Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1432ھ

ہ رسالہ

7 - 17
قانون توہین رسالت ﷺ کیا یہ صدر ضیاء الحق کا بنایا ہوا قانون ہے؟
محترم محمد متین خالد

قانون توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کا قانون صدر ضیاء الحق کا بنایاہوا قانون ہے ، لہٰذا اسے ختم ہونا چاہیے۔ صدر ضیاء الحق کی دشمنی کی آڑ میں قانون توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت عجیب بات ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس قانون کے بننے کی وجہ معلوم کرنی چاہیے۔17 مئی1986ء کی شام اسلام آباد کے ہوٹل میں ایک سیمینار کے دوران انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن( موجودہ سپریم کورٹ بار کی صدر) عاصمہ جہانگیر ایڈوکیٹ نے شریعت بل کے خلاف تقریر کرتے ہوئے حضور خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں نہایت توہین آمیز اور گستاخانہ الفاظ استعمال کیے۔ میرا قلم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں وہ ناپاک الفاظ یہاں رقم کروں۔ عاصمہ جہانگیر کی شانِ رسالت صلی الله علیہ وسلم میں گستاخی کے ارتکاب پر راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے معزز اراکین جناب عبادالرحمن لودھی ایڈوکیٹ او رجناب ظہیر احمد قادری ایڈوکیٹ نے سخت احتجاج کیا او رمطالبہ کیا کہ وہ اِن توہین آمیز الفاظ کو واپس لے کر اس گستاخی پر معافی مانگے۔ عاصمہ جہانگیر کے انکار او راپنے الفاظ پر مسلسل اصرار پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اگلے دن جب اس واقعہ کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو پورے ملک میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پرتوہین رسالت کی سزا نافذ کی جائے او راس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ دریں اثنا انہی دنوں عاصمہ جہانگیر نے برملا اعلان کیا کہ ” میرے شوہر طاہر جہانگیر قادیانی ہیں۔ میں اس سلسلے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔ وہ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ “ (روزنامہ جنگ لاہور26 جون1986ء)

عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر کانوٹس سب سے پہلے قومی اسمبلی میں، اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون ایم۔ این۔ اے محترمہ نثار فاطمہ نے لیا اور انہوں نے وہاں پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی کہ عاصمہ جہانگیر کے ان توہین آمیز الفاظ کے خلاف حکومت فوری ایکشن لے۔ لیکن چوں کہ اس وقت تعزیرات پاکستان میں توہین رسالت کے جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی ، اس لیے اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہو سکی ۔ بعد ازاں محترمہ آپا نثار فاطمہ نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں توہین رسالت کی اسلامی سزا، سزائے موت تجویز کی گئی۔ اراکین قومی اسمبلی کی بھاری اکثریت نے اس بل کو منظور کیا، اس طرح تعزیرات پاکستان میں دفعہ295/C کا ضافہ کیا گیا، جس کی رُو سے ”اگر کوئی شخص زبانی یا تحریری الفاظ کے ذریعہ یا واضح انداز میں یا بذریعہ بہتان طرازی یا بذریعہ طعن آمیز اشارہ، کنایہ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر حضور نبی کریم، حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے اسم مبارک کی بے حرمتی کرتا ہے، سزائے موت کا مستوجب ہو گا یا اسے تاحیات سزا دی جائے گی او راسے جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔“

اس قانون میں دو سزائیں تجویز کی گئیں ، سزائے موت یاعمر قید سزا۔ حالاں کہ محترمہ آپا نثار فاطمہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بل میں توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کی سزا صرف سزائے موت تجویز کی گئی تھی، مگر وزارت قانون کی طرف سے اس بل میں یہ ترمیم کی گئی کہ شاتم رسول کی سزا ، سزائے موت یا عمر قید ہو گی ۔ اس طرح تعزیرات پاکستان میں295/C کا اضافہ کر دیا گیا۔ چوں کہ توہین رسالت کے مرتکب کی سزا” عمر قید“ اسلامی قانون کے خلاف تھی ۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ، مجاہد تحفظ ناموس رسالت جناب محمد اسماعیل قریشی نے اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا کہ توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کی سزا بطور حد سزائے موت ہے اور حد کی سزا میں حکومت ہی نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کو بھی سوئی کی نوک کے برابر کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار نہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت نومبر1989ء کو شروع ہوئی۔ وفاقی شرعی عدالت کا یہ فل بنچ جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس ، جناب جسٹس عبدالکریم خان کندی، جناب جسٹس عبادت یار خاں، جناب جسٹس عبدالرزاق اے تھیم او رجناب جسٹس فدا محمد خاں پر مشتمل تھا۔ عدالت نے خاصے عرصے تک اس درخواست کی سماعت کی اور متعدد اسکالروں، تمام مسالک کے جید علمائے کرام او راس موضوع پر دست رس رکھنے والے سینئر قانون دانوں کو بھی طلب کیا، تاکہ وہ اس موضوع پر اپنی آرا پیش کرکے عدالت کی قانونی معاونت کریں۔

30 اکتوبر1990ء کو عدالت نے اس درخواست کا متفقہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے قرار دیا کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی توہین یا ان کے اسم مبارک کی بے حرمتی کے جرم میں متبادل سزا، تاحیات قید، اسلام کی واضح نصوص(احکام کے منافی ہے)۔ عدالت نے مزید کہا کہ دفعہ 295 سی میں ”تاعمر قید“ کا لفظ توہین رسالت کے حوالہ سے شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ، اس لیے صدر پاکستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 30 اپریل1991ء تک اس قانون کی اصلاح کریں اور ” یا عمرقید“ کے الفاظ ختم کریں اور یہ کہ اگر تاریخ مقررہ تک ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس کے بعد یہ الفاظ خود بخود کالعدم متصور کیے جائیں گے اور صرف سزائے موت، ملک کا قانون بن جائے گا، چناں چہ مقررہ تاریخ تک یہ کام نہ ہو سکا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ الفاظ خود بخود کالعدم ہو گئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں توہین رسالت کی سزا، سزائے موت کو قرآن اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اخذ کر دہ اور درست قرار دیا ۔ (PLD-1991 FSC-10) یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ203-D کے تحت وفاقی شرعی عدالت ہی اس امر کی مجاز ہے کہ وہ کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرے۔ آئین کی شق 203-D کے مطالعہ کے بعد اس سلسلہ میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ اس آئینی شق میں کہا گیا ہے:

”عدالت ازخود نوٹس پر یا پاکستان کے کسی شہری کی پٹیشن پر یا وفاقی یا کسی صوبائی حکومت کی پٹیشن پر یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ قرآن اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کے اصولوں کی روشنی میں کسی بھی قانون یا اس کی شق کے اسلام کے مطابق یا اسلام سے متصادم ہونے کا فیصلہ کرسکے۔“

یہ بات ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ قوانین وضع کرنے ، ان پر نظر ثانی کرنے ، ان میں ترمیم کرنے ، ان کی تنسیخ کرنے کے وسیع تر اختیارات رکھتی ہے ۔ پارلیمانی طریقہ کار اور قانون سازی کی روایات کے مطابق پارلیمنٹ کی طرف سے وضع کردہ قانون توہین رسالت کئی دہائیوں سے نافذ العمل ہے او رآئینی عدالت کے کڑے معیار پر پورا اتر چکا ہے ۔ یہ کہنا کہ قرآن وسنت میں توہین رسالت کی سزا موت نہیں ہے ، وفاقی شرعی عدالت اس اعتراض کا آئینی شق203-D کی ذیلی شق2 کے تحت پہلے ہی باریک بینی سے جائزہ لے چکی ہے او راس کے فیصلہ کی رو سے موجودہ قانون قرآن وسنت کے عین مطابق ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ گستاخِ رسول کے لیے موت کی سزا کے علاوہ کسی بھی قسم کی متبادل سزا اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو گی۔ آئین کی شق 203-D کی ذیلی شق2 کی شق(b) کے تحت یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ ہو چکا ہے۔

حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ، اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کا مقصد فیصلہ کے بعض پہلوؤں کی وضاحت حاصل کرنا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لے لی۔ بعض سیکولر اور قادیانی حضرات نے حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس سنگین جرم کے لیے صرف موت کی سزا قائم رکھنے پر اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن ان لوگوں کے یہ ذہنی تحفظات عوامی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہ کرسکے۔ نہ صرف رائے عامہ کے راہ نماؤں نے ، بلکہ منتخب اداروں اور قانون ساز اسمبلیوں نے بھی عوامی جذبات کو زبان دی۔

2 جون1992ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، جس میں حکومت سے کہا گیا کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی توہین پر صرف اور صرف سزائے موت ہی دی جانی چاہیے۔ سینٹ نے بھی یہی راہ عمل اختیار کی۔8 جولائی1992ء کو سینٹ میں ترمیمی قانون متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جس میں اس جرم کے لیے صرف موت کی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اگر عوام کی مرضی پر عمل کرنے کے اصول کا کچھ مقصد ہے ، اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا متفقہ فیصلہ پاکستان کے عوام کے اجتماعی ضمیرکا اظہار ہے تو یہ قانون ہماری قومی تاریخ میں ایک سب سے زیادہ عوامی قانون تسلیم کیا جانا چاہیے۔ افسوس ہے کہ اس قانون کے مخالفین ( قادیانی اور سیکولر حضرات) پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں، بلکہ وہ اس سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کے تاریخی فیصلہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ مسلمانوں کی اکثریت کے مذہبی جذبات کو رائی برابر بھی وقعت نہیں دیتے، بلکہ اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے بعض دفعہ ایسی دل آزار اور اشتعال انگیز گفت گو کرتے ہیں جس سے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ حالاں کہ قادیانیوں کو 7ستمبر1974ء (وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی موجودگی میں) ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ اس طرح قانون توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم صدر ضیاء الحق نے نہیں، بلکہ ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بنایا۔ سیکولر او ربے دین عناصر اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک آمر ضیاء الحق کے دور میں بنا، ان سے پوچھنا چاہیے کہ عائلی قوانین بھی تو ایک آمر صدر ایوب خاں کے دور میں بنائے گئے تھے، آپ اس کی مخالفت تو نہیں کرتے۔ مزید ان بزرجمہروں سے یہ بھی دریافت کرنا چاہیے کہ کیا صدر ضیاء الحق کے دور میں بنائے گئے دیگر تمام قوانین ختم ہو گئے ہیں یا اُن پر اب بھی من وعن عمل ہور ہا ہے؟ آپ انہیں ختم کرانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ آخر یہ تضاد بیانی او رمنفاقت کیوں او رکب تک…؟
Flag Counter