اردو زبان کی اہمیت اور ہماری ذمہ داری
متعلم امان اللہ باجوڑی
تہذیبی ورثہ اور قومی تشخص کا وجود کسی بھی قوم کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے،جو قوم اپنی تہذیب و تشخص کو بالائے طاق رکھ کر دوسری اقوام کی غلامی کے پھندوں کو گلے میں ڈال لیتی ہے،وہ درحقیقت اپنے حال و مستقبل کا رشتہ ماضی سے کاٹ دیتی ہے ،ایسا ماضی جس کی بنیادوں پر قوم وجود میں آئی تھی،جس کے نشیب و فراز سے نبرد آزما رہ کرپیش رووں نے اپنے ورثے کی حفاظت کی تھی۔
بلا شبہ زبان، لباس اور تاریخ کسی بھی قوم کی قومیت ،اجتماعیت اور تعمیر و ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے،اپنے طور طریقوں پر جب عار محسوس کی جانے لگے تب تعمیر و ترقی کے پیمانے بدل جاتے ہیں،لوگ اسلاف کے تعلیم و تہذیب کو فرسودہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دنیا والوں کا چاند پر قدم رکھ دینے کے بعد اپنے ماضی میں کھوئے رہنا قعرِ مذلت میں سرگرداں رہنے کے مترادف ہے،اس طرح جب تہذیب سے رابطہ منقطع ہوجائے تو ذلت و غلامی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اپنی معاشرت کی عمارت جن بنیادوں پر کھڑی کی جارہی ہے اس میں غلامی کی دیمک لگی ہوئی ہے۔
”زبان“تہذیب کا وہ حصہ ہے جو انسانی معاشرے کی بنیاد ہے، زبان معاشرے کے قیام کے لیے وہ خون ہے جس کے بغیر زندگی کی نبضیں سکڑ جاتی ہیں اور قومی و مادری زبان احوال کی نذر ہوجاتی ہے۔”اردو“ ہماری قومی زبان ہے، اردو میں ہمارا علمی ورثہ مرہون ہے،ہماری تہذیب ومعاشرت کی تاریں اردو زبان سے جڑی ہوئی ہیں۔عربی زبان کے بعد شائد کسی زبان میں اتنا علمی ذخیرہ نہیں ہے جتنا اردو میں موجود ہے،اس وقت کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر اکابرین نے کوئی کتاب تصنیف نہ فرمائی ہو،یہ لاکھوں تصانیف اردو کی اہمیت و افادیت کو خوب واضح کرتی ہیں۔
ہندوستان میں اسلامی فوج کی درجنوں اقوام جب باہم گھل مل گئیں تو ایک نئی زبان اردو وجود میں آئی ،جس نے اپنی شیرینی کی بدولت تمام زبانوں پر گہرا اثر ڈالا۔اردو ایک خالص اسلامی زبان ہے اور مسلمانوں کا اس سے گہرا تعلق ہے،اس لیے فرنگ کا تازیانہ ہمیشہ سے اس پر برستا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کی نسل کشی کے لیے فرعون نے ان کی اولادذبح کروائی،کمال اتا ترک نے ترکیوں کا رشتہ اسلامی تہذیب سے توڑنے کے لیے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کیااور ہماری اردو کو اردو باقی رکھ کر انگریزی کے اتنے الفاظ داخل کرائے گئے کہ سخت اندیشہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں ابتدائی اردو ہی سے ناواقف ہوں گی،چہ جائے کہ وہ ابوالکلام آزاد اور سید ابوالحسن علی ندوی کی کتابوں سے استفادہ کرسکیں۔
حکم ران طبقے کاا ردو سے کچھ لینا دینانہیں ہے، اس لیے ان کو 1973 کے آئین سے مطلع کرنا بے کار ہے،ان کو یہ بتانا کہ ملائیشیا میں ”ملائی“ زبان غلط بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے بے فائدہ ہے،کیو ں کہ ان کی تو کوشش رہتی ہے کہ کس طرح باقی ماندہ نصاب کو بھی انگلش میں منتقل کیا جائے۔اس لیے علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اردو کی حفاطت علوم کی حفاظت کی نیت سے کریں،اپنے علمی ورثے کے تحفظ کا سوال ہے،اردو کی ترویج و تنقیح کی ضرورت ہے،اگر علماء نے بھی اس طرف توجہ نہ دی تو ممکن ہے کل کو درس ِ نظامی کی کتابیں اور اسلاف کی دیگر تصانیف قابل استفادہ نہ رہیں۔
ہمارے اکابر نے اردو میں بے شمار تصانیف لکھ کر اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کیا ہے،مولانا محمد قاسم نانوتوی سے لے کر مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تک ایک طویل سلسلہ ہے۔اس لیے ہمیں اپنی زبان سے رشتہ جوڑنا ہوگا اور یہ رشتہ صرف چند الفاظ لکھنے بولنے سے مضبوط نہیں ہوگا، بلکہ زبان میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہے،کیوں کہ اسی میں ہماری تہذیب و تعلیم کی بقا ہے اور اسی میں ہمارا تحفظ۔اگر آپ نے ابھی تک قلم و قرطاس سے رشتہ نہیں جوڑا ہے، آپ چند سطر کا مضمون لکھنے پر قادر نہیں ہیں،تو آج ہی قلم اٹھائیں،لکھیں وہ سب کچھ جسے آپ محسوس کررہے ہیں۔