Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

13 - 20
دعائے خلیل عليه السلام اور نوید مسیحا عليه السلام…ولادت تا عطائے رسالت

مولانا محمد جہان یعقوب
	
آپ صلی الله علیہ و سلم کو معاملے کی تفصیل بتائی گئی توآپ صلی الله علیہ و سلم نے ایک چادر منگوائی، جس میں اپنے دست مبارک سے حجر اسود کورکھااور تمام قبائل کے سرداروں سے کہا:

تم لوگ اس چادرکو کناروں سے پکڑکر اسے حجر اسود کے مقام تک لے چلو۔

جب وہ وہاں لے گئے تو آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔یہ اتناعمدہ فیصلہ تھا ، جس پر تمام لوگ راضی ہو گئے۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کی رسالت کا تذکرہ اللہ تبارک وتعالی نے تورات، انجیل اور دیگر آسمانی کتب میں بھی کیا اور سابقہ انبیائے کرام علیھم السلام سے عالم ارواح میں اور ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنی امتوں سے عہدوپیمان بھی لیاکہ اگر وہ نبی (حضرت محمد صلی الله علیہ و سلم )تمہارے دور میں آجائیں تو تم ان کی ہر ممکن مدد اور اتباع کرو۔ ہرآنے والانبی آپ صلی الله علیہ و سلم کی خوشخبری لے کر آیا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کی بعثت سے قبل معاشرہ کفر و شرک کی دلدل میں پھنسا ہواتھا اور ہر طرف ظلم و ستم کااندھیراچھایاہواتھااورمظلوم کی آہ وبکااورفریادرسی کے لیے کوئی مسیحا نہیں تھا۔ جیسے جیسے رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم کی بعثت کا زمانہ قریب آتا جارہاتھا، عرب میں یہودونصاریٰ کے مذہبی پیشوا اس بارے میں زیادہ باتیں کرنے لگے تھے، کیونکہ انھوں نے اپنی اپنی مذہبی کتب میں آپ صلی الله علیہ و سلم کے متعلق جو کچھ پڑھا تھا، اس کے آثار دن بہ دن ان کی نگاہوں کے سامنے آتے جارہے تھے۔ ذیل میں ان کتب سابقہ سے آپ صلی الله علیہ و سلم کی رسالت کی بشارتوں کو نقل کیا جاتاہے:

زبور میں آپ صلی الله علیہ و سلم کی رسالت کی بشارت:اللہ عزوجل نے داوٴد ں سے فرمایا:
”اے داوٴد، عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گا،جس کانام احمد اور محمدہوگا۔ وہ اپنی قوم میں صادق اور سردار ہو گا۔ میں اس سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ ہی وہ مجھ سے کبھی ناراض ہوگا۔ اے داوٴد! میں نے محمد اور ان کی امت کو تمام امتوں سے زیادہ افضل بنایاہے۔ اس لیے کہ ان کی امت وہ کام کرے گی جو ان سے پہلے کے انبیا نے کیے۔میں نے ان کی امت کو 6ایسے انعامات دیے ہیں جو انعامات ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دیے:
1…اگر وہ بھولے سے کوئی غلطی کربیٹھیں گے تو میں ان کی پکڑ نہیں کروں گا۔
2…وہ غلطی ہو جانے کے فورا بعد توبہ کرلیں گے تو میں ان کی توبہ قبول کرلوں گا۔
3…جو چیز وہ صدقہ کریں گے، میں آخرت میں اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دوں گا۔
4…میرے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں ۔میں ان کو اپنے خزانوں میں سے کثیر تعداد میں اور بہتر خزانہ دوں گا۔
5…وہ پریشانی کے وقت صبر کریں گے اورساتھ ساتھ ﴿اِنالِلہِ واِنآ اِ لیہِ راجِعون﴾ پڑھیں گے تومیں انھیں جنت نعیم دوں گا۔
6...وہ مجھ سے جو بھی دعا مانگیں گے ،میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ہاں! اگر کسی مصلحت کے طور پرقبول نہ کروں تواس کااجرآخرت میں ضرور دوں گا۔“

تورات میں رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم کی نبوت کی بشارت: سیدنا کعب احبار،جو کہ سابق یہودی عالم تھے،بیان کرتے ہیں کہ :
ہم نے تورات میں محمد صلی الله علیہ و سلم کے بارے پڑھا ہے کہ: ”وہ اللہ کے رسول اور برگزیدہ بندے ہوں گے، نہ تیز مزاج اور نہ سخت دل ہوں گے، نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے، بلکہ درگزر اور معاف کرنے والے ہوں گے۔ مکہ میں پیدا ہوں گے اور طیبہ کی طرف ہجرت کریں گے۔ ان کی حکومت شام تک پھیلی ہو گی اور ان کی امت خوب حمد و ثنا ٴبیان کرنے والی ہو گی۔ وہ ہر خوشی، غم اور ہر حال میں اللہ عزوجل کی حمد و ثنا بیان کریں گے ہر بلند مقام پر اللہ کا نام اونچا کریں گے۔

تحریف در تحریف کے باوجود اس وقت دستیاب نسخوں میں بھی یہ بشارتیں موجود ہیں،ملاحظہ فرمائیے!

اللہ کا آخری نبی محمد صلی الله علیہ و سلم فاران(مکہ)کی پہاڑیوں سے دس ہزار قدوسیوں(صحابہ )کے ساتھ جلوہ گرہوا۔(کتاب پیدائش)

وہ (نبی صلی الله علیہ و سلم )عربی ہو گا اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا۔(کتاب پیدائش)

انجیل میں آپ صلی الله علیہ و سلم کی رسالت کی بشارت
سیدناعیسی علیہ السلام اپنی قوم کو فارقلیط کے نام سے آپ صلی الله علیہ و سلم کی بشارت سناتے تھے، جس کا معنیٰ محمد یا احمد ہے۔عیسی علیہ السلام نے فارقلیط(آپ صلی الله علیہ و سلم )کے جو اوصاف ذکر فرمائے ہیں وہ تمام کے تمام آپ صلی الله علیہ و سلم پر صادق آتے ہیں:” وہ پوری دنیا والوں کو گناہوں سے روکے گااور انھیں حق سکھائے گا اور وہ صرف وہی دین بتائے گا جو بذریعہ وحی اسے عطا کیاجائے گا“۔

انجیل میں کہیں آپ صلی الله علیہ و سلم کی بشارت تسلی دہندہ ،کہیں مددگار،کہیں وکیل، کہیں شفیع کے الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے۔ ان سب کا مفہوم احمد ہی سے ادا ہوتا ہے ،جو حبیب پاک خاتم المر سلین صلی الله علیہ و سلم کا نام نامی اسم گرامی ہے۔

رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: ”اللہ رب ا لعزت نے سیدنا عیسی بن مریم علیہما السلام کو وحی کے ذریعے اطلاع دی کہ میرے حکم کے بارے میں سنجیدہ رہواورمذاق نہ کرو، اے نیک عورت کے بیٹے! غور سے سنو اور اطاعت کرو۔ میں نے تمھیں بغیرباپ کے پیداکیاہے، اس لیے کہ تم تمام لوگوں کے لیے میری نشانی بن جاوٴ۔ صرف میری عبادت کرو اور مجھ ہی پر توکل کرواور اپنی قوم پر یہ واضح کردو کہ اللہ تعالی حق ہے، جسے کبھی موت نہیں آتی۔ عربی نبی کی تصدیق کرو، جن کے بال گھنگھریالے، پیشانی کشادہ ،ابروملے ہوئے، آنکھیں سیاہ ، رخسار سفید اورداڑھی گھنی ہو گی۔ان کے چہرہ اقدس پر پسینہ موتیوں کی طرح اور اس کی خوش بو مشک کی طرح،گردن چاندی کی صراحی کی طرح حسین، ہنسلی کی ہڈیاں سونے کی طرح خوب صورت، سینے سے لے کر ناف تک انتہائی خوب صورت بال ، پاوٴں اور ہتھیلیاں گوشت سے بھری ہوئی ہوں گی اور شخصیت اتنی بارعب ہو گی کہ جب لوگوں کے درمیان بیٹھیں گے تو تمام لو گوں پر چھاجائیں گے اور جب چلیں گے تو ایسا لگے گا جیسا کہ پہاڑ سے اتر رہے ہیں۔(بیہقی)

قوم کے اندر پھیلی ہوئی خرافات اور برائیوں کو دیکھ کر آپ صلی الله علیہ و سلم غم زدہ رہنے لگے اوریہ سوچنے لگے کہ انھیں کس طرح ہلاکت سے بچایا جائے؟ یہ غم ،کڑھن اور خواہش بڑھتی گئی، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ و سلم رمضان کے مہینے میں،جبل نورپرواقع غار حرامیں جا کر، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مصروف ہو گئے ۔مہینہ پورا کر کے آپ صلی الله علیہ و سلم بیت اللہ تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد اپنے گھر تشریف لے گئے۔ تین سال تک آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہی معمول رہا،پھر جب آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی توآپ صلی الله علیہ و سلم کو سچے خواب آنا شروع ہو گئے، پھر روشنی نظر آنے لگی اور بے جان چیزوں کی آواز سنائی دینے لگی۔

رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم فرماتے ہیں : میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو نبوت ملنے سے پہلے مجھے سلام کیاکرتاتھا۔(مسلم شریف)

تیسرے سال رمضان کے مہینے میں جب آپ صلی الله علیہ و سلم کی عمرمبار ک 40 سال 6 ماہ اور 12 دن ہو گئی اور 21 رمضان المبارک بروز پیر بمطابق 10 اگست 610 عیسوی میں آپ ا غارِ حرا میں اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور کہا:
﴿اِقْرَأْ﴾(پڑھیے)
آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: ما انا بِقارِی (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو اپنے سینے سے لگاکر دبایا، پھر کہا :
﴿اِقْرَأْ﴾(پڑھیے)۔
آپ صلی الله علیہ و سلم نے دوبارہ وہی جواب دیا:ما انا بِقارِی (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں )

سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو تیسری بار سینے سے لگاکر دبایا اور کہا:
﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ،خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ،الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ﴾․

(اے محمد صلی الله علیہ و سلم )اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے ،جس نے (پورے عالم کو)پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑاکریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے(انسان کو)علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اسے علم نہ تھا۔(سورہ علق)

ان آیات کو سیکھ کر آپ صلی الله علیہ و سلم گھر تشریف لائے۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ و سلم کا دل گھبراہٹ کی وجہ سے کانپ رہاتھا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے سیدہ خدیجہ سے فرمایا:
مجھے کمبل اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھادو۔ انھوں نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو کمبل اڑھا دیا۔کچھ دیر بعد آپ صلی الله علیہ و سلم کی گھبراہٹ ختم ہو ئی توآپ صلی الله علیہ و سلم نے سیدہ خدیجہ  کو غار والا پورا واقعہ سنایا اور کہا:
مجھے اپنی جان کے بارے میں خوف محسوس ہورہاہے۔

سیدہ خدیجہ نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو تسلی دیتے ہوئے کہا:
اللہ کی قسم، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی آپ صلی الله علیہ و سلم کوکبھی رسوا نہیں کرے گا،اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم (رشتے داروں کے ساتھ )صلہ رحمی کرتے ہیں،بے سہارالوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تنگ دست لوگوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ اس کے بعدآپ صلی الله علیہ و سلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں، جو کہ عیسائی عالم تھے اور انجیل کا عبرانی زبان میں ترجمہ کررہے تھے۔ اس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔سیدہ خدیجہ نے کہا: بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی باتیں سنیں ۔

ورقہ بن نوفل نے کہا: اے بھتیجے، سناوٴ۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا، آپ صلی الله علیہ و سلم نے وہ پورا واقعہ سنایا۔ اس واقعے کو سنتے ہی انھوں نے کہا:
یہ تو وہی ناموس(وحی لانے والا فرشتہ)ہے جو موسی ٰعلیہ السلام پرنازل ہوا تھا، پھر کہنے لگے:
کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں ، جب آپ صلی الله علیہ و سلم کی قوم آپ صلی الله علیہ و سلم کویہاں سے نکال دے گی۔

آپ صلی الله علیہ و سلم نے پوچھا:کیا واقعی! میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟

ورقہ نے کہا: جی ہاں! جب بھی کوئی رسول آپ جیسا پیغام لے کر آیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اگر میں نے تمہارا وہ(نبوت والا)زمانہ پا لیا تو ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدہی ورقہ وفات پاگئے اورکچھ عرصہ تک آپ صلی الله علیہ و سلم پر وحی کا سلسلہ بندہوگیا۔(بخاری شریف)

آپ صلی الله علیہ و سلم بہت زیادہ غمگین رہنے لگے۔کئی مرتبہ آپ صلی الله علیہ و سلم پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے کر گئے، تاکہ وہاں سے لڑھک جائیں، لیکن آپ، صلی الله علیہ و سلم جب بھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوتے اور فرماتے کہ :اے محمد( صلی الله علیہ و سلم) !آپ اللہ کے برحق رسول ہیں ۔ اس تسلی سے آپ صلی الله علیہ و سلم کے دل کو قرار آجاتا اور آپ صلی الله علیہ و سلم واپس گھرتشریف لے آتے۔(بخاری شریف)

وحی کی یہ بندش اس لیے تھی کہ پہلی وحی کی و جہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا وہ ختم ہوجائے اور آپ صلی الله علیہ و سلم کے دل میں دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے۔ جب آپ صلی الله علیہ و سلم کا شوق وانتظار اس لائق ہوگیا کہ آیندہ وحی کی آمد پر آپ صلی الله علیہ و سلم اس بوجھ کو بآسانی اٹھالیں گے، تو جبرائیل علیہ السلام دوبارہ تشریف لائے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے دوبارہ وحی نازل ہونے کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا:

”میں چل رہا تھا۔ اچانک مجھے آسمان سے ایک آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھاکر دیکھا کہ وہی فرشتہ ،جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر، اس طرح پر پھیلا کر بیٹھا ہے کہ آسمان کے کنارے اس سے چھپ گئے ہیں ۔ میں اس منظر سے خوف زدہ ہو کر اپنے اہل خانہ کے پاس آیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو،مجھے کمبل اڑھادو۔ اہل خانہ نے مجھے کمبل اوڑھادیا، اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں :
﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَأَنذِرْ، وَرَبَّکَ فَکَبِّر،وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ، وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ﴾․(سورہ ا لمدثر 74:آیات 1تا5)
اے کپڑا اوڑھنے والے۔ اٹھیے اور(لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈرائیے۔اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے۔ اوراپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔ اور(بتوں کی)ناپاکی سے دور رہیے۔

آپ صلی الله علیہ و سلم کو نبوت ملنے سے پہلے جنات آسمان سے قریب ہو کر فرشتوں کی باتیں بہ آسانی سن لیا کر تے تھے ،لیکن جب رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم کو نبوت عطا کی گئی تو وحی کو ان کی دخل اندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے جنات پر پابندی لگا دی گئی۔اب جو بھی شیطان باتیں سننے کی کوشش کرتا، اسے انگاروں سے ماراجاتا۔ جب جنات کے آسمانی باتیں سننے پر پابندی لگی تو وہ آپس میں کہنے لگے: اللہ تعالی نے ضرورزمین پرواقع ہونے والے کسی عظیم کام کا فیصلہ کیا ہے۔اس لیے وہ اس کی تلاش کے لیے زمین میں مختلف ٹولیوں کی صورت میں پھیل گئے۔ ان میں سے ایک جماعت نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو مکہ کے قریب وادی نخلہ میں، صحابہ کرام کو فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایاتو وہ جماعت فورا سمجھ گئی کہ یہی وہ عظیم کام ہے جس کی وجہ سے ہمارے آسمان پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔لہٰذا یہ جماعت اسی وقت آپ صلی الله علیہ و سلم پر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی تبلیغ کرنے لگی۔ (بخاری،مسلم)

آپ صلی الله علیہ و سلم پرحسب ذیل طریقوں سے وحی نازل ہوئی
فرشتہ انسانی شکل اختیار کرکے آپ صلی الله علیہ و سلم کو مخاطب کرتا، پھر جو کچھ وہ کہتا آپ صلی الله علیہ و سلم اسے یاد کرلیتے۔کبھی صحابہ کرام بھی فرشتہ کو دیکھتے تھے۔کبھی آپ صلی الله علیہ و سلم فرشتے کو اس کی اصل حالت میں دیکھتے۔ اسی حالت میں وہ اللہ تعالی کے حکم سے آپ صلی الله علیہ و سلم پروحی نازل کرتا۔آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرشتے کواصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا۔کبھی آپ صلی الله علیہ و سلم کے پاس وحی گھنٹی کی آوازکی صورت میں آتی۔ وحی کی یہ صورت سب سے سخت ہوتی۔ جب فرشتہ آپ صلی الله علیہ و سلم سے ملتا اور وحی آتی تو سخت سردی کے موسم میں بھی آپ صلی الله علیہ و سلم کی پیشانی پرپسینہ آجاتا تھا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم اونٹنی پر سوار ہوتے تو وہ بوجھ کی وجہ سے زمین پر بیٹھ جاتی۔براہ راست اللہ تعالی نے پردہ کے پیچھے سے آپ صلی الله علیہ و سلم سے گفتگو فرمائی، جیسے معراج کی رات میں نمازاورسورہ بقرہ کی آخری دوآیات کا تحفہ دیااور شرک نہ کرنے والے کے لیے مغفرت کا وعدہ کیا۔کبھی آپ صلی الله علیہ و سلم پرسچے خواب کی صورت میں وحی نازل ہوتی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح آپ صلی الله علیہ و سلم کے سامنے آجاتا۔فرشتہ آپ صلی الله علیہ و سلم کودکھائی دیے بغیر آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل میں بات ڈال دیتا تھا۔ (بخاری شریف)

نبی اکر م صلی الله علیہ و سلم نبوت سے پہلے بچپن ہی سے عمدہ صفات کے حامل تھے اور آپ صلی الله علیہ و سلم کی زندگی بھی نبوت ملنے سے پہلے ہی تمام برائیوں سے پاک تھی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم تمام لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے ،غریبوں کا بوجھ اٹھاتے اور مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کرتے اور کبھی وعدہ خلافی نہ کیا کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم اپنی قوم میں بہترین کردار، فاضلانہ اخلاق اور بہترین عادات کی و جہ سے ممتاز تھے۔ سیدہ خدیجہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ و سلم بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے، مہمان کی میزبانی فرماتے اورمصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔ (بخاری)

آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بدکاری کی ہمت نہیں پڑی، بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا،جوجاہلیت کے زمانہ میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں ۔(بیہقی)

آپ صلی الله علیہ و سلم کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات مجموعہ تھا، جو متفرق طور پر لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ صلی الله علیہ و سلم بچپن ہی سے صحیح سوچ، دوربینی اور حق پسندی کے بلندمعیارپرفائزتھے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنی عمدہ عقل اور روشن فطرت سے لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کامطالعہ کیا اور وہ جن بے ہودہ باتوں میں مشغول تھے ان سے بے زاری کا اظہار کیا۔ جب قوم میں برائیاں عام تھیں اس وقت بھی آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے دور رکھا۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان عملی زندگی کا وقت گزارا۔ جو کام اچھا ہوتا آپ صلی الله علیہ و سلم اس میں شرکت فرماتے اور ہر برے کام سے دور رہتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے نہ توکبھی آستانوں کا ذبیحہ کھایا اور نہ ہی غیر اللہ کے لیے منعقد کیے گئے تہواروں میں شرکت کی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کو بچپن ہی سے خودساختہ معبودوں سے نفرت تھی اور آپ صلی الله علیہ و سلم خود ساختہ معبودوں کی قسم کھانا کبھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے سامنے غیراللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کا گوشت پیش کیاگیاتوآپ صلی الله علیہ و سلم نے اسے کھانے سے انکارکردیا۔(بخاری شریف)

Flag Counter