Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

16 - 20
قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول ظلم ہے

مولانا محمدنجیب قاسمی
	
اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجر وثواب ہے، جیسا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اوراگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دنیاوی فائدہ کے لیے کوئی شرط نہ لگائے۔ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کرنی چاہیے جو الله تعالیٰ نے سورہ البقرہ، آیت:282 میں بیان کیے ہیں، یہ آیت قرآن کریم کی سب سے لمبی آیت ہے، ۔ اس آیت میں قرض کے احکام ذکر کیے گئے ہیں، ان احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ ان احکام میں سے تین اہم حکم حسب ذیل ہیں:

1..اگر کسی شخص کو قرض دیا جائے تو اس کو تحریری شکل میں لایا جائے، خواہ قرض کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو۔
2..قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کر لی جائے۔
3..دو گواہ بھی طے کر لیے جائیں۔

قر ض لینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ الله جل شانہ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو الله تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لیے نبی اکرم صلی الله علہ وسلم کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرما دیتے تھے جس پر قرض ہو، یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کر دیا جائے۔ ان احادیث میں سے بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشا فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے ( یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کر دی جائے۔ ( ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیا ہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو الله تعالیٰ کے عذاب کی طرف جانے دو اور چاہو تو اسے ( اس کے قرض کی ادائیگی کرکے) عذاب سے بچالو۔ (رواہ الحاکم، صحیح علی شرط الشیخین، الترغیب والترہیب)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتاہے ،مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ ( مسلم)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا تو الله تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے او راگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو الله تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے، جس سے وہ مال ہی برباد ہو جاتا ہے ۔ ( بخاری)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا انتقا ل ہوا ایسے وقت میں کہ وہ مقرو ض ہے تو اس کی نیکیوں سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی (لیکن اگر کوئی شخص اس کے انتقال کے بعد اس کے قرض کی ادائیگی کر دے تو پھر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا)۔ (ابن ماجہ)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ وہ اس کو بعد میں ادا نہیں کرے گا تو وہ چور کی حیثیت سے الله تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری،مسلم) قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی نہ کرنے والا ظالم وفاسق ہے ۔ ( فتح الباری)

حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا، ہم نے غسل وکفن سے فراغت کے بعد رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نماز پڑھانے کو کہا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟ ہم نے کہاکہ اس پر دو دینار کا قرض ہے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر تم ہی اس کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اے الله کے رسول ! اس کا قرض میں نے اپنے اوپر لیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ قرضہ تمہارے اوپر ہو گیا او رمیت بری ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائی …… ۔(رواہ احمد باسناد حسن والحاکم وقال صحیح الاسناد… الترغیب والترہیب:168/2)

قرض کی ادائیگی پر قدرت حاصل کرنے کے لیے حضور  صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
ایک روز آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ سے پوچھا کہ نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں موجود ہونے کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ کہا کہ غم اور قرضوں نے گھیر رکھا ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں ایک دعا نہ سکھادوں جس کی برکت سے الله تعالیٰ تمہارے غموں کو دور کردے اورتمہارے قرضوں کی ادائیگی کا انتظام فرمادے؟ حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ نے کہا: کیوں نہیں، اے الله کے رسول ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوامامہ ! اس دعا کو صبح وشام پڑھا کرو۔ وہ دعا یہ ہے ”اللھم انی اعوذبک من الھم والحزن، واعوذ بک من العجز والکسل، واعوذ بک من الجبن والبخل، واعوذبک من غلبة الدین وقھر الرجال․“حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دعا کا اہتمام کیا تو الله تعالیٰ نے میرے سارے غم دو رکر دیے اور تمام قرض ادا ہو گئے۔ (ابوداؤد، مسلم شریف کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی  نے اپنی کتاب الاذکار میں بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے )

قرآن وحدیث میں محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب

الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَافْعَلُوا الْخَیْْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (سورہ الحج:،77) بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کام یاب ہو جاؤ۔ اسی طرح فرمان الہی ہے: ﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبر﴾( سورہ المائدہ:2) اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی، الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا ۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لیے آسانی کا سامان فراہم کیا ، الله تعالیٰ اس کے لیے دنیا وآخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ الله تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے ۔ ( مسلم)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دومرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے ۔ (نسائی، ابن ماجہ )

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب معراج میں ،میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ 10 گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ 18 گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرائیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایاکہ سائل مانگتا ہے، جب کہ اس کے پاس کچھ مال موجود ہو اور قرض دار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے ۔ (ابن ماجہ)

حضرت ابودرداء رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو دو دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے… ۔ (کیوں کہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے، نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے ۔ (السنن الکبری للبیہقی)

قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں، بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو ۔

ہمیں بینک سے قرض لینے سے بچنا چاہیے، کیوں کہ اس کی ادائیگی سود کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور سود لینا دینا حرام ہے ۔

وقت پر قرض کی ادائیگی کے اہتمام سے متعلق بخاری شریف میں مذکور ایک واقعہ

حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا، جس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قر ض مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لاؤ جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والے نے کہاکہ گواہ کی حیثیت سے تو بس الله تعالیٰ کافی ہے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن ( گارنٹی دینے ولا) لے آؤ ۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ ضامن کی حیثیت سے بھی بس الله تعالیٰ ہی کافی ہے ۔ قرض دینے والے نے کہا تم نے سچی بات کہی اور وہ الله تعالیٰ کی گواہی اور ضمانت پر تیار ہوگیا ، چنا ں چہ ایک متعین مدت کے لیے اُسے قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری ( کشتی وغیرہ) کی تلاش کی، تاکہ اس سے دریا پارکرکے اس متعینہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکیں جو ان سے طے ہوئی تھی او ران کا قرض ادا کر دیں ، لیکن کوئی سواری نہیں ملی جب کوئی چارہ نہیں رہا تواُس نے ایک لکڑی لی اور اس میں ایک سوراخ بنایا، پھر ایک ہزار دینار اور ایک خط ( اس مضمون کا کہ ) ان کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جارہے ہیں) رکھ دیا اور اس کا منھ بند کر دیا اور اسے دریا پر لے کر آئے، پھر کہا، اے الله! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے، اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہا تھا کہ ضامن کی حیثیت سے الله تعالیٰ کافی ہے، وہ تجھ پر راضی تھا، اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا جواب بھی میں نے یہی دیاکہ الله تعالیٰ گواہ کی حیثیت سے کافی ہے تو وہ تجھ پر راضی ہو گیا تھا اور ( تو جانتا ہے کہ ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری مل جائے، جس کے ذریعہ میں اس کا قرض معین مدت پر پہنچا سکوں، لیکن مجھے اس میں کام یابی نہیں ملی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی سپرد کر تا ہوں ( کہ تو اس تک پہنچادے) چناں چہ اس نے وہ صندوق کی شکل میں لکڑی جس میں رقم تھی، دریا میں بہا دی اس یقین کے ساتھ کہ الله تعالیٰ اس امانت کو ضائع نہیں کرے گا ۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ شخص واپس ہو چکا تھا ۔ اگر چہ فکر اب بھی یہی تھی کہ کسی طرح کوئی جہاز ملے جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر جاسکے۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اس تلاش میں (بندرگاہ ) آئے کہ ممکن ہے کہ کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو، لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی، وہی لکڑی جس میں مال تھا، جو قرض لینے والے نے ان کے نام بھیجا تھا، انہوں نے وہ لکڑی اپنے گھر کے ایندھن کے لیے لے لی، پھر جب اس کو چیرا تو اس میں سے دینار نکلے او رایک خط بھی ۔ (کچھ دنوں بعد ) وہ صاحب جب اپنے وطن پہنچے تو قرض خواہ کے یہاں آئے اور (دوبارہ) ایک ہزار دینار ان کی خدمت میں پیش کر دیے او رکہا کہ بخدا! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں، لیکن مجھے اپنی کوششوں میں کوئی کام یابی نہیں ملی۔ پھر قرض خواہ نے پوچھا، اچھا یہ تو بتاؤ کوئی چیز بھی میرے نام آپ نے بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا، جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر ا لله تعالیٰ نے بھی آپ کا وہ قرض ادا کر دیا جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا، چناں چہ وہ صاحب اپنے ہزار دینار لے کر خوشی خوشی واپس ہو گئے۔

Flag Counter