Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

18 - 20
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ

محمد رفیع ،متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
مصر، بیت المقدس کو فتح کرنے اور صلیبیوں کے مقابل میدانِ جنگ میں اترنے والا، ایک متوسط درجہ کا کرد، شریف اور خاندانی سپاہی کی حیثیت رکھنے والا شخص”سلطان صلاح الدین“ تھا۔ ”سلطان صلاح الدین ایوبی “ نے 532 ہجری میں عراق کے ایک قصبہ تکریت میں آنکھ کھولی۔

”سلطان صلاح الدین“ اسلام کی صداقت وابدیت کی واضح دلیل ہیں، صلیبیوں کے مقابل میدانِ جہاد میں اترنے سے پہلے، اس بات کا انداز کرنا مشکل تھا کہ یہ کرد نوجوان، بیت المقدس کو فتح کرے گا اور مسلمانوں کو پستی کے گڑھوں سے نکال کر عروج تک لے جانے کا تاج اپنے سر سجائے گا۔

ان کو ایسی قسمت سے نوازا گیا تھا جس میں ایسی سعادتِ ابدیہ لکھی گئی تھی، جس کی تمنا بڑے بڑے بادشاہ اور صالح لوگ کرتے تھے۔ انہوں نے تاریخ میں ایسے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے کہ جن سے روح تک کو مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے مؤرخ لین پول لکھتا ہے: ”بجائے اس کے کہ صلاح الدین ایوبی سے کوئی علامت ایسی ظاہر ہوتی، جس سے معلوم ہوتا کہ وہ آئندہ کوئی بڑا آدمی بننے والا ہے، وہ ایک روشن مثال، خاموش اورپرامن نیکی بنارہا ہے، جو شریف طبیعتوں کو تمام اخلاقی کمزوریوں سے دور رکھتی ہے۔“ (سلطان صلاح الدین ، ص:63)

”سلطان“ کو ”نور الدین زنگی “ نے ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی مصر جانے اور اس کی تولیت سنبھالنے کا حکم دیا، چوں کہ الله تعالیٰ کو ان سے اپنے دین کا کام لینا منظور تھا، اس لیے یہ سب کچھ ہو کر ہی رہنا تھا۔

چناں چہ قاضی بہاء الدین ابن شداد اس منظر کی تصویر کشی اس طرح سے کرتے ہیں کہ ”سلطان نے مجھ سے خود بیان کیا کہ میں بڑی ناگواری او رمجبوری سے مصر آیا، میرا مصر آنا بالکل میری مرضی کے خلاف تھا، میرا معاملہ بالکل وہی ہے جس کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے:﴿وعسی أن تکرھوا شیئاً وھو خیرلکم﴾․ (النوادر السلطانیہ، ص:31)

زندگی میں تبدیلی
مصر کا اقتدار ہاتھ آتے ہی سلطان کی زندگی او رارادے یک دم بدل گئے، وہ اس بات کو بھانپ گئے کہ یقینا خالق کائنات ان سے کوئی ایسا عظیم الشان کام لینا چاہتا ہے، جس کا راحت اور عیش سے کوئی تعلق نہیں۔

قاضی بہاء الدین ابن شداد لکھتے ہیں:
حکومت (مصر کی باگ ڈور (ہاتھ میں آجانے کے بعد دنیا ان کی نظر میں ہیچ ہو گئی، صلاح الدین  نے اپنی زندگی کے قواعد سخت کر دیے، متقی اور پرہیز گار تو وہ ہمیشہ کا تھا، مگر ان میں اب اور سختی اختیار کی، دنیا کے عیش وآرام اور لذتوں کا خیال بالکل ترک کر دیا او راپنے عمال پر بھی سخت پابندیاں عائد کیں، انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس بات میں صرف کیں کہ ایک ایسی اسلامی سلطنت قائم کریں، جس میں کفار کو ملک سے خارج کرنے کی پوری طاقت ہو، چناں چہ ایک موقع پر انہوں نے کہا ” جب خدا نے مجھے مصر دیا تو میں سمجھ گیا کہ فلسطین بھی مجھے دینا الله تعالیٰ کو منظور ہے ۔“ (سلطان صلاح الدین، ص:86)

جہاد کا عشق
جس طرح بھوکے کوبھوک میں غذا او رپیاسے کو پیاس میں پانی ہی نظر آتا ہے، ایسے ہی ”سلطان ایوبی “ کو اپنی زندگی میں جہاد فی سبیل الله کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا تھا۔

قاضی ابن شداد فرماتے ہیں:
”جہاد کی محبت او رجہاد کا عشق ان کے رگ وریشہ میں سما گیا تھا، اسی مطلب کے آدمیوں کی ان کو تلاش رہتی تھی، جہاد فی سبیل الله کی خاطر انہوں نے اپنی اولاد، اہل، خاندان، وطن ومسکن کو خیر باد کہا، سب کی مفارقت گوارا کی او رایک خیمہ کی زندگی پر قناعت کی، قسم کھائی جاسکتی ہے کہ جہاد کا سلسلہ شروع کرنے کے بعد انہوں نے ایک پیسہ بھی جہاد اور مجاہدین کی امداد واعانت کے علاوہ کسی مصرف میں خرچ نہیں کیا۔ “ (النوادر السلطانیہ، ص:16)

حطین کا فیصلہ کن معرکہ
24/ربیع الاول583ھ بمطابق3/جولائی1187 عیسوی کو حطین کا عظیم الشان معرکہ پیش آیا۔

حطین کا معرکہ ان معرکوں میں سے ایک ہے، جو مسلمانوں اورصلیبیوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں، اس معرکہ میں 12000 مسلمان جنگ جو، جب کہ50000 صلیبی، مسلمانوں کے مقابلے میں آئے۔

اس معرکہ میں کئی دن مسلسل لڑائی کے بعد، مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، کئی صلیبی قتل ہوئے اور عیسائیوں کی ایک بڑی جماعت قید ہوئی، ان قیدیوں میں دو بڑے صلیبی سر براہ ”ریجی نالڈ“ اور ”بادشاہ گائی“ بھی قید ہوئے، ”صلاح الدین ایوبی“ نے ریجی نالڈکو، کعبة الله پر حملے کی ناکام کوشش کرنے اور حاجیوں کے قافلے پر حملہ کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا۔

فتح بیت المقدس
حطین کی فتح کے فوراً بعد، وہ موقع بھی آہی گیا جس کی سلطان کو بے حد آرزو اور تمنا تھی، حسن اتفاق تھا کہ جس شب کی تاریخ میں، آپ علیہ السلام نے ”قبلہ اول“ بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی اسی تاریخ میں پورے90 برس بعد583 ہجری کویہ قبلہ مسلمانوں کو حاصل ہوا ہے۔

اس فتح مبین کے بارے میں قاضی ابن شداد فرماتے ہیں:
”یہ عظیم الشان فتح تھی، ہر طرف دعا، تہلیل وتکبیر کا شور تھا، بیت المقدس میں 90 برس کے بعد جمعہ کی نماز ہوئی، ایک عجیب منظر تھا، اسلام کی فتح مندی اور الله تعالیٰ کی مدد کھلی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔“ (النوادر السلطانیہ،ص:66)

وفات
فاتح بیت المقدس او رایک وسیع تر سلطنت پر حکم رانی کرنے والے یہ نڈر، بے باک اور بلند ہمت ایوبی  ہجرتِ نبوی کے 589 سال بعد27 صفر کو ، اپنی ستاون سال کی مختصر سی زندگی کو مکمل کرتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ إنا للہ واإنا إلیہ راجعون

Flag Counter