Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

12 - 17
خلفائے اربعہ کی سرکار ﷺ سے محبت
محمد اقبال قریشی ہارون آبادی

اگر حضور صلی الله علیہ وسلم سے حضرات خلفائے راشدین کی محبت کے واقعات کو جمع کیا جائے تو رسالہ تو ،کجا ضخیم کتاب بھی ناکافی ہے ۔ تاہم چند واقعات بطور نمونہ لکھے جاتے ہیں، تاکہ آپ ان کی سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا اندازہ کر سکیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اس موضوع پر ہر خلیفہ کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ کتاب لکھی جائے تب بھی یہ کہنا مشکل ہے، بلکہ غلط ہے کہ اس میں جملہ واقعات سمو گئے ہیں۔ بلکہ محبت کے بعض ایسے واقعات ہیں جو صفحہٴ قرطاس پر نہیں آسکتے #
        مزے یہ دل کے لیے تھے، نہ تھے زباں کے لیے

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ
آپ نے بچپن سے لے کر وفات تک ہر مشکل او رمصیبت میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ دیا، مکہ معظمہ سے ہجرت کے وقت آپ نے سروردو عالم صلی الله علیہ وسلم کو کندھے پر اٹھایا اور ایڑیوں کے بل چلے، تاکہ دشمن کو پاؤں کے نشانات نہ مل سکیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس کے لیے آپ کو کس قدرت دقت ہوئی ہو گی؟ مگر یہ سب محبت کے سبب آسان تھا اور آپ نے خندہ پیشانی سے خدمت کو قبول کیا۔ غار ثور میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے داخل ہونے سے قبل آپ نے تمام سوراخوں کو اپنے کپڑے پھا ڑکر بند کیا۔ ایک سوراخ باقی رہ گیا تو اپنے پاؤں اوپر رکھے۔ سرکاردو عالم نے آپ کی گود میں آرام کیا اور آپ کو نیند آگئی۔ سوراخ میں سے سانپ نے حضرت صدیق کو ڈسنا شروع کیا، لیکن آپ نے ذرا حرکت نہ کی کہ کہیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ پڑجائے۔ مگر آنسو ٹپکے اور ایک قطرہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہٴ انور پر گرا، جس سے آپ بیدار ہو گئے ۔ یہ بدوں محبت کے نہیں ہو سکتا۔

حضرت صدیق نے اپنی پیاری اور نو عمر صاحبزادی حضرت عائشہ کا نکاح حضور صلی الله علیہ وسلم سے کیا۔ یہ بھی محبت کی مثال ہے۔ سیدنا حضرت صدیق  سے پوچھاگیا کہ آپ کو کون سی چیز پسند ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ سرکار مدینہ کا چہرہٴ انور ہو اور میری آنکھیں ہوں ، ہمیشہ آپ کا دیدار کرتا رہوں۔

سیرت کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھ پر ایک رات ایسی آئے گی کہ نہ گھر میں پانی ہو گا جس سے وضو کر سکوں او رنہ آگ ہو گی جس سے بدن سیک کر نماز فجر کو آسکوں ۔“ جس دن یہ ارشاد فرمایا اسی دن سے سیدنا ابوبکر صدیق  آدھی رات کے بعد آگ او رپانی لے کر دروازے پر کھڑے رہتے۔ تاکہ آپ کو تکلیف نہ ہو ۔ چناں چہ وہ رات آئی، حضور صلی الله علیہ وسلم پریشان ہو کر باہر نکلے۔ سیدنا ابوبکر صدیق کو آگ او رپانی لے کر موجود پایا۔ پوچھا کب سے کھڑے ہو ۔ عرض کیا جس دن سے ارشاد فرمایا تھا۔ روزانہ نیم شب کے بعد آجاتا ہوں ۔ سبحان الله! کس قدر محبت تھی! نہ معلوم کتنے دنوں بلکہ مہینوں کے بعد وہ رات آئی ہو گی؟

ہجرت کے بعد مسجد قبا میں انصار آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دھوکے میں حضرت صدیق سے مصافحہ کرتے رہے کیوں کہ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی ممتاز جگہ پر نہ بیٹھتے تھے۔ حضرت صدیق محض اس غرض سے مصافحہ کرتے رہے کہ بتلانے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی اور آرام میں خلل پڑے گا۔ مگر جب حضور صلی الله علیہ وسلم پر دھوپ آگئی تو چادر اٹھا کر چھاؤں کرنے کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ خادم ہیں اور مخدوم آپ صلی الله علیہ وسلم ہیں۔ اس واقعہ سے بھی محبت ظاہر ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت صدیق کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے ”وا خلیلاہ وا حبیباہ، طبت حیا وموتا،لایجمعن الله علیک موتتین ابدا، اما الموتة التی کتب فقدمتھا․

حضور صلی الله علیہ وسلم کے ایک مرتبہ چندہ مانگنے پر گھر کا جملہ اثاثہ لے آئے اور آپ کے استفسار کے جواب میں فرمایا۔

گھر میں نام الله کا اور اس کے رسول کا چھوڑ آیا ہوں #
        پروانے کو چراغ، چراغ کو بلبل، بلبل کو پھول بس
        صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ
ایک طویل حدیث میں ہے کہ آپ  نے عرض کیا یا رسول الله! آپ صلی الله علیہ وسلم مجھے اپنی جان اور سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ ( ازالة الخفاء)

آپ نے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت حفصہ کا نکاح آپ صلی الله علیہ وسلم سے کر دیا۔ ایک مرتبہ کچھ تنازعہ ہوا۔ امہات المومنین آپ سے کچھ زیادہ خرچ مانگتی تھیں۔ اسی اثنا میں حضرت عمر حاضر ہوئے۔ آپ کچھ مغموم تھے اس لیے اجازت نہ دی ۔ تو باہر سے آپ نے عرض کیا۔

یا رسول الله! میں حفصہ کی سفارش کرنے نہیں آیا، اگر آپ فرمائیں تو میں حفصہ کی گردن مارنے کو تیار ہوں۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت دے دی ۔ اس واقعہ سے ان کی حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ محبت ظاہر ہے۔ اسی طرح مال غنیمت کی تقسیم کے وقت، ایک بدوی نے کہا یا رسول الله ! آپ نے انصاف نہیں کیا۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ آگ بگولہ ہو گئے اور تلوار سے اس کا سر قلم کرنا چاہا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور اس شخص سے کہا اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو نہ مجھ سے پہلے کبھی انصاف ہوا ہے اور نہ آئندہ ہو گا۔

بشر منافق اور ایک یہودی کا جھگڑا معمولی بات پر ہوا تو وہ دونوں آں حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ منافق نے تسلیم نہ کیا اور خیال کیاکہ حضرت عمر کفار پر سخت بہت ہیں۔ ان سے فیصلہ کرائیں۔ چناں چہ آپ  کے پاس آئے۔ یہودی نے سارا قصہ سنایا تو حضرت عمر گھر تشریف لے گئے اور تلوار لاکر اس کا سر قلم کر دیا اور فرمایا جو حضور کے فیصلہ کے بعد میرے پاس مقدمہ لائے اس کا یہی فیصلہ ہے ۔ منافقین نے خون بہامانگا تو یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

﴿فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما﴾․

جس وقت آں حضور صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا جو شخص یہ کہے کہ آپ کا وصال ہو گیا میں تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا۔ مرشد ناحضرت حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمانا محبت کی وجہ سے تھا، چناں چہ فرمایا ایک بی بی، جن کے شوہر عالم تھے، بعد وفات خاوند مجھ سے کہتی تھیں کہ میرا گمان تھا کہ عالم نہیں مرا کرتے اورمیں اپنے کو خوش قسمت سمجھتی تھی ۔ اب پتہ چلا جس طرح وہ عورت علماء کی موت کو بعید قیاس سمجھتی تھی۔ حضرت عمر نے شدت محبت میں یہی سمجھا۔

حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ
بیعت رضوان کے وقت جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو صلح کی بات چیت کرنے مکہ بھیجا تو کفار اور رؤسائے مکہ نے آپ کو طواف کی اجازت دے دی، لیکن آپ نے طواف نہ کیا اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے بغیر طواف کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ محض آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کے سبب سے تھا۔ ورنہ طواف کرنے میں کیا حرج تھا، فقط آپ کی محبت کے سبب اس سعادت کو حاصل نہ کیا۔

جنگ تبوک میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی ترغیب پر چھ سو اونٹ مع جھولوں او رکجاووں کے دیے، آپ ہی کے ارشاد کی تعمیل میں رومہ کاکنواں مسلمانوں کے لیے خریدا او رمسجد نبوی کو وسیع کیا۔ یہ محبت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ترغیب منذری کی ایک طویل حدیث میں حضرت عثمان بن ابان سے مروی ہے کہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ اس قدر مغموم اور پریشان رہتے تھے کہ ایک مرتبہ باغ میں لیٹے تھے کہ حضرت عمر گزرے اور سلام کیا۔ آپ کو پتہ بھی نہ چلا ،اس لیے جواب نہ دیا، گویا زبان حال سے فرمایا #
        نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لے اپنی
        تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں

حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ
حضور صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے بستر مبارک پر لیٹے، حالاں کہ معلوم تھا کہ لوگ آں حضور صلی الله علیہ وسلم کی جان کے دشمن ہیں۔ اس لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر سونا محض آپ کی محبت کے سبب سے تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصال مبارک پر فرمایا۔” میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کی وفات سے وہ چیز جاتی رہی جو کسی دوسرے کی موت سے نہ رہ گئی تھی ۔ آج نبوت کا خاتمہ ہو گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا ایسا صدمہ ہے کہ سب مصیبتیں اور تکلیفیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ مگر یہ مصیبت سب کے لیے ہے، اگر آپ نے صبر کے لیے حکم نہ فرمایا ہوتا اور رونے دھونے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہمارے آنسوؤں کے چشمے کبھی نہ سوکھتے۔ ہم روتے روتے آنکھوں سے دریابہا دیتے، پھر بھی ہمیں صبر نہ آتا۔ روتے روتے ہماری آنکھیں بند ہو جائیں، لیکن کلیجے کے ناسور کبھی نہ بھریں گے۔ اس مصیبت سے زیادہ ہمارے لیے کوئی مصیبت نہیں ہو سکتی، نہ تو یہ غم مٹنے والا ہے، نہ یہ مصیبت ٹلنے والی۔“

ان الفاظ سے اندازہ لگائیے کہ آپ سے کس قدر محبت تھی، آپ کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ کی اس قدر خدمت کی کہ بعض ضروری کام بھی نہکرسکے، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ کا انتقال ہوا۔ اگر آپ کی سوانح عمری کا بغور مطالعہ کریں تو بے شمار محبت سرکار دو عالم کے واقعات ملتے ہیں۔ والله المستعان، وعلیہ التکلان․
Flag Counter