے۔“

اس دعوتِ حق کا جواب قوم نے کیا دیا؟ حضرت نوح علیہ السلام ہی کی زبانی ملاحظہ ہو:

﴿وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارا﴾․

”اور میں نے جب کبھی ان کو بلایا تاکہ تو ان کو بخشے، ڈالنے لگے انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹنے لگے اپنے اوپر کپڑے اور ضد کی اور غرور کیا بڑا غرور۔“

بس پھر کیا ہوا:
﴿حَتّٰی إذَا جَاَ أَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ﴾․ ”یہاں تک کہ جب ہمارا حکم (عذاب کا قریب) آپہنچا اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہوا۔“

بالآخر زبردست سیلاب (طوفانِ نوح) کے ذریعہ سب کو ڈبو دیا گیا۔ ﴿وَ قُضِيَ الْأَمْرُ﴾(اور قصہ ختم ہوا)۔

قوم عاد جو اپنے آپ کو اُس زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی کا حامل اور جدید صنعت و حرفت کا ماہر سمجھتی تھی، ایک سے ایک مضبوط و دیو ہیکل عمارتیں بنا کر اپنے آپ کو بہت طاقت ور اور محفوظ تصور کرتی تھی، لیکن جب اس نے بھی اپنی قوت و طاقت پر اترانا شروع کیا اور قبولِ حق سے انکار کیا تو اللہ کے عذاب نے انھیں بھی آپکڑا:

﴿کَذَّبَتْ عَاد ن الْمُرْسَلِیْنَ، إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوہُمْ ہُودٌ أَلَا تَتَّقُون، إِنِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنٌ، فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ، وَمَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، أَتَبْنُونَ بِکُلِّ رِیْعٍ آیَةً تَعْبَثُون، وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُون، وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ، فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُون﴾․

”عاد کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا، جب کہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کہ: کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ یقین جانو کہ میں تمھارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو اور میں تم سے اس پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے، کیا تم ہر اونچی جگہ پر کوئی یادگار بنا کر فضول حرکتیں کرتے ہو اور تم نے بڑی کاری گری سے بنائی ہوئی عمارتیں اس طرح رکھ چھوڑی ہیں، جیسے تمہیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور جب کسی کی پکڑ کرتے ہو تو پکے ظالم و جابر بن کر پکڑ کرتے ہو۔ اب اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔“

قوت و نشے میں چور قوم کہاں سننے والی تھی، جواب دیا﴿مَنْ أشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾(کون ہے جو طاقت میں ہم سے زیادہ ہو؟)

انجام کار
﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ رِیْحاً صَرْصَراً فِیْ أَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَی وَہُمْ لَا یُنصَرُونَ﴾․

”پھر بھیجی ہم نے ان پر ہوا بڑے زور کی، کئی دن، جو مصیبت کے تھے، تاکہ چکھائیں ان کو رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں اور آخرت کے عذاب میں تو پوری رسوائی ہے۔“

﴿تُدَمِّرُ کُلَّ شَیْْء ٍ بِأَمْرِ رَبِّہَا فَأَصْبَحُوا لَا یُرَی إِلَّا مَسَاکِنُہُمْ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ﴾․

”جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تہس نہس کرڈالے گی۔ غرض ان کی یہ حالت ہوگئی کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ایسے مجرموں کو ہم ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔“

قومِ صالح کا بھی حال کچھ ایسا ہی رہا؛ یہ بھی اپنی طاقت و قوت اور صنعت و حرفت پر نازاں ہو کر خدا کو بھول بیٹھی تھی، بالآخر ہلاک کر دی گئی:

﴿وَاذْکُرُواْ إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاء مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَکُمْ فِیْ الأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُہُولِہَا قُصُوراً وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتاً فَاذْکُرُواْ آلاءَ اللّہِ وَلاَ تَعْثَوْا فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾․

”(حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے کہا) اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قومِ عاد کے بعد جانشین بنایا اور تمہیں زمین پر اس طرح بسایا کہ تم اس کے ہم وار علاقوں میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر گھروں کی شکل دے دیتے ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر دھیان دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔“

﴿قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِیَ آمَنتُمْ بِہِ کَافِرُونَ﴾․

”وہ مغرور کہنے لگے: جس پیغام پر تم ایمان لائے ہو، اس کے توہم سب منکر ہیں۔“

پھر وہی ہوا جو ایسی قوموں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا:

﴿فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ﴾․

”نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں زلزلے نے آپکڑا، اور وہ اپنے گھر میں اوندھے پڑے رہ گئے۔“

یہ مختصر سی داستان تھی ان قوموں کی جنھوں نے ظلم و زیادتی اور سرکشی و طغیانی کو اختیار کر رکھا تھا۔ خدا و رسول کو بھول بیٹھے تھے۔ ہوائے نفسانی کے غلام ہوچکے تھے۔

ذرا ہم سوچیں! اپنے ماضی اور حال کو پڑھیں، اپنے اخلاق و کردار کا جائزہ لیں، کون سی ایسی برائی اور معصیت ہے جس میں ہم مبتلا نہیں ہیں؟ کون سی ایسی سرکشی ہے جس میں ہم تمام حدوں کو پار نہیں کر گئے ہیں؟ فحاشی وعیاشی میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ اگر یہ معذب قومیں دوبارہ زندہ ہو کر ہماری بے حیا زندگی کو دیکھیں تو مارے شرم کے سر جھکا لیں، ظلم و زیادتی کے وہ طریقے ایجاد کر رکھے ہیں اور انسانوں کو ہلاک و برباد کرنے کے لیے وہ مہلک ہتھیار تیار کر رکھے ہیں، بلکہ ایک دوسرے پر استعمال کرتے رہتے ہیں کہ فرعون و نمرود بھی پناہ مانگیں۔

الحاصل ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی دنیا میں رہنے کے مستحق نہیں، کب کے ہلاک کر دیے گئے ہوتے، لیکن خدا کی رحمت ہے کہ ہم دنیا میں زندہ ہیں اور اسبابِ دنیا سے استفادہ کر رہے ہیں۔

اسی غافل انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اور اس کی بے ثباتی پر متنبہ کرنے کے لیے کبھی کبھی بحکم ربی ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں جو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اپنے حالات کا جائز لینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ﴿فہل من مدکر﴾

11مارچ کو سائنس و جدید ٹیکنالوجی میں نمایاں حیثیت رکھنے والے ملک جاپان میں زلزلہ اور سونامی کا پیش آنے والا حادثہ کچھ ایسا ہی تھا، جو قیامت سے پہلے قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا، جس میں ایک اندازے کے مطابق ستائیس ہزار افراد لقمہٴ اجل بن گئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے، جو بچ گئے تھے ایٹمی ری ایکٹروں میں آئی تباہی نے انہیں ہلاکت کے دہانے پر پہنچا دیا، انسانوں ہی کے ہاتھوں تیارہ کردہ ایٹم بم کی مار جھیل چکے جاپان کے متعدد شہروں میں پہلے زلزلے کے شدید جھٹکے،پھر سونامی کی تیز رفتار لہریں جب پوری قوت کے ساتھ داخل ہوئیں تو ہر چہار جانب شور و غوغا اور چیخ وپکار کا عالم تھا، فلک بوس مضبوط عمارتیں، جن پر بنانے والوں کو ناز تھا، درخت کے سوکھے پتوں کی طرح زمین بوس ہورہی تھیں۔ ٹرین، ٹرک اور بڑی بڑی موٹر کاریں خس و خاشاک کی طرح پانی میں بہہ رہی تھیں۔ ستارو ں پر کمندیں ڈالنے والی اور بحر و بر کو مسخر کرنے والی طاقتیں بے بس نظر آرہی تھیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہورہی تھیں کہ دنیا کی تمام طاقتوں سے بڑی ایک اور طاقت ہے، جس کے حکم کے آگے تمام تدبیریں بے بس اور جملہ احتیاطی اقدامات بے معنی ہیں۔

﴿أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ أَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُون﴾․

”بھلا کیا ان کو یہ نہیں سوجھا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ طاقت میں ان سے کہیں زیادہ ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔“

کاش! انسان عبرت حاصل کرتا، اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا، ظلم وسرکشی سے باز آتا، معصیت سے اجتناب کرتا، اپنے گناہوں پر پشیمان ہو کر آئندہ نہ کرنے کا عہد کرتا، خدا کی خدائی پر ایمان لاتا، اس کے رسول کی اطاعت کرتا۔آخرت کے محاسبے سے ڈرتا، ورنہ خدا کی پکڑ اور اس کے عذاب سے کوئی بچ نہیں سکتا ، آج نہیں تو کل…

﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْْء ٌ عَظِیْمٌ، یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارَی وَمَا ہُم بِسُکَارَی وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّہِ شَدِیْد﴾․

”لوگو! ڈرو اپنے رب سے، بے شک بھونچال قیامت کا ایک بڑی چیز ہے، جس دن اُس کو دیکھو گے بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پلائے کو اور ڈال دے گی ہر پیٹ والی اپنا پیٹ اور تو دیکھے لوگوں پر نشہ اور اُن پر نشہ نہیں، پر آفت اللہ کی سخت ہے۔“
Flag Counter