Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

8 - 20
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقوں میں ایک رواج چلا آرہا ہے کہ جب والد کا انتقال ہو تا ہے تو میراث کی تقسیم اکثریوں ہوتی ہے کہ بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ (تحفہ) کرتی ہیں، وہ بھائی یا تو ان کی دیکھ بھال کا وعدہ کرتے ہیں، یا کہتے ہیں کہ میں آپ کو حج پر لے جاؤں گا، اس پر وہ ان بہنوں سے دستاویز کے طور پر خط لکھواتے ہیں، دستخط لیے جاتے ہیں، یا انگوٹھا لگوایا جاتا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنے سے ان بہنوں کی میراث کا حق ساقط ہو جاتا ہے یا نہیں؟ اگر کسی بھائی نے کسی بہن کو حج کرایا ہو یا اس بہن کو یا اس بہن کی وفات کے بعد اس کے بعض وارثوں کو کچھ پیسے دیے ہوں، تو کیا ایسا کرنے سے بہن کا حق میراث ختم ہوجاتا ہے یا نہیں؟حق ساقط نہ ہونے کی صورت میں اگر وہ بہنیں فوت ہو گئی ہوں تو کیا ان کے ورثاء(اولاد) اپنی ماں کے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟

مندرجہ بالا مسائل میں چوں کہ دین دار لوگ بھی مبتلا ہیں ،اس لیے درخواست یہ ہے کہ مذکورہ مسئلہ کا جواب مدلل ومفصل ہونے کے ساتھ ساتھ ترہیب وترغیب پر بھی مشتمل ہوتاکہ ان پر عمل آسان ہو جائے اور ہم سب مسلمانوں کے جہنم سے بچنے کا ذریعہ بن جائے۔

جواب…واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد بیٹوں پر لازم ہے کہ والد کی بیٹیوں (اپنی بہنوں) کو وراثت کا پورا پورا حق ان کے حوالے کریں، تقسیم سے قبل بہنوں کااپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کرنا درست نہیں، اسی طرح بھائیوں کا بہن کو ان کا حق اس وجہ سے نہ دینا کہ ہم آپ کے حصے کی دیکھ بھال کریں گے، یا آپ کو حج کرائیں گے ، یہ بھی درست نہیں، اس طرح ہبہ کرنے، دیکھ بھال یا حج کے وعدے سے بہنوں کا حقِ میراث ساقط نہ ہو گا، بلکہ زندگی میں بہنوں کو بذاتِ خود اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو اپنی والدہ کے حصے کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا، نیز بھائیوں نے بہنوں کے حقِ میراث کے بدلے جو ان کو حج کرایا یا نقدی وغیرہ دی اس کی مالیت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی درست نہیں، لہٰذا بھائیوں کو بہنوں کا حق میراث دینے پر اس مالیت کے واپس لینے کا حق حاصل ہے۔

البتہ میراث تقسیم ہوجانے کے بعد اگر کوئی بہن اپنے حصے پر مکمل قبضہ کرکے اپنی خوشی ورضا مندی سے (نہ کہ علاقے کے رسم ورواج یا دباؤ سے) اپنا حق اپنے بھائیوں کوہبہ کر دے یا دیکھ بھال کے لیے دے دے تو یہ جائز ہے۔

الله تعالیٰ نے واضح اور صاف طور پر اپنے کلام میں میراث کے احکام کو بیان فرمادیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے بشارت اورابدی سعادت اور ان احکام پر عملنہ کرنے والوں کے لیے عذاب کو بھی بیان فرما دیا، اب جس مسلمان کے دل میں الله تعالیٰ کے احکامات کی عظمت، آخرت کی جواب دہی اور دوسروں کا حق دبانے پر ملنے والے دنیا وآخرت کے عذاب کا یقین ہو گا وہ تو ہر گز ان احکام سے روگردانی نہیں کرے گا، بلکہ وہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا دے گا۔

باقی جن مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ کر حرص وہوس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور آخرت کی ابدی وحقیقی زندگی ان کے سامنے نہیں، یہی لوگ ہیں جو ماں بہن کے حقِ میراث میں غبن کرتے ہیں او راپنی حلال کمائی کو بھی حرام بناتے ہیں۔

وراثت میں ملا ہوا مال اطیب الاموال (پاکیزہ اموال میں سے سب سے پاکیزہ مال) کہلاتا ہے، کیوں کہ اس میں انسان کے کسب وعمل کو دخل نہیں، جو شخص اس تقسیم میں قانونِ الہی کی مخالفت کرتاہے وہ کئی وجہ سے الله تعالیٰ کے غضب وقہر کا مورد ہوتا ہے، اول: یہ کہ شاہی انعام جس کا حق دار کو پہنچانا اس کے ذمے تھا اس میں خیانت کی، دوسرے: حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے ظلم کیا، تیسرے ،یہ ظلم جو وراثت میں ہوتا ہے نسلوں تک چلتا ہے، اور اس کا وبال اس شخص پر ہوتا ہے جس نے اول اس میں خیانت کی۔

خلاصہ یہ کہ بھائیوں کا مظلوم بہنوں کو ان کا حقِ میراث نہ دینا ظلم عظیم ہے، اور صرف زبانی کلامی معاف کرالینا بھی شرعاً معتبر نہیں او راسی طرح بہنوں کا بھائیوں کے قطع تعلق اور طعن وتشنیع کے ڈر سے بادل ناخواستہ محض زبانی اپنا حصہ معاف کرنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں، غرضیکہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہٴ میراث دبانے کے لیے جو بھی چالیں چلی جاتی ہیں وہ سب شرعاً مردود اور باطل ہیں۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو قرآن وسنت کے مطابق ہر صاحب حق کا حق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

اولاد کا نفقہ والد پر لازم ہے یا نہیں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی کے پاس مال کثیر ہو اور ساتھ ساتھ کاروبار تجارت بھی ہو اور ایک سرکاری نوکری بھی ہو، تقریباً اس کی تنخواہ چالیس ہزار تک ہو، لیکن یہ آدمی اپنے بیوی اور بچوں پر خرچ نہیں کرتا او راپنے اوپر کافی خرچ کرتا ہو اور ساتھ فریضہ حج بھی ادا نہیں کرتا او ربڑے بیٹوں کی شادی بھی نہیں کرتا، اوراگر کسی ایک بیٹے کی شادی کرادی تو بعد میں اس سے شادی کے خرچ کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کا میرے اوپر کوئی حق نہیں ہے، یاد رہے کہ اولاد بالغ اور نابالغ دونوں طرح ہے، تو مذکورہ صورت میں بیٹوں کا اپنے باپ پر حق ہے یا نہیں؟

جواب… بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمے واجب ہے، اولاد کے نفقہ میں تفصیل یوں ہے کہ شادی ہو جانے تک بیٹیوں کا نفقہ ہر حال میں والد کے ذمے ہے، چاہے وہ بالغ ہوں یا نابالغ، جب کہ بیٹے اگر نابالغ ہوں تو ان کا خرچ اٹھانا والد کی ذمے داری ہے، او ربالغ بیٹے اگر کسی عذر کی وجہ سے خود کما کر کھانے پر قادر نہ ہوں تب تو ان کا نفقہ والد کے ذمے ہے، ورنہ نہیں۔

اس تفصیل کے بعد یہ بھی جان لینا چاہیے کہ نفقہ کی طرح بچوں کی بر وقت شادی کرانا بھی والدین کی ذمے داری ہے ،البتہ اگر بالغ بیٹے کمانے کے قابل ہوں مگر پھر بھی والد خود ہی ان کی شادی بیاہ کا خرچ برداشت کرے تو بعد میں اسے واپسی کے مطالبہ کا حق نہ ہو گا۔

گھر والوں پر خرچ کرنے کی احادیث میں ترغیب وارد ہوئی ہے ، لہٰذا صاحبِ وسعت آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں بخل سے کام نہ لے۔ ساتھ ہی اگر وہ فریضہٴ حج پر بھی قادر ہو، تو بلاعذر اس میں تاخیر کرنا گناہ ہے،

واٹس اپ پر مردوزن پر مشتمل مخلوط گروپ بنانے کا حکم
سوال… مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں ایک عالم دین نے واٹس اپ میں ایک گروپ بنا رکھا ہے جسے مدرسہ اسلامیہ انوار القرآن کا نام دیا گیا ہے او راس میں شامل ہونے والے احباب کو طالب علم سے موسوم کیا ہے، اس گروپ میں مردوزن دونوں شامل ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ عورتیں گروپ ممبران (مردوزن) سے اورعالم دین سے میسج کے ذریعہ بات چیت کرتی ہیں ( یعنی مسائل وغیرہ کے بارے میں )

اب دریافت طلب امور یہ ہیں:
1…اس طرح سے واٹس اپ میں گروپ بنانا کیسا ہے ؟
2…عورتوں کا غیر محارم سے میسج پر بات کرنا شرعاً کیسا ہے؟
3…عورتوں کا مردوں کی آواز سننا کیسا ہے؟
4…عورتوں کے نمبرز شامل کرنا کیسا ہے؟

عورتوں کا عالم دین سے کہنا ہے کہ ہمیں فائدہ ہو رہا ہے، برائے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں مکمل وضاحت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ شریعت مطہر ہ نے عورتوں کو نامحرم مردوں سے میل جول رکھنے، بلکہ گھر میں رہتے ہوئے نرم آواز میں بات کرنے تک کو بھی ممنوع قرار دیا ہے جب کہ اس صورت میں آواز ریکارڈ بھی نہیں ہوتی ہے، نیز بغیر ضرورت شدیدہ کے مردوں سے گفت گو کرنے سے بھی منع کیا ہے، چہ جائے کہ ایسے گروپس کے ذریعہ سے مردوں سے باہمی رابطہ کیا جائے جن میں آواز محفوظ ہو جاتی ہے جو عام طور پر فتنہ و فساد سے خالی نہیں ہوتا، اسی طرح بعض عورتیں پر وفائل پر تصویر بھی لگا دیتی ہیں جو کہ ایک مزید فتنہ ہے او رگناہ کا سبب ہے، اسی طرح عورتوں کے بعض مسائل جن کا عام گروپ میں ذکرکرنا مناسب نہیں ہوتا ہے وہ بھی ذکر کردیے جاتے ہیں، جو کہ فساد کا سبب بن سکتے ہیں ،اسی طرح واٹس اپ میں بغیر نمبر کے ممبر بننا ممکن نہیں اور نمبر کے ساتھ یہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا دروازہ کھولنا ہے جو کہ انتہائی درجہ خطرناک ہو سکتا ہے، لہٰذا ایسا مخلوط گروپ بنانا اور عورتوں کے نمبر شامل کرناجائز نہیں ، البتہ اگر عورت کو شرعی مسئلہ دریافت کرنا ہو تو پہلے تو اپنے محرم کے ذریعہ پوچھے، اور وہ مشکل ہو تو عام میسیج یا فون کے ذریعے بھی دریافت کر سکتی ہے، لیکن مخلوط گروپ میں میسیج یا کال کرنا فتنہ کی وجہ سے جائز نہیں اور نہ ہی مردوں اور عورتوں کے لیے بلا ضرورت ایک دوسرے کی آواز سننا درست ہے۔

فرضی کہانیاں سنانا اور فرضی میسیج بھیجنا
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لطیفے جو تقریباً جھوٹ پر مشتمل ہوتے ہیں، کسی کوسنانا، میسیج کرنا، جھوٹ میں شامل ہو گا یا نہیں؟

اور یہ اس وعید ”ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم“ میں داخل ہو گا یا نہیں؟

نیزانسان کے ساتھ ایک واقعہ پیش نہ آیا ہو، لیکن وہ کوئی بات بیان کرتے ہوئے ، یا کوئی تحریر لکھتے ہوئے ایسے بیان کرے اور لکھے کہ گویا اس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے، اس طرح کرنا جھوٹ میں شامل ہو گا یا نہیں؟

جواب… جو لطیفے جھوٹ یا کسی طبقہ یا قوم پر طنز یا کسی اور خلاف شرع امر پر مشتمل ہوں ان کا کسی کو میسیج کرنا یا کسی کو سنانا ،اور اسی طرح جو واقعہ انسان کے ساتھ پیش نہ آیا ہو اس کو اس طرح بیان کرنا یا لکھنا کہ دوسرے کو گمان ہونے لگے کہ یہ واقعہ بیان کرنے والے کے سا تھ پیش آیا ہے تو یہ سب جھوٹ میں شامل ہے، اور مذکورہ بالاا مور کا کرنے والا اس وعید ”ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم“ کے تحت داخل ہے ، البتہ اگر کوئی میسیج یا تحریر یا بیان ایسے واقعہ اور لطیفہ پر مشتمل ہو کہ جس سے عبرت یا اچھا سبق ملتا ہو اور اسے سننے اور پڑھنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہو کہ اس کا کردار فرضی ہے تو ایسے واقعہ یا لطیفہ کو بیان کرنا یا لکھنا یا کسی کو ایس ایم ایس کرناجائز ہے ، اس لیے کہ سلف صالحین کی تحریرات میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں، جیسے شیخ سعدی اور مولانا رومی۔ رحمہما الله۔ کی حکایات وغیرہ۔

مرض الوفات میں ساری جائیداد بیویوں کو ہبہ کرنا
سوال… مفتیان عظام کیا فرماتے ہیں اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کی دو بیویاں اور دو بھائی تھے، اس نے مرض الوفات میں اپنی ساری جائیداد لکھ کر دونوں بیویوں کے نام کر دی، اس کے مرنے کے بعد دونوں بیویوں نے جائیداد پر سرکاری کاغذات کے ساتھ قبضہ کر لیا اور جائیداد کو اپنے تصرفات میں لے آئیں،اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا شوہر کا اس طرح اپنے مرض الوفات میں اپنی جائیداد کو ہبہ کرنا اور اس کے مرنے کے بعد اس کی بیویوں کا اس پر قبضہ کرنا صحیح ہے؟ نیز دونوں بھائیوں کو جائیداد میں سے حصہ ملے گا یا نہیں؟

واضح رہے کہ مرحوم کا انتقال اسی مرض میں ہوا، جائیداد مشترکہ طور پر دونوں بیویوں کو دی تھی، تقسیم نہیں کی تھی، نیز مرحوم کے ورثاء میں بیویوں اوربھائیوں کے علاوہ کوئی نہیں۔

جواب… مرض الوفات میں ہبہ کرنا وصیت کے حکم میں ہے، چوں کہ بیوی شرعی وارث ہے اور وارث کے حق میں وصیت اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دیگر ورثاء اجازت نہ دے دیں، لہٰذا صورت ِمسئولہ میں اگر مرحوم کے بھائیوں کی اجازت سے قبضہ کیا گیا تھا تو درست ہے، ورنہ جائیداد شرعی اصولوں کی روشنی میں تقسیم کی جائے گی جس میں دونوں بیواؤں اور بھائیوں دونوں کو حصہ ملے گا۔

Flag Counter