مقامِ ابراہیم تاریخی وشرعی حیثیت
مولانا محمد تبریز عالم قاسمی
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ سے متصل تھا، کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کی دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا، جو آج بھی لوگوں کومعلوم ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے یہاں رکھوا دیا تھا، یا بیت اللہ کی تعمیر یہیں آکر مکمل ہوئی ہوگی تو مقام ابراہیم کو وہیں چھوڑ دیا، امیر الموٴمنین حضرت عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے پیچھے ہٹا دیا، پھر ایک مرتبہ پانی کے بہاوٴ میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا، خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا، یہ تفصیل تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ اورصاحب کتاب نے مختلف روایات کی روشنی میں یہ ثابت کر نا چاہا ہے کہ حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت ابوبکر صدیق کے دورخلافت تک یہ پتھر ایک ہی جگہ رہا اورسب سے پہلے حضرت عمر نے اسے پیچھے کیا؛ تاہم مجاہد کے حوالے سے انہوں نے ایک روایت ایسی بھی نقل کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے کی تھی ۔( دیکھیے: تفسیر ابن کثیر: 1/ 417)
عموماً موٴرخین نے وہی بات لکھی ہے جو صاحب تفسیر ابن کثیر کے حوالے سے گذری کہ زم زم کے پاس مقامِ ابراہیم کو سب سے پہلے حضرت عمر نے رکھوا یا، اس رائے کی بنیاد غالباً وہ واقعہ ہے جو حضر ت عمر کے دور میں پیش آیا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عمر کے دور میں ام نہشل نامی سیلاب مکہ میں آیا، حضرت عمر اس وقت مدینے میں تھے، اس سیلاب کی وجہ سے مقام ابراہیم اپنی جگہ سے بہہ کر دور چلا گیا اورسیلاب کی وجہ سے اس کی اصل جگہ مٹ گئی، حضرت عمر عمرے کا احرام باندھ کر مکے آئے اورمقام ابراہیم کے حوالے سے بڑے فکر مند ہوئے، انہوں نے لوگوں سے کہا : جس شخص کو بھی مقامِ ابراہیم کی جگہ معلوم ہو میں اسے قسم دیتاہوں کہ وہ مجھے بتائے ، ایک صحابی حضرت مطلب بن ابو وداعہ سہمی نے یہ سن کر کہا : مجھے معلوم ہے ، مجھے اس کا خدشہ تھا، اس لیے میں نے مقامِ ابراہیم سے حجر اسود کی سمت والے دروازے تک اوردوسری طرف اس جگہ سے زم زم کے کنویں تک ناپ کر اس کی پیمائش کو محفوظ کر لیا تھا، حضر ت عمر نے وہ پیمائش فوراً منگائی اوراس کے مطابق پیمائش کر کے مقام ابراہیم کو اس کی جگہ نصب کر ادیا جہاں وہ آج کل نصب ہے ( السیرة الحلبیة )
دومتضاد باتیں
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ مقام ابراہیم پرانے زمانے سے حضرت عمرکے زمانے تک کعبہ کے دروازے سے بالکل ملا ہوا تھا، پھر حضرت عمرنے اس کو وہاں سے ہٹا کر پیچھے نصب کیا ؛ تاکہ اس کے قریب نماز پڑھنے والے اورکعبہ کا طواف کر نے والے ایک دوسرے کے لیے رکاوٹ نہ بنیں ۔( تفسیر ابن کثیر)
دوسری روایت سیرت حلبیہ کے حوالے سے آپ نے پڑھی کہ مقام ابراہیم دوسری جگہ نصب کر نے کی وجہ وہ سیلاب تھا ان دونوں روایتوں میں دو متضاد باتیں معلوم ہو تی ہیں ۔
اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عمر نے یہ عمل دومرتبہ کیا تھا تو تضاد ختم ہو سکتا ہے، لیکن قرین قیاس بات یہی ہے کہ مقامِ ابراہیم کو اس جگہ منتقل کر نے والی شخصیت حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی ہے اورحضرت عمر نے سیلاب کے بعد مقامِ ابراہیم کو اسی جگہ رکھوایا تھا جہاں پہلے تھااوراس رائے کی تائید اس روایت سے ہو تی ہے:
فتح مکہ کے روز آں جناب مقامِ ابراہیم کے پاس ٹھہر گئے، حضرت عمر نے آ پ سے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ مقام ابراہیم ہے، اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا نا چاہیے ، تھوڑی ہی دیرمیں : ﴿واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ﴾ آیت نازل ہوئی۔ ( تفسیر ابن کثیر: 1/ 415)
اس روایت کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز مقامِ ابراہیم کو خانہ کعبہ کے اندر سے نکال کر اس گڑھے میں رکھا تھا جسے المعجن کہا جا تا ہے، پھر جب آیت اتری تو آپ نے دو وجہوں سے اسے وہاں سے ہٹا دیا ، ایک تو اس وجہ سے کہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کا حکم ہے، نماز پڑھنے کی وجہ سے طواف میں انقطاع ہو سکتا ہے اورطائفین کو پریشانی بھی اوردوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کہیں طواف کعبہ میں اس پتھر کو بھی شمار نہ کر لیا جائے اورتفصیل مذکور سے ساری روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے، راقم الحروف کی اس تفصیل کی بنیاد ، شیخ محمد طاہر الکردی کی وہ تحقیق ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ”التاریخ القدیم لمکةوبیت اللہ الکریم“ میں پیش کی ہے اورایسی ہی تحقیق اخبار مکہ :2/35 اورشفا ء الغرام باخبار البلد الحرام میں ہے : 1/ 275۔
قدم مبارک کے نشانات کی گہرائی ولمبائی
شیخ محمد طاہر الکردی ( م: 1400ھ) ماضی قریب کے محققین میں سے ہیں ،ان کی تحقیق کے مطابق ایک قدم مبارک کے نشان کی گہرائی دس سینٹی میٹر ہے اوردوسرے قدم مبارک کی گہرائی نو سینٹی میٹر ہے؛ البتہ انگلیوں کے نشانات نہیں ہیں، جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پتھر کسی فریم میں محفوظ نہیں تھا،صدیوں سے لوگ اس کو اپنے ہاتھوں سے چھوتے رہے ہیں، جس کی بناپر انگلیوں کے نشانات زائل ہوگئے۔
واضح ہو کہ ہر قدم کی لمبائی 22 سینٹی میٹر ہے اورچوڑائی 11 سینٹی میٹر ہے، جس سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کا قد مبارک اتنا ہی لمبا تھا جتنا آج کل کسی دراز قد شخص کا ہو تاہے، (التاریخ القویم: ج: 3/ص: 308، بحوالہ تاریخ مکة مکرمة : 78)
مقامِ ابراہیم کی حفاظت
چوں کہ مقام ابراہیم کو واضح نشانی بنایا گیا ہے ؛ اس لیے من جانب اللہ اس کی حفاظت ہر دور میں ہوتی رہی، اس کی چوری کی بھی بہت کو ششیں ہوئیں اوراس طویل عرصہ میں نہ جا نے کتنی مرتبہ زبردست قسم کے سیلاب اورطوفان بھی آئے ؛ لیکن ظاہر ی انتظامات نہ ہو نے کے باوجود آج تک محفوظ ہے اورآئندہ محفوظ رہے گاان نشاء اللہ اورموجودہ عہد میں تو اس کی حفاظت کے پختہ انتظامات کر دیے گئے ہیں۔ تفصیل آگے آرہی ہے ۔
علامہ فاکہینے اپنی کتاب میں ایک واقعہ نقل کیا ہے :
”ایک یہودی یا عیسائی شخص نے جس کا نام جریج تھا ، مقام ابراہیم کو چرا لیا، تاکہ اس کو بادشاہ روم کی خدمت پیش کر ے، اہل مکہ نے اس کی تلاش شروع کی تو اسی یہودی کے پاس مل گیا ، اہل مکہ نے مقامِ ابراہیم اس سے لے کر سابقہ جگہ میں رکھ دیا اورجریج کو قتل کر دیا گیا ؛ تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرسکے۔“ ( اخبار مکة للفاکہی: رقم : 991)
اسی طرح حضر ت عمر کے دور میں ام نہشل نامی سیلاب میں مقا م ابراہیم بہہ گیا تھا، بعد میں مکہ کی نشیبی جگہ میں مل گیا تھا۔
مقام ابراہیم کی ایک خاص فضیلت
اگر عربوں کے زمانہ جاہلیت کا تاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات بہت واضح طور سے سامنے آتی ہے کہ وہ لوگ پتھروں اورمورتیوں کو پوجتے تھے اورخانہ کعبہ میں 360/ کی تعداد میں بت رکھے ہوئے تھے؛ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی حجر اسود اورمقام ابراہیم کی پرستش نہیں کی ؛ گویا خدا تعالیٰ نے ان دونوں پتھروں کو ہر قسم کی پر ستش وپو جا سے محفوظ رکھا۔
بنائے کعبہ کے وقت مقامِ ابراہیم کی بلندی
ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی لکھتے ہیں:
”موٴرخ کردی کی تحقیق کے مطابق مقامِ ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کی موجودہ بلندی صرف 20 سینٹی میٹر ہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی نشانی اورمعجزہ ابراہیمی تھا کہ کعبہ شریف کی تعمیر جیسے جیسے اوپر کو جاتی یہ پتھر معمارِ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو اوپر اٹھا تا جا تا ، تاآ ں کہ اس مبارک گھر کی تعمیر پوری ہوگئی، اس دور میں الیکٹرک لفٹ سسٹم سے اس کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ (تاریخ مکہ مکرمہ ص:78)
حجر اسود اورمقامِ ابراہیم کاشرعی فرق
حجر اسود اورمقامِ ابراہیم دونو ں جنتی پتھر ہیں؛ لیکن شرعی طور سے ان میں فرق یہ ہے کہ حجر اسود کابوسہ یا استلام جائز ہے ؛ لیکن مقام ابراہیم کو چومنا یا چھونا درست نہیں ، مقام ابراہیم کے پیچھے بطور تبرک کے صرف نماز پڑھنے کا حکم ہے، جو لوگ مقامِ ابراہیم کے ساتھ وہی معاملہ کر تے ہیں جو حجر اسو د کے ساتھ مطلوب ہے وہ غلطی پر ہیں۔
وحکم المقام مخالف حکم الحجر الاسو د فی التمسح بہ واستلامہ وتقبیلہ؛ فإن ذلک غیر مطلوب في المقام علی ما ذکرہ العلماء․ ( شفا ء الغرام باخبار البلدالحرام : 1/ 279)
مقام ابراہیم کے پاس نمازکا حکم اورفضیلت
قاضی نے شفا میں لکھا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے گا اس کے اگلے پچھلے گناہ بھی معاف ہو جائیں گے اورقیامت کے دن عذاب سے محفوظ رہے گا۔ (ہدایة السالک : 1/53)
حضرت عبد اللہ بن عمر نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، پھر فرمایا بے شک ہردو رکعت کفارہ ہے ان گناہوں کا جو دو نوں نمازوں کے درمیان ہیں یا جو دو رکعت سے پہلے ہیں۔ (اخبار مکة للفاکہی: رقم :1022)
چناں چہ مقامِ ابراہیم کے پیچھے دور کعت نماز پڑھنی چاہیے۔ اورطواف کی ان دو رکعت میں سورہٴ کافرون اورسورہ ٴ اخلاص پڑھنا مستحب ہے۔
نوٹ…طواف کے بعد دورکعت پڑھنا واجب ہے اورمقامِ ابراہیم کے پاس پڑھنا افضل ہے: لیکن وہاں جگہ نہ ملے تومسجد حرام میں جہاں چاہے پڑھ لے ؛بلکہ گھر میں آکر پڑھ لے تب بھی جائز ہے۔ ( عینی: 11/270)
لیکن عوام بالکل مقامِ ابراہیم کے پاس دورکعت پڑھنے کو لازم سمجھتے ہیں، طواف کر نے والوں کی بھیڑ میں وہیں گھس کر پڑھتے ہیں، جس سے طواف کر نے والوں کو اذیت اورپریشانی ہو تی ہے، یہ درست نہیں ، بہت سے بہت افضل ہے اورافضل کو اختیار کر نے کے لیے خو د پریشان ہو نااوردوسروں کو پریشان کر نا درست نہیں ، گناہ کی بات ہے، اس سے بچنا چاہیے۔
احسن الفتاویٰ میں بحوالہ شامی لکھاہے:
” اس کی کوئی تحدید نہیں ہے، عرف میں جس کو قرب سمجھا جاتا ہے وہ مراد ہے، حضرت ابن عمر مقام ابراہیم سے ایک یا دو صف کا فاصلہ چھوڑ کر نفل پڑھتے تھے ، عرفاً بھی دوصف سے زیادہ فاصلہ بعید شمار ہو تا ہے ، قال فی الشامیة: (قولہ عند المقام) عبارة اللباب خلف المقام قال: والمراد بہ مایصدق علیہ ذلک عادة وعرفاً مع القرب، وعن ابن عمر أنہ إذا أراد أن یرکع خلف المقام جعل بینہ وبین المقام صفا أو صفین أو رجلا أو رجلین․ رواہ عبدالرزاق : (رد المحتار: ج:2/ 184) ( احسن الفتاویٰ : 4/550، ایچ ایم سعید کمپنی ، کراچی،1425ھ)
مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں :
”اگرمقام ابراہیم کے قریب جگہ نہ ملے تو کچھ دور بھی پڑھ سکتا ہے، بلکہ مسجد حرام میں جس جگہ بھی پڑھ لے دو گا نہ ادا ہو جائے گا۔“( جواہر الفقہ : 4/196، مکتبہ دارالعلوم کراچی،2010ء )
دوگانہ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پاس کی دعا
مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت پڑ ھ کر جو چاہے دعا مانگ سکتے ہیں، اکابر نے مقام ابراہیم کے قریب ذیل کی دعا پڑھنا بتایا ہے، اگر چاہے تو پڑھ لے:
اللہم إنک تعلم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی، وتعلم حاجتی، فاعطنی سوٴلی، وتعلم مافی نفسی فاغفرلی ذنوبی، اللہم انی اسئلک ایماناً یباشر قلبی، ویقینا صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ماکتبت لي ورضا منک بما قسمت لی، انت ولی فی الدنیا والآخرة، توفنی مسلماً والحقنی بالصالحین، اللہم لاتدع لنا فی مقامنا ہذا ذنبا الاغفرتہ، ولا ہما الا فرجتہ، ولا جاجة من حوائج الدنیا والآخرة الا قضیتہا، ویسّرتہا فیسّر امورنا واشرح صدورنا، ونوّر قلوبنا، واختم بالصالحات اعمالنا، اللہم احینا مسلمین، وتوفنا مسلمین، والحقنا بالصالحین، غیر خزایا ولا مفتونین آمین․ یا رب العالمین․ (جواہر الفقہ: 4/ 197)
اس دعا کا ترجمہ بھی پڑھ سکتے ہیں ترجمہ کسی عالم سے پوچھ لینا چاہیے یا جواہر الفقہ کتاب دیکھی جا سکتی ہے ۔
عورتوں کے لیے مقامِ ابراہیم کے پیچھے نماز کا حکم
مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت عورتوں کے لیے اس وقت مناسب نہیں ہے جب بھیڑ زیادہ ہو،ایام حج میں ازدحام کا ہو نا امرِ مشاہد ہے ؛ اس لیے عورتیں نہ پڑھیں تو بہتر ہے ؛تاہم جائے مقام پر آکر پڑھ لیں ۔
فتاویٰ دار العلوم زکریا میں ہے:
”عورتوں کے لیے بعض چیزوں کی ممانعت ہے: مثلاً زور سے تلبیہ نہ پڑھیں ، طواف میں اضطباع نہ کریں، طواف میں رمل نہ کریں ؛ میلین اخضرین کے درمیان دوڑ نہ لگا ئیں ، صفاپر نہ چڑھیں ، ہجوم کے وقت حجرا سود کو بوسہ نہ دیں ، نیز ہجوم کے وقت مقام ابراہیم کے قریب نماز بھی نہ پڑھیں۔“ (فتاویٰ دارالعلوم زکریا: 3/ 368، زم زم پبلیشرزکراچی،2009ء)
مقامِ ابراہیم پر دوگانہ پڑھنے کی وجہ
مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب ،رحمة اللہ الواسعة میں لکھتے ہیں:
” ہر طواف کے بعد دو رکعتیں بیت اللہ کی تعظیم کی تکمیل کے لیے پڑھی جاتی ہیں، بیت اللہ کا طواف بھی اس کی تعظیم ہے ،مگر کمالِ تعظیم یہ ہے کہ اس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھی جائیں․․․․۔“
آگے لکھتے ہیں:
”مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا، اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہیں اوراسی پتھر پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں کو حج کی دعوت دی تھی اوروہ جنت سے لا یا گیا تھا، جیسے حجر اسود ( فوائد شیح الہند) اس لیے وہ مسجد حرام کی بزرگ ترین جگہ ہے، اوراللہ کی قدرت کی وہ نشانی ہے جو خلیل اللہ پر ظاہر ہوئی ہے اورحج میں انہیں اُمورکو یا د کر نا مقصود بالذات ہے؛ اس لیے اس یاد گار مقام پر دوگانہ طواف پڑھنا مستحب ہے ۔“ ( رحمة اللہ الواسعة4/ 225،زم زم پبلیشرز کراچی،2004ء)
وإنما سن رکعتیں بعدہ؛ إتماماً لتعظیم البیت؛ فإن تمامہ أن یستقبل في صلوٰتہم، وإنما خص بہا مقام إبراہیم؛ لأنہ أشرف مواضع المسجد، وہو آیة من آیات اللہ، ظہرت علی سیدنا إبراہیم، وتذکّر ہذہ الأمور ہي العمدة في الحج․ ( حجة اللہ البالغة ج: 2/ ص: 97 بیروت)
مقامِ ابراہیم سے متعلق دقیق معلوت
شیخ محمد طاہر الکردی نے مقامِ ابراہیم کے تعلق سے نہایت دقیق معلومات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں، جنہیں ڈاکٹر محمد الیاس نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے، ذیل میں افادہ کی خاطر خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے۔
مقام ابراہیم کے لیے ایک مربع میٹر پتھر کی بنیاد بنائی گئی ہے، جس پر مقامِ ابراہیم کے سائز کا سنگ مر مر نصب کیا گیا اوراس پر مقام ابراہیم کو ثبت کردیا گیا، مقام ابراہیم کا رنگ زرد وسرخ کے درمیان سفیدی مائل ہے اور سائز تقریباً چو کور ہے، مقام ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کا نیچے والا حصہ اوپر کے حصہ سے قدرے وسیع ہے۔
مزید معلومات ملاحظہ ہو:
مقام ابراہیم کی بلندی ...20/سینٹی میٹر
اوپر کی سمت سے تینوں کونوں کا طول...36/ سینٹی میٹر
چوتھے کو نے کا طول...38/ سینٹی میٹر
بالائی جانب سے محیط ...146 /سینٹی میٹر
زیر یں جانب سے محیط ...150/سینٹی میٹر
مقام ابراہیم کا قبہ نما خول
مقام ابراہیم کی حفاظت اوراس کی زیبائش وآرائش کا اہتمام ، خلفائے مسلمین نے اپنے اپنے زمانہ میں کیا ہے،اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ مقام ابراہیم کو چاند ی کے ایک صندوق میں محفوظ کیاگیا اوراس کے اوپر ایک گنبد نما کمرہ بنا دیا گیا ، جس کا طول وعرض 3x6= 18 مربع میٹر تھا؛ لیکن جب طواف کر نے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو یہ کمر ہ ان کی راہ میں رکاوٹ اورپریشانی کا سبب بنتا ؛ چناں چہ رابطہ عالم اسلامی نے یہ تجویز پیش کی کہ اس کمرہ کی عمارت کو ختم کر دیا جا ئے اورشیشہ کا ایک خول تیار کر کے مقام ابراہیم کو اس میں رکھ دیا جائے، یہ تجویز سعودی حکومت نے منظور کی اورپھر شاہی فرمان کے مطابق 18/ 7، 1387 ھ مطابق 1967ء کو اس تجویز پر عمل در آمد ہوا ، اس طرح یہ مقام ابراہیم شاندار کریسٹل میں نصب کر دیا گیا، جس کے گرد لوہے کی مضبوط جالی لگادی گئی اوراس کو سنگ مرمر کے بڑے پتھر میں نصب کر دیا گیا جس کا طول وعرض 13x180 سینٹی میٹر= 34،2 مربع میٹر ہے، اس اقدام سے مطاف کی 6،15 مربع میٹر جگہ خالی ہوگئی، چوں کہ پرانے کمرے کی عمارت نے 18/ مربع میٹر جگہ کو گھیر رکھا تھا۔
مقام ابراہیم کے اس نئے خول کے متعلق مزید معلومات
خول کا قطر...80س م
شیشہ کی موٹائی...10 س م
زمین سے مقام ابراہیم کی بلندی ...1 میٹر
جس پتھر پر مقام ابراہیم نصب ہے اس کی بلندی ...75 سینٹی میٹر
مکمل خول کی بلندی ...3 میٹر
پیتل کے خول کا وزن...600 کلو گرام
سار ے خول کا اجمالی وزن...1700 ، کلو گرام
خول کا اجمالی رقبہ ...4،2 مربع میٹر
خول کی تجدید
خادم حرمین شریفین نے شاہی فرمان جاری کیاکہ خول کے معدنی ڈھانچے کو بدل کر پیتل کی دھات سے بنا خول بنا یا جائے اوراندرونی جالی پر سونے کی پالش کی جائے اوربیرونی جانب، ۱۰/ ملی میٹر شفاف شیشہ نصب کیا جائے ، اس شیشے کی خوبی یہ ہے کہ شدید حرارت کو برداشت کر تا ہے اورضرب لگا نے سے نہیں ٹوٹتا ؛ چناں چہ شیشوں کو لگا نے کے بعد مقام ابراہیم میں پاوٴں کے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں، مقام ابراہیم کے نیچے جو کا لاپتھر نصب تھا اس کی جگہ سفید سنگ مرمر نصب کردیا گیا، تاکہ مطاف کے ساتھ سفید رنگ کی مناسبت ہو جا ئے ، یہ ترمیمی عمل بیس لاکھ ریال کی لاگت سے 21/ شوال 1418ھ کو مکمل ہوا۔ (تاریخ مکة المکرمة ص:78 تا81 ، مطابع الرشید ، المدینة المنورة )
نوٹ… واضح رہے کہ اہل علم حضرات مقامِ ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو چھونے یا بوسہ لینے سے اس وقت روکتے تھے جب وہ کھلا ہواتھا اوراب تو وہ خول کے اندر بند کر دیاگیا ہے تو اس خول کا بوسہ لینا یاچھونا اورزیادہ کراہت کا سبب ہو گا۔ (حوالہ سابق)
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمان کو مقامِ ابراہیم کی زیارت کی سعادت سے مستفید فرمائے ۔(آمین)