Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

5 - 20
سکون کیسے حاصل ہو گا؟

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن﴾․ (سورہ توبہ، آیت:119) صدق الله مولٰنا العظیم․

آج پورے عالم میں جہاں کہیں انسان رہتا ہے، خواہ وہ مغرب کا رہنے والا ہو یا مشرق کا، شمال کا ہو یا جنوب کا، مسلمان ہو یا غیر مسلم ، ہر انسان پریشان ہے اور پریشانی ایسی ہے کہ وہ بڑھ رہی ہے، گھٹ نہیں رہی۔ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ وسائل، اسباب اور ان سب چیزوں کاسہل الحصول ہونا ان چیزوں کی وجہ سے پریشانی نہیں ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے اگر کسی کو کراچی سے لاہور سفر کرنا ہوتا تو وہ اتنی آسانی سے سفر نہیں کر سکتا تھا، جتنی آسانی سے آج ہو رہا ہے۔ لوگ حج کرنے جاتے تھے تو ہم نے کتابوں میں پڑھا کہ گھر سے جب رخصت ہوتے تو اُن کے بال سیاہ ہوتے تھے او رجب حج کرکے واپس آتے تو بال سفید ہوچکے ہوتے تھے، یعنی حج کے سفر میں اتنا عرصہ لگ جاتا تھا۔

بہت سے مسافر چاہے وہ حج کا سفر کر رہے ہوں یا اور دینی اور دنیاوی سفر کر رہے ہوں، وہ واپس ہی نہیں آتے تھے۔ سفر کی صعوبتیں ان کی جان لے لیتی تھیں۔ زندگی کا ہر رخ، خواہ اس کا تعلق رہن سہن سے ہو ، خواہ اس کا تعلق صحت اور بیماری سے ہو، خواہ اس کا تعلق محنت اور مزدوری سے ہو ، خواہ اس کا تعلق تجارت اور ملازمت سے ہو، خواہ اس کا تعلق زراعت سے ہو․․․وہ پہلے آسان نہیں تھے۔

پہلے کسان اپنے ہاتھ سے کھیتی کاشت کرتے تھے۔ اب تو ٹریکٹر ہیں، مشینیں ہیں۔ اسی طرح زندگی کے تمام رخوں میں مشکلات تھیں، پریشانیاں تھیں، لیکن دنیا میں امن تھا، انسانوں میں امن تھا، لوگوں میں محبت تھی، پیار تھا، ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ تھا، ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ تھا۔ گاؤں دیہات میں، شہر میں بچی کی شادی ہوتی تو ہر گھرخدمت کے لیے تیار ہوتا تھا اور یہ زبان پر ہوتا تھا کہ بیٹیاں سب کی بیٹیاں ہیں۔ آپ کی بیٹی کی شادی ہے تو میری بیٹی کی شادی ہے، جیسے اس کی خدمت آپ کی ذمے داری ہے، ایسے ہی میری ذمے داری ہے۔

پھر دنیا بدل گئی۔ ٹرینیں دوڑ رہی ہیں، جہاز اڑ رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں․․․ سفر کی سب مشکلات ختم ہو گئیں۔

لیکن خوب یاد رکھیے، یہ انسان کی ترقی نہیں ہے۔ اسباب کی ترقی ہے۔ لوہے کی ترقی ہے، لکڑی کی ترقی ہے، پتھر کی ترقی ہے۔آج کی یہ ترقی انسان کی ترقی نہیں ہے، آدمی کی ترقی نہیں ہے۔ انسان تو تنزل کا شکار ہے۔

آج اتنی ترقی کے باوجود ہر آدمی پریشان ہے۔ قسم ہا قسم کی پریشانیوں کا شکار ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو جائزہ لیتا ہے کہ پوری دنیا میں کس ملک میں معیارِ زندگی سب سے بلند ہے؟ کہاں اس سے کم ہے؟کہاں اس سے اور کم ہے؟ور کہاں سب سے کم ہے؟ اس ادارے کے جدید ترین سروے کے مطابق، ناروے ایسا ملک ہے جہاں معیارِ زندگی سب سے بلند ہے۔ رہنے سہنے کے اعتبار سے، آمدنی کے اعتبار سے، خرچ کے اعتبار سے، صحت او رمرضی کی سہولتوں کے اعتبار سے ناروے سب سے آگے ہے۔

عقل کیا کہتی ہے؟

عقل یہ کہتی ہے کہ وہاں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ عقل یہ کہتی ہے کہ جب ہر آدمی کے پاس دولت ہے، پیسہ ہے اور یہاں کے رہنے والوں کا معیار زندگی سب سے بلند ہے․․․ امریکا اور یورپ سے بھی بلند․․․ تو عقل یہ کہتی ہے کہ وہاں پر تو سب سے زیادہ خوش حالی، امن، چین اور سکون ہونا چاہیے۔

لیکن وہی ادارہ جو ناروے کے معیارِ زندگی کو سب سے بلند قرار دیتا ہے، اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی بھی ناروے میں ہوتی ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پیسہ ہے، دولت ہے، معیارِ زندگی سب سے بلند ہے، تمام سہولتیں میسر ہیں․․․ تو خود کشی کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے؟

یہی ادارہ یہ رپورٹ دیتا ہے کہ سب سے زیادہ مجنون اور پاگل اسی ملک میں ہیں۔ پیسہ ہے، دولت ہے، معیارِ زندگی سب سے بلند ہے، لیکن اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، سب سے زیادہ طلاق کی شرح اسی ملک میں ہے۔

اس سے ہمیں کیا پتا چلتا ہے؟ یہی کہ دولت، مال واسباب، وسائل کی ترقی، جدید ترین ٹکنالوجی سے سکون اور تسکین دل حاصل نہیں ہوتا۔ ان چیزوں سے چین حاصل نہیں ہوتا۔ ان چیزوں سے تو پریشانیاں بڑھتی ہیں۔ یہ ترقی تو درحقیقت لوہے اور پتھر کی ترقی ہے۔ یہ انسان کی ترقی نہیں ہے۔

انسان کی ترقی صرف اور صرف ان طریقوں سے ممکن ہے جو اِس انسان کے بنانے والے خالق او رمالک نے بتائے ہیں۔

ایک انجینئر جو سائیکل یا موٹر سائیکل یا گاڑ ی بناتا ہے، اس کے ساتھ ایک کتابچہ ہوتا ہے۔ اس پر لکھا ہوتا ہے کہ اس مشین کو ان ہدایات کے مطابق استعمال کروگے تو اس سے صحیح نتائج حاصل ہوں گے او راگر اس کے خلاف استعمال کروگے تو اس مشین سے نتائج حاصل نہیں ہوں گے، بلکہ مشین جلد خراب ہو جائے گی اور اندیشہ ہے کہ غلط استعمال سے کہیں کوئی جانی نقصان نہ ہو جائے۔ جتنی مشینیں ہوتی ہیں ان کے ساتھ یہ کتابچے ہوتے ہیں۔

انسانی مشین اس کا خالق کون ہے ؟ الله! الله تعالیٰ نے انسانی مشین کو بنایا ہے اور اس مشین کو استعمال کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ یہ طریقہ ”وحی“ ہے جو الله نے اپنے بندوں کو نبی کے ذریعے بتایا کہ اس مشین کوکیسے استعمال کرنا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔

عقل تو ٹھوکریں کھاتی ہے۔ بہت دفعہ بہت سارے عقل مند اکھٹے بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں، لیکن کچھ عرصہ بعدمعلوم ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا۔ نقصان ہوگیا۔ عقل پر انحصار نہیں کرسکتے بلکہ انحصار کرنا ہو گا صرف اور صرف وحی پر۔

الله تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں، اے ایمان والو! الله سے ڈرو، تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ کیا ہے ؟ ہر ممنوع او رہر مکروہ سے اپنے آپ کو بچانا، اس کے قریب نہیں جانا۔ اور جن چیزوں سے الله تعالیٰ نے منع فرمایا، وہ بہت زیادہ نہیں، ان کی فہرست بہت لمبی نہیں۔ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، جن چیزوں کو منع کیا ہے، ان کی فہرست بہت لمبی نہیں، بہت چھوٹی فہرست ہے۔ جب کہ جن چیزوں کی اجازت دی ہے، ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ تو جن چیزوں سے بچنا ہے وہ بہت زیادہ نہیں، ان سے بچیں۔

ان سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ ان سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ ہے ۔

یہ طریقہ بھی خالق نے بتایا ہے۔ اور وہ طریقہ کیا ہے ؟ وہ ہے صالحین کی صحبت اختیا رکرنا۔ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ صحابہ کون ہیں؟ صحابہ وہ ہیں جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی۔ ان میں جتنا کمال ہے ، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا، صحبت صالحین کی اختیار کی جائے۔ الله والوں کی صحبت اختیار کی جائے۔ سلسلہ نقشبند کے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، شیخ عبیدالله نقشبندی رحمہ الله۔ ایک دفعہ انہوں نے بیان کے دوران یہ حدیث بیان کی کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعے کے دن ایک ساعت او رایک گھڑی ایسی ہے جس میں جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے ۔

عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذکر یوم الجمعة فقال: فیہ ساعة لا یوافقھا عبد مسلم وھو قائم یصلی یسأل الله تعالیٰ شیئا إلا أعطاہ إیاہ․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الجمعة، باب الساعة التی فی یوم الجمعة، رقم الحدیث:935)

تو آپ نے ایک صاحب جو ان کی مجلس میں موجود تھے، کی طرف اشارہ کیا کہ اگر وہ ساعت اورگھڑی آپ کو مل جائے تو آپ کیا دعا مانگیں گے؟ وہ بے چارہ رعب کی وجہ سے خاموش رہا۔ اسی طرح ایک اور سے پوچھا، وہ حضرت سے ذرا مانوس تھا۔ اس نے حضرت سے کہا کہ آپ ہمیں آزمائش میں نہ ڈالیں۔ آپ خود ارشاد فرما دیں کہ اگر وہ گھڑی اور ساعت ہمیں مل جائے ، تو ہمیں کیامانگنا چاہیے؟

اس پر حضرت شیخ عبیدالله نقشبندی رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ اگر وہ گھڑی اور ساعت مجھے ملے تو میں الله تعالیٰ سے مانگوں گا کہ اے الله! مجھے صحبت صالح عطا فرما۔ صحبت صالح سے کامیابی، دل کا چین، اطمینان اور برکت ملے گی۔ ﴿وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن﴾

حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اور خدمت میں زیادہ رہتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے کئی دفعہ بھوک کی شدت اور زیادتی کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے لوگ یہ سمجھتے کہ شاید انہیں مرگی کا دورہ پڑا ہے، حالاں کہ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ مجھے مرگی وغیرہ نہیں ہوتی تھی، بلکہ بھوک کی شدت کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس صحبت کا نتیجہ کیا ہوا؟ علما طلبہ جانتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین میں حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه کا مقام کتنا بلند ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کا کتنا بڑا ذخیرہ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه نے امت تک پہنچایا ہے۔ یہ اس صحبت کی وجہ سے ہوا۔ اور صحبت کا اثر ہوتا ہے۔ نہ صرف انسانوں کی صحبت کا اثر ہوتا ہے بلکہ جانوروں کی صحبت کا بھی اثر ہوتا ہے؟ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو آدمی اونٹوں میں رہتا ہے تو اونٹ کی صحبت کا اثر اونٹ والے میں آجاتا ہے۔ چونکہ اونٹ میں کینہ ہے، اونٹ کینہ پرور جانور ہے تو جو آدمی اونٹوں میں رہتا ہے اس میں کینہ آجاتا ہے۔ جو گھوڑوں میں رہتا ہے، اس میں گھوڑے کی صفات آجاتی ہیں۔ گھوڑوں میں کبر ہوتا ہے، لہٰذا، جو آدمی گھوڑوں میں رہتا ہے اس میں کبر اور غرور آجاتا ہے۔ ایسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بکریوں میں رہتا ہے ، اس میں مسکنت اور تواضع آجاتی ہے۔

عن أبی ھریرة رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: رأس الکفر نحو المشرق والفخر والخیلاء فی أھل الخیل والإبل الفدادین أھل الوبر، والسکینة فی أھل الغنم․(الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الإیمان، باب تفاضل أھل الإیمان فیہ، رقم الحدیث:185)

جن چیزوں کی صحبت انسان اختیا رکرتا ہے تو اُن چیزوں کے اثرات انسان میں آجاتے ہیں۔

مسجد ہے۔ یہ الله کا گھر ہے۔ مسجد کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں فرشتوں کا ہجوم ہوتا ہے، مسجد فرشتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب جو آدمی مسجدمیں زیادہ وقت گزارے گا تو اس میں فرشتوں والی صفات آئیں گی۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَتُبْ عَلَیْْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾․

Flag Counter