قبولِ اسلام پر پابندی کا بل
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پروفیسر عبدالواحد سجاد
بل(Bill) مجوزہ قانون کا مسودہ، سامان یا خدمات کے معاوضے کا چھپا ہوا مطالبے کا گوشوارہ، پوسٹر لٹکانے یا چسپاں کرنے والے اشتہار، تحریری ہدایت، مقررہ فرد کو متعین وقت پرر قم کی ادائی ، غذاؤں یا پروگرام کی فہرست، گرینڈ جیوری کو پیش کی جانے والی فرد جرم، پرندے کی نازک چونچ، خشکی کا پتلا قطعہ ،جو پانی میں دور تک چلا گیا ہو اور باہمی اختلاط کو بھی ”بل“ کہا جاتا ہے۔
اس وقت ہم اس بل کی بات کر رہے ہیں جسے مسودہٴ قانون کہا جاتا ہے۔ پہلے اس کا ایک ڈرافٹ تیار کیا جاتا ہے جس میں تجویز کیا جاتا ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں بھیجا جارہا ہے، تاکہ اس پر بحث کی جائے، اس میں جو خامیاں ہوں ارکانِ پارلیمنٹ اس پر اپنی رائے دیں او رانہیں دو رکریں، اس کے بعد اس بات پر غور کریں کہ کیا یہ نیا مسودہ قانون ملکی آئین سے متصادم تو نہیں یا عوام کی اکثریت کی امنگوں کے خلاف تو نہیں؟ اس میں کوئی ایسی شق تو نہیں جس کے اثرات معاشرے پر منفی پڑیں گے اور ان کے دینی یا قومی جذبات تو مجروح نہیں ہوں گے؟ مگر ہمارے ہاں قوانین بناتے یاانہیں منظور کرتے وقت اب ایسا کوئی رواج نہیں رہا۔”بل پاس ہونے“ کا مطلب کسی مسودہٴ قانون کا منظور ہو کر قانون بن جانا ہے۔ قوانین تو ہمارے ہاں انتہائی تیزی سے بنتے ہیں، مگر عمل صرف انہی قوانین پر ہوتا ہے جو مغربی آقاؤں کا آموختہ ہوتا ہے۔
اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر پاکستان کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس میں اسلام قبول کرنے پر پابندی آئین کے آرٹیکلز20،28 اور36 سے متصادم ہے، جن میں مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے۔جبری طور پر کسی کو مذہب بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ کسی اسلامی ملک میں کہاں ہے؟ ”گھر واپسی“ کی مہم کیا پاکستان میں جاری ہے یا ایسے لوگوں کے ممدوح بھارت میں، جو سیکولر ہونے کا دعوے دار ہے؟ اسلام کا تو واضح حکم ہے:﴿لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ﴾․(البقرہ:256)… دین قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں … اس آیت کی تفسیر میں اس آیت کا جو شانِ نزول بیان کیا گیا ہے اس کے متعلق حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں انصارِ مدینہ کے بعض لڑکے مختلف اسباب کے تحت یہودی یا عیسائی ہو گئے تھے، ان کے والدین جب مسلمان ہو گئے تو انہوں نے انہیں زبردستی دائرہ اسلام میں لانا چاہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہاں مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر چہ اس آیت کا نزول خاص ہے، مگر اس کا حکم عام ہے۔
حضرت شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں : ”اسلام میں جہاد زبردستی منوانے کا نام نہیں ہے، بلکہ جس کام کو سب نیک کہتے ہیں اس کو کروانے کا نام ہے۔“
انبیائے کرام علیہم السلام کو اختلافات او رنزاعات کے سدباب کے لیے بھیجا گیا، مگر جب بادی النظر میں دیکھا جائے تو ان کی آمد اور دعوت وتبلیغ کے باوجود نہ اختلافات مٹ سکے اور نہ نزاعات، ایسا کیوں ہے؟ الله تعالیٰ کی ذات ایسی طاقت اور قدرت کی مالک ہے کہ وہ چاہتا تو ان اختلافات کو مٹانے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو ایسی قوت مہیا کر دیتا کہ وہ انہیں بزور طاقت مٹا دیتے اور ساری نوع انسانی ایک ڈگر پر چلنے لگتی، انسان کی کیا مجال تھی کہ وہ الله تعالیٰ کے حکم کو تسلیم نہ کرتا؟ مگر الله تعالیٰ کی مشیت یہ نہیں تھی کہ دین حق کو تسلیم کرنے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے۔
”دین“ کا لفظ استعمال کرکے یہ بتایا کہ اسلام پورا نظام زندگی رکھتا ہے، جس میں اعتقادات اور اخلاقیات سب کچھ ہے، مگر عملی ہونے کے باوجود اسے کسی پر جبراً ٹھونسا نہیں جاسکتا، اس کی وضاحت:﴿قد تبین الرشد من الغی﴾ کے الفاظ سے کی گئی کہ نیک راہ اور گم راہی چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اس کے بعد انسان کا اختیار ہے، وہ خود فیصلہ کرے کہ راست رو بننا ہے یا کج رو، ہدایت کو اپناتا ہے یا ظلمت کو؟ البتہ اس آیت کے باقی حصے میں طاغوت کے انکار، الله پر ایمان لانے کو ایک مضبوط سہارا قرار دیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں:﴿فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقی لا انفصام لھا﴾․ لیکن ہمارے بزر جمہر مسلمان ہونے کے دعوے دار بھی ہیں اور طاغوت کی پیروی کو اپنا فرض بھی سمجھتے ہیں، ایسے میں انہیں دین اور اس کی وہ حقانیت کہاں نظر آئے؟ جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:﴿ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ﴾․(الفتح:28)
… وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو دینِ حق دے کر بھیجا، تاکہ وہ اسے دوسرے تمام دینوں پر غالب کر دے… یعنی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم دینِ اسلام لے کر آئے، وہ دوسرے ادیان اور نظاموں پر غلبے کے لیے آیا ہے، مغلوبیت کے لیے نہیں۔ اسلام نہ تو یہودیت کا چربہ بن سکتا ہے، نہ ہی عیسائیت کا، نہ ہی وہ سرمایہ داریت اور اشتراکیت کا دم چھلا بن سکتا ہے ، بلکہ تمام نظام ہائے زندگی پر اس ہمہ گیر نظام زندگی کو جو فوقیت حاصل ہے وہ دلائل وبراہین کے ذریعے ہو یا سیاسی غلبے کی صورت میں، وہ ظاہر ہو کر رہے گی۔ اسی لیے تمام تر طاغوتی منصوبوں کے باوجود اسلام آج بھی نہ صرف زندہ ہے، بلکہ اس کی فطری تعلیمات دلوں کو مسخر کر رہی ہیں اور نسلِ نو کی قبول اسلام کی شرح بھی تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لے رہی ہے ۔ سائنس او رٹیکنالوجی کے اس دور میں اسلام کے علاوہ کون سا ایسا دین ہے جو اذہان میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکے؟ یہی وجہ ہے کہ صرف ہندومت کے بعید از عقل رسوم ورواج کے حامل ملک بھارت میں ہی نہیں، بلکہ سائنس اورٹیکنالوجی کے گڑھ مغرب میں بھی تیزی سے اسلام مقبول ہو رہا ہے ۔ ایک امریکی ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق اگلے پانچ عشروں میں اسلام عیسائیت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
اس تناظر میں سندھ اسمبلی کے ارکان کی عقل و دانش پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ،جنہوں نے فنکشنل لیگ کے اقلیتی رکن انند کمار کا پیش کردہ بل متفقہ طور پر منظور کیا، جس میں 18 برس سے کم عمر کی قبولیت اسلام پر پابندی اور بلوغت کے بعد قبولِ اسلام کے بعد 21 روز تک اس کا اعلان نہ کرنے اورجبری تبدیلی مذہب پر 5 برس قید کی سزا رکھی گئی ہے۔ ”باب الاسلام“ کہے جانے والے صوبے کے مسلمان ارکانِ اسمبلی کو اس ناپاک جسارت پر اس کے علاوہ کیا کہا جائے #
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا