Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

7 - 20
احسان شناسی ایک قابل تعریف وصف ہے

مولانااسرارالحق قاسمی
	
زندگی میں کئی بار انسان کوایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں جب اسے کسی سہارے،کسی کی مددواعانت اور ہم دردی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ایک فطری حقیقت ہے اوراس سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔کیوں کہ انسان اجتماعی اور متمدن طرزِ زندگی کا عادی ہے،جس میں مختلف قسم اور طبیعتوں کے لوگ رہتے ہیں اوران سب کی زندگی کسی نہ کسی طورپر ایک دوسرے سے متعلق اور وابستہ ہوتی ہے۔ضرورت پڑنے پرکبھی ہماری پریشانی ہمارے رشتہ دار دورکرتے ہیں،کبھی دوست احباب میں سے کوئی کرتاہے اور کبھی کوئی ناشناسا انسان بھی ہماری مصیبت اور پریشانی دورکرنے کا ذریعہ بنتاہے۔اس سلسلے میں ایک اور چیزقابل غوریہ بھی ہے کہ بنیادی طورپر اس دنیامیں سب سے زیادہ احسان اور نصرت واعانت انسان کواس کے والدین کی جانب سے حاصل ہوتی ہے،پیدائش سے لے کرنشوو نمااور تعلیم و تربیت تک میں والدین ہر قسم کی پریشانیاں جھیلتے ہیں اور اپنی اولادکوکسی قابل بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

ہم پراحسان خواہ والدین کاہویاکسی دوسرے انسان کا،شریعتِ مطہرہ نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہم احسان شناسی کا ثبوت دیں ۔پڑھنے لکھنے اور صاحبِ استطاعت ہونے کے بعدہماری ذمے داری ہے کہ اپنے والدین کا خیال رکھیں،ان کی ضروریات پوری کریں ،ان کوہر قسم کی راحت و آسائش پہنچانے کی فکر کریں،جیساکہ وہ ہمارے بچپن میں ہماری فکر کرتے تھے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:”تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو،بے شک اللہ کو تمھارے اعمال کی خبر ہے“۔(البقرہ:237)دوسری جگہ اپنی نعمتوں کویاددلاتے ہوئے فرماتاہے:”اگر تم اس کا شکر ادا کروگے،تووہ تم سے راضی ہوگا“۔(الزمر:7)حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہٴ بلقیس کے واقعے کے ضمن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا :”وہ (جن)جس کے پاس کتاب کا علم تھا،اس نے کہاکہ میں(ملکہٴ بلقیس کے تخت کو)آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آوٴں گا،توجب حضرت سلیمان نے اس عرش کو اپنے پاس دیکھا تو کہا یہ میرے رب کا احسا ن اور فضل ہے،جومجھے آزمانا چاہتاہے کہ میں اس کی نعمت کا شکر اداکرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتاہوں،اور جس نے شکریہ اداکیا،اس نے اپنے لیے کیا اور جس نے کفرانِ نعمت کیا،توبلاشبہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اورکرم فرما ہے“۔ (النمل:40)

اس سلسلے میں ایک واضح اور مشہورحدیث ہے،حضرت ابوہریرہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جوشخص انسانوں کا شکر نہیں اداکرتا،وہ اللہ کابھی شکرادانہیں کر سکتا“۔(سنن ابو داوٴد، ح:4811)ایک اور حدیث میں اپنی امت کوانسانی ہم دردی اور حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص تم سے اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے،اسے پناہ دے دو،جو اللہ کے واسطے سے مانگے،اسے دے دو، جو تم سے فریادکرے،اس کی مدد کرو، جوتمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے،اسے اس کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس اسے بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو،تواس کے لیے اتنی دعائیں کروکہ تمھیں لگنے لگے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکادیاہے“۔(سنن ابوداوٴد،ح:1672)

اسلامی تاریخ میں حضرت ابوبکرکا جومقام و مرتبہ ہے،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے اور اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے جلیل القدرصحابی ہیں،سب سے پہلے خلیفہٴ راشدہیں،انھوں نے جوکچھ کیاوہ اپنے لیے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے کیا،لیکن اس کے باوجودنبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے ذاتی طورپران کا شکراداکرکے خلق ِعظیم کا نمونہ پیش کیا۔حضرت ابوسعید خدریسے مروی ہے کہ اللہ کے رسولصلی الله علیہ وسلمنے ایک موقع پرفرمایا:”اپنی صحت اور مال و دولت کے ذریعے سب سے زیادہ مجھ پراحسان کرنے والے ابوبکرہیں اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کواپنا جگری دوست بناتا،توابوبکرہی کو بناتا،البتہ اسلامی بھائی چارگی اور محبت و مودت ان کے ساتھ ہے،مسجد کی جانب کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں، سوائے ابوبکرکے دروازے کے“۔(روضة العقلاء،ص:554-553)

مذکورہ نصوص اور خودہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے احسان کرنے والے کا شکر اداکرنے اوراس کے احسان کا اس کے مثل یا بہتر بدلہ دینے کی ترغیب دی ہے،اگرکوئی شخص اس سے بھی عاجزہوتو اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنے محسن کے لیے دعا کرے،ابوحاتم بن حبانکہتے ہیں:”انسان پر نعمت کا شکر اداکرنا اوراپنی وسعت کے بقدراحسان کرنے والے کوبدلہ دیناواجب ہے،اگر استطاعت رکھتاہو توبڑھاکر دے، ورنہ اسی کے مثل دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو،توکم ازکم اس کے احسان کو یاد رکھے اورشکریے کے ذریعے اسے بدلہ دے اور اسے کہے کہ اللہ آپ کو بہتر بدلہ عنایت فرمائے“۔(روضة العقلاء:ص:354-353)

احسان کرنے والے کا شکراداکرنا نبیوں والا خلق ہے،حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کے حوالے سے قرآن کریم میں فرمایاگیاہے:”ان کے (حضرت موسی علیہ السلام)پاس ان دونوں میں سے ایک شرماتی ہوئی چل کر آئی اور کہا کہ میرے والد آپ کو بلارہے ہیں؛تاکہ وہ آپ کو ہمارے جانوروں کو پانی پلانے کا معاوضہ دیں،جب وہ ان کے پاس آئے اوراپنا واقعہ بیان کیا، تو انھوں نے کہا تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں،تم ایک ظالم قوم سے بچ گئے“۔ (القصص:25) ابتدائے اسلام میں جن لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی دعوتی مُہم میں حمایت کی اور دل و جان سے آپ کی حوصلہ افزائی کی ، ان میں آپ کی زوجہٴ محترمہ اور ام الموٴمنین حضرت خدیجہکانام بھی بہت نمایاں ہے،پہلی وحی نازل ہونے کی خبرآپ صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے انہی کودی اور اپنے اوپر طاری ہونے والی گھبراہٹ کا ذکر کیا،جس پر انھوں نے ڈھارس بندھائی اور پھرآپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے کام کا حصہ بن گئیں،پوری زندگی ایک بہترین،وفاشعاربیوی ہونے کے ساتھ تبلیغ و اشاعتِ دین کے شعبے میں آپ کی بہترین معاون ثابت ہوئیں۔ چناں چہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہمیشہ حضرت خدیجہکا ذکرِ خیر کیا کرتے تھے، ان کی تعریف کیا کرتے تھے اور ان کے اہلِ خاندان اورملنے جلنے والوں کا اعزاز و اکرام کیا کرتے تھے، ہجرت کے وقت اہلِ مدینہ کی نصرت و اعانت بھی اہم تھی،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انصارکے احسان اور ان کے حسنِ سلوک کوبھی ہمیشہ یاد رکھا،ان کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی ربیعہ مخزومی سے قرض لیا اور اسے لوٹاتے ہوئے فرمایا”اللہ تمھارے مال و اولاد میں برکت عطا فرمائے، احسان کا بدلہ وفااورتعریف ہے“۔(مسند احمد،ح:16410)

اسوہٴ نبوی سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ محسن کے احسان کا شکر اداکرنا،صاحبِ فضل کا اعتراف کرنا اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دینا مسلمانوں کا وطیرہ ہونا چاہیے اور سب سے زیادہ ہمیں جن لوگوں کے احسانات کی قدر کرنی چاہیے،وہ ہمارے ماں باپ ہیں،کیوں کہ ہم چاہے جس قدربھی ان کے حقوق اداکردیں،پورے طور پراس سے عہدہ برآنہیں ہوسکتے،اسی طرح ہمیں اپنے اساتذہ اورہماری پرورش و پرداخت میں حصہ لینے والوں کی بھی قدر کرنی چاہیے اور ان کے احسانات کا اعتراف کرنا چاہیے،اسی طرح شوہروبیوی کوبھی ایک دوسرے کا احسان شناس رہنا چاہیے اور اگر اتفاقاً طلاق اور باہم قطعِ تعلق کی نوبت آجائے،توبھی ایک دوسرے کا قدردان رہنا چاہیے۔اسی طرح زندگی کے کسی بھی موڑپرکسی بھی شخص کے ذریعے ہمیں کسی قسم کی مددیاہم دردی حاصل ہوتوہمیں وہ یادرکھنا چاہیے۔آج کل لوگ اپنے خداکی نعمتوں اوراس کے احسانات کو یاد نہیں رکھتے توبندوں کے احسانات کہاں یادرکھیں گے؟!چناں چہ احسان فراموشی کی وباہر سطح پر ہمارے معاشرے میں عام ہے اوراس کی وجہ سے بھی بہت سی معاشرتی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔سب سے پہلے توہمیں اپنے اوپر ہرلمحہ نازل ہونے والی اللہ کی نعمتوں کااستحضارہوناچاہیے،اس کے حقوق اور احکام بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے بعدجس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں جوہمارے محسنین اور کرم فرماہیں،ان کے تئیں احسان شناسی کاثبوت دیں،احسان کرنے والے کااحسان جتلاناایک مذموم عمل ہے،لیکن جس پر احسان کیاگیاہے اس کی ذمہ داری ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنے محسن کاقرضہ اتارنے کی کوشش کرے اوراگر استطاعت نہ ہوتوکم ازکم اس کے لیے دعائیں کرے۔

Flag Counter