Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

3 - 20
تعمیر شخصیت اورفلاحِ انسانیت
اِقدامات تعلیمات نبوی صلی الله علیہ وسلم کے تناظر میں

محترم محمد صادق خان

خِرد کی شمع افروزی، جنوں کی چارہ فرمائی
زمانے کو اسی اُمی کے صدقے میں سمجھ آئی

ہر معاشرہ اگرچہ مختلف عناصر سے مرکب ہوا کرتا ہے، لیکن ان عناصر میں افراد کی اہمیت او رحیثیت امتیازی ہوتی ہے،یہ وہ اکائی ہے جو معاشرہ کی سمت متعین کرتی ہے او راسی پر معاشرے کے اصلاحی او رمثالی ہو نے کا انحصار ہوتا ہے، اس کے برخلاف اگر یہ اکائی ہی فساد کا شکار ہو جائے، تو پھر پورا انسانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ او رشکست وریخت سے دو چار ہو جاتا ہے۔ انسانی معاشرے میں افراد کی اسی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنی توجہ کا مرکز فرد کو ہی بنایا اور اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے اتنا کچھ مواد راہ نمائی کے لیے دنیا کے سامنے پیش فرما دیا کہ فرد کی تمام حیثیتوں اور صورتوں کے لیے کافی ووافی ہے اور رہتی دنیا تک وہ ہر فرد کے لیے راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے افراد کی تربیت کے لیے، جن باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور جن کو کردار کی پختگی کے لیے لازم قرار دیا، انہیں چندذیلی عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔

علم۔ تزکیہٴ نفوس۔ اخلاق۔ اخوت واتحاد۔ صدق وامانت۔ عفو ودرگزر۔

ان تمام کی قدرے تفصیل وتوضیح تعلیمات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے تناظر میں پیش خدمت ہے۔

علم
حصول علم ، تخلیق انسانی کا ایک اہم جز ہے، یہی وہ جوہر ہے جس کی بنا پر انسانوں کو نوری مخلوق فرشتوں پر بھی فضیلت عطا ہوئی، ہم یہاں تعلیمات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے علم کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہیں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حصول علم کی بہت تاکید فرمائی، ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ محبوب ہے ۔ (حاکم) اس کی وجہ یہ ہے کہ جب علم ہو گا تو اس کو وہ بصیرت حاصل ہو گی ، جس سے وہ عبادت کی روح او راس کے فوائد وحقیقت کو سمجھ سکے گا او رپھر اس کو عبادت کا حقیقی لطف بھی حاصل ہو گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ : قلیل علم کثیر عبادت سے بہتر ہے ۔ (مجمع الزوائد)

علما کو (صرف علم کی وجہ سے ) الله تعالیٰ کے یہاں، جو مقام حاصل ہے اس کا اندازہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن الله تعالیٰ علما سے فرمائے گا، جب وہ کرسی پر بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھے گا، کہ میں نے تمہارے اندر اپنا علم وحلم اس لیے رکھا تھا کہ میں تمہاری خطاؤں کو معاف کرنا چاہتا تھا او راس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی پروا نہیں ہے۔ (المعجم الکبیر،ص:84)

اگر غور کیا جائے تو علم کی اور صاحبانِ علم کی فضیلت کے لیے ، یہی ایک حدیث کافی ہے، نیز علم کو دوسروں تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے والوں کا مقام یوں واضح فرمایا: دوآدمیوں کے سوا کسی اور سے حسد (رشک) کرنا جائز نہیں ہے، ایک وہ آدمی جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خوب لٹا تا ہے، دوسرا وہ شخص جسے الله نے حکمت (علم) سے نوازا اور وہ اس کے ذریعے فیصلہ کرتا او را س کی تعلیم دیتا ہے ۔ (بخاری)

علم وحکمت کی اہمیت وضرورت آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمانِ سے بھی ظاہر ہوتی ہے ، فرمایا: حکمت کی بات مومن کی متاع گم شدہ ہے، جہاں وہ پائے اس کا وہ سب سے زیادہ حق دار ہے۔(ترمذی)

عالم ومتعلم کی بابت فرمایا: آدمی تو دو ہی ہیں عالم او رمتعلم ، یہ دونوں خیر میں شریک ہیں او رباقی لوگوں میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ہے۔

ایک اورمفصل روایت میں علم سیکھنے اور سکھانے والوں کا ذکر اس طرح ہے، حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو افراد کا تذکرہ کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت حاصل ہے، جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ ترین آدمی پر ۔ (ترمذی)

تزکیہٴ نفوس
کسی بھی مثالی اور صحیح اسلامی تعلیمات کی حامل شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیہٴ نفوس نہایت ضروری امر ہے، اس کے بغیر صحیح معنی میں مثالی شخصیت کی تعمیر ممکن ہی نہیں، اس لیے اسلام میں تزکیہ نفوس کی بہت اہمیت ہے۔

چوں کہ انسان کاایک ظاہر ہے او رایک باطن، جس طرح شریعت ظاہر کے لیے ہے، بالکل اسی طرح باطن کے لیے بھی ہے، جس طرح انسان کو بے شمار جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اسی طرح اس کے قلب کے اندر بھی بے شمار بیماریاں مثلاً: کفروشرک، بغض، حسد، کینہ، تکبر اور حبِ مال وجاہ وغیرہ۔ انسان کا دل اس کے جسم کا بادشاہ ہے او رتمام اعضاکا سردار ہے، دل کی اصلاح اور پاکیزگی پر تمام جسم انسانی کی پاکیزگی کا مدار ہے۔

حدیث شریف میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! آگاہ رہو کہ انسان کے بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام بدن درست ہو جاتا ہے او رجب وہ خراب اور فاسد ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب اور فاسد ہو جاتا ہے ۔ آگاہ رہو کہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔ ( مسلم ص:57)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسم کے اعضا کی درستی اور ان کا الله تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرنا دل کی درستی وپاکیزگی پر محمول ہے، اس لیے دل کی اصلاح کی کوشش کرنا واجب ہے اور اسی کوشش کرنے اور قلب کو ان بیماریوں سے پاک کرنے کانام تزکیہ ہے، جس کی بنا پر قربِ حق نصیب ہوتا ہے، درحقیقت اسی اخلاص عمل کا نام تصوف ہے اور اسی اخلاص کے ساتھ کی جانے والی عبادت ، حقیقت میں عبادت کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔

مشہور حدیث:”حدیث جبرئیل“ میں بھی تزکیہٴ نفوس کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔

اخلاق
افراد کی تربیت کا انحصار ان کی اخلاقی حالت کی بہتری پر ہوتا ہے، اگر یہ پہلو کمزور رہ جائے تو آئندہ ترقی تو کجا، تنزلی کا امکان غالب رہتا ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پہلو پر بھی بھرپور توجہ مرکوز فرمائی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا اوّلین مقصد یہ بیان فرمایا:”انما بعثت لأتمم مکارم الاخلاق․“ (بیہقی)

”بلاشبہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔“ ایک اور روایت میں تفصیل سے فرمایا:”ان الله بعثنی بتمام مکارم الاخلاق وکمال محاسن الافعال“ (المعجم الاوسط) ”بلاشبہ مجھے الله نے تمام مکارم اخلاق او رمحاسنِ افعال کے ساتھ مبعوث فرمایا۔“ او راس کی وضاحت مؤطا امام مالک کی روایت سے ہوتی ہے، اس میں آپ کا فرمان یوں ذکر ہے ”بعثت لاتمم حسن الاخلاق․“ (مؤطا مالک)” میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔“ چناں چہ وہ عظیم پیغام جس نے تاریخ کی حیات میں اَن مٹ نقوش ثبت کیے، اس کی کرنوں سے سارے عالم کو منور کرنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی انتھک جدوجہد اور بے مثال وبے لوث محنت کے ساتھ ساتھ آپ کے بلند واعلیٰ اخلاق کا بھی بہت بڑا حصہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم ایسے بلند پایہ اخلاق کے حامل تھے کہ آپ کے جانی دشمن بھی آپ کی متفقہ حیثیت الصادق والامین پر حرف گیری کی جرات نہ کرسکے اور آپ کو صابی تک کہنے والے اپنی امانتوں کے لیے سب سے زیادہ قابل اعتبار شخص آپ ہی کو تصور کر تے تھے۔

جب کوئی شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے آتا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے مصافحہ کرتا، تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے الگ نہ کرتے جب تک وہ خو دہی اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتااور نہ اپنے چہرے کا رخ اس کے چہرے سے ہٹاتے، تا آں کہ وہ خود ہٹا لیتا اور مجلسوں میں کبھی آپ کو اپنے ہم نشین سے آگے بڑھ کر بیٹھے ہوئے نہ دیکھا۔ ( سیرت النبی ) اور عبد الله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ نہ بد خلق تھے، نہ بد زبان اور آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں۔ (بخاری، ص:372)

ایک روایت میں حضرت جریر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نرم دلی کے ساتھ جو ثواب دیتا ہے وہ حماقت کے بدلے نہیں دیتا او رجب الله تعالیٰ کسی بندے کو محبوب بنا لیتے ہیں تو اس کو نرمی عطا کرتے ہیں اور جو لوگ نرمی سے محروم رہتے ہیں وہ ہر چیز سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ (مجمع الزوائد)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے خو روایتی حکم رانوں والا طرز ختم کرکے بلند ترین اخلاق اور بہترین طرزِ عمل کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم ایک موٹے کنارے والی نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک اعرابی نے آکر وہ چادرزور سے کھینچی، یہاں تک کہ چادر کے شدت سے کھینچے جانے کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا، پھر اس نے کہا: اے محمد (صلی الله علیہ وسلم) ! جو مال تمہیں الله نے دیا ہے اس میں سے میرا حصہ دلاؤ، آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی جانب متوجہ ہوئے اور ہنس پڑے اور اس کو عطیہ دینے کا حکم دیا۔ (بخاری، ص:2188)

اگر غور کیا جائے تو یہ ایک واقعہ ہی آپ کے اخلاقِ عالیہ کے تعارف کے لیے کافی ہے ، یہی وہ نمونہٴ عمل ہے جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔

اخوت واتحاد
افراد کی تربیت کے ذیل میں اخوت واتحاد کی ضرورت بھی مسلَّم ہے، اس عالمِ آب وگل میں تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ سب مل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل وترتیب دیں، جہاں تمام معاملات کی بنیاد اخوت ومحبت پر ہو، جہاں تمام فیصلے اسی بنیاد پر ہوں۔ درحقیقت اخوت واتحاد ہی وہ بنیادی عنصر ہیں، جن سے کام لے کر کسی بھی قوم کی شیرازہ بندی کی جاسکتی ہے، اسلام میں تمام عبادات کو اتحاد واخوت کی ترویج کے لیے استعمال کیا گیا، اس لیے اس کی تلقین کی گئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ اخوت کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حقوق ہیں:1. سلام کا جواب دینا۔2. بیمار کی عیادت کرنا۔ 3.جنازہ کے ساتھ جانا۔4. دعوت قبول کرنا۔ 5.کسی کو چھینک آنے پر یرحمک الله کہنا۔ (مسلم)

دوسری حدیث میں اس سے بھی واضح الفاظ میں ،باہمی محبت والفت کی ترغیب یہ کہہ کر فرمائی کہ ” ایمان کی بنیاد باہمی محبت پر ہے“۔ نیز فرمایا تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ صاحب ایمان نہ ہو جاؤ اور تم پورے مومن اس وقت تک نہیں ہو سکتے، جب تک تم میں باہم محبت نہ ہو جائے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتلاؤں کہ اگر تم اس پر عمل کرنے لگو، تو تم میں باہم محبت پیدا ہو جائے؟ اور وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ اور اسے عام کرو۔ (مسلم،ص:57)

صدق وامانت
تعمیر شخصیت کا پانچواں عنصر صدق وامانت ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ہر معاملے میں سچائی سے وابستہ رہنا او رتمام مسائل کو اسی زاویہٴ نگاہ سے دیکھنا از بس ضروری ہے، اس کے برعکس جھوٹ ایک بہت بڑی لعنت ہے، یہ ایسی برائی ہے جو جھوٹے شخص کے اندرونی فساد کی غماز ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے صاف صاف فرما دیا مومن کا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ نے فرمایا: مومن کے اندر تمام خرابیاں پائی جاسکتی ہیں، سوائے خیانت اور جھوٹ کے ۔ (احمد ،ج5ص:252)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے سچائی ہی کی تلقین کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا: سچائی کو اختیار کرو، اس لیے کہ سچائی نیکی کی راہ دکھاتی ہے او رنیکی جنت کی راہ دکھاتی ہے۔ ایک شخص مسلسل سچ بولتا رہتا ہے او رسچائی کو اختیا رکیے رہتا ہے، یہاں تک کہ الله کے ہاں اس کو صدیق (راست باز) لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو! اس لیے کہ جھوٹ فسق وفجور کی طرف پہنچاتا ہے اور فسق وفجور ( آخرکار) جہنم میں جاگراتا ہے، بندہ برابرجھوٹ بولتا رہتا ہے اورجھوٹ سے چمٹا رہتا ہے، حتی کہ اسے الله کے ہاں کذاب (نہایت جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری،ج5ص:261)

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کافی عرصے تک مسلمانوں کا یہی طرزِ عمل تھا، ان کے آپس کے تعلقات فضائل وکردار کی بنیاد پر تھے۔ انسان کے اندر خیانت کے پیدا ہونے میں بھی کذب کا ہاتھ ہوتا ہے، اگر انسان فطرةً راست باز او رحق گو طبیعت کا مالک ہو، تو وہ قطعاً اس فعلِ مذموم کی جانب راغب نہیں ہو گا، اس لیے امانت کا صدق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کے پیشِ نظر امانت پر کافی زور دیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے خطبات میں عام طر پر یہ جملہ ارشاد فرماتے تھے:”لا ایمان لمن لا امانة لہ․“ اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں۔ (ابن حبان/ج1ص:422)

مختصر یہ کہ اسلام نے امانت کو وسیع مفہوم میں بیان کیا ہے، اس فلسفے کے مطابق امانت رکھ کر مکر جانا ہی خیانت نہیں، بلکہ عہدوں او رمناصب کی تقرری، فرائض کی ادائیگی، خدا کی ودیعت کردہ صلاحیت ودولت اور دوسروں کے راز، یہ تمام امانت میں شمار ہوتے ہیں، ان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانا خیانت ہو گا۔

عفو ودرگزر
تعمیر شخصیت کا چھٹا عنصر عفو ودرگزر ہے۔کسی بھی معاملے میں جذبات سے مغلوب ہونا ، ہوش وخرد سے بے گانہ کر دیتا ہے اور غصے کی حالت میں کیے جانے والے اکثر بلکہ تقریباً تمام افعال بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتے ہیں۔ غصے کی ان تباہ کاریوں اور مسلم سوسائٹی پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے، اس کی بیخ کنی پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے، حلم وعفو اور درگزر کا درس دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک روز خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: سن لو! اُن میں سب سے بہتر وہ ہیں جو دیر میں غصہ ہوتے ہیں اور فوراً اس سے توبہ کر لیتے ہیں اور ان میں سب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہو جاتے ہیں، لیکن ان کی واپسی بہت دیر میں ہوتی ہے۔ (ترمذی/81)

اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے صاحبِ حلم کو پہلوان سے تشبیہ دی، جیسے پہلوان اپنے مدِ مقابل کو پچھاڑ دیتا ہے، اسی طرح غصے پر قابو پانے والا اپنے سب سے سرکش حریف (نفس) کو پچھاڑنے میں کام یاب ہو جاتا ہے، بلکہ نفس کے پچھاڑنے والے شخص کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اصلی پہلوان قرار دیا ہے۔ (بخاری/ج5 ،ص:2267)

خلاصہٴ کلام یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ان ہدایات او رتربیت کا اثر یہ ہوا کہ دورِ جاہلیت کی سب سے خطرناک اور ضرر رساں بیماری انتقام کی جڑ کٹ گئی اور صدیوں کی وہ تیزی او رجذباتیت ختم ہو گئی، جو جاہلیت کی پہچان تھی۔

فلاح انسانیت
آغاز میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ مضمون کا عنوان دو اجزا سے مرکب ہے، تعمیر شخصیت اور فلاح انسانیت۔ اول الذکر کی وضاحت کے بعد دوسرے جز، یعنی فلاحِ انسانیت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اگر افراد کی اصلاح ہو جائے، تو معاشرے کے تمام منفی پہلو تبدیلی کے عمل کو قبول کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہو سکتا ہے، لیکن بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق انسانیت کے مجموعے سے ہے اور افراد کی تعمیر کے باوجود ان میں اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے، بلکہ اگر اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے، تو افراد کی تربیت کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں اورکاوش کے ضائع ہونے کا امکان خاصی حد تک موجود رہتا ہے، کیوں کہ یہ امرِ مسلم ہے کہ افراد ہی کے ذریعے تربیت پانے والا معاشرہ افراد کی صلاحیتوں اور ان کے نظریات پر براہِ راست اثر انداز ہو نے کی صلاحیت رکھتا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرد کے ساتھ ساتھ پورے انسانی معاشرے کی اصلاح و راہ نمائی کے لیے ایسے قوانین اور تعلیمات بیان فرمائے، جن کی بنیاد پر ایک کام یاب انسانی معاشرہ وجود میں آیا اور اس بارے میں کوئی ابہام بھی نہیں کہ انسانی فلاح وبہبود پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے صرف اور صرف تعلیماتِ نبوی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ ہی مشعل راہ ہو سکتا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو فلاحِ انسانیت کے اس باب میں چند ذیلی عنوان کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:

اجتماعیت۔ نظامِ زکوٰة۔ مساوات واعتدال۔ عدل وانصاف۔ نظامِ جزا وسزا۔ صبر واستقامت۔ فلاحِ عالم۔ مذکورہ عنوانات میں سے چند کی قدرے وضاحت کی جاتی ہے۔ (جاری)

Flag Counter