Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

2 - 17
لہ دعوة الحق تمام انسانوں کے غور وفکر کے لیے
مولانا محمد عاشق الہیٰ بلند شہری 

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

یہ تو سب جانتے او رمانتے ہیں کہ ہر انسان کو مرنا ہے، اس دنیا سے جانا ہے، پھر انسانوں کے مختلف مذاہب ہیں، کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو مانتے ہی نہیں او راکثر انسان وہ ہیں جو موت کے بعد زندہ ہونے کو اور جزا وسزا کو مانتے ہیں اور ہر وہ شخص جس نے کوئی بھی مذہب اختیار کر رکھا ہے وہ اپنے دین میں آخرت کی نجات سمجھتا ہے ،کسی بھی مذہبی آدمی سے، خواہ یہودی ہو ، نصرانی ہو ، ہندوہو، بدھ مذہب یا کسی اور مذہب کا ماننے والا ہو اس سے اگر پوچھا جائے کہ موت کے بعد زندگی کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ تو وہی کہے گا کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے اورانسانوں کو اپنے عقیدے او راعمال کے بدلہ میں جنت یا دورخ میں جانا ہے۔

اسے ہندونرک یا سورگ کہتے ہیں اور یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم چند دن کے لیے دوزخ میں جاکر جنت میں چلے جائیں گے۔ قرآن مجید میں یہود ونصاریٰ کا قول نقل کیا گیا ہے :﴿لن یدخل الجنة الا من کان ھودا او نصاری﴾ یعنی جنت میں ہر گز کوئی داخل نہیں ہو گا الایہ کہ یہودی ہو یا نصرانی ہو ۔ یہودیوں نے اپنے بارے میں یہ بات کہی اور نصاریٰ نے اپنے بارے میں ، جب یہ سب مانتے ہیں کہ موت کے بعد جزا وسزا ہے اور عقیدہ اور عمل پر نجات کا مدار ہے تو ہر شخص کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ میں جس دین اور مذہب پر ہوں اس پر مر نے سے میں دوزخ سے بچ جاؤں گا اور جنت میں چلا جاؤں گا، اس کی کیا دلیل ہے ، جس پر اطمینان ہو سکے اور یقین کے ساتھ کہا جاسکے کہ میرا مذہب واقعی نجات دلانے والا ہے؟ جن قوموں کا یہ دعوی ہے کہ ہمارے پاس دین آسمانی ہے، یعنی وہ دین ہے جسے الله تعالیٰ نے ہمارے لیے بھیجا ہے، جس پر ہماری نجات کا وعدہ فرمایا ہے، ان میں یہودی آگے آگے ہیں اور نصاریٰ بھی یہی بات کہتے ہیں کہ ہمارا دین ذریعہ نجات بنے گا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو الله تعالیٰ نے قتل کروا کر ہمارے گناہوں کاکفارہ فرما دیا اور ساتھ ہی عیسی علیہ السلام کو الله تعالیٰ کا بیٹا بھی بتاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ فرمایا تھا کہ میں الله تعالیٰ کا بیٹا ہوں اوریہ کہ تم مجھے قتل کردو، میرا قتل تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، یہ عقیدہ نصاریٰ نے اپنی طرف سے خود بنایا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام نے ایسا نہیں فرمایا، نصاری کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایسا فرمایا تھا۔

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کویہ اختیار نہیں دیا ہے کہ جو عقیدہ چاہیں اپنی طرف سے تجویز کر لیں اور جس عمل کو چاہیں حلال سمجھ لیں اور جس کام کو چاہیں حرام قرار دے دیں، الله تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے صحیح عقیدے سمجھانے کے لیے اور حلال او رحرام کی تفصیلا ت بتانے کے لیے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں ،اگر ہر شخص اپنے عمل اورعقیدہ او راعمال میں آزاد چھوڑ دیا جاتا تو رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل فرمانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ الله تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ ہے، وہی خالق اور مالک ہے، اس لیے ہر بات، ہر فرما،ن ہر قانون اسی کا معتبر ہے اور لائق عمل ہے۔ جس نے پیدا کیا اس کو وحدہ لاشریک لہ مانو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی کوئی بیو ی نہیں ،اولاد نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس جیسا کوئی نہیں ،وہ قادر مطلق ہے، سب کچھ جانتا ہے، اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، اس کے حکم سے صور پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہو گی، اچھے برے سب حاضر ہوں گے، اس کے ماننے والے بھی ہوں گے، اس کے باغی بھی ہوں گے، اس کے ساتھ شریک بنانے والے بھی ہوں گے، اس کی اولاد تجویز کرنے والے بھی ہوں گے، جن لوگوں نے صحیح عقیدہ رکھا اور اسے وحدہ لاشریک لہ مانا، قیامت کے دن کے آنے کا اقرار کیا، اس کے نبیوں کی تصدیق کی، اس کی کتابوں پر ایمان لائے، ان کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ جو لوگ خالق کے وجود ہی کو نہیں مانتے، وہ یوں کہتے ہیں کہ فطرت ہی سب کچھ ہے او رکچھ لوگ وہ ہیں جو خالق تعالیٰ شانہ کے وجود کو مانتے ہیں او راس کو بھی مانتے ہیں کہ ساری مخلوق اسی کی پیداکی ہوئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے علاوہ دوسری مخلوق کی بھی پوجا کرتے ہیں، بتوں کے پوجنے والے بھی ہیں، گنگا جمنا اور آگ کے پجاری بھی ہیں ، سورج کو بھی پوجتے ہیں اور بھی طرح طرح کے معبود تراش رکھے ہیں، تعجب کی بات ہے کہ…جو لوگ یہ جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہ کیا وہ بھی غیر الله کی پرستش، یعنی پوجا کرتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو عقل مند کہلاتے ہیں ،ان لوگوں نے شرک جیسے برے عمل کو فلسفی انداز میں بہت اچھا عمل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، قرآن مجید میں فرمایا ہے ﴿ان الله لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذٰلک لمن یشاء﴾ (بلاشبہ الله تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشیں گے کہ اس کے ساتھ شرک کیاجائے او راس کے علاوہ وہ جس چیز کو چاہے گا بخش دے گا)۔

دنیا میں جو دین مشہور ومعروف ہے ان میں دین اسلام بھی ہے، داعی اسلام سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جب الله تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا تو آپ نے توحید کی دعوت دی ، شرک کو مٹایا، جہالت کی رسموں کو چھڑو ایا، دنیا میں ہر طرف بت پرستی تھی، بڑے لوگ چھوٹوں پر ظلم کرتے تھے، سود کا لین دین عام تھا، زنا کاری کا رواج تھا، فاحشہ عورتوں نے اپنے اڈے بنا رکھے تھے او ران پر جھنڈے لگا رکھے تھے، روزی نہ ملنے کے ڈر سے اولاد کو قتل کر دیتے تھے اور بعض لوگ لڑکیوں کو اس لیے قتل کر دیا کرتے تھے کہ ہمیں کسی کا سسر بننا پڑے گا، عورتوں کو باپ اور شوہر کی میراث میں کوئی حصہ نہیں دیتے تھے اور ہندوستان میں تو عورتوں کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ جس کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اسے شوہر کے جنازے کے ساتھ زندہ جلنا پڑتا تھا، نہ خرید وفروخت کا کوئی قانون تھا، نہ اخلاق کی کوئی بلندی تھی ، بادشاہ اور راجہ مہاراجہ جو چاہتے تھے بے دھڑک کر لیتے تھے ، پوری انسانیت تباہ تھی، ظالموں کے ظلموں کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔

سیدنا محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب توحید کی دعوت دی تو خود ان کے شہر مکہ معظمہ کے لوگ اور آپ کی قوم یعنی قریش کے افراد، حتی کے آپ کے چچا ابولہب وغیرہ بھی سخت دشمن ہو گئے، بتوں کی پوجا لوگوں کے دلوں میں اتنی زیادہ رچ بس گئی تھی کہ توحید کی آواز بری لگی اور توحید کو گمراہی سمجھنے لگے، سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے 13 سال تک بڑی بڑی مصیبتوں او رتکلیفوں میں اپنا کام جاری رکھا، کچھ لوگ شہر مکہ معظمہ میں او رکچھ لوگ باہر سے آکر مسلمان ہو گئے، لیکن مکہ والوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے آپ کو ہجرت کرنی پڑی ، آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے ، وہاں یہودیوں نے مخالفت کی، یہ جاننے کے باوجود کہ آپ واقعی الله کے رسول ہیں اسلام قبول نہیں کیا، یہودیوں میں سے دو چار افراد مسلمان ہوئے، یہود کے بڑے عالم عبدالله بن سلام تھے، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے نبی ہونے کو میں ایسا پہچانتا ہوں جیسے اپنے بیٹے کو پہچانتا ہوں اور آپ کی حقانیت کو بیٹے کے پہچاننے سے زیادہ پہچانتا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا میں نے جب آپ کا چہرہ دیکھا تو اسی وقت پہچان لیا کہ یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ عام یہود کا اسلام قبول نہ کرنا اسی جہالت اور عصبیت کے جذبہ کی وجہ سے تھا کہ ہم اپنے ماں باپ کے دین کو کیسے چھوڑ یں اور عربوں میں کیسے نبی آیا؟ ہم ہی میں سے نبی آنا چاہیے تھا، یہ لوگ الله تعالیٰ کے فیصلہ سے راضی نہیں ہوئے الله تعالیٰ نے جو عربوں میں سے نبی بھیج دیا یہ بات ان کو اچھی نہ لگی اور آج تک اس پر قائم ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جنت میں صرف ہم ہی جائیں گے بھلا جو الله سے ناراض ہو … وہ قیامت کے دن نجات پانے والوں کے گروہ میں کیسے شامل ہو گا؟

جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں الله کا رسول ہوں، مجھ پر الله تعالیٰ نے کتاب نازل فرمائی تو بہت سے لوگوں نے آپ کا دین قبول کر لیا پھر ملک عرب سے دین اسلام آگے بڑھا تو قوموں کی قومیں اسلام میں داخل ہوتی چلی گئی ، پورے عالم میں انہیں لوگوں کی نسلیں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں اسلام کا دعوی ہے او رجو اسلام پر جمے ہوئے ہیں ، اذانوں کے ذریعہ الله تعالیٰ کا نام بلند کرتے ہیں… نمازیں پڑھتے ہیں، الله کی توحید کے داعی ہیں شرک کی مذمت کرتے ہیں او رنماز روزہ کے پابند ہیں، الله تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں او راس کی کتاب قرآن مجید کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، حفظ کرتے ہیں او راس کی تفسیریں لکھتے ہیں، ان کے آبا واجداد کے سامنے دین توحید پیش کیا گیا انہوں نے قبول کر لیا اور اپنی جانوں اور نسلوں کو موت کے بعد کے عذاب سے بچا لیا۔

شاید کوئی یہودی یا نصرانی یا کسی دوسرے مذہب کا کوئی شخص یوں کہے کہ جس طرح آپ اپنے مذہب اسلام میں آخرت کی نجات بتاتے ہیں اور یہآپ نے اپنے آبا واجداد سے سنا ہے، اسی طرح ہم اپنے مذہب پر رہتے ہوئے اپنی نجات کا یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ہمیں ہمارے باپ دادا نے یہی بتایا ہے ، لہٰذا اس کا یقین کرنے کی کیا صورت ہے کہ تمہارا دین حق ہے، الله کے نزدیک مقبول ہے او رہمارا دین ناحق ہے، اس کی کیا دلیل ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مذہب کو دیکھو کہ کس مذہب میں توحید ہے او رکس مذہب میں شرک ہے، شرک والا دین تو الله تعالیٰ کے یہاں مقبول ہو ہی نہیں سکتا، کیوں کہ اس میں الله کے علاوہ دوسروں کی پوجا ہے، اس کے لیے اپنی سمجھ ہی کافی ہے، اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں، کوئی شخص اپنی سمجھ سے بھی کام نہ لے اور محض باپ دادوں کی تقلید پر چلے یہ اس کا اپنی جان پر ظلم ہے دیکھو! دنیا میں ہمارے آبا واجداد تھے ، ان کے دنیاوی حالات ومعاملات کیسے تھے؟ کیا ہم نے ان کی خلاف ورزی نہیں کی او رکیا ان کو ہم اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے؟ جب دنیاوی چیزوں میں آبا واجداد کی خلاف ورزی درست ہے تو دین کے بارے میں ان کی خلاف ورزی کیوں نہیں کر سکتے ؟ جب کہ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ لوگ مشرک تھے، گمراہی پر تھے، الله تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلانے والے تھے؟ کیا وجہ ہے کہ دنیاوی کاموں میں آبا واجداد کی تقلید چھوڑنا گوارا ہے اور دین ومذہب کے بارے میں ان کی تقلید چھوڑنا گوارا نہیں جب کہ دین اور مذہب پر آخرت کی نجات کا مدار ہے؟!

سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو دین لائے ہیں یعنی دین اسلام، اس کے حق ہونے کی اور اس بات کی دلیل کہ یہ دین الله تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، قرآن کا معجزہ ہے، جو بہت مضبوط اور بہت مستحکم دلیل ہے، قرآن مجید میں سارے عالم کے انسانوں کو ہمیشہ کے لیے چیلنج دیا ہے کہ قرآن جیسی ایک سورت بنا کر لاؤ، سورہٴ بقرہ میں ارشاد ہے ﴿وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فأتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون الله ان کنتم صٰدقین﴾․( اگر تم اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہو جوہم نے اپنے بندے پر نازل کیاتو اس جیسی ایک سورت بنا کر لاؤ، اگر تم سچ ہو۔)

قرآن مجید کے اس چیلنج کو ڈیڑھ ہزار سال ہو چکے ہیں، کوئی بھی آج تک قرآن جیسی کوئی سورت بنا کر نہیں لا سکا اور نہیں لاسکتا۔ آیت بالا کے بعد ارشاد ہے﴿ فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارة﴾․ ( سو اگر تم نہیں کرتے او ر نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان او رپتھر ہیں۔) یہ کھلا ہوا چیلنج ہے ،سب کے سامنے ہے، دشمنوں نے بڑی کوششیں کر لیں، کمپیوٹر استعمال کر لیے، عربی زبان پر عبور رکھنے والوں اور فصاحت وبلاغت میں مہارت رکھنے والوں کو استعمال کر لیا، لیکن قرآن کے مقابلے میں ایک آیت بھی نہیں لاسکے اور نہیں لاسکیں گے، جیساکہ قرآن مجید میں پہلے ہی فرما دیا گیا ہے۔

قرآن کے اس چیلنج کو جاننے والے جانتے ہیں او ربار بار پڑھتے ہیں، غیر مسلموں میں جو صاحب قلم ہیں او رمذاہب عالم کے ریسرچ کرنے والے ہیں وہ بھی قرآن کریم کے اس چیلنج کو جانتے ہیں، اپنی ہار تسلیم کرنے کے باوجود حق کو قبول نہیں کرتے، افسوس ہے کہ قیامت کے دن اس آگ میں جانے کو تیار ہیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔

اب ایک بات اور سنیے! دنیا میں بہت سے دین رواج پائے ہوئے ہیں، ان میں دین اسلام ہی ایک سچا دین ہے یہ دین بہت زیادہ جامع اور مکمل ہے، اس میں عقائد بھی ہیں، عبادات بھی ہیں، معاشرت، معیشت، تجارت، ملازمت، مزارعت، باغبانی، منا کحت، میاں بیوی کے تعلقات، بچوں کی تربیت، صاحب اقتدار کے لیے اور قاضیوں کے لیے اور عامة الناس کے لیے تفصیلی احکام ہیں دوسرے نام نہاد مذاہب میں صرف چند تصورات اور توہمات ہیں، ان میں زندگی گزارنے کے طریقے نہیں بتائے ہیں اور یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کیا حرام ہے او رکیا حلال ہے؟ نیکیوں او رگناہوں کی تفصیل نہیں بتائی، دو چار چیزوں کو جو گناہ سمجھتے ہیں ان سے بچتے تک نہیں او رنصاریٰ نے تو غضب ہی کر دیا، سارے گناہ کر لیتے ہیں او راتوار کے دن چرچ میں جاکر وہاں کے پادری سے سب کچھ معاف کر الیتے ہیں۔ ان پادریوں کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ نافرمانی تو ہو الله تعالیٰ کی، اس کو معاف کر دے کوئی بندہ یہ کون سی عقل او رسمجھ کی بات ہے؟! چوں کہ نصاریٰ کا یہ عقیدہ ہے کہ اتوار کے دن چرچ میں جانے سے سب کچھ معاف ہو جائے گا ،اسی لیے کسی بھی گناہ کو کرنے کے بعد فکر مند نہیں ہوتے ، گناہ پر گناہ کیے جاتے ہیں او رہر طرح کے گناہوں میں لت پت رہتے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی دیگر مذاہب والوں نے گناہوں کو مقصد زندگی بنا رکھا ہے۔

الله تعالیٰ شانہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں جن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام تھے او رسب سے آخری حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام آپ سے پہلے گزر گئے، ان حضرات نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نبوت اور تشریف آوری کی خبری دی، آپ کے تشریف لانے تک یہود ونصاری ( دونوں جماعتیں) آپ کی آمد کا انتظار کرتی تھیں او راپنی کتابوں میں آپ کا تذکرہ پڑھتی تھیں، لیکن جب آپ تشریف لائے تو مذہبی تعصب نے ان کو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دین نہیں قبول کرنے دیا۔ جانتے پہچانتے ہوئے حق کا انکار کرنا اور الله کے نبی کو جھٹلانا الله تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے، یہ ایسی بات ہے جسے ہر قوم کے افراد جانتے اور سمجھتے ہیں ،جو قومیں مسلمان نہیں ہیں، ان کے مذہب کے بڑے ہندو ہوں، یا بدھ مت، یہودی ہوں یا نصرانی یاکسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، ان کے بڑے اپنی دنیاوی بڑائی، مال ودولت، سرداری وچودھراھٹ کی وجہ سے نہ اسلام قبول کرتے ہیں ،نہ اپنی قوم کو قبول کرنے دیتے ہیں۔

آج یہود ونصاریٰ اور دوسری اقوام نے اسلام کی مخالفت پرکمر باندھ رکھی ہے اور اس میں بہت پیش پیش ہیں، جگہ جگہ نصاریٰ نے اپنے مشن قائم کر رکھے ہیں مسلمانوں کو نجات کے راستے سے ہٹا کر یعنی اسلام کا منکر بنا کر موت کے بعد عذاب میں لے جانا چاہتے ہیں ، جو کروڑوں ڈالر مقصد کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کا نتیجہ عام حالات میں صفر کے درجہ میں ہے، ایشیائی ممالک میں اپنی مشینریاں بھیجتے ہیں او رخود یورپ وامریکا میں نصاریٰ اسلام قبول کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، چرچ بک رہے ہیں، مسجد میں تبدیل ہو رہے ہیں، اس پر پابندی لگانے سے عاجز ہیں۔ بات یہ ہے کہ ایمان دل میں اتر جائے تو کوئی بھی مخالفانہ کوشش کام یاب نہیں ہو سکتی، جسے مسلمان ہونا ہے، مسلمان ہو کر جینا ہے، اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی، اگر دشمن اسلام کی کوششیں کام یاب ہوتیں تو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گھر سے آگے اسلام نہ بڑھتا۔

ہندوستان میں ہندو مسلمان ہو جاتے ہیں، ہندوا نہیں ستاتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، دوبارہ بت پرستی کے دین پر لانا چاہتے ہیں، لیکن وہ پوری مضبوطی کے ساتھ دین اسلام پر قائم رہتے ہیں۔

نصاریٰ نے دنیا میں اکثریت کا مسئلہ بنا رکھا ہے، ان کی کوششیں ہیں کہ ہماری تعداد زیادہ ہو جائے، ہمار ی تجارتیں جاری رہیں، ہم نے جو گناہ گاری والی زندگی اختیار کر رکھی ہے وہ دوسری قوموں میں بھی رواج پا جائے ، ان کو اتنا ہوش نہیں کہ مسئلہ دنیا میں زیادہ تعداد ہونے کا نہیں ہے او رتجارتیں بڑھانے کا بھی نہیں ہے، اصل مسئلہ موت کے بعد دائمی عذاب سے بچنے کا ہے۔

نصاریٰ کو یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم اپنے دین پر مر گئے جس پر جمے ہوئے ہیں او رجس کی دعوت دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں کیا اس کے اختیار کرنے سے ہم دوزخ سے بچ جائیں گے او راگر یہ دعویٰ ہے کہ اس کی وجہ سے دوزخ سے بچ جائیں گے تو اس کی دلیل ہونی چاہیے ۔

یہ دنیا ہمیشہ نہیں رہے گی، ہر شخص کو مرنا ہے او رپوری دنیا فنا ہو گی، میدان قیامت میں حاضر ہونا ہے، وہاں جنت و دوزخ کے فیصلے ہوں گے، جن لوگوں نے الله کے ساتھ کسی کو شریک کیا، یعنی الله کے سوا کسی کی پوجا کی اور جس نے کسی نبی کا انکار کیا او رالله کی کسی کتاب ( توریت ہو یا انجیل، زبور ہو یا قرآن) کا انکار کیا، یہ سب لوگ دوزخ میں جائیں گے، جو لوگ اس حقیر دنیا کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے او راپنے عوام کو قبول کرنے نہیں دیتے، وہ لوگ سمجھ لیں کہ اس عارضی دنیا کی چہل پہل دیکھ کر اپنی جانوں کو اور اپنی عوام کی جانوں کو آخرت کے بے انتہا عذاب میں نہ ڈالیں۔

اگر صرف اتنی سی بات ہوتی کہ دنیا میں آئے، کمایا، کھایا، گھر دربنایا، سوئے اور جاگے، پھر مرکر کے ختم ہو گئے تو فکر مند ہونے کی بات نہ تھی، لیکن جب اس بات کو مانتے او رجانتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہونا ہے اور یہ کہ قیامت قائم ہو گی اور حساب وکتاب کے لیے پیشی ہو گی، جنت کا داخلہ اس دین کے ماننے والوں کے لیے ہے، جو الله تعالیٰ کے یہاں مقبول ہے اورجہنم کا داخلہ ان لوگوں کے لیے مقررو متعین ہے جو الله کے بھیجے ہوئے دین کا او راس کے کسی نبی کا انکار کریں تو ہر فردوبشر کو اپنی خیر خواہی کے لیے یہ سوچنا ضروری ہے کہ میں جس دین پر ہوں اور جن کاموں میں لگا ہوا ہوں یہ آخرت کے دائمی عذاب سے بچا کر جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنیں گے یا نہیں؟ کسی دین اور دھرم پر چلتے رہے او رموت کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ یہ دین باطل تھا اور وہاں سے واپس ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو کیا ہو گا؟ یہ ہر شخص کے فکر کرنے کی بات ہے، یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے، اس میں ماں باپ، خاندان اورکنبہ وقبیلہ، رسم ورواج اور دوست واحباب کی جانب دیکھنا کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ او رکسی ایسے دین پر جمے رہنا جو خالق کائنات کا بھیجا ہوا نہ ہو خود اپنی جان سے دشمنی ہے۔

اگر سارے انسان غور کریں تو یہی سمجھ میں آئے گا کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جسے الله تعالیٰ نے بھیجا ہے او رجس کے قبول کرنے میں آخرت کی نجات منحصر ہے۔ ﴿والله یقول الحق وھو یھدی السبیل﴾
Flag Counter