Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

9 - 20
اولاد کی تربیت میں اسلام کا معتدل کردار

محترم محمد بن اسماعیل
	
اسلام نے ہر انسان پر ذمے داری ڈالی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے ساتھ ہی اپنے ماتحتوں او رگھر والوں کی اصلاح کی بھی فکر کرے۔ ان میں بھی سب سے زیادہ حق اولاد کا ہے، اولاد کی اچھی تربیت کرنا اور دین کے راستے پر ان کو چلانے کی فکرکرنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ بچوں کو شروع میں جس راستے پر ڈال دیا جاتا ہے، عام طور پر اخیر عمر تک وہ اسی راستے پر چلتے رہتے ہیں۔

اسلام نے ماں باپ پر بچوں کے تعلق سے جو ذمے داری ڈالی ہے، ان میں سب سے بڑی ذمے داری اولاد کی تربیت ہے، یہ بہت ہی اہم ذمے داری ہے، جس میں ذرا سی غفلت بھی بچے کے مستقبل کے لیے بڑے خطرے کی بات ہو سکتی ہے، اس لیے اس سلسلے میں خاص فکر اور توجہات کی ضرورت ہے۔

اولاد
رب کائنات کا وہ عظیم تخفہ اور بے بدل عطیہ ہے، جس کا ہر انسان خواہاں ہوتا ہے کہ یہ نعمتِ عظمیٰ اس کے حصہ میں آئے۔ اولاد والدین کے سرور کا ذریعہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہوتی ہے اور اولاد زوجین کے مابین محبت میں اضافہ کا حسین سلسلہ ہے، روزِ قیامت الله ہم سب سے اس نعمت کے بارے میں باز پرس کرے گا او راس نعمتِ عظمیٰ کی قدر کرنا ہمارا پہلا فریضہ ہے اور اس نعمت کی قدر اس کی تربیت پر موقوف ہے۔

ایک حدیث کے مطالعے کے درمیان بالکل عجیب بات ذہن سے گزری، حدیث تو باب التقویٰ کے تحت آئی ہے، لیکن اس حدیث کی روح اگر دیکھی جائے تو واقعةً یک گلدان میں قسمہا قسم کے الگ الگ خوش بو دار پھول کا حصو ل ہو گا، چناں چہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

”ألا وان فی الجسد لمضعة، إذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب“․(متفق علیہ)

”انسان کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، جب وہ درست ہوتا ہے، تو پورا بدن درست اور صحیح سالم رہتا ہے او رجب وہ خراب ہوتا ہے ، تو پورا بدن خراب ہو جاتا ہے، پھر ارشاد فرمایا خبر دار ہو جاؤ کہ وہ دل ہے۔“

بڑی پیاری حدیث کے ذریعے ہمیں اشارہ فرمایا کہ بدنِ انسانی کی اصلاح وفساد کا انحصار انسانی بدن کے ایک لوتھڑے پر موقوف ہے، جسے دل کہا جاتا ہے ،اگر دل درست ہو تو پورا بدن درست ہو گا او راگر دل میں خرابی ہو تو سارا بدن ہی گویا خراب ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہم جو احوال وکوائف سے دو چار ہورہے ہیں، اس تخریب کاری میں کوئی تو ہے جو دل کی حیثیت لیے بیٹھا ہے۔ آج جو ہمارا معاشرہ طریقِ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہٹ کر اپنی کام یابی تلاش کرنے میں جس قدر اپنا خون پسینہ ایک کر رہا ہے او رجتنا وہ کام یابی سے قریب تر ہوتا جارہا ہے، کام یابی اتنی ہی زیادہ اس سے دامن چھڑ رہی ہے، اس قعرِ مذلت کا گہرائی اور معاشرے میں ہمارے تنزل کے اسباب بہت سارے ہیں، لیکن جو سبب قلب کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ہے ہماری نسلوں اور اولاد کی عدم تربیت ، جس طرح انسان کے صلاح وفساد کا انحصار آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے قلب کو بتلایا ہے ، ٹھیک اسی طرح ہمارا معاشرہ ایک جسدِ انسانی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا قلب ہماری نسلیں ہیں ” اذا صلحت صلح الجسد کلہ“ ان کی اصلاح، معاشرے کی اصلاح ہے:”واذا فسدت فسد الجسد کلہ“ ان کا بگاڑ معاشرے کا بگاڑ ہے۔

اسلام میں اولاد کی تربیت ایک اہم شعبہ ہے ، جس میں اولاد کے ایمان اور اخلاقی تربیت پر خصوصاً توجہ دی گئی ہے۔

اسلامی وایمانی تربیت
اسلامی وایمانی تربیت سے مقصود یہ ہے کہ جب بچے میں شعور اور سمجھ پیدا ہونے لگے، اسی وقت سے اس کو ایمان کی بنیادی باتیں اور اصول سمجھائے جائیں او رسمجھ دار ہونے پر اسے ارکانِ اسلام کا عادی بنایا جائے اورجب تھوڑا اور بڑا ہو جائے، تو اسے شریعت مطہرہ کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی جائے۔

اصولِ ایمان سے ہماری مراد وہ ایمانی حقائق اور غیبی امور ہیں، جو صحیح اور سچی نصوص کے ذریعے ثابت ہوں ،جیسے کہ الله تعالیٰ سبحانہ پر ایمان لانا ، فرشتوں پر ایمان لانا، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، تمام رسولوں پر ایمان لانا، فرشتوں کے سوال وجواب پر ایمان، عذاب قبر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے ، حساب وکتاب، جنت اور دوزخ او ردیگر تمام غیبی امور پر ایمان لانا۔ اور ارکانِ اسلام سے ہماری مراد تمام بدنی ومالی عبادات یعنی نماز، روزہ ، زکوٰة او رجو طاقت رکھتا ہو اس کے لیے حج اور شریعت کی بنیادی باتوں سے ہماری مراد ہر وہ چیز ہے ، جو ربانی نظام او راسلامی تعلیمات سے متعلق ہو، خواہ وہ عقیدہ سے متعلق ہو یا عبادات اخلاق ، تشریع وقانون، نظام او راحکام سے… لہٰذا مربی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ شروع ہی سے ایمانی تربیت کے ان مفہوموں اور اسلامی تعلیمات کی ان بنیادوں پر بچے کی تربیت کرے، تاکہ وہ عقیدہ وعبادات، منہاج اور نظام کے لحاظ سے اسلام سے مربوط اور اس تربیت او رراہ نمائی کے بعد کتب اسلام کے علاوہ کسی کتاب کو امام اوررسول الله صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ کسی قائد ومقتدیٰ کو راہ نما نہ جانے۔

ایمانی تربیت کے مفہوموں کا یہ عام اور محیط ہونا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان ارشادات اور وصایا سے حاصل کیا گیا ہے، جو بچے کو ایمان کے اصول او راسلام کے ارکان اور شریعت کے احکام تلقین کرنے کے سلسلے میں وارد ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اہم ارشادات اور وصایا ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔

تربیت کی ابتدا کلمہٴ توحید سے
امام حاکم  حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”افتحوا علی صبیانکم اول کلمة بلا الہ الا الله“

اپنے بچوں کو سب سے پہلے لا الٰہ الا الله سکھاؤ۔

اس حکم کا راز یہ ہے کہ کلمہٴ توحید اسلام میں داخل ہونے کا شعار اور ذریعہ ہے، اس لیے سب سے پہلے بچے کے کان میں اس توحید کی آواز پڑے، سب سے پہلے اس کی زبان سے یہی کلمہ جاری ہو اور سب سے پہلے جن کلمات کو یہ بچہ سمجھے اور سیکھے وہ یہی کلمہ ہو۔

بچے میں عقل وشعور آنے پر سب سے پہلے اسے حلال وحرام کے احکامات سکھلانا چاہییں۔

ابن جریر اور ابنِ منذر حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا الله کی اطاعت کر واور الله کی نافرمانی سے بچوں اور اپنی اولاد کو احکامات پر عمل کرنے او رجن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے بچنے کا حکم کرو، اس لیے کہ یہ تمہارے او ران کے آگ سے بچنے کا ذریعہ ہے اور اس میں رازیہ ہے کہ جب سے بچے کی آنکھکھلے، وہ الله کے احکامات پر عمل کرے اور ان کی بجا آوری کا اپنے آپ کو عادی بنائے، جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے بچے اور دورر ہنے کی مشق کرے اور بچہ عقل وشعور کے پیدا ہوتے ہی، جب حلال وحرام کے احکامات سمجھنے لگے گا او ربچپن ہی سے شریعت کے احکام سے اس کا ربط ہو گا، تو وہ اسلام کے علاوہ کسی اور دین ومذہب کو شریعت او رمنہاج زندگی نہیں سمجھے گا۔

سات سال کی عمر ہونے پر بچے کو عبادات کا حکم دینا
حاکم  اور ابوداؤد حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیہا وھم ابناء عشر وفرقوا بینھم فی المضاجع․“

”اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز کا حکم کرو اور نماز نہ پڑھنے پر ماروجب وہ دس سال کے ہو جائیں اور ان کے بچھونے(بستر) الگ کردو۔“

روزہ کو بھی نماز پر قیاس کیا جائے گا، لہٰذا جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے، تو عادت ڈلوانے کے لیے اسے روزہ بھی رکھوانا چاہیے اور اگر باپ کے پاس گنجائش ہو تو بچے کو حج کا بھی عادی بنانا چاہیے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ بچہ شروع ہی سے ان عبادات کے احکام سیکھ لے اور نو عمری ہی سے ان کو اداکرنے اور ان کے حق پورا کرنے کا عادی بن جائے۔ اسی طرح الله کی اطاعت، اس کا حق پورا کرنے، شکریہ ادا کرنے، اس کی طرف متوجہ ہونے، اس سے التجا کرنے، اس کی ذات پر بھروسہ کرنے، اس پر کامل اعتماد کرنے، ہر پریشانی اور تکلیف کے وقت اس کی طرف متوجہ ہونے اور اس کے حکم پر گردن جھکانے کا عادی بن جائے۔

اور ان عبادت سے اسے اپنی روح کی پاکیزگی او رجسم کے لیے صحت اور اخلاق کے لیے صفائی اور اقوال وافعال کی اصلاح معلوم ہونے لگ جائے۔

اولاد کو تلاتِ قرآن پاک او راہل بیت سے محبت پر ابھارنا
طبرانی حضرت علی  سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادبوا اولادکم علیٰ ثلاث خصال ، حب نبیکم، وحب آل بیتہ، وتلاوة القرآن؛ فان حملة القرآن فی ظل عرش الله یوم لا ظل الاظلہ مع انبیائہ واصفیائہ․“

”اپنے بچوں کو تین باتیں سکھلاؤ، اپنے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی محبت اور ان کے اہل بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن پاک، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایے میں انبیا اور منتخب لوگوں کے ساتھ اُس روز ہوں گے، جس روز اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔“

علمائے تربیت واخلاق کے یہاں یہ مسلم امور میں سے ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرةً توحید اور ایمان بالله پر پیدا ہوتا ہے اور اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت وپاکیزگی اور برائیوں سے دوری ہوتی ہے، اس کے بعد اس کو اگر گھر میں اچھی اور عمد ہ تربیت او رمعاشرہ میں اچھے اور نیک ساتھی اور صحیح اسلامی تعلیمی ماحول میسر آجائے، تو بہترین تربیت میں بڑھتا پلتا ہے۔

حقیقت دراصل وہ ایمانی فطرت ہے، جسے قرآن کریم نے مقرر کیا ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور علمائے تربیت واخلاق نے اس کی تاکید کی ہے،قرآن کریم نے اسے اس طرح مقرر فرمایا ہے:﴿ فِطْرَةَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ﴾․(الروم:30)

”الله کی اس فطرت کا اتباع کرو، جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، الله کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں۔“

اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تاکید اس طرح ہے:”کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ أو ینصرانہ أو یمجسانہ․“(بیہقی)

”ہر بچہ فطرتِ سلیمہپر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔“

حضرات مربیین
اس مناسبت سے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ کے سامنے اپنے معاشرے کی کچھ حقیقی او رواقعی مثالیں اور گندے اور آزاد ماحول کی کچھ تصویر کشی کر دوں، تاکہ آپ کو اُن عوامل کا پتہ چل جائے، جو بچے کے عقیدے واخلاق میں انحراف کا ذریعہ بنتے ہیں او رساتھ ہی آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اگر والدین اور سرپرستوں نے اپنی اولاد کی تربیت میں تساہل سے کام لیا، تو عام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ بچے کجی او رگم راہی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں او رکفر والحاد کی بنیادی باتوں کوا پنا لیتے ہیں۔

جو والدین اپنے بچوں کو غیر مسلموں کے اسکولوں اور مشنری تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں، جہاں بچے عیسائی استاذوں سے تعلیم وتربیت حاصل کرتے ہیں تو اس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے بچہ کجی اور گم راہی پر بڑھتا پلتا ہے اور کفر والحاد کی جانب آہستہ آہستہ راغب ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے دل میں اسلام کی طرف سے نفرت اور دینِ اسلام سے بغض راسخ ہو جاتا ہے۔

جو والدین اپنے بچے کی باگ ڈور ملحد استاذ او رگندے مربیوں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں، جو ان بچوں کو کفر کی باتیں سکھاتے اور ان کے دل میں گم راہی کے بیج بودیتے ہیں، تو ظاہر بات ہے ان کا بچہ الحادی تربیت اور خطرناک لادینی نظریات میں نشو ونما پائے گا۔

جو باپ اپنے بیٹے کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ ملحدوں اور مادہ پرستوں کی کتابیں پڑھے، جو اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے لکھی گئی ہیں او رجو اپنی اولاد کو کھلی چھوٹ دے دے گا کہ وہ ، جن ملحدانہ وکافرانہ ذہن رکھنے والی جماعتوں اور لادینی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہونا چاہے، ہو جائے اور ایسی جماعتوں سے وابستہ ہو جائے جن کا اسلام سے عقیدہ وافکار اور تاریخی لحاظ سے کوئی بھی جوڑ نہ ہو، تو بلاشبہ بچہ گم راہ کن عقائد اور کافرانہ وملحدانہ باتوں میں پڑے گا، بلکہ وہ در حقیقت ادیان ومذاہب اور دینی واخلاقی اقدار اور مقدسات کا کھلا دشمن ہو گا۔

اخلاق وکردار کے لحاظ سے بچے کی تربیت کے سلسلے میں اہم نصیحتیں
امام ترمذی روایت نقل کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ما نحل والد ولدا من نحل افضل من أدب حسن․“

کسی باپ نے اپنے بیٹے کو عمدہ اور بہترین ادب سے زیادہ اچھا ہدیہ نہیں دیا۔

او رابن ماجہ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اکرموا اولادکم، واحسنوا ادبھم․“

اپنے بچوں کا اکرام کرو او رانہیں اچھی ترتیب دو۔

عبدالرزاق  اور سعید بن منصور وغیرہ حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں:”علموا اولادکم واھلیکم الخیر، وادبوھم․“

اپنی اولاد او رگھر والوں کو خیر وبھلائی کی باتیں سکھاؤ اور ان کو اچھی تربیت دو۔

ابنِ حبان حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ آقائے کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”الغلام یعق عنہ یوم السابع، ویسمی ویماط عنہ الاذی فإذا بلغ ست سنین ادب، واذا بلغ تسع سنین عزل عن فراشہ، فاذا بلغ ثلاث عشرة عنہ ضرب علی الصلاة والصوم، واذا بلغ ست عشرة زوجہ ابوہ، ثم اخذ بیدہ، وقال: قد ادبتک، وعلمتک، وانکحتک، اعوذ بالله من فتنتک فی الدنیا وعذابک فی الآخرة․“

بچے کا ساتویں دین عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے او راس کے بال وغیرہ کاٹ دیے جائیں او رجب سات سال کا ہو جائے تو ادب سکھائیں ، پھر جب نو سال کی عمر کو پہنچ جائے، تو اس کا بچھونا الگ کردیا جائے اورپھر جب تیرہ سال کا ہو جائے تو نماز اور روزہ کے لیے اسے مارا جائے اور پھر جب سولہ سال کا ہوجائے تو اس کی شادی کرا دے اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر کہے، میں نے تمہیں تعلیم دی او رادب سکھایا او رتمہارا نکاح کر دیا، میں الله کے ذریعے دنیا میں تمہارے فتنہ وآزمائش سے اور آخرت میں عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔

نتیجہ… تربیت سے متعلق اِن احادیث کے مجموعے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تربیت کرنے والے، خصوصاً والدین، پر یہ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کو خیر سکھائیں او راخلاق کی بنیادی باتیں ان کی گھٹی میں ڈال دیں۔

بچوں کے بگاڑ کے اسباب
وہ بڑے عوامل واسباب کیا ہیں؟ جو اس مسموم وزہریلے، بے حیائی اور حیا سوز مناظر سے معاشرے میں، بچوں میں انحراف پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، ان کے اخلاق کو خراب کرکے تباہی کے کنارے پہنچا دیتے اور ان کی تربیت کو بگاڑ دیتے ہیں۔ شر وفساد، زیغ وضلال او راخلاقی خرابیاں جو ہر طرف سے، بچوں کو گھیرے ہوئے اور ہر جانب سے ان کو محیط ہیں اور ہر جگہ ان کے سامنے ہیں، ان کے باعث او راسباب کس قدر کثرت سے پائے جاتے ہیں، اس لے اگر تربیت کے ذمہ دار اپنے فرائض نہیں سمجھیں گے اور دیانت سے ان کو پورا نہ کریں گے او ران کو انحراف کی وجوہ واسباب نہ معلوم ہوں اور اس کے علاج کے سلسلے میں وہ صاحب بصیرت نہ ہوں اور صحیح راستہ اختیار نہ کریں اور بچوں کو ان خرابیوں سے نہ بچائیں، تو ظاہر بات ہے کہ ایسے بچے معاشرے کے ناہنجار افراد بنیں گے، بلکہ وہ فساد وجرائم کی بنیاد ہوں گے۔

بچوں میں بگاڑ اور اس کا صحیح وکام یاب علاج
اسلام نے اپنی ہر حکمت تشریع اور ہمیشہ باقی رہنے والے قابلِ عمل بنیادی احکامات کے ذریعے معاشرے کو انحراف سے بچانے اور قوم وافراد کو تباہی وبربادی کے منھ سے نکالنے کے لیے، بنیادی احکامات اور حکمت سے بھرپور طریقے بتائے ہیں، لہٰذا اے مربیین کی جماعت! بچوں میں انحراف پیدا ہونے کے اسباب اور ان کا اسلام کی روشنی میں بہترین علاج آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ آپ لوگ تربیت او راپنے فرائض وواجبات کے معاملے میں سیدھے راستے پر دلیل وبرہان کے ساتھ چل سکیں۔ (جاری)

Flag Counter